11ستمبر 2007کو معروف عالم دین اور مفسر قرآن عبدالکریم پاریکھؒ کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً 80سال تھی۔ 15اپریل 1928 کو اکولہ(مہاراشٹر) میں ان کی پیدائش ہوئی۔ بعد کو ان کا خاندان وہاں سے منتقل ہو کر 1935میں ناگ پور آگیا۔ وہ ایک گجراتی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1944میں انہوں نے اپنا تجارتی کام شروع کیا۔ اس کام میں اُنہیں بہت ترقی ہوئی۔وہ لکڑیوں کے ایک بڑے تاجرکی حیثیت سے معروف ہوگئے۔ اس وقت ان کا یہ تجارتی کام‘‘پاریکھ ٹمبر مارکیٹ’’ کے نام سے مشہور ہے۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ ایک قلندر صفت آدمی تھے۔ حق گوئی اور بے باکی، ان کا خصوصی وصف تھا۔ مدیر ‘‘البعث’’ نے مولانا کا تذکرہ کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ مولانا پاریکھ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے تھے، وہ حق کی حمایت کے معاملے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے: وَکانَ یؤثر الْحقَّ والصَّوَابَ دَائِماً ولَا یَخَاف فِی ذٰلِکَ لؤمَۃ لائم(البعث الاسلامی، ندوۃ العلما، لکھنو، ذوالقعدہ 1428ھ)
خدا نے مولانا پاریکھ کو ‘عقل معاش’ کے ساتھ‘عقل معاد’ سے بھی بھر طور پر نوازا تھا۔ وہ اس بات کا ایک زندہ نمونہ تھے کہ آدمی کس طرح اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ علم اوردین کے میدان میں کامیاب طور پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ وہ کس طرح ایسا کرے کہ صرف حیوانِ کاسبearning animal بن کر رہ جانے کے بجائے، علمی اور دعوتی فرائض کو بخوبی طور پر انجام دے سکے۔
کاروباری مصروفیات کے ساتھ علم اوردین سے ان کو خصوصی شغف رہا۔ 1960میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (وفات: 1999) سے ان کا تعلق ہوا۔ یہ تعلق آخر وقت تک باقی رہا۔ ‘‘پیام انسانیت’’کے کاموں میں وہ مولانا کے لیے قوت بازو کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت مولانا علی میاں ان کی بہت قدر کرتے تھے، وہ ان کو اپنا دستِ راست سمجھتے تھے۔ حضرت مولانا علی میاں سے ان کے اس تعلق کی بنا پر دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤمیں ان کا ایک خاص مقام پیدا ہوگیا تھا۔ وہ ندوہ کی شوریٰ کمیٹی کے ممبر، مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام کے رفیق تھے۔ اِسی کے ساتھ وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اساسی کی حیثیت سے آخر وقت تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ کا نام میں نے پہلی بار 1990میں سنا۔اس وقت، میں ندوہ کے تابع ادارہ(مدرسہ جلیلیہ، جرول، یوپی) میں ابتدائی عربی درجات کا طالب علم تھا۔ قرآن اور سائنس کے موضوع سے اپنی خصوصی دل چسپی کی بنا پر درسیات کے علاوہ، سائنس اور لغات القرآن کی کتابیں اکثر میرے مطالعے میں رہتی تھیں۔ اِسی دوران میں مدرسے کی لائبریری میں اس موضوع پر مولانا کی دو کتابیں مجھے مل گئیں۔ ‘‘اوپر کی دنیا’’ اور ‘‘لغات القرآن’’۔ میں نے اِن دونوں کتابوں کو حاصل کر کے ان سے استفادہ کیا۔
اِسی زمانے میں استادمحترم مولانا سعید الرحمان الاعظمی ندوی کے ساتھ مولانا نے ہمارے مدرسے کا سفر کیا۔ مدرسے میں طلبہ کے سامنے مولانا کا خطاب ہوا۔ اس خطاب میں انہوں نے علم کی اہمیت اور وقت کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالی۔ خطاب کے بعد مزید استفادے کے لیے میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت مولانانے ذخیرہ الفاظ اکھٹا کرنے کا آسان طریقہ بتاتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ دیکھو، ایسی جگہ جہاں آپ کا زیادہ وقت گزرتا ہو، یا جہاں آپ مطالعے کے لیے بیٹھتے ہوں، وہاں آپ ایک کاغذ پر کچھ نئے الفاظ لکھ کر آویزاں کر لیں۔ سامنے لگے ہوئے اِن الفاظ پر بار بار آپ کی نگاہ پڑے گی اور آسانی کے ساتھ نئے الفاظ ذہن نشین ہوتے چلے جائیں گے۔ اس طرح رٹنے کا طریقہ اپنائے بغیر، وہ الفاظ آپ کے حافظے کا حصہ بن جائیں گے۔ اس کے بعد مولانا نے بتایا کہ میرا یہ ہی طریقہ رہا ہے۔ اس طریقے کو اپنا کر میں نے عربی، انگریزی اور سنسکرت وغیرہ کے الفاظ کا ذخیرہ اپنے دماغ میں محفوظ کیا ہے۔
غالباً 1997کی بات ہے ، ندوہ کی مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد طلبہ سے مولانا کا خطاب تھا۔ میں اس اجتماع میں موجود تھا۔ مولانا نے دورانِ تقریر فرمایا کہ قرآن کے ساتھ اتنا زیادہ تعاہد(commitment) پیدا کروکہ قرآن تمہارے ‘‘دماغ کے پٹے’’پر چڑھ جائے اور تم ہر چیز کا جواب قرآن میں پانے لگو۔ مولانا موصوف خود اس تعاہدقرآنی کا ایک زندہ نمونہ تھے، وہ قرآن کا ایک چلتا پھرتا انڈیکس معلوم ہوتے تھے۔ایک بار دورانِ خطاب مال کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ قرآن میں مختلف چیزوں کی اضافت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔ قرآن میں مال کی اضافت اللہ کی طرف کرتے ہوئے اس کو مال اللہ(النور:33) کہا گیا ہے۔یعنی اللہ کا مال۔اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی اسی طرح خدا کا عطیہ ہے، جس طرح دوسری چیزیں۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہیے کہ وہ مال کو‘‘خدا کی چیز’’ سمجھ کراستعمال کرے نہ کہ‘‘اپنی چیز’’سمجھ کر وہ اس کا مسرفانہ استعمال شروع کردے۔ آدمی اگر مال کو خدا کا عطیہ سمجھے تو اس کے اندر شکر اور جواب دہی accountability کا احساس جاگے گااور اگر وہ مال کو صرف اپنی چیز سمجھ لے تو اس کے اندر اسراف اور سرکشی کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ کاخصوصی موضوع قرآن تھا۔ قرآن کی خدمت اور اشاعت کوا نہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کنسرنConcern بنا لیا تھا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر ان کا درس قرآن نشر ہوتا تھا۔میں نے اسٹاک ہوم سویڈن میں بھی ایک انڈین ٹی وی چینل پر ان کا درس سنا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں۔‘‘لغات القرآن’’ ان کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب پہلی بار مارچ 1952میں چھپی۔ اس کے بعد سے اب تک مختلف زبانوں میں اس کے چالیس سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔اس کتاب میں مصحف کی ترتیب پر الفاظ قرآنی کے معانی متعین کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ بے شمار لوگوں کو ترجمہ قرآن اور اس کے معانی کا علم ہوا۔اس سلسلے میں مولانا کا دوسرا بڑا کام ‘‘تشریح القرآن’’ اور ‘‘تفسیری خزانہ’’ کی تالیف ہے۔ یہ کتاب ترجمہ قرآن اور اس کی سادہ وضاحت پر مشتمل ہے۔ یہ کام طالبین قرآن کے لیے ایک قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ، دوسرے موضوعات پر ان کی اور بھی کتابیں چھپ کر شائع ہوچکی ہیں۔ مثلاً قوم یہوداور ہم، قرآن کی روشنی میں، تعلیم الحدیث (۳جلد)، وِگیان یُگ میں اسلام دھرم(ہندی)، قرآن اور حدیث کی مقبول دعائیں وغیرہ۔
مولانا کی دینی اور ملی خدمات کا اعتراف بڑے پیمانے پر کِیا گیا۔ اس سلسلے میں گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے 2001میں ان کو پدم بھوشن کا ایوارڈ دیاگیا۔ اور امریکی فیڈریشن (AFMI)کی طرف سے 2005 میں انہیں فخر ہند کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ داعیانہ ذہن کے آدمی تھے۔ اور داعی کسی انسان کے متعلق نفرت اور منفی سوچ کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اس لیے وہ ہندو تنظیموں اور سیاسی جماعتوں اور ارباب اقتدار سے بھی دینی مقاصد کے تحت کھلے دل کے ساتھ ملتے تھے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے مولانا پاریکھ کے نام ایک خط میں ان کو لکھا تھا: حکومت کے ذمے داروں اور ملک کے سیاسی رہنماؤں بالخصوص آر ایس ایس کے قائدین سے مل کر آپ جو خدمت انجام دیتے ہیں، میرے دل میں اس کی پوری قدر ہے۔
مولانا پاریکھ مختلف ملکی اور علاقائی زبانوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ اس کی وجہ سے غیر مسلموں کے درمیان دعوت الی اللہ کا کام کرنے میں انہیں آسانی ہوتی تھی۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے بجا طور پر لکھا ہے: مولانا کا قیام چوں کہ ناگ پور میں تھا اور ناگ پور ہندوؤں کی جماعت آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے تو ان کو آر ایس ایس کے لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا تھا۔ دونوں قوموں کے درمیان متعدد معاملات میں جو مسائل غلط فہمی کی بِنا پر ابھرتے ہیں، وہ ان کا تدارک بڑی خوبی سے کرتے تھے۔ غیرمسلم حلقوں میں ان کی بات کو سنا جاتا تھا اور ان کا بات کرنا مفیدہوتا تھا۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ کی زندگی اس بات کا ایک عملی نمونہ تھی کہ انڈیا میں مسلمان کس طرح اپنی دعوتی ذمے داری کو ادا کر کے عزت کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں ان کے لیے شکایت اور احتجاج سے بلند ہوکر جینے کی ایک اور زیادہ برتر سطح موجود ہے اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔ دعوت کے ذریعے ان کی دنیا میں بھی عزت کی زندگی مل سکتی ہے اور آخرت میں بھی۔ وہ ایسے ہی سب سے زیادہ مطلوب کام کے ذریعے ، خدا کی ابدی رحمتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔جنت کے دروازے صرف انہیں لوگوں کے لیے کھولے جائیں گے، جو دوسرے انسانوں پر جہنم کے دروازے بند کرنے کی دعوتی جدو جہد کواپنا سب سے بڑا کنسرن بنا لیں ۔
مولانا عبدالکریم پاریکھ کی جس چیز نے مجھ کو بے حد متاثر کیا ہے ، وہ ان کی اخلاقی جرات کی اعلیٰ صفت تھی۔ اخلاقی جرات اور اعتراف بلا شبہ عظیم ترین ایمانی صفت ہے۔ یہ وہ اعلیٰ انسانی وصف ہے جو صرف کسی زندہ انسان کے اندر پایا جاتا ہے، یہ ایک مرد مومن کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے۔ نفسیاتی پیچیدگیوں سے پاک یہی وہ روح ہے جس کو قرآن میں ‘نفس مطمنۂ کہا گیا ہے۔
میرے نزدیک مولانا موصوف استثنائی طور پر اس معاملے میں قابل تقلید کیریکٹر کے حامل تھے۔ ان کی اس اخلاقی جرات اور اعتراف کا کھلا ہو ا ثبوت ان کے وہ مطبوعہ خطوط ہیں، جو ماہنامہ الرسالہ(جنوری 2007) میں علمی مراسلت کے تحت چھپ چکے ہیں۔
اہل علم بخوبی طور پر اس کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ ‘صاحب قلم’ کی حیثیت سے معروف لوگوں کے لیے کوئی چیز جب وقار اور اعتراف کا مسئلہ بن جائے تو اس وقت اپنی کسی تحریر سے رجوع کرنا، ان کے لیے کتنا زیادہ مشکل بلکہ نا ممکن ہوجاتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح patchup کر کے اپنی بات کودرست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر زیر بحث معاملہ براہ راست ان سے متعلق نہ ہو تو پھر رجوع اور اعتراف کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ بہت خوبصورتی کے ساتھ یہ کہہ کراپنی حیثیت کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ یہ معاملہ مجھ سے متعلق نہیں۔
تاہم ، مولانا عبدالکریم پاریکھ نے برعکس طور پر ، ساری ذمے داری اپنے اوپر لیتے ہوئے ، ہر تاویل اورتعصب سے بلند ہوکر اپنی اس تحریر میں جس طرح کھلے دل سے صاف لفظوں میں معاملے کی وضاحت فرمائی ہے، وہ صرف انہیں کا حصہ تھا۔ رجوع اور اعتراف کا بلا شبہ یہ ایک بے مثال نمونہ ہے۔ میرے علم میں اس اعلیٰ اعتراف کی کوئی دوسری مثال موجودنہیں۔ کوئی بھی شخص مولانا کے ان مطبوعہ خطوط کو دیکھ کر اندازہ کر سکتا ہے کہ اخلاقی جرات اور اعتراف کے معاملے میں ان کا مقام کتنا زیادہ بلند تھا۔ مولانا موصوف کا یہ عمل بلا شبہ ایک قابل تقلیدنمونہ ہے، ان کے وہ خطوط اہل علم کے لیے ایک چشم کشا دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ مولانا عبدالکریم پاریکھ نے اپنے نام حضرت مولاناعلی میاں کے خطوط کا ایک مجموعہ شائع کیا۔ اس مجموعے کا خط نمبر ایک سو تیرہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے متعلق تھا۔ مولانا نے اس کی وضاحت معلوم کرنے کے لیے ان کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا۔ مولانا عبدالکریم پاریکھ نے جواب میں دو مفصل خطوط لکھے۔ ان خطوط کے چند جملے یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
‘‘اس خط کے شائع ہونے کا مجھے افسوس ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ آپ کا خط ملنے کے بعد تقریباً پچیس نسخے‘‘مجموعہ خطوط’’کے میرے پاس موجود تھے، ان تمام نسخوں سے خط نمبر ایک سو تیرہ پھاڑ کر نکلوا دیا ہے۔ آئندہ ایڈیشن اگر چھپنے کی نوبت آئی تو اس خط کو دوبارہ شائع نہیں کیا جائے گا۔ آپ کو تکلیف پہونچی، اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس سہو کو معاف فرمائیں گے۔ بندہ بشر ہے۔ حضرت مولانا ہوں، یا میں ہوں، یا کوئی اور ہو، غلطی کا امکان ہر ایک سے ہے۔ میں نے الحمد اللہ آپ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ آپ اپنے ترجمہ و تشریح قرآن ‘تذکیر القرآن’ کا ایک نسخہ وی پی کے ساتھ ارسال فرمائیں۔ عنایت ہوگی۔