کہتے ہیں کہ ھُدھُد اور کوے کی پانی کے ایک گڑھے کی ملکیت کے دعوے پر لڑائی ہو گئی۔ دونوں کا کہنا تھا کہ پانی کا یہ گڑھا اس کی ملکیت ہے اس لئے دوسرا فریق ادھر نہ آیا کرے۔ لڑائی کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو دونوں نے پرندوں کے قاضی کے پاس جانے کی ٹھانی۔ قاضی نے دونوں کا مدعا سن کر فریقین سے کہا کہ مجھے گڑھے کی اس جگہ کے ملکیتی کاغذات تو دکھاؤ تاکہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی رہے کہ اصل مالک کون ہے؟فریقین کی خاموشی پر قاضی نے جان لیا کہ معاملہ گڑھے کی ملکیت کا نہیں، گڑھے پر قبضے کا ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد قاضی نے فیصلہ سنا دیا کہ یہ گڑھا ھُدھُد کی ملکیت ہے اور وہی اس کے پانی کے استعمال کا حقدار ہے۔ ھُدھُد نے تعجب بھری نظروں سے قاضی کو دیکھا اور حیرت سے پوچھا: جناب عالی، مجھے مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں ہوجانے کی خوشی تو ہے مگر فیصلہ کرتے ہوئے آپ کے اعتماد پر تعجب بھی ہے۔ آخر کس بات نے آپ کو اتنا ٹھوس فیصلہ سنانے پر مجبور کیا ہے؟قاضی نے ھُدھُد سے کہا: ہم عہد سلیمانی سے یہی سنتے، کہتے اور جانتے آ رہے ہیں کہ صداقت ھُدھُد پر ختم ہے۔ جب بھی کوئی مثال دینی ہو تو کہتے ہیں کہ ''اصدق من ھُدھُد -96 یعنی فلاں سچا بلکہ ھُدھُد سے بھی زیادہ سچا ہے''۔ اور آج اگر میری خوش قسمتی سے میری عدالت میں ایک ھُدھُد کا مقدمہ آ بھی گیا ہے تو میں ساری تاریخ، ساری کہاوتیں، ساری مثالیں اور ساری حکایتیں پس پشت ڈال کر کہہ دوں کہ نہیں ھُدھُد جھوٹا ہے، بخدا مجھ سے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ ھُدھُد نے قاضی کی ساری باتیں سن کر کچھ دیر خاموشی اختیار کی، پھر گویا ہوا: جناب والا، میں وہ والا ھُدھُد تو نہیں جس کی صداقت کی وجہ سے ھُدھُد پاک طینت اور سچی خبریں لانے والے مشہور ہوئے مگر میں نہیں چاہتا میری وجہ سے ھُدھُد بدنام ہوں۔ میں اپنی نیک نامی بچانے کے لیے پانی کے اس، اور اس جیسے مزید ہزار گڑھوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ آپ یہ والا گڑھا کوے کو دے دیں۔
دیکھیئے: آپ کی نیک نامی اور آپ کی شہرت نے آپ کی عمر سے زیادہ جینا ہوتا ہے۔ مرتے دم تک اس کی حفاظت کیجیئے تاکہ آپ کے بعد بھی لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد
کریں۔