الہام اور اشراق

مصنف : استاذ مرتضیٰ مطہر ی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جولائی 2008

            غیبی مدد کی ایک صورت وہ الہام اور اشراق ہیں جو اکثر علما کو ہوتے رہتے ہیں۔ جن سے ان کے لیے علم کا ایک دروازہ اچانک کھل جاتا ہے اور کوئی بہت بڑا انکشاف ہوجاتا ہے۔

            حصول علم کے جن طریقوں کو ہم عموماً جانتے ہیں وہ دو ہیں: ایک تجربہ اور عینی مشاہدہ، دوسرا قیاس اور استدلال۔

            انسان فطرت کا مطالعہ اور مشاہدہ کر کے اس کے اسرار ورموز سے واقف ہوجاتا ہے یا استدلال اور قیاس کی قوت سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ اس قسم کی توفیقات معمول کا درجہ رکھتی ہیں۔اگرچہ ایک دقیق فلسفیانہ نظریے کے مطابق ان معاملات میں بھی ایک الہامی پہلو موجود ہوتاہے۔ تاہم یہ امر ہماری بحث کے دائرے سے خارج ہے۔

            لیکن ... کیا وہ تمام معلومات جو انسانی تاریخ کے دوران میں حاصل ہوئی ہیں صرف ان دو طریقوں سے حاصل ہوئی ہیں یا کوئی تیسراطریقہ بھی ہے؟

             فطرت کے بہت سے بڑے بڑے اسرار بجلی کی طرح اچانک کسی دانشور کی روح اور دماغ میں کوند گئے اور اسے منور کر دیا اور پھر وہ کوندا غائب ہو گیا۔ابن سینا کا خیال ہے کہ کم و بیش یہ قوت بہت سے لوگوں میں موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ ابن سینا آیہ شریفہ:یَکادُ زیْتھا یُضِیْءُ ولوْ لمْ تَمْسسْہُ نَارٌ... (النور:۳۵):‘‘جن کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو، چاہے آگ اسے نہ چھوئے...’’کو اِسی قوت سے منسوب کرتے ہیں جو بعض لوگوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

            غزالی نے اپنی کتاب ‘‘المنفذ من الضلال’’ میں دعویٰ کیا ہے کہ انسان کی زندگی سے تعلق رکھنے والی بہت سی معلومات ابتدا میں اسے الہام کی شکل میں حاصل ہوئیں۔ انسان معالجات اور فلکیات کے بارے میں جو بہت سی معلومات رکھتا ہے، ان کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس نے تجربات کی مدد سے حاصل کی ہیں۔ پس یہ کہنا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ نے ازراہِ کرم انسان کو ان سے بذریعہ الہام مطلع کیا ہے۔ نصیر الدین طوسیؒ نے وحی ونبوت کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انسان نے بعض فنون الہام ہی کے ذریعے سیکھے ہیں۔

            مولانا رومؒ نے اسی مضمون کو نظم کیا ہے، وہ کہتے ہیں:علم نجوم اور طب انبیاؑکو وحی سے حاصل ہوئے ہیں۔ ورنہ عقل اور حس ادھر کیسے جا سکتی ہے، جدھر کی کوئی سمت ہی متعین نہ ہو۔ ہماری یہ جزوی عقل وہ عقل نہیں ہے جو حقیقی علم تک پہنچ سکے۔ وہ فن کو اخذ کرنے اور رہنماؤں کی محتاج ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یقینا تمام فنون کی ابتدا وحی کی رہنمائی کے ذریعہ ہوئی تھی۔ پھر عقل نے ان میں اضافہ کر دیا۔

            شاید بعض لوگ یہ گمان کریں کہ کچھ علوم کے الہام کے ذریعہ انسان کو القا ہونے کا نظریہ پرانا ہوچکا ہے اور اب اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں صرف عینی مشاہدات ہی علم کا منبع ہیں۔ کیونکہ حواس ظاہری مشاہدے اور تجربے کی تکرار کے ذریعہ ہی کسی چیز کو سمجھتے ہیں۔نیز لوگ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر اعتماد نہیں کرتے۔لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کیوں کہ آج کل کے دانشور کسی مفکر کے بعض مفروضوں کو اس کے لیے ایک قسم کا الہام سمجھتے ہیں ۔ مثلاً الیکسس کارل جو اشراق اور الہام کے نظریے کا حامی ہے وہ اپنی کتاب ‘‘انسان موجود ناشناختہ’’ میں کہتا ہے:‘‘یقینا سائنسی حقائق کا ظہور فقط انسانی سوچ بچار کا حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ مفکرین کو مسائل کا مطالعہ کرنے اور انہیں سمجھنے کی قوت کے علاوہ اشراق اور تصور خلاقہ جیسی دوسری خصوصیتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔ اشراق کے وسیلے سے وہ ان چیزوں کو پالیتے ہیں جو دوسروں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ پھر وہ ان مسائل کے درمیان کہ جو بظاہر آپس میں کوئی تعلق نہیں رکھتے، بعض نا معلوم روابط دریافت کر لیتے ہیں اور اپنی فراست سے فطرت کے اسرار کا پتا چلا لیتے ہیں۔ گویا کہ جس چیز کا جاننا ضروری ہوتا ہے، وہ اسے کسی دلیل اور تجربے کے بغیر ہی جان لیتے ہیں۔’’

            دانشوروں کو دو گرہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

٭منطقی

٭اشراقی

            تمام علوم اپنی ترقی کے لیے اہل دانش کے ان دونوں گروہوں کے مرہون منت ہیں۔ ریاضیات کہ جس کی بنیاد کاملاً منطقی ہے، لیکن اس کے باوجود اشراق نے بھی اس کی ترقی میں حصہ لیا ہے۔ انسانی زندگی میں دیگر علمی کلیوں کی مانند اشراق بھی ایک جانا پہچانا، طاقتور اور اس کے ساتھ ہی خطرناک عامل ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات اشراق اور توہم میں تمیز کرنا دشوار ہوتا ہے۔ لہٰذا فقط بزرگ اور نیک دل اشخاص ہی اس سے روحانی زندگی کے اوج کمال تک پہنچ سکتے ہیں۔یہ صلاحیت بلا شبہ حیرت انگیز ہے۔ کیونکہ یہ کسی تفکر اور استدلال کے بغیر ہی ادراک حقیقت کے بے بیان ہونے کو واضح کر دیتی ہے۔

            بعض دوسرے دانشوروں نے بھی اس خیال کی تائید کی ہے۔ حال ہی میں میرے ایک فاضل دوست نے فرانسیسی ریاضی دان ‘‘ژاک ہاوامارا’’ کے ایک مقالے کا ترجمہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے: ‘‘علمی کاوشوں پر باطنی شعور کا اثر۔’’انہوں نے یہ ترجمہ مجھے بھی دکھایا، اس میں لکھا تھا: ‘‘جب ہم ظہور اور ایجاد کے وسیلوں پر غور کرتے ہیں تو پھر یہ محال ہے کہ ہم اتفاقی ادراکات کے اثر کو نظر انداز کر سکیں۔ ہر صاحب تحقیق دانشور نے کم و بیش یہ محسوس کیا ہے کہ اس کی علمی زندگی اور اس کے نظریات، متواتر مساعی سے تشکیل پاتے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک ارادے اور شعور کا نتیجہ ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو باطنی الہامات سے حاصل ہوئے ہیں۔

            اس وقت مجھے یاد نہیں آتا کہ میں نے یہ کس کتاب میں پڑھا تھا کہ ہمارے دور کا عظیم سائنس دان آئن اسٹائن بھی بڑے بڑے نظریات کے بارے میں یہی تصور رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بڑے بڑے مفروضوں کی نمود کا ماخذ ایک قسم کا الہام اور اشراق ہے۔

            پس یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوگئی ہے کہ بنی نوع انسان کی زندگی میں کئی قسم کی غیبی مدد وجود رکھتی ہے۔ وہ کبھی دل اور ارادے کی تقویت ، کبھی مادی اسباب اور وسائل، کبھی ہدایت و روشن بینی اور کبھی بلند علمی خیالات کے الہام کی شکل میں ہوتی ہے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ انسان کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ خاص حالات میں خدائے تعالیٰ کی مہربانی اور عنایت اس کے شامل حال ہوتی ہے اور اسے گمراہی، پریشانی اور ناتوانی سے نجات دیتی ہے۔

            اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک فرد کے بارے میں یہ کیفیت ہے تو پھر انسانی معاشرے کے لیے کیا صورت ہوگی؟کیا یہ ممکن ہے کہ کسی وقت ایسی ہی غیبی عنایت انسانی معاشرے کی مدد کو بھی آپہنچے اور اسے نجات دے؟

            اتفاق کی بات ہے کہ ہمیشہ یا بالعموم جو ذہین افراد پیدا ہوئے ہیں اور جن عظیم الشان پیغمبروں (مثلاً حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمدؐ) نے ظہور فرمایا ہے۔ وہ ایسے حالات میں تشریف لائے جب انسانی معاشرے کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ وہ ایک غیبی ہاتھ کی طرح آستین سے باہر آئے اور انہوں نے بنی نوعِ انسان کو مصائب سے نجات دلائی۔ وہ ایک ایسی بارش کی مانند تھے جو بیاباں میں ایک پیاسے شخص کی خاطر برستی ہے۔ وہ خدائے تعالیٰ کے اس قول کے مصداق تھے: و نُریْدُ ان نَّمُنَّ علی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا فی الارضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃ وَّ نَجْعَلَھُمْ الْوَارِثِیْنَ(القصص: ۵)

            ‘‘اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کر دیے گئے ہیں ان پر احسان کریں، انہی کو لوگوں کا پیشوا بنائیں اور انہی کو اس زمین کا مالک بنائیں۔’’

            خدائے تعالیٰ نے ان پیغمبروں کے ذریعہ بے کسوں اور مظلوموں پر احسان کیا اور انہیں ان لوگوں کی نجات کے لیے مبعوث فرمایا جنہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا۔

(بشکریہ: معارف فیچر سروس ،کراچی)