پندرہ جولائی
پندرہ جولائی آتے ہی میری آنکھوں کے سامنے وہی منظر آتا ہے جب میں مقدونیہ کی ایک بین الاقوامی کانفرنس سے واپس استبول پہنچا اور مقامی پرواز کے جہاز میں سوار ہوا۔ جوں ہی جہاز ہوا میں بلند ہوا تو کپتان نے سیدھے سادے الفاظ میں کہا کہ بغاوت کی گئی ہے ہمیں اگر طرابزون میں اترنے کی اجازت نہیں ملی تو کسی اور قریبی اڈے پر اتریں گے۔جب ہم طرابزون پہنچے اور جہاز اتر گیا تو فضا اذانوں، تکبیر اور صلاۃ وسلام سے گونج رہی تھی ۔میں حالات سے نا آشنا تھا اس لیے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے کہ جہاز کے کپتان بغاوت کا کہہ رہے ہیں اور یہاں مساجد سے لاؤڈ اسپیکروں پر تکبیر اور تحلیل کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
جوں ہی باہر آیا تو ائیر پورٹ کے سامنے انسانوں کا سمندر ایک ہی آواز میں’’یا اللہ بسم اللہ اللہ اکبر‘‘کا ورد کر رہے تھے یقین کریں یہ نعرہ صرف داڑھی والے مردوں اور حجاب والی خواتین کی زبانوں پر نہیں تھا بلکہ جینز اور شارٹس میں ملبوس نوجوان لڑکے، لڑکیوں، مرد اور خواتین کے زبان پر بھی تھا۔ اس رات وہی لوگ گھروں میں رہ گیے تھے جو بیمار تھے یا کسی عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکتے تھے باقی تقریباً ہر ترک اپنے جھنڈے سے کفن بنا کر سڑکوں اور چوراہوں پر اردوغان کے خلاف بغاوت ناکام کرنے کے لیے موجود تھا۔
عجیب بہادر اور منظم لوگ تھے گولیوں، ٹینکوں، ہیلی کاپٹر وں اور ایف سولہ سے نہیں ڈر رہے تھے کیوں کہ ڈر تب ہوتا ہے جب جان کی پرواہ ہوتی ہے وہ تو اس رات اتنے مست تھے کہ بھول گیے تھے کہ ان کے جسم کے اندر جان ہے ان کا کوئی مستقبل یا کاروبار ہے گھر میں بچے یا بوڑھے والدین ہیں ۔چند دن بعد اس کی منگنی یا شادی ہے۔ بس بے پرواہ ہوکر ٹینکوں کے سامنے لیٹتے تھے اور ٹینکوں کے اوپر چڑھ کر نہتے ہو کر اسلحہ سے لیس فوجیوں کو بے اسلحہ کرتے تھے۔صحابہ اور صحابیات کی تاریخ دہرائی گئی تھی بہت سے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے کہ کسی کا پاؤں کٹ گیا تھا کسی کا شوہر اور بھائی شہید ہوا تھا کسی کے بچے الوداع کہہ چکے تھے لیکن ان کے زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ طیب اردوغان کیسا ہے؟ یہی وہ جذبہ ومحبت تھی جس نے ۱۵جولائی کی بغاوت کو ناکام بنا کر ایک نئی داستان رقم کردی۔ بغاوت میں ناکامی کے بعد ہفتوں لوگ گلی کوچوں اور میدانوں میں پہرہ دیتے رہے صبح کی نماز مساجد کے بجائے سڑکوں پر ادا ہوتی تھی اکثریت خواتین کی ہوتی تھی جو شیر خوار بچوں کے ساتھ اس ملک کی سالمیت کے لیے فجر کی نماز تک موجود ہوتی تھیں لیکن کبھی کسی نے نہیں کہا کہ کہیں کسی خاتون کو چھیڑا گیا ہے یہ وہ شعور ہے جس سے اکثر قومیں خالی ہوتی ہیں ۔
اس تاریک دن کے بعد ہر سال پندرہ جولائی سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے جس میں اسی طرح مسجدوں سے صلاۃ وسلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اس ملک کی سالمیت کی خاطر ٹینکوں کے آگے لیٹنے والے بہادروں، شہداء اور زخمیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اس گلشن کی سیرابی ان کے مقدس خون سے ہوئی تھیاور جنہوں نے سابقہ تاریخ سے سبق سیکھ کر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
دیانت اور ذمہ داری
میں آٹھ سال سے جس شہر میں قیام پذیر ہوں اس کا شمار ترکی کے پر امن ترین شہروں میں ہوتا ہے یہاں کے لوگوں کا عجیب مزاج ہے جب ایک مارکیٹ سے نکلتے ہیں تو دوسری مارکیٹ میں ہاتھ میں شاپنگ بیگ کے ساتھ داخل نہیں ہوتے ہیں بلکہ جہاں سے خریداری کی ہے وہاں شاہراہ پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور جوں ہی شاپنگ مکمل کرتے ہیں تو پھر واپسی پر سب کو جمع کرکے گھر کی راہ لیتے ہیں۔
جب بھی کوئی نیا اس شہر میں آتا ہے تو وہ راستے کے کنارے شاپنگ بیگز کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ ایسا کیسا ممکن ہے کہ آپ خریداری کرکے راستے میں چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں اور ایک دو گھنٹہ بعد آکر جہاں سامان رکھا ہے وہاں سے صحیح سلامت اٹھاتے ہیں جو یقینا ایک دوسرے پر اعتماد اور یہاں رہائش پذیر لوگوں کی امانت اور ذمہ داری کی انتہاہے۔
ابتدائی دنوں میں میرے لیے یہ ایک خواب تھا لیکن رفتہ رفتہ میں بھی عادی ہوا اور اب معمول بن گیا ہے کہ جب بھی جاتا ہوں تو بلا خوف وتردد شاپنگ بیگز کے ساتھ ساتھ اپنی سپورٹس سائیکل کو بھی لاک کیے بغیر شاہراہ عام پر چھوڑتا ہوں کبھی کبھار تو دو تین گھنٹے گزرتے ہیں لیکن سائیکل وہی کھڑا رہتا ہے اگرچہ اس شہر میں ایسی نوعیت کی سائیکلیں بہت نادر ہیں۔
آج معمول کے مطابق شاپنگ مال کے سامنے سبزی، مچھلی اور سائیکل کو چھوڑ کر اندر داخل ہوا تو چند لمحے بعد سائیکل کے ساتھ ایک معزز خاتون کو دو بچوں کے ساتھ دیکھا یہ سوچ کر کہ وہ گاڑی کے انتظار میں ہوں گے میں ایک اور شاپنگ مال چلا گیا اور کافی دیر کے بعد آیا تو وہی فیملی وہیں کھڑی تھی جوں ہی میں سائیکل کی طرف بڑھنے لگا تو اس نے فوراً سلام کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب میں آپ کی فلاں سٹوڈنٹ کی ماں ہوں۔ آپ کو پچھلے ہفتے آن لائن کلاس لیتے ہوئے دیکھا تھا۔آپ نے جہاں سائیکل کھڑی کی تھی یہاں اب نئے قانون کے مطابق پولیس سائیکل کواٹھالے جاتی ہے۔ آپ شاپنگ میں مصروف تھے اس لیے میں نے آپکی واپسی تک یہاں رکنا مناسب سمجھا تاکہ آپ کے سامان اور سائیکل کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور آپکو کو کوئی دقّت نہ ملے کیوں کہ آپ ہمارے بچوں کے استاد اور مہمان ہیں۔
میں نے شکریہ ادا کیا اور نم آنکھوں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ پورے راستے میں یہی سوچ رہا تھا کہ میں اس کو کیا عنوان دوں! اس معاشرے میں ایک استاد کے احترام کا یا ایک ذمہ دار شہری کا جس کو یہ احساس تھا کہ اس اجنبی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور یہ ہم سے بد ظن نہ ہوجائے۔
٭٭٭