نقظہ نظر
شيعہ مكتبہ فكر ميں رسومات كا فروغ
انعام رانا
اسلام وہ خوش نصیب مذہب ہے جسے اپنے آغاز میں ہی پھیلاؤ کے حوالے سے وہ "بینڈ ویگن "نصیب ہو گئی جو اس سے بڑے پیمانے پہ پھیلنے والے دوسرے مذہب يعنی عیسائیت کو کہیں تین سو سال بعد رومن بادشاہ کونسٹنٹین کے قبول عیسائیت کے نتیجے میں ملی۔ عرب جارحیت نے صدیوں سے موجود تہذیبوں کو تبدیل کر دیا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی نظریہ چاہے وہ قومی ہو یا مذہبی، سلطنت کے پھیلاؤ اور بقا کیلئیے پرچم کا کام دیتا ہے۔ اسلام کا سادہ پیغام اپنی ابتدائی صدی میں ہی "عرب امپیریلزم" کیلئے ایک پرچم کا کام دینے لگا اور عرب ہی نہیں غیر عرب ریاستوں اور تہذیبوں پہ لہرانے لگا۔
اسلام کا منفرد پیام، آفاقی پن، بندگی کا سادہ سا مطالبہ اور اسکی پشت پہ موجود ریاستی طاقت نے لوگوں کو اسلام کی جانب کھینچا اور "اسلامی ریاست "یا "عرب ریاست" دنیا کے ایک بڑے خطے پہ قائم ہو گئی۔ یہ پیغام اتنا موثر اور طاقتور تھا کہ موجود قبائلی اور نسلی عصبیتوں اور انکے باہمی ٹکراؤ کے باوجود دریا رواں رہا۔ البتہ بے دریغ پھیلاؤ پیغام کو اتنا اصل اور سادہ نہیں رہنے دیتا جتنا کہ وہ ابتداء میں ہوتا ہے۔ مقامی تہذیب، سیاسی ضروریات اور رسوم و رواج رفتہ رفتہ اس میں آمیزش کرتے جاتے ہیں۔ چنانچہ آج اسلام دنیا کے ہر خطے میں وحدانیت، رسالت اور دیگر بنیادی نظریات کے ساتھ تو ایک ہی ہے لیکن رسوم نے ہر تہذیب میں کئی طور پہ اسے مختلف بھی بنا رکھا ہے۔
کربلا اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ کربلا نتیجہ ہے ایک سے زائد ان تضادات کا جو بہت ابتدائی دور میں ہی پیدا ہو چکے تھے۔ ہم سیدی رسول کریمﷺ کے دور میں نسلی تفریق کو اگرچہ ان کی بابرکت موجودگی کی وجہ سے بہت کم دیکھتے ہیں مگر یہ سینوں میں موجود ضرور تھی۔ اس کے علاوہ عرب قبائل کے جوق در جوق قبول اسلام کے بعد "اہمیت" کی کشمکش بھی موجود تھی۔ چنانچہ اسی لیے قرآن میں خود خدا کو یہ فیصلہ اُتارنا پڑا کہ” برابر نہیں ہیں فتح مکہ سے پہلے اور بعد والے"۔ دوسرا سیدی رسول کریم ﷺ کی حدیث "میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو " یقیناً ایسے ہی نئے اصحاب سے مخاطب تھی جو اپنی اہمیت قائم کرنا چاہ رہے تھے اور فتح مکہ سے قبل کے ان صحابہ رض کی حسبِ مراتب تکریم نہیں کرتے تھے جنہوں نے "اسلام کی غربت" میں اس کا ساتھ دیا تھا۔ افسوس یہ نسلی تفریق رحلتِ نبی کریم ﷺ کے بعد جلد ہی نظر آنے لگی۔ دوسرا پہلو "اسلامی سیاست" کی وہ تشریح تھی جو دور خلافت اور پھر دور ملوکیت میں نظر آتی ہے۔ قبائلی معاشرہ جو فتوحات کے نتیجے میں تیزی سے زرعی ہو رہا تھا اس “سادہ اور ڈھیلے ڈھالے قبائلی ریاستی انتظام” سے باہر نکل چکا تھا جو مدنی ریاست کے ابتدائی دور میں موجود تھا۔ حضرت عثمان رض کی شہادت اس کا پہلا نتیجہ تھی۔ سیدنا علی رض کی بھرپور کوشش کی ناکامی کی وجہ یہ ہی تھی کہ اب سماج کے منہ کو سامراجیت کا مزہ لگ چکا تھا۔ خلافت کی کامیابی کا معیار اسلام کے پیغام پہ عمل سے زیادہ مفتوح علاقوں کی تعداد پہ مقرر ہو چکا تھا۔ امیر شام اس بدلتے ہوئے سماج کی طلب اور سیاسی ضروریات کو نہ صرف سمجھ گئے بلکہ اس کے تقاضوں کو پورا بھی کرنا شروع کر دیا۔ یزید کا بطور وارث تقرر کر کے “اسلامی سلطنت” کو خاندانی بادشاہت بنانے کا فیصلہ ہمسائے میں موجود رومن سماج سے سیکھے گئے اسباق کا ہی نتیجہ تھا۔
ایسے میں سیدنا امام حسین رض نے بطور ابنِ نبی ﷺ اسے اپنا فرض سمجھا کہ اپنے نانا کے پیغام کی سادگی اور اخلاص کو واپس لانے کی کوشش کریں۔ وہ یہ کوشش اقتدار کی کوشش کے ساتھ کرتے یا نہیں، یہ سوال کربلا میں انکی شہادت کی وجہ سے غیر اہم ہو چکا ہے۔ البتہ جو اہم اور قائم ہے وہ انکار کی طاقت، اصول پسندی، اسلام کے اخلاص اور اصل کا عَلم اور “غیر اسلامی” طرز حکومت کے خلاف وہ جہاد ہے جس پہ ناقابلِ لچک رہتے ہوئے انھوں نے اپنے جانثاروں کے ساتھ کربلا میں جان قربان کر دی۔ اس پیغام اور رسول کریم ﷺ کے پردہ فرمانے کے کچھ ہی سال بعد ان کے خاندان پہ ایسے ظلم نے بنو ہاشم کو نسلی اور بہت سے مسلمانوں کو مذہبی طور پہ مائل کیا کہ وہ خود کو اس گروہ سے علیحدہ کر لیں جو ریاست اور اس کی پالیسیوں کا حامی تھا۔ اگرچہ اس واقعہ کے بعد اہل بیت اطہار نے خود کو ہر قسم کی سیاسی کشمکش سے دستبردار کرتے ہوئے اُمت کی فکری رہنمائی کا فیصلہ کیا۔ البتہ وہیں یہ تصور بھی موجود تھا کہ یہ “امامت” سیاسی کشمکش کی بھی متقاضی ہے جیسا کہ امام زید کا موقف اور پھر کوشش تھی۔
اگرچہ “خاندان نبوت” اب فکری رہنمائی کر رہا تھا مگر “اہل بیت” اور “خاندان نبوت” کا نام لے کر دیگر لوگ میدان میں موجود تھے۔ اس میں بڑی کامیابی رسول کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس رض کی اولاد کو ملی، جو اقتدار “حق دار” کو دلانے کا نعرہ لے کر بنو اُمیہ پہ غالب آئے اور بنو عباس کی حکومت قائم کی۔ یاد رہے کہ بنو عباس بھی خود کو “اہل بیت” میں شمار کرتے تھے اگرچہ “بنو فاطمہ سلام اللہ علیہا” کو انھوں نے اقتدار سے ایک ہاتھ دور ہی رکھا۔ اس دوران شیعان ِاہل بیت کا ڈھیلا ڈھالا سا تصور ایک باقاعدہ مکتبہ فکر میں ڈھل چکا تھا اور امام جعفر صادق رض کی فقہ اسکی مذہبی رہنمائی کیلئے موجود تھی۔ اسی مکتبہ فکر میں اقتدار کا اصل حقدار فقط “بنو فاطمہ سلام اللہ علیھا” ہی بنتے تھے۔ چنانچہ عباسی خلفا ء نے تشیع اہلِ بیت سے خود کو دور رکھتے ہوئے ایسی دیگر اسلامی تعبیرات کے قریب کیا جو ان کو سماج کے دیگر سیاسی و فکری طبقات کیلئے بھی قابلِ قبول بنائیں، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ اقتدار تو انہوں نے تشیع اہلِ بیت کو استعمال کرتے ہوئے ہی لیا، مگر اسے اپنایا نہیں کیونکہ یہ ان کے اقتدار کو خطرے میں ڈال دیتا۔ چنانچہ وہ اپنی نوازشات کے ساتھ “اہل ِبیت” یا “بنی فاطمہ سلام اللہ علیھا” کو اپنی “حفاظتی نظر” میں رکھتے رہے ،تاکہ وہ انکے اقتدار کیلئے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔ یہ سلسلہ امام حسن العسکری ع کی وفات تک جاری رہا ،جب تصوّرِ امام مہدی ع نے بات ان کے ہاتھوں یا حفاظتی نظر سے نکال دی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت تک “سنیت” اور “شیعت” فقط سیاسی تقسیم سے بڑھ کر ایک باقاعدہ اور مضبوط مذہبی تقسیم بن چکی تھیں، اسلام کے دریا کے ایسے دو کنارے جو ساتھ تو چل رہے تھے مگر ملنا ممکن نہ تھا۔
تشیع کو بطور سیاسی نعرہ لے کر اقتدار حاصل کرنے کی یا “بنی فاطمہ سلام اللہ علیھا” کے اقتدار کی پہلی کامیاب کوشش کا نتیجہ مصر کی فاطمی خلافت تھی۔ اگرچہ یہ فاطمی خلافت عباسی خلافت کی مانند پھیلاؤ تو نہیں رکھتی تھی لیکن ایک منظم، پُر اثر اور کامیاب ریاست ضرور تھی۔ اقتدار کے بعد پہلی بار یہ موقع آیا کہ تشیع اہل بیت کو یا فکر اہل بیت کو رائج کر سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فکرِ اہل بیت کا مکمل نفاذ فاطمی یا کسی بھی “بادشاہی” ریاست کو سوٹ ہی نہیں کرتا کیونکہ اسکی بنیاد اسلام کے اس اصلی پیغام اور سادگی پہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے دیا۔ اس کا مکمل نفاذ خاندانی بادشاہت یا اب ایک “ماڈرن تصور ریاست” کا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ عوام کو ان رسوم کی جانب موڑا گیا جو عقیدے سے زیادہ عقیدت کو پروان چڑھائیں اور ان کو “فکری ریاست” کا وفادار رکھیں۔
تشیع اہل بیت کو لے کر اقتدار کے استحکام کی دوسری اہم ترین کامیابی فارس کے صفوی دور میں سامنے آتی ہے۔ یاد رہے کہ فاطمی خلافت اپنے فکری اختلاف کے باوجود ایک عرب الاصل ریاست ہی تھی۔ چنانچہ رسوم کا، تصورات کا تنوع بہرحال عربی جڑیں رکھتا تھا۔ اسی لیے ہمیں بہت زیادہ “اجنبیت” کا احساس نہیں ہوتا۔ اس سے قبل ایک کامیاب کوشش “آل بویا” کی ہے جو “نو مسلم شیعہ حکومت” تھی۔ آل بویا یا بواہ کی ابتداء تو بطور زیدی شیعہ ہوئی مگر زیدی فکر ان سے طالب تھی، کہ وہ سیدنا علی سلام اللہ علیہ کی اولاد میں سے امام مقرر کریں۔ اس دوران “غیبت کبریٰ ” نے ان کو موقع فراہم کیا اور انہوں نے اثنا عشری مذہب اختیار کیا۔ اس دور میں عزاداری کو عوامی بنایا گیا اور کچھ نئی رسوم نے تشیع میں دخول کیا۔ اگرچہ یہ “غیر عرب اثنا عشری “ ریاست تھی مگر سنی عباسیوں سے اچھے تعلقات اور فاطمی خلافت سے اختلاف نے انھیں سختی سے تشیع کے نفاذ سے باز رکھا۔ البتہ صفوی حکومت نے تشیع کو باقاعدہ ایک ریاستی پالیسی کے طور پہ اپنایا۔
ایران یا فارس ایک قدیم تہذیب اور سلطنت رکھتا تھا جسے عرب مسلمانوں نے سرنگوں کیا۔ اگرچہ ایران نے اسلام کو تو قبول کیا مگر اپنی تہذیبی برتری اور جداگانہ تشخص کا خیال ہمیشہ موجود رہا۔ اسکے باوجود شاہ اسماعیل کے اقتدار میں آنے تک ایران ایک غیر شیعہ اکثریتی علاقہ ہی تھا۔ سن ۱۵۰۱ میں شاہ اسماعیل کی فتح نے ایران اور شیعت دونوں کو ہی بدل ڈالا۔ اردگرد موجود “سنی” ریاستوں کی موجودگی میں اسماعیل کے پاس “ایرانی” اور “تشیع” دو ایسے ہتھیار تھے جو اسے انفرادیت اور تحفظ عطا کرتے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو ترک یا کرد النسل ہونے کے باوجود اس نے خود کے سید یا آل اہل بیت ہونے کا اعلان کیا اور پھر اثنا عشری فکر کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا۔ اسماعیل نے تشیع کو جس جبری انداز سے نافذ کیا وہ ابتدا ء ہی سے تشیع اہل بیت سے بہت مختلف رستے کو اپنا چکا تھا۔ اسکے علاوہ خود سے ایک الوہیت کو وابستہ کیا گیا کہ وہ کیونکہ تشیع کا نمائندہ ہے چنانچہ اسے خدا اور امامین کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس سیاسی حربے نے اسے مضبوطی تو عطا کی مگر ایسی حد سے بڑھی پُراعتمادی بھی دے دی، جس کی وجہ سے عثمانیوں سے جنگ چلدران میں شکست نے اسے مایوسیوں اور شراب کی ایسی دلدل میں دھکیلا کہ وہ فقط چھتیس برس کی عمر میں مر گیا۔ البتہ اس دوران دو اہم باتیں وقوع پذیر ہو چکی تھیں، اوّل تو اثنا عشری شیعت کو پہلی بار ایسا کامل اقتدار مل چکا تھا اور دوسری جانب ساسانیوں کے بعد پہلی بار فارس یا ایران کو اپنی پرانی عظمت۔ چنانچہ ایران اور اثنا عشریت نے ایک دوسرے کو کھلی بانہوں سے خود میں مدغم کر لیا ،جس نے بعد ازاں “ماڈرن ڈے ایران” کو جنم دیا۔ اب اس اقتدار کی مضبوطی کیلئے ضرور تھا کہ “دشمن” کے مقابلے میں انفرادیت کو مسلسل فروغ دیا جائے اور “عربی پن” کو دور اور اثنا عشریت کو مضبوط کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے عرض کی کہ تشیع اہلِ بیت اطہار تو اقتدار کو “سوٹ” ہی نہیں کرتا، چنانچہ ایک صفوی تشیع نے جنم لینا شروع کیا، جس نے ایسی رسوم کو جنم دینا شروع کیا جو ظواہر کی جانب متوجہ رکھے اور اصل سے نظر ہٹائے رکھے۔ اسی دوران ایک مضبوط طبقہ “علما” کا وجود میں آ چکا تھا جو ریاستی نوازشات سے مستفید ہو رہا تھا اور اسے عوام کو اسی جانب متوجہ رکھنا بہتر لگا۔ اسی دور میں “روضۃ الشہدا” جیسے نئے قصّوں کے ساتھ “جدید کربلا ایڈیشن” کتب اور عزاداری کی ایسی رسوم نے جنم لیا جن کا اس سے قبل کوئی تصور ہی نہ تھا۔ یہ رسوم صفوی دور کی وجہ سے ایرانی سماج میں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ نہ تو ان کو لبرل پہلوی دور حکومت ختم کر سکا اور نہ ہی ان کی مسلسل ترقی و تنوع کو بعد از انقلاب کی ایرانی ملائیت روک پائی۔
برصغیر میں اسلام کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ اسکے پیغام کی سادگی تھی جو جاتیوں میں بٹے لوگوں کو ایک مالا میں پروتی تھی۔ اسی لیے اسلام پچھڑی ہوئی جاتیوں میں تیزی سے پھیلا۔ اسکے علاوہ حکمران کا مذہب ہونے کی وجہ سے اس نے ان طبقات میں بھی قبولیت پائی جو ریاست یا دربار سے فوائد کے متمنی تھے۔ برصغیر میں اسلام کے پھیلاؤ میں ایک بڑا ہاتھ ان صوفیا کا بھی تھا جو کمزور فاطمی حکومت اور پھر ملتان کی مختصر اسماعیلی ریاست کی وجہ سے یہاں موجود تھے۔ البتہ یہ تشیع، تصوف کی روایت کے ساتھ تھا اور مودت اہل بیت اطہار ع پیدا کرنے کی حد تک تھا۔ اس میں ہر مذہب ہر جاتی کو خوش آمدید کہا جاتا تھا ،بھلے وہ اپنے پرانے دھرم پہ قائم رہیں۔ چنانچہ ان صوفیا سے مسلمانوں کی مختلف فکری روایات سے جڑے لوگوں کے علاوہ ہندوستان کے مختلف دھرموں کے لوگ بھی وابستہ تھے جو حب اہل بیت اطہار بھی رکھتے تھے، علی (ع) کا پہلا نمبر بھی گاتے تھے اور عاشورہ بھی مناتے تھے۔ برصغیر میں صفوی تشیع کی روایات کی درآمد ویسے تو ہمایوں کی صفوی حکمرانوں کی مدد سے واپسی سے شروع ہوئی مگر پھر کمزور ہوتی ہوئی صفوی حکومت سے اکثر لوگ ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کیلئے ہندوستان آنے لگے۔ اکثر آنے والے خود کو سید، ایرانی اور کسی نا کسی امام کی اولاد بتا کر بہتر سماجی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ صفوی تشیع کی وہ تمام تر روایات بھی لائے جو اسلام کے سادہ اور بہ نسبت “خشک” پیغام کے بجائے برصغیر کے لوگوں کیلئے فطری طور پہ زیادہ قابل قبول تھیں۔ ایک شہزادہ جو ایک نبی/اوتار کا نواسہ ہے ،اسے ایک دھرشٹ نے بھوکا پیاسا صحرا میں مارا ،اور اس کے گھر والوں کو بندی بنا کر کربلا سے شام کا سفر کروایا۔ رام راون کے قصوں سے آشنا کانوں کو یہ سب کچھ اپنا اپنا سا لگا اور پھر رسوم نے ایک دوسرے کو متاثر کرنا شروع کیا۔ چنانچہ ان علاقوں میں جہاں یہ ایرانی سیّد زیادہ تھے، صفوی تشیع بھی زیادہ مقبولیت پانے لگا۔ اس سلسلے میں اودھ کی ریاست نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ ایرانی شیعہ سیّد ، سعادت علی خان کی بادشاہی سے شروع ہونے والی اس ریاست نے تشیع اور اہل تشیع کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کی اور باقی کے برصغیر سے سنی ظلم کا شکار اہل تشیع نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ اسی دوران البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی عروج اور مغل سلطنت زوال پا رہی تھی۔ اودھ کی بادشاہی بھی دن بہ دن مالی و انتظامی مشکلات کا شکار تھی اور وہی اودھ جہاں آصف الدولہ کے دور میں محاورہ مقبول تھا کہ “ اگر علی مولا سے نہیں ملتا تو آصف الدولہ سے مل جائے گا” اب قدموں پہ آنے لگ گئی تھی۔ ہر تنزّل پذیر معاشرے کی مانند یہاں بھی پناہ مذہب میں تلاش کی گئی ، ایسے طبقات وجود میں آئے کہ جن کا معاشی مفاد ان سب سے وابستہ تھا اور عام عوام کی اوہام پرستی نے اپنا حصّہ ڈالا۔ چنانچہ آصفوی اودھ نے صفوی تشیع میں ایسی نئی رسومات و جدت پیدا کی کہ موجودہ تشیع کافی حد تک تشیع آصفیہ ہی کہلائے گا۔ چہلم، ربیع الاوّل تک کا سوگ، مختلف آئمہ کی شہادت کی یادیں، اس دوران شادی نہ کرنا، عاشور پہ سرخ ہوتی تسبیحاں، گھوڑے اور پنگوڑے، تابوت، تعزیہ، زنجیر زنی، آگ کا ماتم، چارپائیاں اُلٹا دینا، جناب قاسم کی مہندی، نوحہ خوانیاں اور کچھ ہی گھنٹوں میں ختم ہو جانے والے سانحہ کربلا میں ہر دس سال بعد کسی نئی روایت کا انکشاف، صفوی تشیع سے لے کر آصفی تشیع تک کا تسلسل ہے۔ البتہ ایک چیز جو اکثر ہی مفقود رہی، وہ اصل پیغام اہل بیت اطہار یا تشیع اہل بیت تھا۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے وہاں سے ہجرت کی جہاں تشیع آصفیہ کا زور تھا۔ چنانچہ یہ اپنے ساتھ وہ روایات بھی لائے۔ وہ علاقے جہاں اب پاکستان قائم ہے، یہاں تشیع اور حب اہل بیت اطہار کی روایت زیادہ تر صوفیا کی وجہ سے پھیلی تھی اور کئی رسومات ان کیلئے نئی تھیں۔ چنانچہ بہت سے مقامی لوگوں نے پرانی روایات سے جڑے رہتے ہوئے اپنی عقیدت کو برقرار رکھا۔ البتہ ریڈیو ٹی وی کی سہولت نے تشیع آصفیہ کو زیادہ پھیلانا شروع کیا۔ اسی دوران انقلاب ایران اور پھر اس انقلاب کے ثمرات سمیٹ کر وجود میں آنے والی جدید شیعہ ایرانی ریاست نے ایک بار پھر ہلچل پیدا کی۔ ایران نے انقلاب کو پھیلانے کا اعلان کیا تو عرب دنیا نے اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا۔ ایران کے پاس تشیع اور عربوں کے پاس “سنیت” بلکہ سعودیوں کے پاس اسکی جدید ترین شکل “وہابیت” موجود تھی، جسے اس سیاسی کشمکش میں بھرپور استعمال کیا گیا۔ اسکے اثرات پاکستان میں شدید تر ہوئے اور مذہبی منافرت نے اہل تشیع کو بطور طبقہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں “شیعہ اتحاد” کی اہمیت لازمی ٹھہری۔ چنانچہ تشیع اہل بیت، تشیع صفوی اور تشیع آصفیہ کا فرق کافی حد تک مٹ گیا تاکہ “قوم” کا دفاع کیا جا سکے۔ اسکے علاوہ تشیع سیاسی نے پاکستان کے اہل تشیع کو ایسے ہی ایران سے جوڑ رکھا ہے جیسے روہنگیا کے اقلیتی مظلوم مسلمان کو کسی مضبوط مسلم ریاست سے۔ اب تمام تر رسومات مشترکہ ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں جدت اور اضافہ پیدا ہوتا رہے گا۔
ایسے میں ایک حساس طبقہ فکر ایسا بھی ہے جو تشیع اہل بیت اطہار سے خود کو جوڑے رکھتا ہے اور رسوم سے زیادہ پیغام اور عقیدت سے زیادہ عقیدے میں یقین رکھتا ہے۔ آپ اسے اصلاحی تشیع کا نام دے سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس صدی کے تقاضوں کے مطابق تشیع کی ایسی شکل کی جانب لانا چاہتے ہیں جو اصل پیغام اور اسکی روح سے جوڑے، جو ایسی رسوم کا مخالف ہے جو تعلیمات آئمہ اطہار سے متصادم ہے اور جو من گھڑت جذباتی قصوں کے بجائے حقائق کی بنیاد پہ تشیع کی شاندار فکری روایات کا فروغ چاہتا ہے۔ وہ تشیع، مارکسزم کی مانند جس کا اقتدار میں آنا ضروری نہیں ہوتا مگر اسکی موجودگی سماج میں لبرل بھیڑیئے کو قابو میں رکھتی ہے۔ ہمارے دوست سید آل رضا (ابو جون) کافی عرصے سے یہ کوشش کر رہے ہیں اور انکی ہمت اور کمٹمنٹ پہ رشک آتا ہے کیونکہ دریا کے بہاؤ کے مخالف بہت ہمت اور ایمان والے ہی چلتے ہیں۔ ان کا یہ مقالہ انکی ان ہی کوششوں کا تسلسل ہے جو تشیع اہل بیت میں در آئی صفوی و آصفوی رسومات سے اسے پاک کر کے ایک ایسے تشیع کی شکل میں سامنے لانے کی سعی ہے جو تشیع اہلبیت اطہار کا مقصود و مطلوب رہا تھا۔
یہ مضمون بطور مقدمہ محترم ابو جون رضا کی کتاب "عزا سے عزاداری تک "کیلئے لکھا گیا۔