القصیم کا مخرج اور پھر ابیار ِ علی کا سائن بورڈ۔
ابیارِ علی کا قدیمی نام ذوالحلیفہ ہے یہ وہ مقام ہے جہاں پر،پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، حج پر تشریف لے جاتے ہوئے،احرام باندھا تھا اور آج بھی مدینہ پاک سے مکہ جانے والا ہر زائرحرم یہیں پر احرام باندھتا ہے۔‘‘وہ دُور جو مینار نظر آرہے ہیں،مسجد قبا کے ہیں۔’’ڈرائیور صاحب نے پہلی بار کسی مقام کے بارے میں لب کشائی کی تھی۔ہم نے اشتیاق بھری نظروں سے اُدھر دیکھا لیکن اتنی دیر میں وہ مینار دیو ہیکل عمارتوں کے پیچھے چھپ گئے تھے۔اب ہمیں اندازہ ہو گیا ،کہ ارض مقدس اب کچھ ہی دور ہے۔کیونکہ بستی قبا ، وہ پہلی بستی تھی جو میرے آقا علیہ السلام کی پہلی میزبان بنی تھی۔گویایہ سیکنڈ لاسٹ تھی،second last،اِس کے بعد مدینہ آنا تھا،بس چلتی چلی جارہی ہے اورشہر مدینہ آچکا ہے ۔
جھکاؤ نظریں ،بچھاؤ پلکیں،یہ شہر محبوب کی گلیاں ہیں۔خوبصورت کشادہ سڑکیں اور آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں زیب ِ نظر ہیں۔پروگرام کے مطابق،ڈرائیور صاحب نے ہمیں اور ہمارے دیگر ہمسفروں کواپنے ہوٹل میں پہنچانا تھا۔مختلف شاہراہوں پر چلتے چلتے ،یہ لیجیے جناب،وہ سامنے مسجد نبوی شریف کے مینار بھی نظر آگئے اوراور بس چلتی رہی اور پھر ایک گلی میں موڑ کاٹ کر ایک ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ہماری کمپنی کے حسن بھائی پہلے ہی ہوٹل کے باہر پہنچے ہوئے تھے،وہ ہمارے استقبال کو آگے بڑھے اور ہمیں بس سے نیچے تشریف لانے کوکہا اور ہم پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے تحفے ارسال کرتے بس سے نیچے اُتر آئے۔ اُترتے ہوئے حاجی صاحب نے کہا کہ یہ ڈرائیور صاحب آپ لوگوں سے بخشیش مانگ رہا ہے۔ دو دو چار چار ریال اِسے دیتے جاؤ۔ہم سب اِس پر بڑے حیران ہوئے لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ اُسے دینا ہی پڑا۔ہوٹل میں ہمارے لیے پہلے ہی کمرے مختص ہو چکے تھے۔حسن بھائی نے ہمیں ہمارے مختص کمرے کی چابیاں تھمائیں اور ساتھ ہی بتایا کہ یہاں آپ چاروں کے ساتھ ایک پانچواں بندہ بھی رکھنا ہے،بتائیے کس کو رکھیں؟ حاجی صاحب نے کہا کہ،‘‘ویسے توآپ کی جومرضی ہو،جس کو ٹھیرائیں ،ہمارا کیا اعتراض،ہماری مرضی تو یہی ہے کہ ہمارے ساتھ اور کوئی نہ ہو۔’’حسب معمول حسن بھائی مسکرا پڑے ،کہنے لگے مجبوری ہے ،انھوں نے گجرات کے قاری صاحب کو ہمارا پانچواں رومیٹ بنا دیا۔ہم چابیاں لے کر،لفٹس کی طرف آئے۔مکہ میں ہوٹل ،اِس ہوٹل سے تو کہیں بہتر تھاالبتہ یہاں ہمیں بنگالی نظر نہیں آرہے تھے۔شکیل بھائی نے بھی یہ بات نوٹ کر لی اور ہوٹل کی گلی میں سے گزرتے ہوئے کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب ،لگتا ہے کہ ‘‘بینگولیز’’ سے یہاں ہم محفوظ رہیں گے۔’’ بنگالیوں کوہماری شکیل بھائی بینگولی بولا کرتے تھے۔
سورج غروب ہونے کو تھا ،ہم کمرے میں پہنچے۔جلدی جلدی سامان رکھا ،غسل کیا اور نئے سفید کپڑے زیب تن کئے اور شکیل بھائی اور یہ خاکسار ،حرم جانے کے لیے کمرے سے باہر نکل آئے۔ہمارا ہوٹل مسجد نبوی کے جنوب مغربی کونے میں واقع تھا۔ہوٹل سے نکلتے ہی ہم ،ہجوم عاشقاں میں شامل ہوگئے جو سوئے حرم روانہ تھا۔ مسجد نبوی سے اذان مغرب کی صدا گونجنا شروع ہوگئی اور ہم نے قدم تیزتر کیے۔مدینہ میں ہونے کی خوشی اور سرور نے، ہمارے جسموں کے اندر بجلی سی بھر دی تھی۔مومنوں کا ایک سیلاب تھا جو مسجد کی طرف رواں دواں تھا اور ہم بھی اُس کا حصہ تھے۔مسجد پاک کے دروازے،مینار اور سبز گنبد ہماری نظروں کے سامنے تھے۔کیا ہمارے مقدر تھے کہ آج ، ہم ایسے گناہ گار،مسجد نبوی شریف میں نماز ادا کریں گے۔یہ سوچتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔مسجد کی چاردیواری میں بنائے گئے باب نمبر ۶۔بی سے ہم، مسجد پاک کے صحن میں داخل ہوگئے ہیں،اتنے میں اذان مغرب ختم ہو گئی اور صفیں بننا شروع ہو گئیں۔اُدھر نماز کے لیے اقامت کی آواز آتی ہے۔مسجد کی طرف بڑھتے قدموں میں تیزی آتی ہے،اک سر سراہٹ ہے چاروں طرف ، مسجد کی طرف بڑھتے قدموں کی چاپ ہے جس کی سریلی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے اور یہ لیجیے جناب! ہم اب ایک صف میں آ چکے ہیں اور نمازمغرب شروع ہو جاتی ہے۔
پیچھے اس امام کے،اللہ اکبر،ساتھ ہی چشم نم سے موتی اُترنے شروع ہوجاتے ہیں۔
مسجد کے باہر ، جنوبی صحن میں بچھی قالینی صفوں پر ہمیں جگہ مل گئی تھی اور ہم امام حرم مدنی کی اقتدا میں ،مسجد نبوی میں اپنی پہلی نمازادا کر رہے تھے۔ جس کے اندر،اپنے اللہ کی کرم گستریوں کا تصور کر کے ہماری آنکھیں چھاجوں برستی رہیں۔پتہ ہی نہ چلا اورموتیوں کی لڑیوں میں ہی نماز ختم ہوگئی۔
جماعت کی نماز کے بعداجتماعی دعا کا تو، حرمین میں رواج ہی نہیں ہے اس لیے سلام پھیرتے ہی لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،میرا ساتھی بھی اُٹھنے لگا،تومیں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیااور عرض کی،‘‘شکیل بھائی!رش دیکھ رہے ہیں، ابھی تشریف رکھیں،درود شریف پڑھتے رہیں،رش کم ہو جائے، توپندرہ منٹ بعدہم یہاں سے اُ ٹھیں گے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی پیاری جالیوں کے پاس سلام کے لیے حاضر ہو نگے۔’’
سبز گنبد کے مکین کے حضور:
مسجد نبوی شریف،ایک بہت وسیع و عریض مسجد ہے جس کے چاروں طرف کشادہ صحن ہے۔ہم جنوبی صحن میں،نماز کے لیے بچھی قالینی صفوں پر بیٹھے تھے۔حرم کعبہ کی طرح ،یہاں بھی کافی رش تھا اور نماز کے بعد صحن میں خاصی چہل پہل تھی۔مسجد نبوی روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی ۔دِن کا سماں تھا موسم میں گرمی اور حدت برقرار تھی۔پانی کی پھوار چھوڑنے والے پنکھے ،اپنا کام بخوبی کر رہے تھے اور انھوں نے ماحول خوشگوار بنایا ہوا تھا۔یہاں زائرین میں ہم وطن پاکستانیوں کی غالب اکثریت کو دیکھ رہا تھا ۔ سیاہ فام بھائی بھی کثرت سے تھے۔ عرب، بنگالی، ترک، ایرانی ،انڈوونیشین،غرض تمام قومیں نظر آرہی تھی۔اُمتیوں کا ایک حسین گلدستہ سجا تھا۔کچھ دیر بعدمیں نے اپنی جگہ سے اُٹھتے ہو ئے اپنے دوست سے عرض کی‘‘آئیے چلیں،سرکار کی حاضری کے لیے چلتے ہیں۔ یہ مدینہ پاک ہے یہاں صرف ادب ہی ادب اور احترام ہی احترام ہے۔یہ وہی مدینہ ہے جس میں ہونے کی آرزوکرتے کرتے زندگی گزر گئی اور آج ہم یہاں ہیں۔ آج ہم اُس شہر دِل پذیر میں ہیں جس کو دیکھنے کے لیے ہر مسلمان کا دِل تڑپتا ہے۔یہ سامنے مسجد نبوی کا جودروازہ ہے ،اس کا نام باب السلام ہے،اس سے ہم،مسجد میں داخل ہونے کی مسنون دعا پڑھتے ہوئے اندر داخل ہوں ہونگے،درود شریف پڑھتے ہوئے،مسجد کے ہال میں، سیدھے چلتے چلے جانا ہے۔ آخر میں،بائیں ہاتھ پر روضہ شریف کی جالیاں ہیں،وہاں سے سلام عرض کرتے ہوئے،ادب و احترام سے چلتے چلتے، ساتھ ہی واقع دروازہ سے باہر آ جانا ہے۔’’
شکیل بھائی کی دربار اقدس میں یہ پہلی حاضری تھی ،اِ س لیے میں نے ذرا تفصیلی بات کی۔مزید عرض کی کہ،‘‘ رش زیادہ ہے،ہم جدا ہو سکتے ہیں،آپ ،سلام عرض کرنے کے بعد،باہر نکل کر صحن میں بیٹھ کرمیراانتظار کرنا اوراگر میں پہلے نکلا ،تو میں وہیں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گا۔’’
باتیں کرتے کرتے ہم قدیمی مسجد کے باب السلام تک پہنچ گئے۔یہ مسجد کے جنوب مغربی کونے میں واقع ہے۔ دروازے کے باہر ابھی تک رش موجود تھا۔میں نے شکیل سے کہا کہ پہلے جتنی بار یہاں حاضری کی سعادت ملی ہے اِس دروازے پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا،کبھی نہیں ،یہ حیران کن تھا ۔ آہستہ آہستہ ،رش کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے ہم مسجد کے اندر ہال میں داخل ہو گئے اور ہجوم کے ساتھ ہی روضہ رسول کی طرف سرکنا شروع ہوئے۔ مسجد نبوی شریف کے جنوب مشرقی کونے میں وہ مقدس کمرہ ہے جس کے اندر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دو یاروں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ آرام فرما ہیں۔یہ وہی کمرہ ہے جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ مبارک تھا،جہاں میرے آقا ﷺ اپنی پیاری زوجہ کے ساتھ زندگی گزارتے رہے اور جس حجرے میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اور یہ وہی کمرہ ہے جس کے اوپر سبز گنبد زیب نظر ہے اورجو محبان رسول کے لیے ایک استعارہ الفت بن چکا ہے۔اور یہ بندہ عاجز،پورے ادب و احترام کے ساتھ، نظریں جھکائے،پلکیں بچھائے، اشک ندامت ساتھ لیے اور لبوں پر درودو سلام سجائے، زائرین کے ہجوم کے درمیان، آہستہ آہستہ مقدس سنہری جالیوں کی طرف بڑھ رہا ہے اور بھائی شکیل بھی میرے ساتھ ساتھ ہے۔مسجد کے ماحول میں ،چاروں طرف محبوب کے جلوے بکھرے تھے ۔ روحانی فضا تھی اور معطر ماحول تھا۔عاشقوں کا اژدہام،لیکن نہ کوئی شورش نہ کوئی ہنگام۔
ایک قسم کی مقناطیسیت ہے،کشش ہے،جو سب کو ایک طرف کو کھینچ رہی ہے۔سب دم سادھے ،خاموشی سے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مرقد پر انوار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اب میں پیاری پیاری جالیوں کے قریب پہنچ چکا ہوں ۔ان مقدس جالیوں کو چھونا تو کجا، میں تو اُن کی طرف دیکھنے کی بھی جسارت نہیں کر سکتا۔سر جھکا ہوا ہے اورحضور ﷺ کا غلام درود شریف پڑھے جا رہا ہے اور ہجوم کے ساتھ ساتھ آگے کو کھسکتا جا رہا ہے۔باب السلام اور باب البقیع آمنے سامنے ہیں۔باب السلام،مسجدکی مغرب کی سمت میں اور باب البقیع،مسجد کی مشرق کی سمت میں ہے۔ہم باب السلام سے داخل ہوئے تھے اور اب حضور پاک ﷺ کے دربار عالی میں سلام عرض کرنے کے بعد ،سب زائرین باب البقیع کی طرف بڑھ رہے ہیں اور باہرنکل رہے ہیں۔ہم بھی دونوں بھائی،اُسی ہجوم کے ساتھ چلتے چلتے ،باہر نکل آئے ہیں۔
مسجد پاک کے اِس طرف بھی رش کا وہی عالم ہے جو ہم باب السلام کی طرف سے دیکھ کر آئے تھے۔ہر طرف زائرین کرام کارش بڑھ رہا تھا ۔
مسجد نبوی میں آج ہمارا پہلا دِن تھابلکہ دِن تو ساراسفر میں گزار آئے تھے،اب تو رات ہو چلی تھی۔ مکہ المکرمہ سے یہاں تک ، ساڑھے آٹھ گھنٹے لگ گئے تھے ۔خاصی تھکاوٹ تھی۔الحمد للہ،کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حاضری ہوگئی اور ہدیہ سلام بھی پیش کر چکے،اب حضور انور کے،سبزگنبد والے روضہ پاک کی زیارت ہو رہی تھی۔اب ہم مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں آ چکے تھے۔ہجوم عاشقاں میں موجودتھے اورروح محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب تھے۔میں گاہے سبز گنبد کی طرف دیکھتا اور گاہے نظریں جھکا کر درودوسلام پڑھنے لگ جاتا۔یہ جگہ جہاں پر اب ہم سبز گنبد والا روضہ پاک دیکھتے ہیں،اصل میں تویہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تھا،وہ حجرہ جس میں آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہتے تھے۔باقی ازواج مطہرات کے حجرے یا کوارٹرز بھی یہیں آس پاس تھے۔ واہ رے اللہ ! تیرا کرم ،تو ہمیں کہاں لے آیا!
نماز عشا ء کا وقت قریب آرہا تھا۔میں نے شکیل بھائی سے کہا کہ،‘‘ آیئے ،مسجد کے مین ہال کے اندر چلتے ہیں۔ نماز عشاء وہاں کسی جگہ ادا کریں گے۔یہ مسجد مختلف ادوار میں ،مختلف صاحبان اقتدارکی کاوشوں سے توسیع و تعمیر کے مراحل سے گزری ہے۔وہ حصہ بھی موجود ہے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تعمیر کروایا تھا۔اور یہ جو سامنے ہمارے شاندار عمارت ایستادہ ہے یہ موجودہ سعودی حکمران خاندان کے ایک سپوت ،فہد کے عہد ِحکومت میں تعمیر ہوا ہے۔اِس کے چاروں طرف دروازے ہیں اور ہم اِس وقت مسجد نبوی کے‘‘ باب بلال’’ کے سامنے موجود ہیں،آیئے اندر چلیں۔’’اِس طرح باتیں کرتے کرتے ہم اندر پہنچ گئے۔اِس ہا ل کی خوبصورتی، تزئین و آرائش اور وسعت کو دیکھ کر ،آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ہال کے اندر ،جہاں تک نظر جاتی تھی،انسان ہی انسان تھے۔ ہمارے اندر داخل ہوتے ہی ،اذان عشاء شروع ہوگئی۔کیاہی مترنم آواز ہے ،مسجد نبوی کے مؤذن کی،یااللہ! ہمیں کہاں لے آئے ،جہاں کبھی سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز گونجا کرتی تھی۔مؤذن کہہ رہا ہے ، اشھد ان محمد الر سول اللہ ،میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں،میں اپنی قسمت پر ناز کرتا ہوں کہ آج میں یہ جملہ وہاں سن رہا ہوں، جہاں کبھی میرے آقا سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،بلال کی آواز میں خودسنا کرتے تھے۔کیا واقعی میں یہاں ہوں ،مسجد نبوی میں ہوں ،یہ خیال آتے ہی آنکھیں ایک بار پھر برسنا شروع کر دیتی ہیں۔نماز ہال میں چلتے چلتے ،ہم صفوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں ۔لیجئے جناب،عشاء کی جماعت کھڑی ہوگئی، قد قامت الصلوٰۃ ،قد قامت الصلوٰۃ ،اللہ کریم کا فضل ہے کہ ہم بھی اِس نماز کی جماعت کا حصہ تھے۔ امام صاحب کی شیریں اور لذت آفریں قرأت سے مستفید ہوئے۔ نماز عشاء ادا کر کے ،ہم دونوں واپس اپنے ہوٹل میں آ گئے
یہاں بھی ،یہ روٹین بتائی گئی تھی کہ عشاء کی نماز کے بعد کھانا دیا جائے گا۔ہم ہوٹل کی طعام گاہ میں آگئے، بوفے لگا دیا گیا تھا، کھانا لے کر ٹیبل پر بیٹھ گئے ،ہمارے باقی ساتھی بھی آہستہ آہستہ کر کے،میس میں ہی آ گئے۔ہم سب نے اکٹھے کھانا کھایا ،ہم سب کی یہ رائے تھی کہ کھانا اُس معیار کا ہرگز نہیں ہے جس معیار کا کھانا مکہ مکرمہ میں پیش کیا جاتا تھا اور یہ ہوٹل بھی بحیثیت مجموعی اُس معیار کا نہیں ہے جس معیا رکا مکہ شریف میں تھا۔بہر حال،پھر بھی، میرے مالک کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں کھلایا ،پلایا اور یہ کہ ہمیں اپنے ماننے والوں میں شامل فرمایا۔ یہ سب اُس کا کرم ہے،وہ اگر یہ بھی نہ عطا کرتا تو کیا ہمارا اُس پر ہمارا کوئی زور تھا۔
۲۹۔جولائی بروز سوموار مدینہ پاک کی نورانی صبح:رات بڑے اطمینان سے سوئے،ایک بھر پور نیند کا لطف لینے کے بعد،سحری کے وقت ہی،بفضل تعالیٰ بیدار ہوگیا۔ہم کمرہ ساتھیوں کو جگا کر،تیاری کرکے سوئے حرم روانہ ہوا۔یہ ہماری مدینہ طیبہ کی پہلی نورانی صبح تھی ۔اگرچہ موسم گرم ہی تھا لیکن بڑانرم تھا،یہ مدینہ تھا جہاں مکہ مکرمہ کی نسبت ،موسم عمومی طور پر نرم رہتا ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی باد نسیم کے جھونکے جسم و جان کو فرحت بخش رہے تھے۔ہوٹل سے نکلتے ہی، سبز گنبد اورمسجد نبوی کے نورانی مینار نظر نواز ہو گئے اسٹریٹ لائٹس آن تھیں،ذی قعدہ کے آخری راتوں کا چاند منظرسے غائب تھا ۔ مسلمانوں کا ایک جم غفیر اس وقت بھی ،مسجد نبوی کی طرف رواں دواں تھا۔ہمارے اندر ایک سرشاری تھی، ایک بے تابی تھی اورہم ایک نمایاں چاہت کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔مسجد پاک کی مغربی سمت اور جنوبی سمت سے(یہ سمتیں ہمارے سامنے تھیں ،کیونکہ ہمارا ہوٹل اس سمت میں واقع تھا)، زائرین دھڑا دھڑمسجد کی طرف بڑھ رہے تھے۔فضا میں ایک قسم کا سکوت ،نرماہٹ، ،ٹھیراؤ،احترام اورالفت کے جذبات جھلکتے تھے۔ہر طرف جمال نبوی ﷺکے جلوے ہیں۔ مسجدنبوی ہزاروں برقی قمقموں سے جگمگا رہی ہے ۔ہر طرف روشنیوں کا سیلاب ہے اور اُس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے دوردور سے آتے دکھائی دے رہے تھے۔اِس سیلِ رواں میں ،خاکسار بھی ،مانند تنکا چل رہا ہے۔عشاق کایوں گنبد خضریٰ کی طرف کچھے چلے آنا ، ایک نہایت شاندار قابل دید منظر ہو تا ہے ۔ گو اِن میں پاکستانیوں کی اکثریت تھی لیکن ہر ملک اور ہرقوم کا بندہ موجودتھا۔ کالے بھی تھے ، گورے بھی ، انڈونیشیا کے بھی،ملائیشیا کے ،مغرب کے مشرق کے ،عربی بھی عجمی بھی ، گویاایک ست رنگ گلدستہ کھِلا ہے اُمت کا!حرم مکی کے برعکس ،یہاں مسجد نبوی میں ، خواتین کے لیے،مسجد کے مین ہال کے اندر اورباہرصحن میں،نماز پڑھنے کے لیے الگ سے انتظام کیا گیا ہے ۔ اُس مخصوص مقام کی طرف ،بڑھتی ہوئی، ہماری عفت مآب مائیں بہنیں بھی نظر آ رہی ہیں۔خواتین کی تعداد ،حیران کن حد تک،بہت زیادہ ہے۔
ہم کوشش کرتے ہیں کہ مسجد کے ہال کے اندر ،ریاض الجنۃ میں پہنچ کر نفل پڑھیں ۔ ہمارے ہوٹل سے ،باب السلام ہی سامنے پڑتا تھا،اُس سے گزر کر،ہم مسجد کے ہال میں داخل ہوئے۔ہال کے اندر داخل ہوتے ہی ہماری اُمیدوں پر پانی پھر گیا جب ہم نے،وہاں زائرین کا بے پناہ رش دیکھا۔معلوم پڑتا تھا عشاق آدھی رات سے ہی یہاں براجمان ہیں۔ریاض الجنت تک پہنچنا توکجا ،اب تواگر اس قدیمی مسجدمیں ہی جگہ مل جائے تو غنیمت ہے۔ بہر حال اس چلت پھرت کے دوران میں ہی اذان فجر کی سحر انگیزاورروح پرور آواز گونجی۔اذان کی اس خوش کن سماعت کے دوران میں ہی، ہم آخر، قدیمی مسجد میں ، کہیں آخری صفوں میں سے ایک صف میں اپنی جگہ بنا نے میں کامیاب ہوہی گئے ۔
نماز کے بعد،خواہش تھی کہ ریاض الجنۃ میں حاضری ہو جائے ،اور الحمدللہ بدقت تمام، یہ سعادت بھی نصیب ہوگئی۔ ریاض الجنۃ ،مسجد نبوی کا وہ مختصر سا حصہ ہے جو سیدہ عائشہ کے حجرہ مبارک اور مسجد کے منبر کے درمیان ہے۔ اس ٹکڑے پر ہی اکثر پاک نبی آیا جایا کرتے تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حصے کو ہی جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قراردیا ہے۔اس میں ہونے کا احساس ہی ایک عجب احساس ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آجکل زائرین کرام کا رش بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لیے آپ وہاں زیادہ دیر ٹھیر نہیں سکتے ،ہم بھی جنت کے اس ٹکڑے سے نکل کر،مقدس جالیوں کے سامنے ،لرزیدہ لرزیدہ ،ایک بار پھرحاضر ہوئے اور آنجناب کے حضور تحفہ درود سلام پیش کرتے ،باب البقیع سے باہر آ گئے۔
مضیف امام حسنؓ:مدینہ طیبہ میں سب سے بڑی زیارت تو مسجد نبوی ہی کی زیارت ہے۔مسجد نبوی کو تفصیل سے دیکھنا خاصا وقت طلب کام ہے اور پُر مشقت بھی۔کچھ حصے کی زیارت کر لی تھی،زیادہ باقی تھی ،اِس کو کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہوئے،میں ،اپنے دوستوں کے ساتھ ،ہوٹل میں واپس آ گیا کیونکہ آج کا یہ پروگرام طے ہوا تھا کہ شکیل بھائی کے ایک دوست ،جو کہ سعودی عرب کے شہر سکا ک الجوف میں کام کرتے ہیں ، وہ آج تشریف لا رہے ہیں اوروہ ہمیں مدینہ شہر کی سیر کروائیں گے۔مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ طیبہ، دونوں شہروں میں جگہ جگہ تاریخ و سیر کے نقوش پائے جاتے ہیں۔حج و عمرہ پر جانے والے حضرات ،بڑے ذوق و شوق سے اِن تاریخی مقامات کی سیر کو جاتے ہیں کسی شہر کی سیر یا دورہ کو عربی زبان میں زیارت کہا جاتا ہے۔ہماری اردو زبان میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے لیکن یہاں اس لفظ کو ایک قسم کا تقدس عطا کردیا گیا ہے ۔ اِس پس منظر میں ہم لوگ حجاز کی اِن سیر گاہوں کو،اُن کی نسبت خصوصی کے باعث،محبت و عقیدت کا مقام دیتے ہیں اور اُسی جذبے کے ساتھ اِن جگہوں کی سیر کو جاتے ہیں ۔ اِن زیارتوں کو رواج دینے میں ٹرانسپورٹ والوں کا بھی بڑا حصہ ہے جنھوں نے اِس کام کو منافع بخش کام کی شکل دے دی ہے اور بلاشبہ ،ہزاروں لوگوں کا روزگار اِن زیارتوں سے وابستہ ہو گیا ہے۔مکہ کی نسبت ،مدینہ طیبہ میں یہ زیارت گاہیں زیادہ تعداد میں بھی ہیں اور کاروباری حضرات کی توجہ کا مرکز بھی۔ہم جس کمپنی کے ساتھ حج پر گئے تھے،گو اُس نے بھی ہمیں زیارتیں کروانے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا لیکن ہم نے بوجوہ اپنے طور پر جانے کا فیصلہ کیا۔ حسب وعدہ ،شکیل بھائی کے دوست جاوید اقبال صاحب دس بجے دِن ہمارے ہوٹل میں تشریف لے آئے ۔ ہم پہلے ہی نہا دھو کر تیار ہوچکے تھے اور جاوید کے آتے ہی ہم اُس کے ساتھ ہو لیے۔آپ ایک سنجیدہ ، باوقار، شائستہ،خلیق اورملنسار نوجوان ہیں۔بڑی دور سے ،ہم فقیروں کی خدمت کے لیے تشریف لائے تھے۔مدینہ طیبہ کی گلیوں میں وہ جس طرح آزادانہ اورواقف کارانہ طریقے سے گاڑی چلا رہے تھے اُس سے اندازہ ہوا کہ وہ یہاں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ،‘‘جاوید بھائی! لگتا ہے آپ یا تو مدینہ میں رہے ہیں یا اکثر یہاں آنا ہوتا رہتا ہے۔’’بڑے پیار سے کہنے لگے،‘‘ ڈاکٹر صاحب ۱یہاں سعودیہ میں ایک ہی تو جگہ ہے کہ جو ہمارے دِل و ایمان کا مرکز ہے۔آپ کی بات ٹھیک ہے میں یہاں اکثر حاضر ہوتا رہتا ہوں۔مدینے کی گلیوں میں ،مولا خوش رکھے،چلناپھرنامیری خوش قسمتی ہے۔’’ مولا خوش رکھے ،اُن کا تکیہ کلام تھا،جس سے مجھے کچھ شک گزرا کہ ہو نہ ہویہ ہمارے شیعہ بھائی ہیں،اور یہی بات ہمارے ساتھی اکرم صاحب نے بھی محسوس کر لی اور انھوں نے مجھے سرگوشی میں بتا بھی دیا لیکن ہم دونوں نے نہ ہی اِس شک کی تصدیق چاہی اور نہ ہی ہم نے کسی قسم کا اظہار کیابلکہ ہم گفتگومیں محتاط بھی ہو گئے تاکہ ہماری کسی بات سے انھیں کوئی پریشانی نہ ہو۔سب سے پہلے وہ ہمیں بیئرغرس پرلے گئے،پھر ،امام زین العابدین کی رہائش گاہ کی دُور سے زیارت کرواتے ہوئے مضیف حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں لے آئے۔ یہ ایک قدیم باغ تھا۔وسیع و عریض باغ ۔ کھجور کے سینکڑوں درخت تھے۔اور بھی کئی قسم کے درخت لگائے گئے تھے،پھلدار دار بھی اور سایہ دار بھی۔اندر داخل ہوکر ،مختلف سائن بورڈ پڑھ کر،مجھے اندازہ ہوگیا کہ ہم شیعہ حضرات کے کسی مرکز میں آگئے ہیں۔جاوید صاحب نے اِس باغ کا یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ یہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رہائش گاہ ہے اور اب تک اُن کی نسل میں ہی چلی آرہی ہے۔بہت بڑا تاریخی حوالہ تھا،لیکن مجھے کوئی زیادہ اندازہ نہیں تھاکہ یہ تاریخی طور پر وہی مقام ہے۔لیکن یہ بات یقینی ہوگئی کی یہ باغ اور اِس میں موجود عمارات، مدینہ میں شیعوں کے ایک مرکز کی حیثیت ،ضروررکھتا ہے۔پرانے طرز کا باغ ہے۔ عمارات اور اُن کے طرزِتعمیر سے قدامت جھلکتی ہے۔باغ کے اندر کی سڑکوں اور روشوں کی تعمیر بھی پرانے طرز کی تھی اور اُن کی خستہ حالی بھی عیاں تھی۔ باغ کی ہر چیز سے تاریخ اور قدامت جھلکتی ہے۔ایسی چیز ہمیں بہت (fascinate)کرتی ہے اور فقیربڑی دلچسپی اورتجسس سے ایک ایک چیز دیکھ رہا تھا۔اِس باغ میں ایک مسجد بھی تھی اور امام بارگاہ بھی۔ایک مطبخ بھی موجودتھا اور طعام گاہ بھی۔بتایا گیا کہ یہاں روزانہ لنگر چلتا ہے اورشیعہ مسلک میں منائے جانے والے مختلف ایام میں یہاں مجالس بھی برپا ہوتی ہیں اور لنگر بھی تقسیم ہوتا ہے۔خاص طور پر محرم الحرام کے دنوں میں یہاں خاصا رش ہوتا ہے۔مسجد میں شیعہ اذان گونجتی ہے اور باقاعدہ جعفری مسلک کے مطابق نماز با جماعت کا بھی اہتمام ہے۔ معلوم ہوا کہ مدینہ میں اثناعشریہ شیعوں کی ایک خاصی آبادی قدیم سے چلی آرہی ہے اور یہ مقام اُن کے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔مسجد اور امام بارگاہ میں اعلیٰ قسم کے قالین بچھے تھے ۔ مختلف آئمہ کرام اور علما کرام ،ماضی کے بھی اور حال کے بھی ،کے نام اور کئی ایک کی تصویریں بھی ،دیواروں پر سجی تھیں۔ماضی قریب میں ،سعودی عرب کے شیعوں کے ایک قائد کا مختلف حوالوں سے ذکر سن رکھا تھا،وہ ہیں ،الشیخ محمد علی العامری،معلوم ہوا کہ یہ مضیف ،انھی کی رہائش گاہ تھا اور اب اُن کے بیٹے ہاشم بن علی العامری ،اِس مضیف کے انچارج اور مسجد کے امام ہیں ۔ اُن سے ملاقات بھی ممکن تھی لیکن ہمارے پاس وقت انتظارنہ تھا۔پہلے جتنی بار مدینہ طیبہ آنا ہوا ،یہ جگہ اور شیعوں کے حوالے سے کوئی اور مقام کبھی بھی زیر نظر نہیں آیا تھا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مدینہ طیبہ میں اِس طرح کا کوئی مقام وزٹ کر رہے تھے۔میں حیران بھی تھااور متجسس بھی۔میرا یہ احساس ہے کہ یہ بڑی دلکش جگہ تھی لیکن اتنے بڑے رقبے پر مشتمل باغ اور اُس کے اندر کی گئی تعمیرات کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش ،جتنی ہونی چاہیے تھی ،اتنی بالکل نہیں تھی ۔یقیناً ایسا محدود بجٹ کے باعث ہوگا اور یہ توعیاں تھا کہ جتنا کچھ موجود ہے یہ صرف اور صرف کسی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے کسی سرکاری گرانٹ یا حکومتی امدای رقوم کی بدولت نہیں ہے ۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ باغ ،مدینہ طیبہ کے کس محلے یا علاقے میں ہے۔ہمارے وہاں موجودگی کے وقت تو چند ایک زائرین تھے،لیکن ہمارے سامنے ہی ایرانی زائرین کی دو بسیں آ کر رکیں ۔ اِس جگہ کی قدروقیمت،ایرانی زائرین کی بدن بولی سے سمجھ آرہی تھی۔جس عقیدت اور محبت اور عزت و احترام سے ،وہ اِس مقام کا دورہ کر رہے تھے،ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ہم کتنی اہم تاریخی جگہ پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جاوید صاحب نے ہمیں کوہ سلع،کوہ اُحد،بیئر عثمان اور مسجد قبلتین کی بھی زیارت کروائی۔اُس دِن ظہر کی نماز ہم نے مسجد قبا میں جاکر ادا کی اور پھر ہوٹل واپس آگئے۔ان سب مقامات کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔(جاری ہے)