اہل اسلام کی وحدت کو توڑنے’ ان کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرنے’ ان کو حقیر اور بے وزن بنانے میں سب سے بڑا کردار مسلمانوں کی باہمی تکفیر نے ادا کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کی تکفیر سے نہایت سختی کے ساتھ منع و خبردار کیا تھا۔
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ [اذا قال الرجل لأخیہ: یا کافر فقد باء بھا أحدھما ، فان کان کما قال ، والا رجعت علیہ] (متفق علیہ) ‘‘اگر کسی شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو ‘‘اے کافر’’ کہا تو ان دونوں میں کوئی ایک کافر ہوا پس جس کو کافر کہا اگر وہ کافر نہیں ہے تو کافر کہنے والے نے کفر کا ارتکاب کیا’’۔ [من دعا رجلا بالکفر أو قال: یا عدو للّٰہ ولیس کذلک الاحار علیہ] (متفق علیہ’ عن ابی ذر) ‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کے پکارا’ اور وہ ایسا نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہوگیا’’۔ [من رمی مؤمنا بکفر فھو کقتلہ] (متفق علیہ) ‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو گویا اس نے اس کو قتل کردیا’’۔
اس لیے اسلامی بیداری کے حاملین پر فرض ہے وہ لا الٰہ الا اللہ کے قائل کو کافر نہ کہیں کیونکہ یہ بات احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا’ اس نے اپنی جان و مال اور عزت کو محفوظ کرلیا۔ اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ حساب اللہ کے ذمہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے ظاہر پر اعتماد کر کے حکم لگائیں گے اور اس کے باطن کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں گے۔ حضرت اسامہؓ بن زید کے قصے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ انھوں نے ایک معرکہ میں ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے لڑائی کے دوران میں کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کیا تھا محض اس خیال سے کہ اس نے اپنی جان بچنے کے لیے ایسا کیا ہے لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ حضرت اسامہؓ پر غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ: [ھل شققت عن قلبہ] ‘‘کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟’’اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اس حد کی حفاظت کریں اور کسی بھی حال میں اسے نہ توڑیں اور مسلمانوں کے گناہوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی ہرگز ہرگز تکفیر نہ کریں۔ کیونکہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ثلاث من أصل الایمان: الکف عمن قال: لا الٰہ الا اللہ ، لا نکفرہ بذنب ولا نخرجہ من الاسلام بعمل] (ابوداؤد: کتاب الجہاد) ‘‘تین باتیں ایمان کی اصل میں شمار ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ مسلمان کے اوپر ہاتھ نہ اٹھائیں ’ گناہ کی وجہ سے ان کو کافر نہ کہیں اور برے عمل پر ان کو اسلام سے خارج نہ کریں’’۔
ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: کفوا عن لا الٰہ الا اللّٰہ ، لا تکفروھم بذنب ، من کفر أھل لا الٰہ الا اللّٰہ فھو الی الکفر أقرب (الطبرانی فی الکبیر) ‘‘لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کافی ہے۔ تم ان کے گناہ پر تکفیر نہ کرو۔ جو ان کی تکفیر کرے تو وہ ان سے زیادہ کفر کے قریب ہے’’۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کی عبارت یا الفاظ سے کفر کا اظہار ہو رہا ہو تو بھی اس کو اس وقت تک کافر نہیں کہنا چاہیے جب تک کہ اس سے اس بات کی تصدیق نہ کرلی جائے کہ کیا اس کی اس عبارت اور الفاظ کا منشاء مراد وہی ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں۔ [ایثار الحق علی الخلق’ ص: ۳۹۲- ۳۹۴]۔ جب کہ آج اہلِ اسلام کا حال یہ ہے کہ وہ دوسروں کے الفاظ میں اپنا مفہوم پہلے داخل کرتے ہیں اور پھر ان پر ضال و مضل ’ گمراہ اور کافرکا فتوی لگاتے ہیں۔مخالف کی عبارتوں کو ان کے سیاق و سباق سے نکال کر’ ان میں کتربیونت کرکے اپنا مفہوم داخل کرناگویا ناممکن سے ‘‘نا’’ کو نکال کر ‘‘ممکن’’ بنانا ہے اور توجہ و یاد دہانی کے باوجود اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا اور نہ اپنے فتوے کو واپس لینا اس کو اور شنیع بناناہے ۔
خوارج’ جن کی ضلالت پر واضح نص موجود ہے۔ صحابہؓ ، تابعینؒ اور ائمہ کا ان کی ضلالت پر اجماع ہے۔ حضرت علیؓ نے ان سے اپنے زمانے میں قتال بھی کیا۔ ان سب کے باوجود سب نے ان کو مسلمان ہی کہا اور کسی نے بھی ان کو کافر نہ کہا۔صحابہ و سلف نے جب خوارج جیسے گمراہ فرقے کو کافر نہیں کہا تو کسی کے لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے وہ کسی دوسرے گروہ کو کافر کہے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو اور خود کو مسلمان کہتا اور لکھتا ہو۔ اہلِ اسلام کا خون’ مال اور عزت باہم ایک دوسرے پر حرام ہے جسے حضوؐر نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس طرح بیان کیا ہے: [ان دماء کم وأعراضکم وأموالکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا فی بلد کم ھذا فی شھرکم ھذا]۔ ‘‘حقیقت یہ ہے کہ تمھارا خون’ تمھارا مال اور تمھاری عزت’ باہم ایک دوسرے مسلمان پر اسی طرح حرام ہے جیسے آج کا یہ دن تم پر حرام ہے اور یہ مہینہ حرام ہے اور یہ شہر حرام ہے’’۔
مسلم کون ہے اس کی وضاحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فھو مسلم لہ ذمۃ اللّٰہ ورسولہ ‘‘یعنی وہ جو ہماری طرح نماز پڑھے’ ہمارے قبلے کا رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلم ہے’’۔ اللہ و رسول نے اس کا ذمہ لیا ہے۔
صحابہ کرامؓ نے جنگِ جمل اور جنگِ صفین میں باہم قتال کیا۔ اس کے باوجود وہ باہم مسلمان و مومن تھے۔ اس قتال کی وجہ سے وہ مذموم گروہ بندی کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی انھوں نے اپنی اپنی مسجدیں الگ الگ بنائیں’ نہ ہی ایک دوسرے کو کافر اور ضال و مضل کہا۔باہم قتال کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سلف کو مومنوں کا دو گروہ کہا’ جس میں ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کرنے والا ہے اور دوسرے’ اہل ایمان کو حکم دیا کہ تم اپنے دونوں بھائیوں کی مدد کرو اور ان کے درمیان عدل کے مطابق صلح و صفائی کراؤ’ اور جو فریق صلح سے انکار کرے تو تم انکار کرنے والے کے خلاف لڑو۔ یہاں تک کہ وہ بھی صلح پر تیار ہوجائے۔ اور جب دونوں فریق صلح کے لیے تیار ہوجائیں تو تم ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کراکے’ انھیں بھائی بھائی بنا دو۔ یہی وہ کام ہے جس کے نتیجے میں پوری اُمت اسلامیہ اللہ کی رحمت کی مستحق ہوگی۔ لیکن اگر باہم لڑنے والے صلح نہ کریں اور غیر جانب دارلڑنے والوں کے درمیان صلح کی کوئی کوشش نہ کریں تو پوری اُمت اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائے گی اور اللہ کے غضب سے دوچار۔ کیونکہ اللہ ان مومنوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے دین اور اس کی خوشنودی کے لیے اس کی راہ میں اسی طرح مل جل کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔اس لیے مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر اپنی مسجدیں الگ نہ بنائیں۔ جمعہ و جماعت کی نماز ایک ساتھ مل کر ادا کریں۔ باہم دوست بنیں اور دشمنی و نفرت کو چھوڑ دیں۔ اور اگر ایک گروہ’ دوسرے گروہ کے اندر کوئی غلطی اور گمراہی دیکھتا ہے تو ہر ممکن طریقے سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اصلاح میں ناکامی ہو تو معاملہ اللہ کے سپرد کردے۔ لیکن دعا اور اصلاح احوال کی جدوجہد کو ترک نہ کرے۔ کسی بھی حال میں اپنی مسجدیں الگ نہ بنائے۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ مبتدع کے پیچھے نماز جائز ہے’ اس لیے ہمیں باہم مل کر جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے اور باہم تشدد و تکفیر سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ [فتاویٰ ابن تیمیہ’ ج ۳’ ص ۲۸۲- ۲۸۷)لیکن اللہ’ رسول’ صحابہ اور سلف صالحین کی محبت’ اطاعت اور اتباع کا دعویٰ کرنے والے آج صحابہ و سلف کے راستے کو چھوڑ کر باہم گروہوں و فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ اپنی اپنی مسجدیں الگ الگ بنا لی ہیں۔ رفع یدین’ آمین بالجہر’ درود و سلام اور اقامت کے وقت بیٹھنے اور کھڑے ہونے کے فروعی تنازع کو لے کر’ ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کی جان’ مال اور عزت کو اپنے لیے حلال بنالیا ہے۔ باہمی تمسخر’ طعنہ’ برے القاب’ ظن’ تجسس’ غیبت’ نجویٰ اور چغل خوری کا ارتکاب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف پوری دیدہ دلیری کے ساتھ’ علی الاعلان مسجد و محراب سے کر رہا ہے اور ذرہ برابر اسے احساس نہیں ہے کہ یہ وہ گناہ کے کام ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول نے سختی سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ ان گناہوں سے توبہ نہ کریں وہ ظالم اور فاسق ہیں۔ اور ہماری اس حالت کی وجہ سے اسلام اور اُمت مسلمہ دونوں کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔ (بشکریہ ، ماہنامہ نوائے ہادی’ بھارت ،جون ۲۰۰۶ء)