میرا نام لاریب ہے۔ کالج میں ایک لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کیا اسے میں نے بہت سمجھایا لیکن اْسے ذرا اثر نہ ہوا۔ وہ کٹر ٹھرکی تھا یا پھر اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کوشش جاری رکھو، ایک نہ ایک دن مان ہی جائے گی۔ میں اْس کی باتیں سن کر ہنستی تھی، وہ دل میں خوش ہوتا تھا کہ ہنسی تو پھنسی، پر اْسے یہ کہاں معلوم تھا میری ہنسی کا مطلب ہے کہ ہنسوں تو کبھی نہ پھنسوں۔آج پھر وہ چلا آیا تھا۔اچھا تو تمھارا یہ دعوی ہے کہ تم محبت کرتے ہو مجھ سے، کیا ہوتی ہے محبت؟ کچھ معلوم ہے اس کے بارے میں، جس سے محبت ہو اس کے حقوق کا علم ہے تمھیں؟ یہ فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو تم؟اْس کے چہرے پہ حیرانیوں کے سائے لہرانے لگے۔ اْسے ان گہری باتوں کا علم ہی کہاں تھا۔ وہ تو بس فلموں، ڈراموں کی آغوش میں جوان ہو کر ہزاروں نوجوانوں کی طرح اپنی فطری ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبت کا نام اپنی روح میں سمو چکا تھا۔سچ میں جب سے تمھیں دیکھا ہے، میرا چین و سکون لٹ گیا ہے. ہر جگہ تم ہی دکھائی دیتی ہو ،میں سچی محبت کرتا ہوں، پلیز مان جاؤ نا۔کیا مان جاؤں؟ میں نے بے نیازی سے پوچھا۔تم بھی محبت کر لو مجھ سے، بہت خوش رکھوں گا تمھیں، ہر بات مانوں گا۔اچھا میری ہر بات مانو گے۔ہاں! ہر بات مانوں گا، تم نہیں جانتی تمھاری یہ عام سی آنکھیں میرے لیے کتنی خاص ہیں۔لوگوں کو تو محبوبہ کی آنکھیں جھیل جیسی گہری لگتی ہیں، تم انھیں عام کہہ رہے ہو۔آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ بناوٹی باتیں آپ کو پسند نہیں، یہ سب جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، اس لیے سچ بتا رہا ہوں کہ چاہے یہ آنکھیں عام سی ہیں پر میرے لیے تو خاص ہیں۔خاص کیوں ہیں؟ وجہ بتاؤ۔کیونکہ ان سے ذہانت ٹپکتی ہے، جب آپ کے لب پھول برساتے ہیں تب یہ بھی پورا ساتھ دیتی ہیں، ایسا لگتا جیسے یہ بھی بول رہی ہوں۔اوہ! تو محبت کی پہلی سیڑھی چڑھ ہی گئے ہو تم۔اچھا بتاؤ، میری ہر بات مانو گے؟ہاں ہر بات۔تو پھر میری محبت اپنے دل سے نکال دو، اگر تم سچی محبت کرتے ہو مجھ سے تو میری یہ بات بھی مانو گے۔اْس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا جسے اندر ہی اندر جذب کرنے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا۔ٹھیک ہے آئندہ آپ نہیں دیکھو گی مجھے۔یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چلا گیا۔اس لیے کہ وہ مجھے یقین دلانا چاہتا تھا کہ واقعی مجھ سے سچی محبت کرتا ہے۔میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے دل میں سوچا کہ تم مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔کافی دن گزر گئے، اْس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، کوئی کال نہ میسیج۔پھر ایک دن وہ خود ہی میرے پاس چلا آیا۔میں نے تمہاری محبت اپنے دل سے نکال دی ہے اب تم میرے لیے ایک عام عورت ہو۔لفظ عورت سن کر میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔پتہ ہے میری محبت کیوں نکلی ہے تمہارے دل سے؟ کیونکہ یہ محبت کبھی تھی ہی نہیں۔ محبت کبھی دل سے نہیں نکلتی بشرطیکہ سچی ہو۔محبوب کے ساتھ حقیقی تودور کی بات، کبھی خیالوں میں بھی اس کا ہاتھ تک پکڑنا نصیب نہ ہو، اور نہ ہی وہ شدتوں کو جانتا ہو، پھر بھی دل سے محبت نہیں نکلتی۔وہ شرمندہ سا ہوا۔تمھیں کیا پتہ میں کتنا رویا ہوں؟ کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہیں؟ کتنا سوچا ہے؟ پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ میں تمہاری بات مانوں گا، فریادی بن کر اب نہیں آؤں گا، اس لیے کہہ رہا ہوں محبت ختم ہو گئی۔ شادی تو ویسے بھی تمہارے ساتھ نہیں ہو سکتی۔کیوں مجھے خارش ہے؟ میری رگ مزاح پھڑک اٹھی۔پھر ہنستے ہوئے اس نے بتایا کہ ہمارے خاندان والے برادری سے باہر شادی نہیں کرتے۔تو کیا تمھارے خاندان والے برادری سے باہر محبت کر لیتے ہیں؟وہ چپ رہا، کیا جواب دیتا۔خیر میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں، تم بہت اچھی لڑکی ہو، اگر تم میری محبت میں گرفتار ہو جاتیں تو میری نظروں میں اپنی اہمیت کھو دیتیں، اور ہم لڑکے واقعی ایسی لڑکیوں سے محبت تو خوب کرتے ہیں پر شادی نہیں۔اب کے حیران ہونے کی باری میری تھی. میری پلاننگ کامیاب ہوئی تھی. وہ سچ مان رہا تھا۔پر میں اس کی دوسری چال بھی سمجھ گئی. مرد کو بس وقتی لذت چاہیے ہوتی ہے، چاہے ذہنی ہو یا جسمانی، جب اْسے یقین ہو گیا کہ میں واقعی ہاتھ آنے والی نہیں تو اْس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وہ میرے ساتھ باتوں سے ذہنی تسکین چاہتا تھا، وقت اچھا گزارنا چاہتا تھا۔اچھا دوستی کر کے کیا کریں گے؟ اچھے دوست کیسے ہوتے ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا۔ہم اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کیا کریں گے، میں آپ کو گفٹ دیا کروں گا، اکھٹے شاپنگ پر جائیں گے، خوب گھومیں پھریں گے، کھابے اڑائیں گے، دکھ سکھ کے ساتھی، بالکل اچھے دوست بنیں گے ہمیشہ ساتھ رہنے والے۔محبت کی جگہ اب دوستی کا لفظ آ گیا تھا مگر ترجیحات اور مقاصد و معاملات وہی تھے۔ایک لڑکا لڑکی کبھی دوست نہیں ہو سکتے، ہاں کلاس فیلو ہو سکتے ہیں، جب سٹڈی ختم ہوئی رابطہ ختم لیکن دوستی تو وہ ہوتی جو مستقل رہے۔محبت تم نہیں کرتی، دوستی پر تمھیں اعتراض ہے اچھا منہ بولی بہن بن جاؤ میں اتنی اچھی لڑکی کھونا نہیں چاہتا۔میں بھی اتنی اچھی لڑکی گنوانا نہیں چاہتی میں نے دل میں سوچا۔
یہ اس کا آخری حربہ تھا محبت اور دوستی میں دال نہ گلی تو منہ بولی بہن۔اچھا بھائی بہن بن کر کیا ہوگا؟ میں نے پوچھا۔دونوں ساتھ وقت گزارا کریں گے، اپنی ہر بات بتایا کریں گے، صبح صبح اکٹھے سیر کو جایا کریں گے، جاگنگ کریں گے، ٹینس کھیلیں گے، بہت خوش رہیں گے دونوں۔ یہ زندگی بورننگ نہیں لگتی تمھیں جو گزار رہی ہو، تھوڑا سا بدلو تم خود کو۔ دیکھنا کتنی خوشیاں ملتی ہیں، سچی بھائی بہن والا رشتہ ہوگا، کوئی نقصان نہیں۔اور اس دوران تم لفظِ بہن کا سہارا لے کر مجھ سے اپنی ذہنی تسکین حاصل کرتے رہو، نظروں سے ہی میرے چہرے کو چھوتے رہو، ٹینس کھیلتے ہوئے میرے بدن کے اتار چڑھاؤ کو للچائی نگاہوں سے دیکھتے رہو، تمھارا وقت رنگین ہو جائے گا۔میں خاموش نظروں سے کہہ رہی تھی، وہ کن اکھیوں سے دیکھتا ہوا جواب کا منتظر تھا۔
سوری میری خوشیاں، کھابے، سیر، جاگنگ، زندگی کے رنگ، قہقہے، دکھ سکھ کسی غیر مرد کے محتاج نہیں۔میں اپنے پاپا کے ساتھ سیر کو جاتی ہوں۔ باپ کی شفقت بھری گفتگو بہت لطف دیتی ہے۔ میری ماں میری سب سے اچھی دوست ہے، میرے دکھ سکھ کی ساتھی۔ میری سکھیاں کھابے اْڑانے میں لاجواب ہیں، اْن کے ساتھ میرا وقت بہت اچھا گزرتا ہے۔ میرے ٹیچرز میرے رہنما ہیں۔ اپنے بھائی کے ساتھ میں گھنٹوں
باتیں کرتی ہوں، معصوم شرارتیں دو منٹ میں ناراض دو منٹ میں راضی۔ ایک دوسرے کے بنا ذرا وقت نہیں گزرتا۔ اس کے پیچھے بائیک پر بیٹھے ہوئے میں آزاد فیل کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ شاپنگ کا جواب نہیں۔ میں بہت خوش ہوں. ایک نیا رشتہ بنا کر میں ان سب رشتوں کی مٹھاس نہیں کھونا چاہتی۔پتہ نہیں لڑکیوں کی حسین زندگی غیر مردوں سے ہی کیوں جڑی ہوتی ہے؟ خوبصورت خوابوں کے چکر میں عمر بھر کے لیے آنکھیں زخمی کروا لیتی ہیں۔اتنا کہہ کر میں چلی آئی. اس کا ری ایکشن کیسا تھا؟ میں نے دیکھا نہیں، لیکن اسے ایک سبق ضرور مل گیا تھا۔میں نے گھر آ کر سجدہ شکر ادا کیا اور آنکھ اشکبار ہو گئی۔ میرے اللہ تو مجھے ایسے ہی ثابت قدم رکھنا، اس عہد کی پیداوار ہو کر بھی میرے قدم ذرا نہ ڈگمگائیں۔٭٭٭
امیر نے نہ صرف جدوجہد آزادی کے دوران میں فرانسیسی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مذہبی ضروریات کا فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے بندوبست کیا،
بلکہ دمشق میں رہایش کے زمانے میں ۱۸۶۰ء میں ہونے والے مسلم مسیحی فسادات میں بھی ہزاروں مسیحی باشندوں کی حفاظت کے لیے عملی کردار ادا کر کے اسلامی اخلاقیات کی ایک معیاری اور قابل تقلید مثال پیش کی۔
میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تمام حوالوں سے امیر عبد القادر کی جدوجہد عصر حاضر میں مغرب کے سیاسی واقتصادی تسلط کے خلاف عسکری جدوجہد کرنے والے گروہوں کے لیے اپنے اندر راہ نمائی کا بڑا سامان رکھتی ہے اور امیر عبد القادر کے فلسفہ جنگ اور طرز جدوجہد کے ان پہلوؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭