نقطہ نظر
دھاگے تعویذ اور نظامِ تکوین...
حافظ صفوان
سر سید احمد خاں نے اپنی تفسیرِ قرآن کے ابتدائیے "تحریر فی اصول التفسیر" میں ذکر کیا ہے کہ کائنات ورک آف گاڈ ہے اور یہ ہمیشہ سے انتہائی مربوط اور ناقابلِ تبدیل قوانین و قواعد کے تحت چل رہی ہے خواہ دنیا میں ایمان والے پاکباز لوگ غالب تھے یا بے ایمان بداعمال لوگ۔ کائنات کی اِس سیکولر نیچر کو خدا نے قرآن میں "سنت اللہ" کا عنوان دیا ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ چنانچہ کائنات کی چلت پر کوئی پھونک دھاگہ، کوئی جنتر منتر، کالا جادو، چلہ، وظیفہ، ذکر، ختمِ قرآن، آیتِ کریمہ، ختمِ بخاری، وغیرہ، اثر انداز نہیں ہوتے، اور کسی خیرخواہ یا بدخواہ کی خواہش یا روحانی قوت سے ناگزیر نتائج نہیں بدلتے۔ خوب سمجھنا چاہیے کہ نظامِ کائنات دعاؤں سے نہیں چل رہا اور نہ ہی دعاؤں سے متاثر ہوتا ہے۔ کائنات کے موجد کا انتہائی فضل اور رحمت ہے کہ کسی بھی مخلوق کی خواہش یا دعا اِس کے چلن یا ترتیب میں کوئی خلل نہیں ڈالتی۔ دعا صرف خدا سے مانگنے میں اعلیٰ کیفیت لاسکتی ہے جس سے مذہبی عبادت میں للٰہیت بڑھ جاتی ہے، تاہم ناقص تیاری، ناقص میٹریل یا ناقص کارکردگی کی وجہ سے رہ جانے والی کمی یا ہوجانے والا نقصان کسی دعا، دم درود، چلہ، استخارہ یا چادر چڑھانے سے درست نہیں ہوسکتا۔ مثلًا کھلاڑیوں کی ناقص تیاری اور ناقص کارکردگی کا نتیجہ قوم کی دعاؤں سے درست نہیں ہوا کرتا۔ مال کی کمی مال کمانے سے اور کام کی کوالٹی کی خرابی کارکردگی ٹھیک کرنے سے دور ہوتی ہے۔ اِسی طرح اچھے یا برے نتائج صرف وسائل کی فراہمی نافراہمی اور درست یا غلط عمل کے مطابق ملتے ہیں نہ کہ دعا اور وظیفوں سے۔ خوب سمجھنے کی بات ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے اپنی تمام مہمات کے نتائج اور اہداف کو عملی طور پر حاصل کرکے دکھایا۔ اِن اہداف کے حصول کے لیے نبی کریم نے کبھی کسی محفلِ ذکر یا مجلسِ دعا یا جلسۂ قرأت و نعت شریف منعقد نہیں کیا اور نہ کبھی مدینہ یا مکہ کی دیواروں پر وال چاکنگ کرائی اور نہ جلوس نکلوا کر نعرے لگوائے۔ نبی کریم یا صحابہ نے کسی وبا یا مہنگائی یا دشمن کے حملے وغیرہ کے موقع پر ختمِ قرآن و بخاری یا اذانیں نہیں دیں بلکہ عملی اقدامات کیے۔
صحابہ کے دور میں مسلمان سائنسدانوں کا وجود یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے وہ لوگ بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے، اور اُن کے دور میں مجالسِ ذکر و دعا اور ختمِ بخاری وغیرہ نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ باتیں بعد والوں نے بنائی ہیں۔ خدا سمجھ دے-