پرانے وقتوں سے جنگوں کا ایک اصول رہا ہے کہ آخری صفوں کو ہمیشہ مضبوط رکھا جاتا ہے اور یہاں سے منسلک سپلائی لائن کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ دوران جنگ کمک ملتی رہے۔ ٹھیک یہی اصول ہمارے اندر بھی کارفرما ہے۔ ہم ہمہ وقت وائرس سے لے کر رویوں تک ان گنت دشمنوں سے نبرد آزما ہیں اور رہیں گے۔
ہماری مجموعی طبعی عمر کے علاوہ ہماری مختلف صلاحیتوں کی حد عمر بھی الگ الگ ہے مثلاً ایک کھلاڑی کی جسمانی استعداد کی عمر کم ہوتی ہے اور ہم اسے جوانی میں ہی ریٹائرڈ دیکھتے ہیں لیکن ایک ادیب اور سائنسدان کی ذہنی استعداد کی عمر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور طبعی عمر کے آخری حصے میں بھی اپنے کام میں مگن رہتا ہے۔
ہماری ذہنی استعداد ہماری آخری دفاعی لائن ہے یہ مستحکم ہے تو ہمیں درپیش چیلنجز میں کوئی پریشانی نہیں لیکن یہ کمزور ہے تو پھر ہم چاہے کسی بھی عمر سے تعلق رکھتے ہوں ہم ناکام ہیں۔ جس طرح وقت اور علم کی بڑھوتری کے ساتھ ہر شے کی پرکھ گہری ہوتی جا رہی ہے اسی طرح نسل در نسل ہم آج اس مقام پر ہیں کہ ہماری بیماریاں گہرائی کی جانب سفر کرتے آج ہمارے ذہن پر حملہ آور ہوچکی ہیں۔ جی ہاں موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہماری ذہنی صحت کو درپیش ہے۔ مسئلہ وسائل کی کمیابی کا اتنا نہیں جتنا کہ ادراکی cognitive قوتوں کی تھکن کا درپیش ہے۔ اندازہ لگائیے آج ہمارے پاس جو کچھ موجود ہے گزرے وقتوں میں یہی سب سے بڑی خواہش تھے۔ مجھے یقین ہے کہ تب یہ بھی سوچا گیا ہوگا کہ بس اتنا مل جائے تو مزید کی کوئی چاہ نہیں۔ آج جب وہ موجود ہے تو ہم گزرے وقتوں کی نسبت زیادہ پریشان ہیں۔ دانا کہتے ہیں کہ مسئلے کے حل کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ اس کی جڑ تک پہنچ کر اسے کاٹ دیا جائے اگر یہ ممکن نہیں تو اسے خوش دلی سے قبول کرلیا جائے اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو اس کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا جائے جہاں یہ بھی مشکل لگے تو جان جائیے کہ ادراکی استعداد میں خاطر خواہ کمی آچکی ہے اب مسئلہ باہر نہیں بلکہ اندر موجود ہے اور جب بھی اندر کی بات آئیگی تو علاج بھی خود ہی کرنا پڑے گا۔ باہر سے کمک مل سکتی ہے ڈھارس مل سکتی ہے طریقہ کار مل سکتا ہے لیکن فیض نے جس نشتر کو سفاک مسیحا کا نام دیا ہے وہ نشتر خود ہی چلانا ہے۔ کیسا علاج کارگر ہو؟ اب سنئیے یہاں اگر میں بچے کی طرح ضد پر اڑ جاوں اور آپکو بار بار یہ بتاتا رہوں کہ ہمیشہ کچھ اچھا سوچتے رہنا ہے تو یہ ایک بچگانہ سی کوشش ہوگی کیونکہ لاتعداد تلخ تجربات انسان کے ذہن کو اس قدر numeric بنا دیتے ہیں کہ وہ اب خالی خولی تسلیوں کو اپنی تجربہ گاہ میں پرکھے گا اور یکسر مسترد کردے گا۔ قابل عمل اور موثر راہ بس یہی ہے کہ ایک تلخ صورتحال میں یا اس کے بعد جتنی جلدی ہوسکے ہم کچھ دیر کے لیے '' کچھ بھی نہ سوچنے'' کا فن سیکھ لیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ہمیں چار اطراف سے لوگ زدوکوب کر رہے ہوں تو اس دوران ہم کچھ بھی اچھا سوچنے سے قاصر ہیں لیکن اگر کسی طرح ہمیں وہاں سے نکال کر ایک اونچی جگہ پر کھڑا کر دیا جائے تو کچھ ہی دیر میں ہم چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ادراکی قوتوں کی استعداد میں کمی درحقیقت ذہنی تھکن ہے اور ہمیں یہ اصول پلے باندھنا ہوگا کہ جسم کو آرام کی ضرورت ہے، ذہن کو سکون کی ضرورت ہے اور شخصیت کو اطمینان کی ضرورت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آرام اور اطمینان کا راستہ ذہنی سکون سے ہوکر گزرتا ہے۔ ذہنی سکون تبھی ممکن ہے جب ہم اسے کچھ دیر کے لیے کچھ بھی نہ سوچنے پر قائل کر دیں پھر خود ہی دیکھ لیجیے گا چیزوں اور واقعات سے متعلق ہماری سوچ اور فکر میں نمایاں تبدیلی آجائے گی۔ یہاں خارج میں مسئلے کی ماہیت وجہ نہیں بلکہ اس کے خلاف ہمارے ردعمل کی کیفیت وجہ ہے اگر ہر جگہ مسئلے کی ماہیت وجہ ہوتی تو کسی بھی ایک مسئلے کے خلاف ہم سب کا ردعمل بالکل یکساں ہوتا جو کہ نہیں ہے۔
ذہنی صحت کا راز توازن میں پوشیدہ ہے اور عدم توازن درحقیقت خود کو قبول نہ کرسکنے کی روش ہے اسی لیے تو ہماری خود سے نہیں بنتی اور اندر جذبات کے ہیجان اور بغاوت کی کیفیت ہے۔ ٭٭٭
خود کو قبول کرنا سیر ہونے سے مشروط نہیں بلکہ بڑی حد تک یہ اپنی تشنگی کو کوئی خوبصورت اور بامقصد راہ دکھانے سے مشروط ہے۔