خالی جیب کا بوجھ

مصنف : حسنین جمال

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : نومبر 2020

زندگی کے سفر میں سب سے بھاری سامان خالی جیب ہوا کرتی ہے۔
یہ بہت کڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بچپن سے اہتمام رکھا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر کہیں غلطی سے امیر ہونے کی سوچ چھو کر بھی نہ گزرے۔پیسہ کمانا الگ معاملہ ہے اور امیر ہونا ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔ روزی روٹی کے لیے سب کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑی بہت تنخواہ ملتی ہے تو سمجھیے سفر چالو ہو گیا۔ لیکن مسافر یہ نہیں سوچتا کہ گزارا ہونا اور فراغت ہونا، بے فکری ہونا، یہ دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔آپ کو بچپن سے ان بزرگوں کے قصے پڑھائے جاتے ہیں جو شدید غربت میں بھی عزت دار زندگی گزارتے تھے۔ جن کے کپڑے پھٹے ہوتے تو وہ پیوند لگا لیتے مگر نئے لباس کا نہ سوچتے۔ جن کے لیے پیسے سے زیادہ اہم ان کا مقصد تھا۔ ایسے بادشاہوں کا بتایا جاتا ہے جو خود بھوکے رہتے لیکن ان کی رعایا پیٹ بھر کے سوتی تھی۔سوچیے کبھی کوئی امیر آدمی کورس کی کتابوں میں ہیرو دیکھا ہے آپ نے؟ ایک ہوتا تھا وہ حاتم طائی، اس کا بھی چکر یہ تھا کہ سخاوت کے مارے وہ بھی مفلسی کے کنارے چھوتا پھرتا تھا۔ حاتم کے علاوہ اگر کسی امیر آدمی کا ذکر ہیرو کے طور پہ آئے گا تو یا تواس نے اپنے خزانوں کے منہ غریبوں کے لیے کھول دیے ہوں گے یا کوئی اور ایسا کام کیا ہو گا جسے فلاح عامہ کہتے ہیں۔کوئی ایسا امیر انسان جس نے خود اپنا پیسہ انجوائے کیا ہو وہ کبھی ہمارا ہیرو نہیں ہوتا۔ اسی چکر میں ہم نے قائد اعظم کی تنخواہ بھی ایک روپیہ مشہور کر دی۔ ہمارے نیک بادشاہ ٹوپیاں سیتے تھے اور باقی سب نے بھی تاریخ کو ٹوپیاں کرا دیں۔ہم ساری عمر اسی وجہ سے کنفیوز رہتے ہیں۔ امیر آدمی کا تصور ہمارے دماغ میں ایک ولن جیسا ہوتا ہے۔ سوچیں، کبھی اگر کوئی آپ کو سیٹھ کہے، تو کیا آپ کمفرٹیبل ہوں گے؟ یا اسے بھی چھوڑیں، آپ اپنی دفتری زبان دیکھ لیں۔ خط کتابت میں لکھا جائے گا فدوی یہ عرض کرتا ہے، احقر کی گزارش ہے، کمترین یہ چاہتا ہے، اور پھر، یہاں سے گزر کے لٹریچر میں آئیں گے تو باقاعدہ فقیر، درویش، حقیر وغیرہ کہلانے کی ٹرائی ماریں گے۔ کیوں؟ آپ حقیر، فقیر کی جگہ اپنا نام ہی کیوں نہیں لکھ دیتے یا لفظ‘ میں’ کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ کیا چکر ہے؟ کیوں پوری قوم غربت کو گلوریفائے کر کے گھوم رہی ہے؟ میں نواب حسنین، سیٹھ حسنین یا کوئی بھی دولت مند قسم کا ٹائٹل تک حاصل کیوں نہیں کرنا چاہتا؟اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے یہاں امیر ہونا باقاعدہ ایسا گناہ ہے جس پر شرمندگی جائز ہے۔ مذہب میں بھی امیروں کی پکڑ زیادہ دکھائی جاتی ہے، کورس میں بھی انہیں ٹھڈے مارے جاتے ہیں، باقی کسر ڈرامے یا فلموں نے پوری کرنی ہوتی ہے۔اب ہوتا کیا ہے۔ ہمارا کانسیپٹ کلئیر نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھئی اصل میں ہم قناعت پسندی کر رہے ہیں جب کہ ہم جو کر رہے ہوتے ہیں اسے غربت میں چادر کھینچ قسم کا گزارہ کہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم سفید پوشی کا بھرم رکھ کے معزز ہو رہے ہیں جب کہ اصل میں صدیوں کی بھوک ہماری آئندہ نسلوں کے دماغوں میں بھی جگہ بنا رہی ہوتی ہے۔ ہم اپنی طرف سے تھوڑا پیسہ آنے پہ حاتم طائی بننے کی خواہش کرتے ہیں، مرنے کے بعد بچے گالیاں دیتے ہیں کہ باپ ماں نے ہاتھ آیا پیسہ بھی نہیں سنبھالا۔عقل کو ہاتھ ماریں۔ غربت میں عظمت ٹائپ کے سبق پڑھانا بند کریں بچوں کو۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری پوری نسل قناعت مارکہ غریبوں میں بدل گئی ہے۔ جو فقرے ہیں لیکن جنہیں لگتا کہ ان کی جہان میں بادشاہی ہے، جب زندگی میں اونچ نیچ ہوتی ہے وہاں ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں کہ پیسے نہیں ہیں تو اب کریں کیا۔ ایک نوکری کرتے ہیں اور ٹھنڈے ٹھنڈے شام کو گھر میں بیٹھ کے مالی مسئلوں پہ دماغ لڑاتے ہیں۔ شام کو آخر دوسرا اور رات کو تیسرا کام کیوں نہیں کرتے؟ کیوں کہ بھائی قناعت میں عزت، غربت میں عظمت، کنگلے پن میں بادشاہی، ملنگی میں سرداری، درویشی میں نوابی اور فقیری میں امیری ٹائپ کے نشے خود بڑے ہمارے ہم کو لگا کر گئے ہیں۔ہم لوگ بی اے کر کے نوکری کا خواب آخر کیوں دیکھتے ہیں؟ کوئی بچہ کبھی دکاندار بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھتا؟ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ بچے کو پراپرٹی ڈیلری سکھائیں گے یا آپ کا بچہ گوشت کی دکان کھولے گا بڑا ہو کے؟ قصائی تک چاہے گا کہ بیٹا بابو بنے کاروبار کو مت پھیلائے۔ کیوں؟یقین کیجیے اس مصنوعی رویے نے ہماری مت ماری ہوئی ہے۔ بچے کو بتائیں کہ بیٹا پیسہ کیوں اہم ہے، اسے کمانا کیوں ضروری ہے ، اسے بچانا کیوں ضروری ہے، اس سے آپ کی ساری فکریں دور کیسے ہوتی ہیں۔۔ نہ۔۔ ایک منٹ!۔۔وہ کیا تھا، پیسہ ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا، پیسہ ہاتھ کا میل ہے، باقاعدہ لاحول ولا قوۃ! اے شدید مطمئن غریب لوگو، یہ دو تین کہاوتیں اس سارے فساد کی جڑ ہیں۔ بتاؤ بچوں کو وہ سب کچھ جو بہت بڑے ہونے کے بعد تمہیں خود سمجھ میں آیا ہے۔ پیسہ ہے تو ہر مسئلے کے بہت سے ممکنہ حل ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ پیسہ ہاتھ کا میل نہیں ہے بلکہ پیسے کمانے والے میلے ہاتھوں میں عظمت ہے۔ عظمت بھی کیا ہے، یہ ایک اور غلط جذباتی لفظ ہے، یوں کہیں کہ پیسے کمانے والا میلا ہاتھ کم روپے کمانے والے صاف ہاتھ سے بہتر ہے۔ پیسے سے محبت خریدی نہیں جا سکتی لیکن گاڑی بنگلہ ہو تو ڈھیر محبتیں ایک وقت میں ہیلو ہائے کر لیا کرتی ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک غریبی کے تقدس کی بات ہے تو یار خدا اس غربت سے بچائے جس میں بھوکے پیٹ ایک روٹی دیکھنے سے ایمان خراب ہوتا ہو اور وہ امارت نصیب کرے جس میں بندہ خود آٹے کی بوریاں بانٹنے والا بن سکے بھلے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتا پھرتا ہو۔
یہ سب مجھے چالیس برس کی عمر میں سمجھ آیا ہے۔ کوئی بول بچن نہیں کرا رہا، میں خود ملنگ ٹائپ آدمی ہوں۔ ایسا ملنگ جیسے گاندھی جی تھے۔ جن کی درویشی کو برقرار رکھنے کے لیے ساتھ سیکیورٹی والوں کا خرچہ بھی ہوتا تھا اور تن پہ جن کے کپڑا نہیں تھا ۔ جن کو بکری کا دودھ ناشتے میں پلانے کے لیے الگ سے بکریاں پالی بھی جاتی تھیں۔ کسی اپنے ملنگ، درویش یا فقیر کی مثال دوں گا تو مارا جاؤں گا، اس لیے گاندھی جی پہ گزارا کریں، پرایوں کو رگڑا لگانا آسان ہے۔تو خیر، کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ فقیری کی عیاشیاں آپ نے کر لیں، ہم نے کر لیں، بچوں کو اس آگ میں نہ جھونکیں۔ پیسے
 کو برا کہنے سے پیسہ برا تو نہیں ہوتا بس آپ کی نسلوں سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اپنا نقصان کر لیا، ان کا مت کریں۔ انہیں آن لائن کوئی چیز بیچنے کی ترغیب دیں، کوئی ہنر پڑھائی کے ساتھ سکھائیں، ان کے ذہن میں ڈالیں کہ میاں پندرہ سولہ سال کے ہو جاؤ تو اللہ کا نام لو اور شروع کرو کوئی کمانے کا دھندہ، پڑھائی وڑھائی ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔ شاید اس طرح بائیس تئیس سال کا ایک ڈگری یافتہ نوجوان خالی جیب کا بوجھ لیے زندگی کے لمبے سفر کی شروعات نہ کرے!اولاد کو پیسے کمانے پر لگائیں، غربت میں عظمت کے بھاشن مت دیں۔
 

بشکریہ : https://youtu.be/XudY0YTzQKg