ایک حسرت!

مصنف : قانتہ سید

سلسلہ : گوشہ آزادی

شمارہ : اگست 2005

کاش کہ درج ذیل واقعات میں کار فرما جذبہ ہمیں بھی نصیب ہو جائے!

پرچم کی حرمت    

            ‘‘پیرس کی مشہور سڑک پر واقع ایک خوش نما کافی ہاؤس سے دو خواتین کافی پی کر اٹھیں۔ ان کی چال ڈھال، ان کا لباس اور ان کا باوقار انداز گفتگو صاف بتاتا تھا کہ یہ معزز خواتین ہیں۔ ان میں سے ایک سرخ و سفید اونچے پورے قد کی خاتون، لمبا سکرٹ پہنے ہوئے تھی۔ جرابیں پنڈلیوں کو ڈھانکے ہوئے تھیں، سر پر حجاب بندھا ہوا تھا۔ دوسری خاتون شلوار قمیص میں ملبوس تھی۔ ان کے دوپٹے نے سر اور سینے کو ڈھانپا ہوا تھا۔ ان میں ایک، جمہوریہ ترکیہ کی ایک مشہور سیاست دان خالدہ ادیبہ خانم تھیں اور دوسری حمیدہ ڈاکٹر اختر حسن رائے پوری۔

             اپنی داستانِ حیات (ہم سفر) میں حمیدہ اختر لکھتی ہیں کہ ہم کافی ہاؤس سے باہر آئے تو سڑک کے کنارے ایک جگہ خالدہ ادیبہ خانم کھڑی ہو گئیں اور سڑک کے کنارے سے سگریٹ کا ایک ٹوٹا اٹھایا۔ اپنا پرس کھول کر انھوں نے کاغذی رومال (ٹشو پیپر) نکالا۔ سگریٹ کا ٹوٹا اس میں لپیٹ کر بائیں ہاتھ میں پکڑے رکھا۔

            یہ ۱۹۳۰ء کے آگے پیچھے کی بات ہے۔ اس زمانے میں خالدہ ادیبہ خانم جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اور اپنے شوہر عدنان کے ساتھ پیرس میں مقیم تھیں۔ خالدہ ادیبہ خانم ترکی کی عظیم رہنما تھیں۔ ترکی میں انقلاب لانے کے لیے مصطفی کمال پاشا کے ساتھ انھوں نے بڑا نمایاں کردار انجام دیا تھا۔ سیاست میں دوستیاں زیادہ پائیدار نہیں ہوتیں وہ اپنے وطن میں گولی کا نشانہ بنتے بنتے بچیں اور راتوں رات انھیں ملک سے باہر پہنچایا گیا۔

            حمیدہ اختر حسین نے گھر لوٹتے ہی ترکی کی اس عظیم رہنما سے پوچھا کہ سگریٹ کے ٹوٹے کو آپ کیوں اٹھائے اٹھائے پھر رہی ہیں؟ اور آپ اس کا کیا کریں گی۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے وہ ٹوٹا ایک محفوظ جگہ کچرے کی ٹوکری میں ڈال دیا اور فرمانے لگیں کہ اب یہ کسی کے پاؤں میں نہیں آئے گا۔ بات ابھی صاف نہیں ہوئی تھی۔ بیگم حمیدہ کے ذہن میں آیا کہ کیا یہ صرف صفائی اور پاکیزگی کا ایک عمل تھا؟ صاف ظاہر تھا کہ بات کچھ اور تھی۔ پھر ان محترم میزبان خالدہ ادیبہ خانم نے فرمایا کہ اصل میں یہ میرے وطن کا بنایا ہوا سگریٹ تھا۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس پر ہمارے ملک کے پرچم کا چاند بنا ہوا ہے۔ کسی کا پاؤں اس پر پڑ جاتا تو میرے وطن کی بے حرمتی ہوتی۔

            قرآن حکیم قوموں کی مثالیں دے کر فرماتا ہے کہ تلک الامثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون۔ سنوکہ ہم مثالیں دے کر سمجھاتے ہیں اگر سمجھ جاؤ تو بڑی بات ہے۔ سوچئے کہ وطن کیا ہوتا ہے؟ اس کی عزت، اس کا احترام، اس کی محبت کیا ہوتی ہے؟ وطن کی خدمت کس طرح کی جاتی ہے؟ وطن میں اور وطن سے باہر اگر ہم اس کی عزت کا خیال نہ رکھیں تو دوسروں سے ہم اس کی عزت کس طرح منوا سکتے ہیں۔ خالدہ ادیبہ خانم نے ایک معمولی سی بات کا کتنا خیال رکھا۔ وطن کی محبت ایسی ہوتی ہے۔

            معلوم نہیں ہم کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا پرچم ، ہمارا دستور، قراردادِ مقاصد اور عہدوں کے حلف بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ قومی خدمت گزاروں کی طالع آزمائی اور لوٹ کھسوٹ نے مقدس روایتوں اور قومی نشانیوں کو بے وقار کرکے رکھ دیا ہے۔’’ (از شاہ بلیغ الدین صاحب، بحوالہ نوائے وقت، ۴ مئی ۲۰۰۰ء)

٭٭٭

قومی خزانہ

            ‘‘جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے، وہاں پر پہلے میر پور کا پرانا شہر آباد تھا۔ جنگ کے دوران میں اس کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گردونواح میں گھوم رہا تھا۔ راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے۔ دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے۔ انھوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا۔ ‘‘بیت المال کس طرف ہے؟’’ آزاد کشمیر میں سرکاری خزانے کو بیت المال ہی کہا جاتا تھا۔

            میں نے پوچھا ‘‘بیت المال میں تمھارا کیا کام ہے؟’’

            بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا، ‘‘میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں۔ اب انھیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کروانے جا رہے ہیں۔’’

            ہم نے ان کا گدھا ایک پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں چھوڑا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر دونوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ انھیں بیت المال لے جائیں۔

            آج بھی جب وہ نحیف و نزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو میرا سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا۔ مجھے تو چاہیے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھوں۔ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملے ہیں؟ اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر!’’

(از: قدرت اللہ شہاب مرحوم، بحوالہ شہاب نامہ)

٭٭٭