سٹیٹ بنک ترمیمی بل پر اہل اقتدار کے بیانات سنے تو سلطنت عثمانیہ کا ’ فرمان رمضان‘ اور’ فرما ن محرم‘ یاد آ گئے۔اب بیٹھا سوچ رہا ہوں کیا ہم بھی اپنی معیشت کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو عثمانیوں نے اپنی معیشت کے ساتھ کیا تھا؟سلطنت عثمانیہ کتنی بڑی سلطنت تھی لیکن ایک وقت آیا اسے قرض لینا پڑ گیا اور اس نے یورپی ممالک کے آگے دست سوال دراز کر دیا۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ دربار شاہی اور اس سے جڑی اشرافیہ کے غیر معمولی اخراجات تھے۔ قرض لیا جاتا رہا اور اللوں تللوں کی نذر ہوتا رہا۔ یعنی وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔قرض کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے ، ہر قسم کی بالادست اشرافیہ مزے میں ہے ، غیر معمولی تنخواہیں ہیں ، پلاٹ ہیں ، ہوش ربا مراعات ہیں لیکن عوام کو ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے اپنا کنواں خود کھودنا پڑتا ہے۔ اسے معلوم نہیں اربوں ڈالر کا یہ قرض کہاں سے آیا اور کہاں گیا۔ بس اسے یہ معلوم ہے کہ قرض آیا تھا لگ گیا اب اس پر سودا ور اقساط کی ادائیگی کے لیے قربانی دینے کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ آئے روز لوگ سو کر اٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے فلاں فلاں چیزمہنگی ہو چکی۔جو کسر رہ گئی تھی ، منی بجٹ تیار ہے ، وہ پوری کر دے گا۔
قرض لے لے کر اور بے رحمی سے کھا کھا کرایک وقت آیا کہ سلطنت عثمانیہ کا دیوالیہ نکل گیا۔ قرض کا پہاڑ کھڑا تھا لیکن اس قرض سے سلطنت میں ایسا کچھ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا جس سے اتنا زر مبادلہ حاصل ہو پاتا کہ قرض کی ادائیگی ہی ہوتی رہتی۔ چنانچہ 1875میں’ فرمان رمضان ‘ جاری کیا گیا اور دنیا کو بتا دیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ کے پاس آپ کا قرض ادا کرنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ دیوالیہ ہو گئی ہے۔
سلطنت کا جغرافیائی سقوط تو بعد میں جا کر ہوا لیکن اس کی معاشی خود مختاری کا خاتمہ اس فرمان رمضان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔
جب نوبت یہاں تک آن پہنچی تو جنہوں نے قرض دے رکھے تھے وہ اکٹھے ہو گئے کہ اب سلطنت عثمانیہ کی معاشی پالیسیاں ہم ترتیب دیں گے۔ اب اہم فیصلے ہم کریں گے۔ طے پایا کہ اب ٹیکس کب کہاں اور کتنا لگنا ہے اس کا فیصلہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلامت نہیں کریں گے بلکہ اس کا فیصلہ وہ کریں گے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کو قرض دے رکھا ہے۔ بادشاہ سلامت نے تھوڑی بہت مزاحمت تو کی ہو گی اور یقیناً دربار میں تشریف لا کر فرمایا ہو گا کہ ایک تو آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے لیکن بالآخر ہوا وہی جو مالیاتی طاقتوں نے چاہا۔چنانچہ چند ہی سال بعد 1881 میں مجبوری کے عالم میں سلطنت عثمانیہ نے معاشی سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کیے اور ’فرمان محرم‘ جاری کر دیا گیا۔فرمان محرم گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب سلطنت عثمانیہ کے ’ سٹیٹ بنک‘ پر سلطنت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ اب مالیاتی بندوبست کو عالمی مالیاتی قوتیں براہ راست دیکھیں گی۔ انہی کا عملہ آئے گا۔ وہی پالیسیاں بنائیں گے‘ وہی ٹیکس کا تعین کریں گے،۔وہی ٹیکس وصول کریں گے۔چنانچہ فرمان محرم کے تحت یورپی ممالک نے سلطنت عثمانیہ کی معیشت کا نظام سنبھال لیا۔ یہ اپنے لوگ لے کر آئے۔ ان کی اپنی معاشی ٹیم تھی۔ اپنے ماہرین تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی ’وزارت خزانہ ‘ اور سارا مالیاتی ڈھانچہ بے بس ہو گیا۔ یورپی اہلکاروں نے ’ ریاست کے اندر ریاست‘ بنا لی۔ بندرگاہوں سے لے کر بازاروں تک ہر طرف انہی کی پالیسیاں چل رہی تھیں۔ ایک متوازی معاشی بیوروکریسی کھڑی کر دی گئی۔کوئی ترقیاتی کام بھی ہوتا تو انہی کی اجازت اور تعاون سے ہوتا ۔ انہوں نے ٹیکسوں کا انبار لگا کر رہی سہی مقامی معیشت کا بھی کباڑا کر دیا۔ایک نئی معاشی پالیسی آئی اور ہر اس شعبے میں باہر سے سستا مال مارکیٹ میں ڈالا گیا جس میں مقامی سطح پر کوئی پیداوار ہو رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی معیشت برباد کر دی گئی۔ایک وقت ایسا آیا کہ اس یورپی بندوبست کے ملازمین کی تعداد سلطنت عثمانیہ کی وزارت خزانہ کے ملازمین کی تعداد سے بھی ز یادہ ہو گئی۔مقامی سطح پر بھی ہزاروں لوگ بھرتی کیے گئے جن کا کام صرف یہ تھا کہ نئے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں اور ٹیکس کی یہ رقم یورپ لے جائی جائے۔ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہی یہاں برصغیر میں مغلوں کے ساتھ ہو چکا تھا۔ طریق واردات مختلف تھا، واردات ایک ہی تھی۔ دونوں سلطنتوں کی جغرافیائی خود مختاری سے پہلے ان کی معاشی خود مختاری پر حملہ کیا گیا ۔ جب معاشی خود مختاری نہ رہی تو پھر جغرافیائی خود مختاری بھی نہ رہی۔ مغلیہ سلطنت کا بھی خاتمہ ہوا اور سلطنت عثمانیہ بھی ختم ہو گئی۔
اب ذرا پاکستان کی معاشی حالت دیکھیے۔ اور ہماری سینیٹ اور اسمبلی میں بیٹھے متقی قسم کے صادق اور امانت داروں کا کردار دیکھیے حکومت کا اپنا گورنر کہہ رہا ہے کہ چند ارب ڈالر دے کر آئی ایم نے سب کچھ ہم سے لے لیا ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟قرض کا انبار کھڑا ہے۔ دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم ہم مالیاتی اداروں کو قرض ادا کرنے میں لگا رہے ہیں۔ پچھلا قرض اتارنے کے لیے نیا قرض لینا پڑ رہا ہے۔ ملک چلانے کے لیے مقامی سطح پر ایسے امکانات ہی پیدا نہیں کیے گئے کہ قرض کے بغیر مالی سال کا تعین کیا جا سکے۔بیرونی قرض کا 27 فیصد یعنی قریب 25 ارب ڈالر سی پیک کا قرض ہم پر چڑھ چکا ہے لیکن سی پیک کہاں ہے؟
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے جو اسباب اہل یورپ نے بیان کیے بڑے دلچسپ ہیں۔ چند نکات کا خلاصہ بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا:اول: غیر معمولی قرض لیا گیا اور پیداواری شعبوں میں لگا نے کی بجائے اشرافیہ کی تعیش میں صرف ہوگیا۔ چنانچہ قرض کا پہاڑ کھرا ہوتا گیا اور اس کی واپسی ممکن نہ رہی۔دوم: سلطنت عثمانیہ ایک زرعی معیشت تھی لیکن سلطنت نے اس زرعی معیشت کو ’ انڈسٹریلائز‘ نہیں کیا۔ وہ یورپ کی صنعتی ترقی سے پیچھے رہ گئی۔سوم: معاملات ریاست میں دربار سے ز یادہ حرم دخیل ہو گیا۔ شاہی حرم کی بیگمات کے فیصلوں کے آگے عمال حکومت کی مجال نہیں تھی کہ دم مار سکیں۔ چنانچہ غلط فیصلے ہوتے ہی چلے گئے۔چہارم: سلطنت عثمانیہ اپنے شہریوں میں شراکت اقتدار کا تاثر پیدا نہ کر سکی۔اپنے ہی شہریوں سے محکوموں جیسا سلوک ہوا چنانچہ مختلف علاقوں میں باغیانہ خیالات پیدا ہونے لگے ۔پنجم: سلطنت عثمانیہ غیر مسلم شہریوں کی برین ڈرین کو نہ روک سکی۔ششم: اس نے اپنے شہریوں پر توجہ کم دی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز میں اس کے صرف 10 فیصد شہری ایسے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ریاست اچھے پروفیشنلز کے بحران سے دوچار تھی۔ہفتم: اس نے غیر ضروری جنگیں لڑیں ۔ ان وجوہات میں بلاشبہ مزید کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ان میں ’ سازشوں‘ کو بھی یقیناً
شامل کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ کا یہ سفر چیخ چیخ کر دنیا سے کہتا ہے کہ مجھ سے سبق حاصل کرو۔تاریخ کا مگر یہ بھی ایک سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھتا۔