میرے سامنے مئی 1992 کی ڈائری کے اوراق کھلے ہیں اور میں چشم تصور میں صحرائے‘ تھر پار کر’ کے ایک سرحدی گاؤں گڈرا پہنچ چکا ہوں جہاں ان دنوں میں کشمیر رجمنٹ کی حسینیہ بٹالین کی ایک کمپنی کے ساتھ فرائض انجام دے رہا تھا ۔ گو میرے لیے یہ صحرائی زندگی کچھ نئی نہ تھی کیونکہ میں خود تھل کا رہنے والا ہوں ، لیکن ہمارے تھل اور اس تھر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ تھر میں بڑے بڑے ریتلے ٹیلے ہیں ۔ زیر زمین پانی کڑوا ہے جو انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہے اگر چہ حکومت نے کچھ علاقوں میں آب رسانی کا انتظام کر دیا ہے لیکن اب بھی وہاں ایسے علاقے ہیں جہاں سب سے بڑا مسئلہ میٹھے پانی کا ہے ۔ دور دور سے پانی اونٹوں پر لایا جاتا ہے۔ تھر کے اکثر علاقوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے زیر زمین حوض بنائے جاتے ہیں جو لڑکیوں کو جہیز میں دیے جاتے ہیں ۔ گرمیوں میں سانپوں اور سردیوں میں بچھوؤں کی بھرمار ہوتی ہے۔
ان دنوں یہ منظر بھی عجیب سا لگتا تھا جب چھور سے کھوکھرا پار آنے والی چھوٹی سی ریل گاڑی ایک بڑے پانی کے ٹینک کو بھر کر صحرا کا رخ کرتی تھی اور راستے میں آنے والے دیہاتوں کو پانی دیتی جاتی تھی۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے گڑھے بنائے گئے تھے جن کو گاڑی کے ملازمین پائپ کھول کر پانی سے بھر دیتے تھے۔ اس گاڑی کو دیکھ کر گاؤں کے تمام جانور اس کی طرف بغیر بتائے دوڑ لگاتے تھے اور اپنی پیاس بجھاتے تھے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہی گاڑی پانی کے خالی ٹینک کے ساتھ واپس جاتی تھی اور ان اسٹیشنوں پر رکتی تھی تو یہ بے زبان جانور اس کی طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہوتے تھے ۔ گویا روزانہ کے اس معمول نے ان کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ واپسی پر یہ ٹینک خالی ہوتا ہے۔
گڈرا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں ہم نے عارضی پڑاؤ کیا ہوا تھا ۔ ساتھ ہی رینجر کا صدر دفتر تھا۔ پڑاؤ میں جوانوں کے لیے مٹی کے مکانات بنائے گئے تھے اور چھتیں گھاس پھوس سے بنائی گئی تھیں ۔ تقریبا ًدو سال سے وہاں بارش نہیں ہوئی تھی اور آگے بھی اس کے آثار نظر نہ آرہے تھے ۔ خشک سالی کے باعث جانور مر رہے تھے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور تھے ۔ وہاں ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا پانی بارش نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز کم ہو رہا تھا۔ ڈر تھا کہ اگر بارش نہ ہوئی تو عنقریب یہ پانی بھی خشک ہو جائے گا۔ اس لیے ہم وہاں سے کم سے کم پانی لیتے تھے۔ کبھی کبھار ہم کھوکھرا پار سے بذریعہ گاڑی بھی پانی منگوا لیتے تھے اور تمام چوکیوں کو دیتے تھے لیکن یہ سرحدی سفر بھی دشوار تھا کیونکہ تیز آندھی سے راستے کے تمام نشانات مٹ جاتے تھے اور ڈرائیور اکثر راستہ بھول جاتے تھے ۔ یہ خطرہ بھی ہوتا تھا کہ راستہ بھول کر کہیں بھارتی علاقے میں داخل ہو جائیں۔ اس وقت بھارتی باڑ نہیں لگائی گئی تھی بلکہ دور دور سیمنٹ سے بنے سرحدی نشانات تھے جو ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کی وجہ سے نظر نہ آتے تھے۔
انہی دنوں میں راقم کو ایک بار چھاؤنی جانا پڑا۔ واپسی پر مولانا صادق سیالکوٹی کی کتاب صلوۃ الر سول بھی لے کر آیا۔ ارادہ تھا کہ واپس سرحد پر جاکر اس کتاب کے مطابق نماز استسقا پڑھیں گے شاید اس کی وجہ سے اللہ تعالی کو ہم پر کچھ ترس آجائے اور وہ رحمت کی بارش دے دے۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ نماز استسقا ایک مسنون باجماعت نماز ہے جس کا واضح ثبوت حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ملتاہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنے جانوروں کو ساتھ لے کر باہر نکلا جاتا ہے اور نہایت عاجزی اور انکساری سے بارش کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ پھر عید کی طرح دو رکعت نماز جہری قرآت کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔ اس نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ نماز کے بعد امام خطبہ دیتا ہے اوردعا کرتا ہے۔ نماز سے پہلے الٹے ہاتھوں سے دعا کی جاتی اور اپنی چادر کو پلٹا جاتا ہے۔
واپس گڈرا آکر مسجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرایا گیا کہ اگلے دن گاؤں کے باہر میدان میں نماز استسقا ادا کی جائے گی ۔ تمام مسلمان اکٹھے ہو جائیں تاکہ مل کر اللہ تعالی سے بارش کی درخواست کریں۔ صبح تقریباً ۹ بجے کے قریب ہم سب اس میدان میں گئے ، صفیں درست کی گئیں اور کتاب میں درج طریقہ وترتیب کے مطابق جماعت کرائی گئی۔ ساتھ ہی ہندوؤں کی آبادی تھی وہ باہر نکل کر یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ان کے لیے نماز کا یہ انداز بالکل نیا تھا کہ پاک فوج کے جوان تپتی ریت پر سر رکھے اپنے خالق و مالک سے باران رحمت کی بھیک مانگ رہے تھے۔ گزشتہ شام انہوں نے بھی اعلان سنا تھا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد ایک عجیب سا روحانی سکون محسوس ہوا۔ ایسا لگا کہ اللہ تعالی نے ہماری روحانی التجا قبول کر لی تھی لیکن معاً دل میں خیال آیا کہ ہمارے کمروں کی چھتیں بہت کمزور ہیں اگر تیز بارش آگئی تو یقینا کوئی بھی چھت سلامت نہ رہے گی اور نقصان ہو گا۔
وہاں سے واپس آنے لگے تو سوچا کہ اس خدشے کا اظہار صوبیدار اسلم سے بھی کر دیا جائے تاکہ کچھ تیاری کی جاسکے۔ وہ ہنسنے لگا کہ دو سال سے بارش نہیں ہوئی اس لیے اب بھی کوئی امکان نہیں۔ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور واقعی بارش کا کوئی امکان نہ تھا لیکن دلی کیفیات کچھ اور بتا رہی تھیں ۔ میں نے پھر کہا : جس رحیم وکریم ہستی کے سامنے ہم نے ابھی پیشانیوں کو خاک آلود کیا ہے اس کے لیے یہ ذرا بھی مشکل نہیں کہ آج ہی بارش برسا دے اسے لیے بہتر ہے جوانوں کو لگا کر تمام چھتیں مضبوط کرالیں۔ اس نے پھر جواب دیا کہ بارش نہیں آئے گی الٹا یہ ہندو ہمارا مذاق اڑائیں گے کہ مسلمانوں نے اپنے رب سے بارش مانگی ہے لیکن اس نے نہیں دی ہے۔ میں نے ہر طرح سے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ مشیت ایزدی کو سمجھنے سے قاصر رہا ۔ اس بارے میں مزید حکم دینا مناسب نہ سمجھا اور سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
اسی دن ظہر کے بعد آسمان پر بادل جمع ہونا شروع ہو گئے جو ہمارے لیے نئی بات تھی۔ بادل تیز تیز ہمارے اوپر سے گزر کر بھارت کی طرف جا رہے تھے۔ ہمارے یہاں قیام کے دوران میں پہلی بار یہ بادل نظر آئے تھے شاید یہ اس لیے بھیجے گئے تھے کہ ہم کچھ تیاری کر لیں لیکن اتنے واضح اشارے کے باوجود ہم نے کوئی کارروائی نہ کی ۔ عصر کی نماز مسجد میں پڑھی پھر دعا کے ساتھ یہ شعر بھی پڑھا
رحمتیں ہیں تیرے اغیار کے شانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
نماز مغرب کے بعد میں واپس آیا اور اپنی رہائش گاہ کے باہر کھڑا ان بادلوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔ میری زبان پر حضور اقدس ﷺ کی پیاری دعا تھی جو انہوں نے بارش کے لیے سکھلائی تھی ۔ اس کا مفہوم یہ تھا:
‘اے ہمارے رب! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا، اپنی رحمت کو پھیلا دے اور مردہ زمین کو زندہ کر دے۔’ تھوڑی دیر بعد میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو ایک بڑا سیاہ بادل نظر آیا جو ہماری طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ جبکہ دوسرے بادل سفید رنگ کے تھے جو بدستور بھارت کی طرف تیزی سے بھاگے جا رہے تھے۔ زبان پر اسی مسنون دعا کا ورد جاری رہا۔وہ سیاہ بادل آہستہ آہستہ ہمارے پڑاؤ کے اوپر آکر رک گیا ۔ بجلی کوندنا شروع ہوئی اور اس ایک بادل سے تیز بار ش شروع ہو گئی۔ جوانوں کے تمام کمرے پانی سے بھر گئے اور چھتیں بہہ گئیں۔ ہمارے لنگر (کک ہاؤس) کی چھت بھی گر گئی اور سارا اناج آٹا چینی وغیرہ گیلے ہو گئے۔ نیچے پانی آجانے کی وجہ سے بچھو بھی نکلنا شروع ہو گئے ۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد بارش رک گئی ۔ وائرلیس پر تمام چوکیوں سے رپورٹ لی گئی تومعلوم ہوا کہ تقریباً دس گیارہ کلومیٹر گولائی میں اس ایک بادل سے بارش ہوئی تھی ۔ ہندستان کے کچھ نزدیکی علاقے بھی اس دائرہ رحمت میں آگئے۔ ہندستانی فوجیوں کو بھی معلوم ہو گیا کہ پاکستانی فوجیوں نے بارش کے لیے نماز پڑھی تھی جس کی وجہ سے یہ بارش ہوئی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد لہراسپ خان ہمارے پاس دورہ پر آئے تو انہوں نے بھی اس بات کا تذکرہ کیا۔
گاؤں کے لوگ بہت خوش تھے وہ صبح سویرے فصل کاشت کرنے نکل پڑے۔ بچے بارش کے کھڑے پانی میں نہانے لگے۔ اللہ تعالی کی رحمت سے سارے علاقے میں خوشی پھیل گئی۔
میں نے دوسرے دن صوبیدار اسلم سے کہا کہ اگر وہ میرا مشورہ مان لیتا اور چھتوں پر مٹی ڈلوا دیتا پھر یہ بارش برستی تو شاید کئی ہندو اسلام قبول کر لیتے اور اتنا نقصان نہ ہوتا۔ اس وقت وہ خاموش تھا اور مزید کوئی دلیل دینے سے قاصر ۔
اب بھی، وہ منظر یاد آتا ہے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں یقینا ہمارے رحیم و کریم رب نے ہندوؤں کی نظروں کے سامنے اپنے بندوں کی تپتی ریت پر رکھی پیشانیوں کی لاج رکھ لی تھی ۔ میرا یہ یقین ہے کہ اگر آج بھی نبی کریمﷺ کے طریقہ وتعلیمات کے مطابق ہم اپنے ظاہر و باطن کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور عاجزی سے دعا کریں تو آج بھی اللہ کی رحمتوں کانزول ہو سکتا ہے۔ کاش ہم اس حقیقت کو سمجھ سکیں!!!