اگست ستمبر کے دن تھے جب مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے لٹے پٹے خون آلودہ قافلے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں نے ان لوگوں کے چہرے نہیں دیکھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کرکے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ ان میں ضلع ہوشیار پور کے ڈاکٹر عبدالکریم بھی تھے۔ وہ اپنے گاؤں سے ایک قافلے کے ساتھ پاکستان کی طرف چلے تھے۔ ان پر اور قافلے والے مسلمان مہاجروں پر راستے میں کیا گزری؟ ڈاکٹر عبدالکریم کہتے ہیں:
‘‘…… میرا گاؤں موضع گنگیاں، دسوہہ ہوشیار پور روڈ پر دسوہہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر تھا۔ چھوٹا سا گاؤں تھا اور ہم غریب طبقے کے لوگ وہاں آباد تھے۔ ایک رات کے پچھلے پہر داداجان نے ہمیں الوداع کہا اور خود گاؤں میں ہی ٹھہرے رہے۔ ہم نے انھیں بھی ساتھ لے جانے پرجب اصرار کیا تو انھوں نے کہا کہ میں ان دیواروں کو جن میں میرے آباؤ اجداد کا خون پسینہ رچا بسا ہے نہیں چھوڑ سکتا، تم جاؤ! لیکن بہت جلد انھیں احساس ہو گیا کہ جن سکھوں کے ساتھ انھوں نے ایک مدت ایک زمانہ گزارا ہے وہ ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو وہ صبح ہی کو گھر چھوڑ کر ہمارے پیچھے روانہ ہو گئے۔ وہ دسوہہ روڈ پر نکل آئے۔ یہی سڑک انھیں ہم تک پہنچانے والی تھی۔ گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر سکھوں کا ایک گاؤں تھا جو ہمیشہ سے ہمارا دشمن رہا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے سکھوں نے بابا جی کو دیکھ لیا۔ وہ چلتے رہے۔ راستے میں ایک چھوٹا سا تکیہ تھا جسے پیر پھلاہی کہا جاتا تھا۔ وہاں پر کچھ چماروں کے گھر تھے۔ بابا جی وہاں پانی پینے کے لیے رک گئے۔ وہاں ایک کنواں تھا۔ وہاں پانی پیا۔ چماروں سے کچھ باتیں کیں۔ جب سڑک کی طرف مڑے تو کرپانوں سے مسلح سکھوں نے للکارا۔ بوڑھے آدمی تھے، جان بچانے کے لیے چماروں کے گھر میں گھس گئے۔ چماروں نے انھیں چھپا لیا۔ سکھوں نے چماروں کے گھروں کا محاصرہ کر لیا۔ چماروں نے ہاتھ جوڑے ، منتیں کیں مگر سکھ چماروں کو بھی قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔ ہمارے بابا جی چماروں کو بچانے کے لیے باہر نکل آئے۔ ایک سکھ نے کرپان سے ان کی گردن پر زبردست وار کیا جس سے بابا جی زمین پر گر گئے اور تڑپنے لگے۔ سکھ چاروں طرف قہقہے لگا رہے تھے۔ بابا جی شدید تکلیف میں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ظالمو میری گردن کاٹ دو۔ مگر سکھ اس تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بابا جی کی گردن اس طرح سے کٹی تھی کہ وہ بول توسکتے تھے مگر زندہ بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ گردن کا گھاؤ سخت تکلیف دے رہا تھا۔ یہ واقعہ ہمیں ایک چمار نے بتایا تھا۔ بابا جی نے چماروں سے فریاد کی کہ میری گردن کاٹ دو۔ میں بڑی اذیت میں ہوں کیونکہ سکھ انھیں اسی حالت میں چھوڑ کر چل دیے تھے۔چماروں نے روتے ہوئے کہا ہم نے تمھارا نمک کھایا ہے۔ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ خون زیادہ بہہ جانے سے بابا جی بے ہوش ہو گئے۔ پھر رات کو دم توڑ دیا۔ چماروں نے انھیں وہیں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔
ہمارے گاؤں کے تمام مسلمان، گھروں سے نکل کر مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں منتقل ہورہے تھے۔ افراتفری کا عالم تھا کوئی جگہ بھی ہندو سکھوں کی درندگی سے محفوظ نہیں تھی۔ لوگ ایک غیر محفوظ جگہ، جسے پنڈ والا ٹبہ کہتے تھے جمع ہونے لگے۔ بارشیں عام تھیں۔ ٹبہ چونکہ اونچا تھا۔ سیلاب کا تو خطرہ نہیں تھا مگر لوگ بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرنے لگے۔ میری ماموں زاد بہن اور ماموں جان اسی جگہ فوت ہو گئے۔ یہاں سے ہم دسوہہ کی طرف چل پڑے۔ ارد گرد سے گاؤں اجڑ اجڑ کر چھوٹے چھوٹے قافلوں کی صورت میں جا رہے تھے۔ ایک جگہ چھوٹے سے گاؤں کے مسلمان بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ ابھی ہم دو ہی فرلانگ گئے ہوں گے کہ ہر طرف سے سکھوں نے ہمیں گھیر لیا۔ تین چار سو سکھ برچھیوں، بلموں اور کرپانوں سے مسلح ہم پر ٹوٹ پڑے۔ سب کو قطار میں کھڑا کر لیا۔ پہلے نقدی اور زیورات چھین لیے۔ پھر گرجدار آواز میں حکم دیا کہ لڑکیاں ہمارے حوالے کر دو۔ بڑا ہی اندوہناک منظر تھا، بچے بلک رہے تھے، مائیں فریاد کر رہی تھیں، باپ پگڑیاں اتار اتار کر سکھوں کے پاؤں میں رکھ رہے تھے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ بیان کرنے کے لیے میرے قلم میں طاقت نہیں ہے۔ وہاں کتنا خون بہہ گیا، قوم کی کتنی بیٹیاں پاکستان کے نام پر قربان ہو گئیں، کتنے بچے کٹ گئے، کچلے گئے، نیزوں پر اچھالے گئے، کچھ شمار نہیں ہے۔ (اے کاش پاکستان کی کر پشن زدہ موجودہ نسل سوچے)۔ جو باقی بچ گئے انھوں نے افتاں و خیزاں آگے چلنا شروع کیا۔ ایک طرف سے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں بلند ہوئیں۔ تمام لوگوں کی توجہ اس طرف ہوئی۔ ایک بوڑھا بھاگا آ رہا تھا اس کے پیچھے ایک جوان لڑکی بچہ گود میں اٹھائے بھاگتی آ رہی تھی اور پیچھے سکھ دوڑے آ رہے تھے۔ باپ اپنی بیٹی سے کہہ رہا تھا کہ بچہ پھینک دو، بچہ پھینک دو۔ بیٹی نے باپ کے حکم کے مطابق بچہ پھینک دیا اور دوڑ کر قافلے میں شامل ہو گئی۔ ایک سکھ اس بچے کو برچھی پر لٹکا کر لے گیا۔ لڑکی اس صدمے کی تاب نہ لا سکی اور کیمپ میں تڑ پ تڑپ کر مر گئی۔ ہم لٹے پٹے شام کو کیمپ میں پہنچ گئے۔ ہر طرف کپڑوں کے خیمے سے بنے ہوئے تھے۔ ہر طرف ویرانی اور آہ و بکا کا عالم تھا۔ مائیں جن کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا، دھاڑیں مار کر رو رہی تھیں۔ باپ جوان بیٹوں کی موت پر نوحہ کناں تھے۔ ہر طرف قیامت کا سماں تھا۔ کتے اور گدھ لاشوں کو نوچ رہے تھے (اب ہم آپس میں ایک دوسرے کو اور وطن کو نوچ رہے ہیں) بیل چارے کے لیے بلبلا رہے تھے۔ لوگ ان کے چارے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ یوں بھی کئی لوگ سکھوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ایک دن میرے چچا بیل کے لیے چارہ لینے کھیتوں کی طرف گئے اور سکھوں نے انھیں قتل کر دیا۔ ساری رات لوگوں نے آنکھوں میں گزاردی۔ صبح کو چچا کی لاش مل گئی انھیں وہیں دفنا دیا گیا۔
دسوہہ کیمپ سے تقریباً پانچ ہزار مسلمانوں کا قافلہ ہریانہ کی طرف چل پڑا۔ بارش سے راستے ٹوٹے پھوٹے اور کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم تمام دن انتہائی تکلیفیں اٹھا کر دسوہہ سے ہریانہ پہنچے۔ اس وقت دو گھنٹے دن باقی تھا۔ ہم نے جلدی جلدی ہریانہ کی برساتی جھیل کے کنارے ایک جگہ ڈیرا جما لیا۔ لوگ آتے جاتے اور ہماری طرح بیٹھتے جاتے تھے۔ برگد کے پیڑوں کے عقب میں سورج غروب ہو رہا تھا۔ مشرق سے گھٹائیں امڈ رہی تھیں۔ ہم بھوک سے نڈھال تھے۔ پھر بارش شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک شور بلند ہوا۔ پہاڑی نالوں کی تقریباً چار فٹ پانی کی طوفانی موجوں نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سینکڑوں ماؤں کے بچے پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ دوسرے دن دور دور تک لاشیں کیچڑ اور پانی کے گڑھوں میں بکھری پڑی تھیں اور گدھ ان پر بیٹھے تھے۔ ہم سب نے ہریانہ کیمپ کے انچارج سے درخواست کی کہ ہمیں واپس دسوہہ پہنچا دیا جائے۔ اس نے ہماری درخواست منظور کر لی۔ ہمیں ایک ٹرک میں بٹھا کر دسوہہ روانہ کر دیا گیا۔
ڈیڑھ ایک ماہ دسوہہ میں رہے۔ ہمارے ساتھ کچھ سابق فوجی بھی تھے۔ یہاں بھی وبا پھوٹ پڑی۔ لوگ مرنے لگے۔ آخر ایک دن ہمارا قافلہ براستہ امرتسر پاکستان کو روانہ ہوا۔ ۸۰ فی صد قافلہ پیدل تھا۔ باقی بیل گاڑیوں پر سوار تھے۔ کھڈا کرالا کے نزدیک سکھوں نے دونوں طرف سے حملہ کر دیا۔ اس بد نصیب قافلے میں زیادہ تر کم سن لڑکیاں اور بچے تھے جو پیدل چل رہے تھے۔ سکھوں نے قتل عام شروع کر دیا۔ مائیں بچوں کے سامنے اور بچے ماؤں کے سامنے ذبح کیے جا رہے تھے۔ ہندوستان کی محافظ ملٹری یہ تماشا دیکھتی رہی۔ جب دوبارہ قافلہ چلا تو سڑک کے ارد گرد لاشوں اور نیم مردہ جسموں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ شدید زخمی پانی پانی پکار رہے تھے جن میں بچے زیادہ تھے، جوان بھی تھے مگر قافلے والے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ شیر خوار بچے اپنی ماؤں کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ سورج غروب ہو گیا۔ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کیمپ سے باہر سکھ کسی لاش کو دفن نہیں کرنے دیتے تھے۔ وہ کہتے کہ ان لاشوں کو بھی پاکستان لے جاؤ۔ کیمپ کے اندر ہی لاشیں گڑھے کھود کر دبا دی گئیں۔ ایک لاش جس کا انجام میں آج تک نہیں بھول سکا، ایک پینتیس سالہ آدمی کی تھی۔ لحاف کے اندر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ لحاف کھول کر دیکھا تو مرنے والے کی تین سالہ بچی اپنے مردہ باپ کے گلے میں بانہیں ڈالے رو رہی تھی۔ اس بچی کے لواحقین بچی کو بھی باپ کے ساتھ ہی دفن کرنا چاہتے تھے مگر لوگوں نے بچی کو نکال لیا۔ دوسری منزل کی تیاری شروع ہو گئی۔
گنے چنے لوگوں کے پاس خشک غذا کا انتظام تھا مگر ان کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ کسی پھول سے بلکتے بچے کو بھی ایک لقمہ نہیں دیتے تھے۔ میں ان لوگوں کو بھی بے قصور سمجھتا ہوں وہ وقت ہی ایسا تھا۔ میں اور میرا ماموں زاد بھائی ایک قریبی کنوئیں پر پانی لینے چلے گئے وہاں کوئی رش نہیں تھا۔ کنویں کے قریب پہنچے تو منڈیر سے چند گز کے فاصلے پر ایک دودھ پیتا بچہ پڑا تھا اور انگوٹھا چوس رہا تھا۔ سورج کی کرنیں جھاڑی کی شاخوں میں سے چھن چھن کر اس کے معصوم چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ بچہ اپنے انجام سے بے خبر ہاتھ پاؤں ہلا ہلا کر اپنی نو دس ماہ کی زندگی کا آخری کھیل کھیل رہا تھا۔ کسی ماں کے جگر کا ٹکڑا، کسی بہن کا راج دلارا، کسی باپ کی آنکھوں کا نور بزبان خاموشی آزادی کی کہانی سنا رہا تھا۔ صرف اسی قافلے کے مہاجرین ہی اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ اتنے پیارے بچے کو وہاں کون پھینک گیا تھا …… کیا پاکستان کی قیمت، اس کے تقدس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟
میں اور میرے بھائی نے ادھر ادھر دیکھا۔ ویرانی ہی ویرانی تھی۔ ہم کنوئیں کی طرف چلے آئے۔ ہم نے کنویں کے چبوترے پر چڑھ کر نیچے جھانک کر دیکھا تو خوف سے ہماری آنکھیں بند ہو گئیں۔ کنواں لاشوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم کیمپ کی طرف بھاگ آئے۔ ہمارے تمام ساتھی چلنے کو تیار ہو چکے تھے۔ اب ہماری منزل لال پور تھی۔ راستے میں دو تین کنوئیں آئے جو عورتوں کی لاشوں سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں کود گئی تھیں۔ جب قافلہ اس جگہ سے کوچ کر گیا تو آگے مسلمان ملٹری آ چکی تھی۔ اس نے اعلان کیا کہ اب قافلے کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ پاکستان کی بلوچ رجمنٹ کے جوان تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سینکڑوں مائیں دریائے بیاس کے کناروں پر سرکنڈوں میں اس طرح پھنسی ہوئی دیکھیں کہ ان کے مردہ بچے ان کے سینوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ سینکڑوں مسلمانوں کی لاشیں دریا کے کنارے کنارے سیلاب کی بنی ہوئی جھیلوں میں تیر رہی تھیں اور ان پر گدھ بیٹھے انھیں کھا رہے تھے۔ جب کھائی ہوئی کوئی لاش ڈوبنے لگتی تو گدھ دوسری لاش پر جا کر بیٹھ جاتے۔ بے شمار عورتوں کی لاشیں بھی دیکھیں جو جھاڑیوں میں پڑی تھیں اور انھیں چوہڑے کھینچ کھینچ کر نذر آتش کر رہے تھے اور بعض لاشوں کے بازوؤں اور ٹانگوں کے اوپر سے دسوہہ کا قافلہ گزر رہا تھا۔ جس بد نصیب قافلے کی یہ لاشیں تھیں پتا چلا کہ یہ قافلہ کپورتھلہ کا تھا۔ لوگ جلدی جلدی دریا کا پل عبور کر گئے۔ پھر ہم جنڈیالہ پہنچ گئے۔ یہاں عیدالاضحی آگئی۔ ہماری عید پاکستان پر قربان ہو جانے والوں کو دفن کرتے گزر گئی۔ تیسرے دن جب ہم وہاں سے چلے تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوان، بچے، مائیں اور بہنیں ہزاروں من مٹی کے نیچے دفن ہو چکے تھے۔ تاحد نگاہ ڈھیریاں ہی ڈھیریاں نظر آ رہی تھیں۔ انتہائی بے کسی کی حالت میں ہمارا قافلہ شام کے وقت امرتسر پہنچا۔ رات انتہائی بے چینی سے گزاری ۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ امرتسر سے چار میل کے فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے قافلے والوں کے شور مچانے کے باوجود ایک دودھ پیتا بچہ جھاڑی میں رکھا اور دوڑ کے قافلے میں شامل ہو گئی۔ جھاڑی سڑک سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھی۔ بچہ ہاتھ پاؤں ہلاتا نظر آرہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم واہگہ پہنچ گئے۔ ہمارا استقبال اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے ہوا۔ ہلالی پرچم دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم موت کی وادی سے نکل کر زندگی کی شاداب منزل میں آ گئے ہیں۔’’ (بحوالہ ماہنامہ حکایت، اگست ۱۹۸۰ء)
٭٭٭
ہجرت کے ان لمحات میں ہندو سکھوں نے جو کیا وہ ان کے لیے نیا نہ تھا۔ وہ روزِ اول سے ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ قدرت اللہ شہاب قیام پاکستان سے پہلے ‘‘بہار’’ کی کہانی سناتے ہیں:
‘‘صوبے میں کانگرسی وزارت برسراقتدار تھی۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہاں آٹھ ہزار سے اوپر مسلمان شہید ہوئے لیکن اصلی تعداد کا کسی کو پورا علم نہیں۔ جن علاقوں میں یہ خونی طوفان اٹھا وہاں پر مسلمانوں کی آبادی سات آٹھ فی صد سے بھی کم تھی۔ ہندوؤں کے مسلح جتھے ہاتھیوں ،گھوڑوں اور بیل گاڑیوں پر سوار ہو کر نکلتے تھے، اور گاؤں گاؤں جا کر مسلمان آبادیوں کو نیست و نابود کر دیتے تھے۔ پیدل بلوائیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ٹڈی دل کی طرح پھیلے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ، چن چن کر برچھیوں اور بھالوں سے مار ڈالتے تھے یا گھروں میں بند کر کے زندہ جلا دیتے تھے۔ درجنوں مسجدیں کھود کر ہل چلا دیا گیا۔ سینکڑوں عورتوں نے اپنی عصمت بچانے کی خاطر کنوؤں میں کود کر جان دے دی۔ بہت سے بچوں کو درختوں کے تنوں کے ساتھ میخوں سے ٹھونک کر مصلوب کر دیا گیا۔ ایک بھاری اکثریت کے ہاتھوں ایک قلیل، بے ضرر اور بے یارومددگار اقلیت پر ظلم و بربریت کی اس سے زیادہ گھناؤنی مثال ملنا محال ہے۔
بہار کے بعد یو پی کی باری آئی ۔ گڑھ مکیتسر میں ہر سال ہندوؤں کا میلہ لگتا تھا، جس میں لاکھوں ہندو شامل ہوا کرتے تھے۔ چند ہزار غریب مسلمان بھی اس میلے میں خرید و فروخت کا سامان لے کر جمع ہوا کرتے تھے۔ ایک روز ہندوؤں نے اچانک مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے میلے میں موجود تمام مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہاں پر وسیع و عریض علاقوں میں مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔ گھر لٹ چکے تھے، مسجدیں ویران پڑی تھیں، کنوئیں مسلمان عورتوں کی لاشوں سے اٹا اٹ بھرے ہوئے تھے۔ کئی جگہ ننھے منے بچوں کے ڈھانچے اب تک موجود تھے جنھیں لوہے کے کیل گاڑ کر درختوں اور دیواروں کے ساتھ ٹانک دیا گیا تھا۔ یہ روح فرسا نظارے دیکھ کر گاندھی جی کو غالباً زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ ہندو قوم اتنی نرم دل، امن پسند اور غیر متشدد نہیں ہے جتنا کہ وہ سمجھتے اور پرچار کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف بپھر کر ہندو بھی خونخوار درندگی کا پورا پورا مظاہرہ کرنے پر قادر ہیں۔ گاندھی جی کے، سیکرٹری اور سوانح نگار پیارے لال نے اپنی کتاب "Mhahatma Gandhi: The Last Phase"میں بڑے واضح طور پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بہار کی خون ریزی دیکھ کر گاندھی جی کی آنکھوں سے پردہ اٹھ گیا۔’’ (شہاب نامہ، ص ۲۷۸۔۲۷۹)
خون کا دریا
‘‘ابھی ہماری ٹرین بیاس کے اسٹیشن میں داخل ہو کر آہستہ آہستہ رک رہی تھی کہ اچانک کہیں قریب ہی سے رائفل کی گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر اس کے بعد مزید گولیاں چلیں اور خاموشی چھا گئی لیکن اس اثناء میں توبہ و استغفار کا ورد تیز ہو گیا اور ٹرین میں دبا دبا شور مچنے لگا۔
کچھ لوگوں نے دیکھاکہ اسٹیشن کے پل کے اوپر سے چند آدمی تیزی سے دوڑتے ہوئے ٹرین کی جانب آ رہے ہیں۔ ابھی دھندلکا اتنا گہرا نہیں تھا کہ کچھ دور سے آدمی کو پہچانا نہ جا سکے۔ اسی لیے سرمئی دھندلکے میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ چند سکھوں کا ایک گروہ تھا، جو غالباً پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق گاڑی پر حملہ کرنے آ رہے تھے۔
گاڑی کے ساتھ چلنے والی ڈوگرہ فوج نے ہوائی فائر صرف اشارہ دینے کے لیے کیے تھے لیکن غلط فہمی کی بنا پر حملہ آور یہ سمجھ بیٹھے کہ فوجیوں نے ہم پر گولی چلائی ہے، اسی لیے وہ سب چھپ گئے۔ پھر چند لمحے انتظار کے بعد کچھ آدمیوں کو بات کرنے کے لیے فوجیوں کے پاس بھیج دیا اور پھر دوسرے لمحے نیزوں ، بھالوں، تلواروں اور کرپانوں سے مسلح وہی سکھ حملہ آوروں کا گروہ، فوجیوں کے کمپارٹمنٹ کے سامنے کھڑا ہو کر کسی مخصوص اشارہ سے اپنے مزید ساتھیوں کو بلا رہا تھا۔
آناً فاناً سکھوں اور ہندوؤں کی جنونی یلغار، بے بس و مجبور اور نہتے مسافروں پر ٹوٹ پڑی چونکہ ٹرین کے بیشتر ڈبوں کی کھڑکیاں اور دروازے مضبوطی سے بند تھے جس کی وجہ سے انھیں کھولنے کے لیے حملہ آوروں کو تھوڑا وقت صرف کرنا پڑا۔ لیکن باہر سے بڑے بڑے پتھروں اور کلہاڑیوں کی مسلسل چوٹیں پڑنے سے ٹرین کے بوسیدہ تختے کب تک محفوظ رہ سکتے تھے۔ دوسری طرف وہ کھڑکیاں حملہ آوروں کے بہت کام آئیں جو پہلے ہی سے کھلی ہوئی تھیں۔
آخر کار تھوڑے ہی وقت میں ہر کمپارٹمنٹ کسی قصاب کی دکان کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بہت سے حملہ آور اندر گھس آئے تھے، جو تلواروں، نیزوں اور کلہاڑیوں سے نہتے اور بے بس لوگوں پر مسلسل وار کر رہے تھے۔ حملہ آوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو زخموں سے چور مسافروں کو کھینچ کھینچ کر بوگی سے باہر پھینک رہے تھے، جہاں ہر بوگی کے سامنے بہت سے حملہ آور موجود تھے اور جو باہر گرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کے جسموں کے مختلف حصوں کو نہایت بے دردی سے کاٹ کاٹ کر الگ پھینک رہے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے حملہ آور ایسے بھی تھے جو گرنے والے زخمیوں کو کھینچ کر پلیٹ فارم پر لے جاتے تھے جہاں ایک کنواں تھا، کچھ وحشی قسم کے سکھ وہاں پہلے سے موجود تھے، جو بے رحم قصاب کی مانند ہاتھ پاؤں ، دھڑ اور سر وغیرہ کو بہت سے ٹکڑوں میں کاٹ کاٹ کر کنویں میں پھینک رہے تھے۔
قیامت صغریٰ کا دردناک منظر پیش کرنے والا وہ وقت بھی پاکستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا۔ عورتوں نے اپنے بچوں کو پہلے ہی سیٹوں کے نیچے چھپایا ہوا تھا تمام مسافروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ شیر خوار معصوم بچوں کا رو رو کر تڑپنا دیکھ کر ہمدردانہ دل رکھنے والے ہر انسان کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا۔
شام کے گہرے دھندلکے مزید تاریکی میں ڈوب رہے تھے۔ حملہ آوروں کی اکثریت نے منہ پر کپڑے باندھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی خوفناک لگ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا ظلم و بربریت کا خوفناک دیوتا آج ہی اپنی خون کی پیاس ہمیشہ کے لیے بجھا لے گا۔ ہر مرد، عورت اور بچہ اپنی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا، آہ و بکا اور چیخ و پکار کے ساتھ نفسا نفسی کا عالم تھا، خون کا دریا تھا جو پانی کی مانند بے تحاشا بہ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے حملہ آوروں نے بے شمار عورتوں اور بچوں کو کاٹ کاٹ کر باہر پھینک دیا۔ میری چھوٹی بہن ‘‘مبینہ’’ جو صرف چھ ماہ کی تھی، ابھی تک ماں کی چھاتی سے چپکی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر تک خاموشی سے لیٹے لیٹے جب بچی کو سکون محسوس ہوا تو وہ کھیلنے کے لیے ہاتھ پاؤں چلانے لگی۔ چونکہ اس کے پاؤں میں چھوٹی چھوٹی پازیب پڑی ہوئی تھیں اس لیے کھیلنے سے آواز پیدا ہونے لگی۔ ماں نے کوشش کی کہ اس کے پاؤں پکڑے تاکہ پازیب کی آواز بند ہو جائے لیکن بچی جیسے کھیلنے کے لیے بضد ہو گئی تھی۔پاؤں پکڑے جانے کے بعد اب وہ رونے کی کوشش بھی کرنے لگی۔ ماں نے اسے چپ کرانا چاہا لیکن بے سود۔ اس آواز کے روکنے کی جدوجہد کو کسی دشمن نے سن لیا۔ وہ تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور اس نے آتے ہی اپنا نیزہ بچی کے سینے میں پیوست کر دیا۔ نیزہ کی انی بچی کے سینہ سے پار ہو کر ماں کی پسلیوں کے بھی پار ہو گئی اور معصوم بچی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔’’(بحوالہ : جب امرتسر جل رہا تھا، ص ۲۶۲تا ۲۶۴)
پاکستان کی پہلی عید اور لاشوں پر خواتین کا رقص
‘‘ممتاز بزرگ صحافی جناب وقار انبالوی (جو نوائے وقت میں سرِ راہے کا کالم لکھتے تھے) جالندھر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھی دنوں مغربی پنجاب سے ایک ہندو ڈپٹی کمشنر (جس کا نام سکھانند تھا) گوجرانوالہ سے جالندھر تبدیل ہو کر آگیا۔ باؤنڈری کمیشن کے اعلان تک وہ جالندھر کے مسلمانوں کو اکا دکا قتل کراتا رہا لیکن ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کے روز عیدالفطر تھی۔ اس روز خوف و خطر کی فضاؤں میں جالندھر کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں عید کی نماز ادا کرنے کے لیے عید گاہ میں جمع تھے اور ابھی پہلی رکعت میں سجدہ ریز ہوئے ہی تھے کہ ہندوؤں، سکھوں نے تلواروں، گنڈاسوں، برچھیوں اور بندوقوں سے مسلح ہو کر ان پر حملہ کر دیا اور آن واحد میں سینکڑوں مسلمانوں کے سر تن سے جدا کر دیا جو اس وحشیانہ حملے سے جان بچا کر عید گاہ سے باہر بھاگے، انھیں بھالوں کی نوک پر دھر لیا۔ اس طرح جالندھر کی عید گاہ لاشوں سے پٹ گئی۔ اس کے بعد سکھانند ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں فرقہ پرست ہندو سکھ طے شدہ پروگرام کے مطابق جالندھر کے آسودہ حال اور ذی اثر مسلمانوں کے گھروں سے زبردستی پردہ نشین عورتوں کو گھیر کر عید گاہ تک لائے۔ یہاں ان کے برقعے اور ان کی چادریں ہی سروں سے نہ اتاریں بلکہ ان کے لباس اتار کر انھیں ننگا کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے مردوں کو عید کی مبارک باد کہیں اور قیام پاکستان کی خوشی میں ان کی لاشوں کے آس پاس رقص کریں۔
یہ وحشیانہ سلوک اور سنگدلانہ کارروائی ایسی تھی کہ جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی لاشوں پر ان کو رونے بھی نہ دیا گیا۔ برہنہ حالت میں حیا کی ماری عورتیں جب سکڑنے سمٹنے اور ایک دوسری کے ساتھ لپٹنے لگتیں تو ان کو بھالوں کی نوک چبھو چبھو کر نہ صرف ایک دوسری سے الگ کیا جاتا بلکہ چرکے اور کچوکے اس طرح دیے جاتے کہ وہ تڑپنے لگتیں اور قاتل قہقہے لگاتے۔
وقار انبالوی کے بیان کے مطابق انھی دنوں ان کے فرزند عارف وقار (جن کی اس وقت عمر بمشکل ڈیڑھ برس تھی) کو وحشیوں نے اس وقت برچھے کی نوک پر اچھالا جب اسے شدید بخار کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جا رہا تھا۔ وقار صاحب کے فرزند ارجمند خدا کے فضل سے بقید حیات ہیں اور آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن میں ملازم ہیں۔ ان کے جسم پر برچھے کا نشان آج بھی موجود ہے اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کی گواہی دے رہا ہے۔’’(جب امر تسر جل رہا تھا، ص۲۹۰۔۲۹۱)
پاکستانی مسلمانوں کے لیے عید کا تحفہ
‘‘دشمنانِ پاکستان کی درندگی اور سنگدلی ملاحظہ ہو کہ ۸۰ ہزار کے قریب مسلمان دوشیزاؤں کو اغوا کرنے اور لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے باوجود ان کے غیض و غضب کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی اور وہ مسلمانوں کو کلمہ گوئی اور علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے کے جرم کی پاداش میں اذیتیں دینے کے نت نئے ستم ایجاد کر رہے تھے۔ انھوں نے عید کے موقع پر ہندوستان سے لاہور آنے والی ایک مال گاڑی کے ڈبے میں مسلمان عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیاں، معصوم بچوں کی گردنیں اور کٹے ہوئے ہاتھ عید کے تحفے کے طور پر اسلامیانِ پاکستان کو ارسال کیے۔ جب وہ ڈبہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو اس پر ‘‘پاکستانی مسلمانوں کے لیے عید کا تحفہ’’ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔’’(امرتسر جل رہا تھا، ص ۲۹۱۔۲۹۲)