اوباما کی جیت سے چند روز قبل لکھا گیا کالم، جو ان کی جیت کے بعد بھی پاکستان کے پس منظر میں حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے
باراک اوباما اگر چار نومبر کو جیت گئے تو امریکہ کے چوالیسویں اور پاکستان بننے کے بعد بارہویں صدر ہوں گے۔ وہ پاکستان جہاں ہر امریکی انتخاب کے موقع پر کوئی نہ کوئی اس تمنا کا اظہار کر دیتا ہے کہ اللہ کرے ری پبلیکن امیدوار جیت جائے۔کیونکہ ڈیموکریٹک صدر سے تو پاکستان خیر کی توقع نہیں کرسکتا۔اس تمنا کی بنیاد یہ تاثر ہے کہ ریپلیکن انتظامیہ پاکستان کی ہمدرد اور ڈیموکریٹک انتظامیہ بھارت نواز ہوتی ہے۔
ایسی معصومانہ دلیل وہ لوگ دیتے ہیں جو بین الاقوامی تعلقات اور انفرادی تعلقات کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔مثلاً جس طرح اللہ دتا میرا یار ہے اسی طرح چین بھی پاکستان کا یار ہے۔جس طرح میرا چچازاد طفیل مجھ سے جلتا ہے اسی طرح بھارت بھی پاکستان کا حاسد ہے۔جس طرح استاد اسلم ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیتا ہے اسی طرح کا معاملہ سعودی عرب اور پاکستان کا بھی ہے۔جس طرح فیکا پنکچر والا مجھے ادھار سودا دیتا ہے اسی طرح ریپبلیکنز پاکستان کے کام آتے ہیں اور جس طرح نیازو مجھ سے خواہ مخواہ کی اڑی کرتا ہے ویسی ہی عادت پاکستان کے معاملے میں امریکی ڈیموکریٹس کی بھی ہے۔
یہ بات ان سادہ لوحوں کی سمجھ میں کب آئے گی کہ بین الاقوامی تعلقات یاری اور دشمنی، روٹھنے اور منانے ، قول و قرار ، وفا اور بے وفائی جیسی اصطلاحات سے عاری ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کھلی منڈی کے کاروباری سودوں کی طرح ہوتے ہیں۔جس کو جو شے جتنی قیمت پر جب تک مناسب لگتی ہے وہ اسی دوکان سے سودا خریدتا ہے ورنہ اگلی دوکان کی جانب بڑھ جاتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو سن پچاس کی دھائی میں ہند چینی بھائی بھائی کے نعرے لگانے والے سن باسٹھ میں ایک دوسرے پر بندوقیں نہ تانتے۔عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے کہتے سامراجی کتا نہ پکار رہے ہوتے۔ویتنام کو اپنا مظلوم بھائی جتانے والا چین سن اناسی میں اسی ویتنام کی ٹھکائی نہ لگا رہا ہوتا۔اسرائیل کو ناسور کہنے والا مصر اسی اسرائیل سے گلے نہ مل رہا ہوتا اور پہلوی ایران کو جڑواں بھائی سمجھنے والے پاکستان کے خمینی ایران سے سوتیلے بھائی جیسے تعلقات نہ ہوتے۔اور تین جنگیں لڑنے والے پاکستان کا صدر یہ نہ کہہ رہا ہوتا کہ بھارت تو پاکستان کے لیے کبھی خطرہ تھا ہی نہیں۔
اسی طرح اگر امریکی ڈیموکریٹس پاکستان کے دشمن ہوتے تو لیاقت علی خان کو سوویت یونین کا ہاتھ جھٹک کر صدر ٹرومین سے ملنے کی اتنی عجلت کیوں ہوتی۔ پاکستانی انتظامیہ کیوں اٹھلا اٹھلا کر سب کو بتاتی کہ ایوب خان کی تو ڈیموکریٹ جانسن سے یاری ہے۔اسی طرح اگر ری پبلیکنز پاکستان کے دوست ہوتے تو نکسن کا ساتواں بحری بیڑہ سن اکہتر میں چٹاگانگ تک کیوں نہ پہنچ پایا۔ ریپبلیکن فورڈ کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کو دھمکی دے کر فرانسیسی ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کیوں رکوا ئی۔ ریپبلیکن ریگن پاکستان کو افغان جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے جمہوریت کی قیمت پر ایک فوجی آمر کی خوشامد کیوں کرتا رھا۔ ری پبلیکن بش سینیر کے زمانے میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں کیوں لگیں۔اور ان کے ہی صاحبزادے بش جونئیر کی انتظامیہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی کیوں دی اور پاکستان کے تحفظات کے باوجود بھارت کو جوہری ٹیکنولوجی کی منتقلی کا سمجھوتہ کیوں کیا۔
اب کوئی بتائے کہ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس اپنی ریاستی ضروریات کے دوست ہیں یا ان میں سے ایک پاکستان کا دوست ہے اور دوسرا دشمن۔ویسے بھی اس بارے میں اتنی ٹینشن لینے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ جون مکین نہ سہی باراک اوباما سہی !
نوکر کی تے نخرا کی!