بعض چیزوں ، بعض واقعات یا بعض علامات سے اچھا یا برا شگون لینے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خودحضرت انسان کی۔اگر ہم تاریخ کا جائز ہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور اس کی جڑیں بھی ہمیشہ سے عوام کی ضعیف الاعتقادی میں پائی جاتی رہی ہیں۔عرب جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب لوگ کسی اہم کام یا اہم سفر کا ارادہ کرتے تو پہلے وہ شگون سے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ آیا ان کا یہ سفر یا کام کامیابی سے ہمکنار ہوگا؟۔ اس شگون کے لیے وہ عام طور پر پرندوں کو دیکھتے، اگر تو پرندہ انہیں دائیں جانب ا ڑتا نظر آتا تو اس کو وہ اپنے لیے اچھاشگون سمجھتے اور کام کی کامیابی کی امید رکھتے یا سفر جاری رکھتے ۔ اور اگر پرندہ بائیں جانب محو پرواز ہوتا تو برا شگون سمجھتے ہوئے سفر کو ملتوی کر دیتے یا کاموں کی ترتیب بدل دیتے۔یہ بات ان کے کلچر میں اتنی رچ بس چکی تھی کہ برے شگون کے لیے نام بھی لفظ ‘طائر’یعنی پرندے سے ماخوذ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پرندوں کا اچھے یا برے شگون سے کیا تعلق؟یہ بات عربوں تک ہی محدود نہیں دوسرے معاشروں میں بھی پرندوں سے شگون لینے کا رواج عام تھا جس کی واضح مثال یہ ہے کہ انگریزی لفظ auspice کامطلب ہی یہ ہے کہ شگون کے لیے پرندوں کا مشاہدہ۔
ؐاس معاملے میں برصغیر کا معاشرہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہاں بھی کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو لوگ منحوس سمجھتے ہیں کوا، بولے تو برا جانتے ہیں اور رات کو بلی رونے لگے تو مصیبت کی آمد آمد سمجھتے ہیں۔اسلامی معاشرے اور تہذیب میں البتہ شگون لینے کی کو ئی گنجایش موجود نہیں کیونکہ اسلامی عقائد کی بنیاد ہی یہ ہے کہ علم غیب سارے کا سارا اللہ کے لیے خاص ہے اور کامل مسلمان بنتا ہی تب ہے جب اس کا اللہ پر اعتماد اور بھروسہ بھی کامل ہو۔شگون لینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسے شخص کا اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کمزور ہو جاتا ہے ۔ اسلام اس کمزوری کو ناپسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ بندہ مومن اپنے رب سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے ۔
اسلامی عقائد کی رو سے اللہ جس طرح انسانوں کا خالق ہے اسی طرح انسانوں پر وارد ہونے والے حالات کا بھی خالق ہے ۔ حالات بھی اپنے آنے اور جانے میں خود مختار نہیں ۔ یہ بھی خالق کی منشا سے آتے ہیں اور اسی کے حکم سے واپس جاتے ہیں۔ ہر معاملے میں کامیابی اور ناکامی اسی کے حکم پر منحصر ہے اس لیے اسلام یہ چاہتا ہے کہ شگون جیسی چیزوں میں پڑنے کے بجائے انسان اپنے یقین کو مضبوط بنائے۔اور اپنی توجہ کو کامل اپنے مالک کی طرف لگائے رکھے۔ سیدناعلیؓ کی فوج میں ایک نجومی تھا اس نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ آپ کل اس راستے سے حملہ نہ کریں ،شگون اچھا نہیں آپ کوشکست ہو گی۔ سیدنا علیؓ نے فوج میں اعلان کروایا کہ ہم کل اسی راستے سے حملہ کریں گے ۔ چنانچہ ایساہی کیا گیا اور اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اگر ہم اس کی بات مان لیتے تو عوام کا یقین اور ایمان خرا ب ہو جاتا۔عبداللہؓ بن عباسؓ کی موجودگی میں ایک پرندہ گزرا اوراس نے خوشنما آواز نکالی تو وہاں موجود ایک آدمی نے کہا خوب خوب۔ عبداللہ بن عباس کہنے لگے اس پرندے میں کوئی اچھائی یابرائی نہیں ہے۔شگون کی قسم کی ایک چیز عملیات بھی ہیں۔ عملیات والے کا ذہن بھی ہر وقت عملیات کی طرف لگا رہتا ہے اور وہ ہر کام کے نتیجے کو اللہ کی طرف منسوب کر نے کے بجائے عملیات کی طرف منسوب کر کے شرک خفی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔مولانا تھانویؒ نے خوب لکھا ہے کہ دعا تمام عملیات سے بڑھی ہوئی ہے اس لیے کہ یہ بندے کا تعلق براہ راست اللہ سے قائم کر تی ہے۔اگر کوئی عملیات کو اللہ تعالی کو مسبب الاسباب جانتے ہوئے بطور دواکے استعمال کرتا ہے تو بھی اس کی کوئی گنجایش نکل سکتی ہے لیکن اگر وہ عملیات کو موثر بالذات سمجھ بیٹھے جیسا کہ عوام کی اکثریت کا حال ہے تو یہ ایک کھلا ہو ا شرک ہے جس سے بچنا اپنے ایمان کو بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔عملیات میں پڑنے والے کا یقین بھی رفتہ رفتہ کمزور ہو جاتا ہے اور وہ بھی توہم اور شرک میں مبتلا ہو کر رہتا ہے۔ عملیات کے استعمال کی شرط یہ ہے کہ ان کو موثر بالذات نہ سمجھا جائے ، عامل شریعت کا پیروکار ہو اور عمل میں کوئی شرکیہ لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو۔یہی حال دست شناسی ، علم نجوم اور علم الاعداد کا ہے ۔ یہ بھی انسان کے یقین کو رفتہ رفتہ کمزور کر کے توہم پرست بنا دیتے ہیں جس کا اگلا درجہ شرک ہوتا ہے ۔ مسلمان رہنے کے لیے ضرور ی ہے کہ ہم ہر حال میں توحید خالص سے چمٹے رہنے کی سعی اور جہد کرتے رہیں اور کبھی اس قسم کی خرافات راستہ روکیں بھی تو اللہ ہی سے مدد مانگیں۔ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توحیدعلمی اور عملی پر استقامت نصیب فرمائے۔