پاکستانیات
یادوں کی گھٹری
نوید اسلام صدیقی
یہ اپریل سن دو ہزار کی بات ہے ،ہمارے ایک محلے دار کے والد صاحب اپنے گھر میں ہی اچانک بے ہوش ہوکر گر پڑے،ان کے صاحبزادے ان کو شیخ زید ہسپتال لے گئے۔ڈاکٹروں کے مشورہ پر ان کو ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔ وہ کئی دن ہسپتال میں داخل رہے۔میں بھی ہسپتال میں ان سے ملنے کے لیے جاتا رہا۔ ہسپتال کے اسی وارڈ میں ایک لمبا تڑنگا،پروجاہت،با رعب شخصیت والا بابا بھی داخل تھا ،بہت باتیں کرتا تھا۔وہ اکثر یہ بات کرتا تھا کہ اس نے ۲۳مارچ۱۹۴۰ء کے منٹو پارک کے جلسہ میں شرکت کی تھی اور قائد اعظم کی پوری تقریر سنی تھی۔
سب وارڈ والے اسے ’۲۳مارچ والا بابا‘ کہتے تھے۔ ایک دن وہ نیچے ہسپتال کے لان میں بیٹھا ہوا تھا۔میں اس کے پاس چلا گیا۔میں نے کہا با با جی! میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپ کی پوری داستانِ حیات سنوں اور پھر اسے نئی نسل کے لیے تحریر کروں۔ بابا جی جن کا نام نور دین تھا کہنے لگے:
’’یہاں تو میری کوئی سنتا ہی نہیں بلکہ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے میرا نام ہی ’تئیس مارچ والا بابا‘ رکھ دیا ہے۔ بات شروع ہی کرتا ہوں تو اِدھر ادھر کھسک جاتے ہیں۔ تم پہلے آدمی ہو جو میری داستانِ حیات سننا چاہتے ہو۔ عزیزم! میری داستان حیات آپ سمجھو کہ تاریخِ پاکستان ہے۔ سچی بات ہے میں تو پندرہ بیس سال بعد لاہور آیا ہوں۔یہاں کے لوگوں کا لاابالی پن دیکھ کر دل کو بہت صدمہ ہوا ہے۔
یہ لوگ کسی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔نہ ان کو ماضی پر غور کرنے کا ہوش ہے،نہ ان کو مستقبل کی فکر ہے۔حال ان کا یوں گزر رہا ہے کہ جیسے میلے پر آئے ہوئے ہیں۔ خدا ان پر رحم کرے۔ میرے سینے پر ایک بوجھ ہے جب یہ اتر جائے گا تو میرے لیے اپنی جان جانِ آفریں کو سپرد کرنا آسان ہوجائے گا۔
میں نے کہا :آپ کی بات سمجھ نہیں آئی کس قسم کا بوجھ آپ محسوس کرتے ہیں۔ باباجی نے کہا:’’ عزیزم! تین باتیں ہیں جو میں نئی نسل تک پہنچانا چاہتا ہوں۔تم سے مجھے امید ہے کہ یہ کام کرسکتے ہو۔
پہلی بات یہ بتانی ہے کہ ہم نے انگریز ہی نہیں ہندو کی غلامی کو بھی بھگتا ہے۔ ہندو کو کبھی دوست نہ سمجھو۔ وہ پاکستان بننے سے قبل جونکوں کی طرح ہم کو چمٹا ہوا تھا اور اس معاشرے کا خون پی رہا تھا۔ اور یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ اس نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا ۔تمام دریاؤں کا پانی بند کردیا۔مشرقی پاکستان کو اس ملک سے علیحدہ کرواکر اپنا غلام بنا لیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو خدا سے کچھ وعدے کیے تھے۔ان وعدوں کی تکمیل کرنا ہمارافرض ہے ورنہ خدا کی پکڑ سے ہم نہ بچ سکیں گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کرو تاکہ ہندو کا یہ خیال کہ پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہوکر دوبارہ اس کو مل جائے گا۔ حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔
میں نے کہا ۔’’ باباجی!انشاء اللہ میں یہ باتیں نئی نسل کے ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ آپ کے لیے دعا بھی کرتا رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ دے۔ باقی سچی بات یہ ہے کہ میں آپ سے ملنا اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں اور اسے ا پنی خوش نصیبی ہی کہوں گا کہ میں نے آپ کی صورت میں اپنی زندگی میں پہلا آدمی دیکھا ہے جو اس تاریخی جلسہ میں موجود تھا۔ ‘‘
بابا جی نے اپنی پرانی یادیں تازہ کرنی شروع کردیں۔ انہوں نے بتایا: میرا گاؤں چکوال سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہمارا علاقہ بارانی ہے ۔تقسیم ہند سے قبل ہر طرف غربت کا دور دورہ تھا۔میرا باپ چھوٹے سے ایک قطع زمین کا مالک تھا۔گاؤں کے اندر چند دکانیں تھیں۔سب سے بڑی اور اہم دکان سیٹھ موہن لال کی تھی۔ وہ پورے علاقے کے ہر کاشت کار کی ہر فصل خرید لیتا تھا اور پھر سال بھر ضروریات زندگی اس کو دیتا رہتا تھا۔
تقریباً چالیس پچاس دیہاتوں میں آباد تمام خاندان اس کے مقروض تھے۔ جب کسی غریب مسلمان کے نام رقم زیادہ ہوجاتی تو سیٹھ اس کی زمین اپنے نام کروا لیتا ۔علاقے کی بے حساب زمینوں پر وہ قابض ہو چکا تھا۔ علاقے کے تمام لوگ اپنی غصب شدہ زمینوں پر مزارع کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس دور میں جو غریبی اور بھوک و افلاس کا دور دورہ تھا اس کا آج کی نسل تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ہر ہندو سیٹھ کے ماتحت ایک علاقہ تھا ۔جہاں ایک سیٹھ کاعلاقہ ختم ہوتا تھا دوسرے کا شروع ہوجاتا تھا۔ اس طرح یہاں کا مسلمان ایک عذاب میں زندگی گزار رہا تھا۔
میرے والد کا بھی اس سیٹھ کے قرضے میں بال بال جکڑا ہوا تھا۔ میری ۷ بہنیں تھیں بھائی کوئی نہیں تھا۔ ہماری زمین بھی موہن لال اپنے نام کروا چکا تھا اور اس پر اس کا قبضہ تھا ۔قرضہ ادا کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ایک دن میں اور میرا باپ سیٹھ موہن لال کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔اس نے میرے باپ کو بلایا اور کہا کہ جب تک تم میرا قرضہ ادا نہیں کرتے تمہارا بیٹا میرے پاس رہے گا۔ جب قرضہ ادا کردو گے اپنا بیٹا واپس لے جانا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی باپ مجھے اس کے پاس چھوڑ کر چلا گیا۔
خدا جانے کیوں یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی کہ یہ میرا اپنا کاروبار ہے ۔میں دکان میں دیوانوں کی طرح کام کرتا۔ہر وقت کاروبار کی بہتری کے لیے سوچتا رہتا۔میری کئی تجاویز سے سیٹھ کو فائدہ ہوا تو آہستہ آہستہ وہ وقت آگیا کہ سیٹھ چھوٹے بڑے ہر معاملے میں مجھ سے مشورہ کرتا۔ سیٹھ کے ہندودوست اس کو اکثر کہتے رہتے کہ مسلے کا بچہ بھی مسلا ہی ہوتا ہے ۔یہ ایک دن تجھ کو ضرور ڈنک مارے گا۔
تو ہماری یہ بات لکھ کر اپنے پاس رکھ لے کہ یہ موذی تجھ سے ایک کے بدلے دس لے گا۔ (اللہ تعالیٰ نے پھر ایسا ہی کیا ۔ایک کے بدلے دس نہیں بلکہ ہزاروں گْنا اس سیٹھ سے لے کر دیا) سیٹھ ہنس کران کو جواب دیتا کہ میں نے اس کا ڈنک نکال دیا ہے ۔ بے شک یہ ہندو نہیں ہے لیکن یہ اب مسلمان بھی نہیں ہے۔پوچھ لو اس سے کبھی اس نے نماز پڑھی ہو۔کوئی روزہ رکھا ہو۔دوسرے ہندو کہتے یہ کوئی بات ہے ۔سیٹھ تو کتنا سادہ ہے ۔مسلمان کا نماز روزہ ختم ہوسکتا ہے لیکن جب تک اس کے دل میں اسلام کا نور باقی ہے اور وہ اپنے نبی کا کلمہ پڑھتا ہے وہ خطرناک ہوسکتا ہے۔
کیا تمہیں یاد نہیں ہے چند سال قبل لاہور میں علم دین نے صرف ایک کتاب لکھنے پر بیچارے راج پال کو بیدردی سے ہلاک کردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ علم دین ایک ترکھان کا بیٹا تھا۔ سیدھا سادہ مسلمان۔نہ اس کی داڑھی تھی۔نہ وہ کسی دینی مدرسے سے پڑھا ہوا تھا۔ کہتے ہیں ایک مولوی صاحب کی تقریر سن کر اچانک اس کا اسلام بیدار ہوگیا۔تو بھائی میرے مسلمان کا کبھی اعتبار نہ کرو ۔نام کا مسلمان بھی دن میں تارے دکھا سکتا ہے۔
میں دن بھر دکان پر کام کرتا ۔ شام کو میری ڈیوٹی سیٹھ موہن لال کی بیٹھک میں ہوتی جہاں گاؤں کے تمام ہندو آکر جمع ہوجاتے ۔میں وہاں حقہ پانی کا بندوبست کرتا۔ پورے گاؤں میں صرف ایک ریڈیو ہوتا تھا۔روزانہ رات کو خبریں بہت باقاعدگی سے سنی جاتی تھیں۔وہ خبریں اور خبروں پر تبصرہ سن سن کر میں حالات حاضرہ سے بہت زیادہ باخبر رہتا تھا۔لیکن زبان ہمیشہ بند رکھتا تھا۔ جس وقت میں سیٹھ کا قیدی بنا میری عمر نو دس سال ہوگی۔
سیٹھ جب کبھی سامان خریدنے کے لیے کسی دوسرے شہرمثلاً گوجر خان۔راولپنڈی یا لاہور جاتا مجھے ساتھ لے کر جاتا۔میرا کام اس کے سامان کا خیال رکھنا۔اس کے جوتے صاف کرنا۔ بازار سے خریدا ہوا سامان اٹھا کر لانا اور جو بھی آرڈر دے اس کی تعمیل کرناہوتا تھا۔ لاہور میں وہ گوالمنڈی میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں قیام کرتا۔ میں بھی اسی گھر میں ٹھہرتا۔ مارچ ۱۹۴۰ میں ہم لاہور میں تھے کہ اچانک کسی رشتہ دار کے مرنے کی خبر دلّی سے آگئی۔ سیٹھ اور اس کا لاہوری رشتہ دار دلّی چلے گئے میں لاہور میں ہی رہا۔
میں سارا دن شہر میں پھرتا رہتا ۔ایک دن میں پھرتا پھر اتا منٹو پارک کی طرف جا نکلا۔ منٹو پارک کے اس حصے میں جہاں آج مینار پاکستان کھڑا ہے ان دنوں وہاں گھاس کے قطعے نہیں تھے بلکہ چٹیل میدان تھا اور اس میدان میں آم کے درخت بھی ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ زمین کو کدالوں بیلچوں کے ساتھ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔ میں نے ایک آدمی سے پوچھا یہاں کیا بننے لگا ہے ؟ اس نے بتایا کہ چند دنوں بعد یہاں بہت بڑا جلسہ ہوگا جس میں قائد اعظم بھی تشریف لائیں گے۔ہم جلسہ گاہ کے لیے میدان ہموار کر رہے ہیں۔
میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اس کام میں حصہ لوں۔ انہوں نے کہا بہت خوشی کی بات ہے آؤ میرے ساتھ میں تم کو کام بتاتا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک کدال دے دی پھر جب تک میری بازوؤں میں ہمت تھی میں وہاں اس کار خیر میں مصروف رہا۔ تم میرے ان ہاتھوں کو دیکھ رہے ہو ان ہاتھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کے جلسے کے لئے اپنی پوری طاقت لگائی تھی۔ (معلوم ہوتا تھا کہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان ہاتھوں کی وجہ سے وہ جلسہ منعقد ہو سکا تھا۔ میں نے ان کا دِل رکھنے کے لیے ان کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگایا)۔
غالباً ۱۹مارچ کو علامہ مشرقی کے خاکساروں کی عظیم الشان ریلی اور پریڈ کا مظاہرہ تھا جس میں ۳۱۳خاکساروں کا جیش شامل تھا ۔میں نے وہ زبردست مظاہرہ دیکھا تھا۔ پولیس نے بغیر کسی اشتعال کے اس پر اندھا دھند بے تحاشا فائرنگ شروع کردی تھی ۔اللہ نے مجھے بچا لیا لیکن کم از کم سو سے زائد آدمی اس وقت شہید ہوئے تھے۔بے حساب زخمی ہوئے تھے ۔بہت سارے زخمی میوہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو میں نے سنا کہ قائد اعظم ریل گاڑی سے آرہے ہیں۔ گوالمنڈی کے پاس ریلوے روڈ سے کئی جلوس نعرے لگاتے ہوئے ریلوے اسٹیشن جارہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتا چلتا لاہور اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ افسوس میں ریلوے اسٹیشن کے اندر نہ جاسکا کیونکہ وہاں دور دور تک انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر تھا۔ صبح ۹ بجے فرنٹیر میل اپنے وقت پر پلیٹ فارم نمبر ایک پر داخل ہوئی۔ انسانوں کے اس بے پناہ سمندر میں زبردست ہلچل پیدا ہوئی۔ فضا اللہ اکبر۔قائد اعظم زندہ باد ۔مسلم لیگ زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔میں نے بھی اس دن اپنا پورا زور لگا کر نعرے لگائے تھے۔
پہلے اعلان ہوا تھا کہ قائد اعظم کو ایک جلوس کی صورت میں ان کی قیام گاہ پرلے جایا جائے گا لیکن پھر بتایا گیا کہ خاکساروں کے غمناک واقعہ کی وجہ سے جلوس کا پروگرام منسوخ کردیا گیا ہے۔ ۲۱مارچ کو ہی شام کے وقت قائد اعظم منٹو پارک میں تشریف لائے جہاں ہزاروں افراد نے آپ کا استقبال کیا۔ میں وہاں موجود تھا جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کے سبز پرچم کو پنڈال کے سامنے لہرانے کے لیے رسم پرچم کشائی ادا کی۔ بعد ازاں پورے برصغیر سے آئے ہوئے مسلم لیگ نیشنل گارڈز نے آپ کو سلامی دی۔ اس کے بعد قائد اعظم نے مختصر سی تقریر کی تھی۔
۲۲ مارچ ۱۹۴۰ ء کو نماز جمعہ میں نے بادشاہی مسجد میں ادا کی تھی۔اس کے بعد منٹو پارک چلا گیا وہاں بہت بڑا اجتماع ہورہا تھا جس میں پورے ہندوستان سے مسلمانان ہند نے شرکت کی تھی۔ یقین کرو جلسہ گاہ میں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ بادشاہی مسجد تک انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ قائد اعظم کی وہ تقریر میں نے سنی تھی۔
میں نے کہا ’ بابا جی ! کیا آپ کو تقریر کی سمجھ آرہی تھی۔ کہتے ہیں قائد اعظم نے انگریزی میں تقریر کی تھی۔ بابا جی نے میری بات کا بہت بر ا مانا۔ کہنے لگے بیٹا تمہارا سوال سن کر مجھے بہت افسوس ہوا ہے ۔او بندہ خدا ! وہ آج کل کے بناسپتی لیڈروں کی طرح کا لیڈر نہیں تھا ۔وہ تو مسلمانانِِ ہند کے لیے ایک خدائی تحفہ تھا ۔ایسا ہیرے جیسا انسان صدیوں میں کہیں کوئی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ اس کو کوئی خرید نہیں سکتا تھا۔وہ قوم کے ایک پیسے کو بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کا روادار نہیں تھا۔
اس کے منہ سے جو بات نکل رہی تھی وہ درحقیقت اس کے دل میں سے نکل رہی تھی اور سیدھی سامعین کے دل میں جارہی تھی۔ ہر ایک کو پتا تھا۔ مجھے بھی پتا تھا جب کہ میں صرف ۱۵سال کی عمر کا ایک جاہل دیہاتی نوجوان تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔مجھے یقین تھا وہ ہم مسلمانوں کی بھلائی کی بات کر رہا ہے وہ ہماری بہتری کی بات کر رہاہے۔
اس نے صاف صاف اعلان کر دیا تھا کہ اگر برطانوی حکومت نے مسلمانوں پر کوئی ایسا آئین یا تصفیہ تھوپ دیا جسے ان کی تائید اور منظوری حاصل نہ ہو تو ہندوستان کے مسلمان زبردست مزاحمت کریں گے۔مسلم ہندوستان ایسا کوئی آئین قبول نہیں کرسکتا جس کے تحت ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہوجائے۔ اگر انگریز دل سے یہ چاہتے ہیں کہ برصغیر کے لوگ امن اور چین سے رہیں اور خوش حال ہوں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہندوستان کو خود مختار قومی مملکتوں میں تقسیم کرکے یہاں کی بڑی قوموں کو جداگانہ وطن دیا جائے۔
میں نے کہا بڑی بات ہے آپ کو یہ سب باتیں یاد ہیں۔
کہنے لگے یہ باتیں تو میں نے گاؤں میں آکر ہندوؤں سے سنیں اور پھر میرے دل پر نقش ہوگئیں ۔خدا جھوٹ نہ بلوائے اب تک یہ الفاظ میں ہزاروں دفعہ لوگوں کے سامنے دہرا چکا ہوں۔ ۲۳ یا ۲۴مارچ کو جب جلسہ میں قرار داد پاکستان منظوری کے لیے پیش ہوئی تو میں نے بھی یہ ہاتھ اٹھا کر تائید کی تھی۔( کافی دیر وہ اپنی دائیں بازو دیکھتے رہے ۔میں بھی دیکھتا رہا۔ اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا رہا۔ وہ کچھ اس طرح کا اظہار کررہے تھے جیسے ان کے اس ہاتھ اٹھانے سے ہی پاکستان وجود میں آیا تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ اس ہاتھ ہی نے پاکستان بنایا ہے۔)
چند دنوں بعد سیٹھ دلّی سے واپس لاہور آگیا۔ گاؤں میں سیٹھ کی بیٹھک میں روزانہ ہندو لاہور کے جلسے پر تبصرے کرتے رہتے تھے۔ مجھے وہ گونگا۔بہرہ اور اندھا بے مذہب نوجوان سمجھتے تھے میں بھی ان کے سامنے اپنے آپ کو ایسا ہی ظاہر کرتا تھا۔ ہندوروزانہ یہ بات کرتے تھے کہ وطن ہمارے لیے ماں کی طرح ہے ہم جان دے دیں گے لیکن بھارت ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا ہر آنے والا دن مقامی ہندوؤں کے لیے نئی سے نئی پریشانیاں لارہا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مئی ۱۴۹۷ ء کے آخری دنوں میں کچھ خریداری کرنے کے لیے سیٹھ لاہور آیا تھا۔میں بھی اس کے ساتھ تھا ۔ہم جس ہندو کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اس کے گھر میں ریڈیو تھا۔ ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کا فارمولا طے کرنے کے لیے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اجلاس کے بعد اسی دن شام ۴بجے ماؤنٹ بیٹن۔ جناح۔نہرو اور سردار بلدیو سنگھ نے ریڈیو پر تقریریں کی تھیں۔ میں نے یہ تمام تقاریر سنی تھیں۔قائد اعظم نے اپنی تقریر کے اختتام پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔
میں بھی اس وقت پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کے لیے بیتاب ہوگیا تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا کیونکہ میں تو اندھا گونگا بہرا بنا ہوا تھا۔ ۳جون۱۹۴۷ ء کو تقسیم ہند پلان کے اعلان سے مسلم لیگ کا مطالبہ’’پاکستان‘‘ پورا ہوگیا۔ سیٹھ اور ان کا دوست ان لیڈروں کی تقریریں سن کر کچھ دیر تو گم سم بیٹھے رہے جیسے ان پر سکتہ طاری ہوگیا ہو ۔آخر ہمارا میزبان بولا ہمارے لیڈروں کے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے۔
اے عقل کے اندھو !ہم مسلمانو ں کے مقابلے میں کتنی بڑی اکثریت کے مالک ہیں۔ ان احمقوں کو جناح نے کیسے بے بس کر کے رکھ دیا ۔گاندھی کو دیکھو ۔ہمیں الو بنانے کے لیے ننگا پھر رہا ہے ۔چلتا پھرتا کارٹون ہے ۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا لیڈر ہے شکل سے۔لباس سے۔بات کرنے کے لحاظ سے لیڈر لگتا ہے۔ انگریز ہیں تو وہ بھی اس سے ڈر رہے ہیں ہمارے یہ نام نہاد لیڈر ۔ ان کی تو اس کے سامنے جان ہی نکل جاتی ہے۔
کاش ہمارے پاس قائد اعظم جیسا کوئی لیڈر ہوتا۔اب کیا ہوگاہمارا کیا بنے گا۔ہم کیا ان مسلوں کے ماتحت یہاں رہیں گے۔بہت دیر وہ اس قسم کی بے سروپا باتیں کرتے رہے۔میں گھر سے باہر نکل آیا ۔لاہور شہر میں جنگل کی آگ کی طرح خبر پھیل چکی تھی۔ہندوؤں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے جب کہ مسلمان خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے۔ میں کچھ دیر باہر چکر لگا کر گھر واپس آیا تو دیکھا سیٹھ اور ان کا میزبان کہیں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ سیٹھ نے مجھے کہا کہ ہم ایک بڑے لیڈر کو ملنے جا رہے ہیں تم ادھر ہی ٹھہرو۔
ہم جب گاؤں واپس آئے تومیں نے دیکھا کہ ہمارے علاقے کے ہندو بہت مضطرب تھے۔ اکثر کہتے تھے یہ بیوقوف مسلمان پاکستان بنا تو لیں گے لیکن ۶ماہ سے زیادہ چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔خود ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ کر منتیں کریں گے کہ خدا کا واسطہ ہے اس کو سنبھالو۔ ایک ہندو جو گاؤں میں سکول ماسٹر تھا اور سب اسے گورو جی کہتے تھے وہ ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ یہ ۶ مہینے کی بات تو غلط ہے لیکن ان کا مستقبل کوئی نہیں ہے۔ میں نے مسلمانوں کی پوری تاریخ بہت باریک بینی سے پڑھی ہے یہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ ہم رہیں نہ رہیں یہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر ختم ہوجائیں گے۔
یہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے کا گوشت نوچیں گے۔ یہ وحشیوں کی طرح ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں گے۔ یہ ایک دوسرے کو مار کر لاشوں پر رقص کناں ہوں گے۔ یہ اپنے ملک کے کئی کئی ٹکڑے کریں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کا نام صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ جائے گا۔ ہمارے گاؤں کے ہندوؤں کا یہاں سے انڈیا جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا لیکن جب انڈیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہندو ؤں اور سکھوں نے مل کر شروع کیا تو ادھر مغربی پنجاب میں بھی اس کا ری ایکشن ہوا۔
اچانک جب ان پر حملے ہوئے توبسے بسائے گھر اور جمے جمائے کاروبار چھوڑ کر ان کو بھاگنا پڑا۔ غالباً جولائی ۱۹۴۷ ء کے آغاز میں سیٹھ نے اپنی بیوی اور بیٹیاں دلّی بھیج دی تھیں جہاں اس کا بھائی رہتا تھا ۔ سیٹھ اکیلا ہی ادھر گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دن مجھے سیٹھ نے بتایا کہ میں نے پٹواری کو رشوت دے کر بڑی مشکل سے کاغذات بنوائے ہیں ۔میں نے تمام زمینیں اورمکانات تمہارے نام کروا دیئے ہیں۔
مجھے تم پر اندھا اعتماد ہے۔ میری نظر میں پوری دنیا میں تم سے زیادہ مخلص اور وفادار انسان کوئی نہیں ہے۔ بیٹا (وہ پہلا دن تھا جب اس نے مجھے بیٹا کہا تھا ۔ورنہ ہمیشہ مجھے نورا کہہ کر پکارتا تھا) یہ تمام جائیداد ۶ مہینوں تک تم نے سنبھال کر رکھنی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ۶ مہینے میں پاکستان ختم ہوجائے گا میں پھر واپس آجاؤں گا۔ واپس آکر میں تم کو بہت انعام دوں گا اور کاروبار میں حصہ دار بھی بنا لوں گا۔
میں نے کہا سیٹھ صاحب آپ نے جو مجھ پر اعتماد کیا ہے اس کا شکریہ لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ آپ نے تمام جائیداد میرے نام کیوں کروادی ہے۔ سیٹھ نے بتایا اس کی ۲ وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ جو مہاجر ہندوستان سے آئیں گے وہ اس کو کلیم نہیں کرسکیں گے ۔دوسرے یہاں کے مقامی لوگ میری جائیداد اور سامان پر قبضہ نہیں کرسکیں گے۔
اگست ۱۹۴۷ ء کا آغاز ہوچکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ صبح سویرے سیٹھ ایک کپڑے میں کوئی چیز لپیٹے ہوئے گاؤں سے باہر جا رہا ہے۔ میں نے سیٹھ کو دیکھ لیا تھا لیکن سیٹھ نے مجھ کو نہ دیکھا۔ دو تین دن بعد سیٹھ نے مجھے بتایا کہ میں نے جتنی رقم گھر میں موجود تھی اس کا سونا خرید لیا تھا ۔سوچا تھا کہ دلّی جاتے ہوئے ساتھ لیتا جاؤں گا لیکن ان وحشی ظالموں نے بربریت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس میں جان بچا کر چلا جانا بھی غنیمت ہوگا۔ان درندوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
میں نے سوچا کہ سوناگاؤں سے باہر زمین میں دفن کردیتا ہوں جب ۶ ماہ بعد واپسی ہوگی تو زمین سے نکال لوں گا ۔میں چار پانچ دن سے جب بھی دن یا رات کو اس کام کے لیے باہر نکلا ہوں ہر طرف اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی مجھے دیکھ رہا تھا ۔ دو تین دفعہ تو زمین میں دبانے کے بعد دوبارہ جاکر سونا باہر نکال لایا کیونکہ میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔
آج رات مجھے خیال آیا کہ جب میرا بیٹا نور دین(یہ پہلا موقع تھا کہ سیٹھ نے میرا پورا نام لیا تھا) ہی میرے گھر میں چھ ماہ تک رہے گا تو میں نے سوچا سب سے محفوظ جگہ سونا رکھنے کے لیے اپنے گھر ہی میں ہے۔اسی لیے آج رات میں نے گھر ہی میں اسے دفنا دیا ہے۔ ایک دن سیٹھ نے مجھے آدھی رات کو جگایا اور چابیوں کا ایک گچھا میرے حوالے کیا اور کہنے لگا میں ابھی اسی وقت جارہا ہوں میرے ساتھی مجھے لینے آئے ہوئے ہیں۔
میں نے پوچھا آپ کس طرح یہاں سے جائیں گے؟ سیٹھ نے بتایا کہ گاؤں سے گھوڑوں پر سفر کا آغاز ہوگا آگے چل کر دوسری سواری کا بندوبست ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کہ راستے میں خرچے کے لیے پیسے آپ نے رکھ لیے ہیں؟ اس نے کہاہاں کافی پیسے ہیں دلّی تک کا سفر ان میں مکمل ہوجائے گا۔ میں نے بہت سی منتیں مانی ہیں۔ مجھے یقین ہے ہم دلّی بخیرو عافیت پہنچ جائیں گے۔صبح ہوئی توسب گاؤں والے مجھ سے پوچھنے چلے آرہے تھے کہ سیٹھ کدھر گیا۔ میں نے کہا وہ راولپنڈی گیا ہے ۔ کچھ دن ادھر ہی رہے گا۔ باقی ا?س کی تمام مال و جائیداد کا مالک اب میں ہوں کسی نے بری نیت سے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اس کی خیر نہیں۔
سیٹھ کے جاتے ہی میں نے اپنے ماں باپ اور ساتوں بہنوں کو سیٹھ کے مکان میں شفٹ کر دیا۔میری دادی پرانے خیالات کی مالک تھی اس نے وہ ٹوٹا پھوٹا خستہ مکان چھوڑنے سے انکار کردیا۔اس کا کہنا تھا کہ میں جدی پشتی مکان کو کبھی نہ چھوڑوں گی۔ دوسرے یہ کہ وہ مکان پلید اور ناپاک ہے کیونکہ وہاں بتوں کی پوجا ہوتی رہی ہے۔تیسرے یہ کہ ۶ماہ بعد وہ ہندو اگر دوبارہ واپس آگئے تو وہاں سے جو ذلیل و خوار ہوکر نکلنا پڑے گا اس سے یہ بہتر ہے کہ ان محلات میں آدمی جائے ہی نہیں۔
خدایا !تیر ی کیا شان ہے۔تو کیا کیا انسان کو اس زندگی میں دکھاتا ہے۔ وہ سیٹھ جس نے ہماری چند کنال زمین پر قبضہ کرلیا تھا آج اس کی تمام زمینوں کے کاغذات میرے پاس تھے۔ گاؤں کے تمام لوگوں نے مجھے سیٹھ صاحب کہنا شروع کردیا تھا۔ میری بہنوں کے لیے کبھی کوئی رشتہ نہ آیا تھا لیکن اب بڑے بڑے خاندانوں سے رشتے آرہے تھے۔ ہماری بہنیں جن میں ہمیں کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی ان میں لوگوں کو طرح طرح کی خوبیاں نظر آرہی تھیں۔
میری بہنیں جن کے پاس سر پر اوڑھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی پھٹی ہوئی بوسیدہ چادریں ہوتی تھیں ان کے جہیز کے لیے کپڑے۔بستر۔ برتن ہر چیز اللہ نے وافر مقدار میں دے دی تھی۔ ساتوں بہنوں کی شادیاں بہت دھوم دھام سے ہوئیں۔ گاؤں کے سب سے بڑے ملک صاحب کی خواہش تھی کہ وہ مجھے اپنا بیٹا بنائیں۔ وہ روزانہ میرے والد صاحب سے ملتے اور ان کے سامنے میری تعریفیں کرتے۔ باپ نے ایک دن مجھ سے اس سلسلے میں بات کی میں نے کہا ٹھیک ہے مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔آپ ہاں کردیں ۔اس طرح میری شادی ہوگئی۔
میں نے پوچھا ’’بابا جی! وہ سونے کے بارے میں تو آپ نے بتایا ہی نہیں کہ وہ سونا ملا تھا یا نہیں؟‘‘ بابا جی نے ہنستے ہوئے کہا: ’’اللہ میاں کے کام اللہ ہی جانے۔ ہر وقت آدمی کو توبہ استغفار کرتے رہنا چاہیے میری ماں کا ایک چاندی کا معمولی سا ہار تھا۔وہ ایک دن سیٹھ سے دال لینے گئی تھی تو اس ظالم سیٹھ نے میری ماں کے گلے سے وہ ہار اتار کر اپنے پاس رکھ لیا ۔میں یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ماں کو یہ ہار میری نانی نے شادی کے موقع پر دیا تھا ۔ یہ ایک ہار ہی ہمارے خاندان میں نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ یہی ہمارے گھر میں ایک واحد زیور تھا۔ اگر اس کو زیور کہا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ایک ہار کے بدلے ایک سیر سے زائد سونا مجھے دلا دیا۔سونا مجھے آسانی سے گھر کے اندر ایک جگہ سے مل گیا تھا۔
میں نے کہا: ’’بابا جی !کیا ا پ کے سیٹھ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ ‘‘بابا جی بولے ’’بھئی ہندو سو سال آگے کی سوچتا ہے ۔ سیٹھ کہتا تھا مستقبل تعلیم کا ہے اس نے اپنے بچے دلّی اپنے بھائی کے پاس بھیج دئیے تھے۔ وہ وہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے تھے۔ ہاں یاد آیا سیٹھ کے دونوں بیٹے اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ سن ۸۰میں گاؤں میں آئے تھے۔ انہیں اپنا آبائی مکان دیکھنے کا بہت شوق تھا ۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ مکان گرا کر دوبارہ بنایا گیا ہے تو ان کا دل بجھ گیا۔
میں نے ان بھائیوں سے پوچھا تھا کہ آپ اب کیا کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کے ہم دونوں ڈاکٹر ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو گاؤں کی سیر کراتے رہے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے سیٹھ کے بارے میں بتایا تھا کہ ہم نے ان کو بہت پیغام بھیجے تھے کہ جلد سے جلد دلّی آجائیں لیکن ان کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات ایک دم اتنے بگڑ جائیں گے۔ ان کے ساتھ جو آدمی گاؤں سے رات کو گھوڑوں پر روانہ ہوئے تھے ان میں سے صرف ایک آدمی دلّی زندہ پہنچ سکا۔
اس نے بتایا تھا کہ گاؤں سے چند میل کے فاصلے پر ایک برساتی نالے کے پل پر چند افراد ناکہ لگا کر کھڑے ہوئے نظر آئے۔ سب رْک گئے۔ میں اپنے ساتھیوں سے تیس چالیس قدم پیچھے تھا۔ اس نے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے تیزی سے اپنا گھوڑا واپس موڑا اور ایک لمبا راستہ اختیار کرکے جہلم آگیا۔آگے بھی اکیلا ہی چھپتے چھپاتے انڈیا پہنچ گیا۔ہم کو اپنے والد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔
خوب محفل جمی ہوئی تھی ۔بابا جی کی باتیں سننے کے لیے کچھ اور لوگ بھی ادھر آبیٹھے تھے۔ اچانک ان کا نواسا دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا ’’آپ بھی کمال کرتے ہیں ادھر ڈاکٹر راؤنڈ پر آیا ہوا ہے اور آپ اِدھر بیٹھے ہوئے اِن سے باتیں کر رہے ہیں۔‘‘نواسے کی بات سن کر میں ان سے رخصت ہوکر گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل پڑا کہ آج ایک پوری تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ کانوں سے سن لیا۔
اگلے دن میں ہسپتال گیا تو معلوم ہوا کہ باباجی لان سے ہمارے پاس سے اٹھ کر ہسپتال کی عمارت کی طرف خوش خوش جارہے تھے۔ جب وارڈ میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر نے کہا: بابا جی آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں۔ کیابات ہے؟ بابا جی نے کہا:’’میری چھاتی پر جو بوجھ تھا آج اتر گیا ہے۔ اسی بوجھ کی وجہ سے میری سانس اٹکی ہوئی تھی۔آج مجھے ایک نئی نسل کا نمائندہ مل گیا تھا۔ میں نے اپنی یادوں کی گٹھڑی اس کے حوالے کردی ہے۔ اب اللہ جانے اور وہ جانے۔ رات کو سوئے سوئے ۱۱۔ ۱۲بجے کے درمیان بابا جی کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔