راؤیعقوب میرے پرانے دوست ہیں۔ کسی زمانے میں ہم دونوں ایک سیاسی ہفت روزہ میں اکٹھے کام کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ 1970میں، مَیں لیکچرر ہو کر سرکاری ملازمت میں چلا گیا اور یعقوب صاحب، اسلام آباد کے ایک علمی ادارے میں آفیسر بن گئے۔ جہاں سے وہ 1999میں بیسویں گریڈ سے ریٹائر ہوئے۔ موصوف بہت اچھے قلم کار ہیں اور کئی وقیع انگریزی کتابوں کا انہوں نے خوبصورت اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔آج کل وہ لاہور کی ایک معروف بستی میں رہائش پذیر ہیں۔
موصوف نئے نئے لاہور منتقل ہوئے تھے کہ ایک روز اخبار میں پڑھا کہ راؤ یعقوب کا بیٹا جو ایک سال پہلے ہندستان میں گرفتار ہو گیا تھا، رہا ہو کر آگیا ہے۔ افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی کہ یہ کیا واقعہ ہے؟ ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑا ہی عجیب قصہ سنایا۔ کہنے لگے:
‘‘میرے سسرال ہندستان کے ضلع اعظم گڑھ میں ہیں۔تقریباً چار سال پہلے کی بات ہے، میں اسلام آباد ہی میں تھا جب میری بیگم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بھائی سے ملے بہت لمبا عرصہ ہوگیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ انتظام کر دیں اور میں جیتے جی اس سے ملاقات کر آؤں۔میرا ایک بیٹا یوسف قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔وہ کہنے لگا کہ میں بھی امی کے ساتھ جاؤں گا۔ ماموں سے مل آؤں گا اور ہندستان کی سیر بھی کر آؤں گا۔ چنانچہ میں نے بھی یہ سوچ کر بیٹے کی تجویز سے اتفاق کیا کہ بیگم کا تنہا سفر کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں چلے جائیں۔ دونوں ماں بیٹے کے پاسپورٹ اور ویزوں کا انتظام ہوا تو وہ دونوں ایک دن ہوائی جہاز سے ہندستان چلے گئے۔
لیکن یہ کیا؟ وہ آج گئے اور دوسرے ہی روز شام کو ہوائی جہاز سے واپس اسلام آباد آگئے۔ ہم سب ہکا بکا رہ گئے۔ خیال آیا کہ شاید کسی شک کی بنا پر ہندستان والوں نے دلی سے آگے نہیں جانے دیا۔ لیکن ایسا ممکن نہ تھا کہ ہم نے بھارتی سفارت خانے سے قواعد و ضوابط کے مطابق باقاعدہ ویزہ حاصل کیا تھا۔ بیگم کا برا حال تھا، اس کی رو رو کر آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ کیا حادثہ ہوا ہے؟ تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے ہچکیاں لے لے کر بتایا کہ آپ کے بیٹے نے وہاں ضد اور ہٹ دھرمی کی انتہا کر دی۔
بیگم نے بتایاکہ میرے بھائی جس گاؤں میں رہتے ہیں وہاں بجلی بھی نہیں ہے، وہ بڑا ہی پس ماندہ علاقہ ہے۔ پھر میرے بھائیوں نے بھینسیں پال رکھی ہیں، گھر کے ساتھی ہی مویشیوں کا باڑہ ہے اور گوبر، سبزے اور گندے پانی کی کثرت کی وجہ سے گاؤں میں مچھر بڑی کثرت سے ہیں اور خوب پلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ رات کو جب ہم سوئے تو یوسف پر تو مچھروں نے گویا یلغار ہی کر دی۔ گاؤں کے لوگ تو اس صورت حال کے عادی تھے، مگر یوسف کے لیے یہ بالکل نیا، اور تکلیف دہ تجربہ تھا۔ ساری رات مچھر اسے کاٹتے رہے، وہ ایک لمحے کے لیے بھی سو نہ سکا، جاگتا رہا اور روتا رہا۔اور صبح ہوتے ہی اس نے چیختے ہوئے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اس گاؤں میں مزید ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھہرے گا اور لازماً آج ہی واپس جائے گا۔ وہ بار بار چلا رہا تھا اور اس مطالبے کی تکرار کیے جا رہا تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ اس کے ماموں کا بارہ تیرہ سالہ بیٹا قریبی ندی میں مچھلیاں پکڑنے گیا اور ڈوب کر مر گیا۔ اب میت صحن میں پڑی تھی، سارا گاؤں اظہار غم کے لیے جمع ہوگیا تھا، بلکہ قرب و جوار کے رشتہ دار بھی اکھٹے ہوگئے تھے، لیکن یہ لڑکا اس انتہائی سوگوار فضا سے مکمل بے نیاز مسلسل بآوازِ بلند چیختا چلا جارہا تھا کہ میں یہاں ہر گز نہیں ٹھہروں گا اور ابھی واپس جاؤں گا۔ سارے رشتہ دار اسے منانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماں نے اس کی منتیں کیں، اپنا دوپٹہ اس کے قدموں پر رکھ دیا، ماموں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے کہ مجھے معاف کر دو۔ مَیں آج کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کر دوں گا۔ شہرسے مچھر دانی لے آؤں گا اور مچھر والا تیل بھی خرید لوں گا۔ بس تھوڑا صبر کرو، حوصلے سے کام لو، میری بہن کئی سالوں کے بعد آئی ہے، اسے چند روز میرے پاس رہ لینے دو اور اب تو ہمارے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے، اس کا ہی کچھ لحاظ کرو، آج ہی واپسی کی ضد نہ کرو۔لیکن اس لڑکے نے کسی کی منت سماجت اور آہ و زاری کی پروا نہ کی۔ ماں کا دوپٹہ اٹھا کر دور پھینک دیا اور ماموں کے اشک آلود ہاتھوں کو جھٹک دیا اور ایک ہی ہٹ پر قائم رہا کہ میں یہاں ہر گز نہیں رکوں گا اور آج ہی واپس جاؤں گا اور ہر قیمت پر جاؤں گا۔ چنانچہ زچ ہو کر ماموں نے کمال ایثار سے کام لیا، بیٹے کا جنازہ موخر کیا اور بہن اور بھانجے کو ساتھ لے کر خود علی گڑھ گیا اور دونوں کو ٹرین پر بٹھا دیا۔ یہ دلی آگئے اور شام کی فلائٹ سے واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔
راؤیعقوب نے بتایا کہ اس صورتِ حال نے مجھے غم اور غصے کی شدید ترین کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ مجھ پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں اوربیٹے سے کیا سلوک کروں؟ وہ جوان، ضدی اور بے حد اکھڑ مزاج تھا۔ سختی کرتا تو پتا نہیں کیا کر گزرتا۔ زجرو توبیخ کا وہاں کوئی فائدہ نہ تھا۔ چنانچہ بے بسی کے عالم میں ، مَیں بے اختیار رو پڑا اور دیر تک روتا رہا۔
راؤ صاحب نے بتایا: اس واقعے کو دو سال گزر گئے ۔ میرے اس بیٹے نے یونیورسٹی سے ایم بی اے مکمل کر لیا اور ایک بین الاقوامی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہو کر اس کے لاہور آفس کا مینجر بن گیا۔
یہ ملازمت حاصل ہوئے بہ مشکل ایک سال گزرا تھا کہ اس کمپنی نے دلی میں ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کرانے کاپروگرام بنایا اور اپنے لاہور آفس کوپابند کیا کہ وہ بھی اپنا ایک مندوب سیمینار میں شرکت کے لیے بھجوائے۔ چنانچہ راؤ یوسف اس میں شمولیت کے لیے تیار ہوگیا۔
راؤ صاحب نے بتایا کہ جب میرے بیٹے نے مجھے فون پر اطلا ع دی کہ ہماری کمپنی کا دلی میں سیمینار ہے اور میں اس میں شرکت کے لیے جارہا ہوں تو میں نے اسے لعن طعن کی کہ اب تم کس منہ سے ہندستان جاؤ گے۔ پہلے تم نے کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا تو وہ ہنس کر کہنے لگا کہ میں نے وہاں ماموں کے گاؤں تھوڑی جانا ہے؟ خدا کی پناہ کہ میں دوبارہ وہاں کبھی جاؤں۔ میں دلی جاؤں گا، وہاں ہوٹل میں رہوں گا، سیمینار اٹنڈ کروں گا، دلی اور آگرہ کی سیر کروں گا اور واپس آجاؤں گا۔
میں نے اسے کہا کہ دیکھو احتیاط کرنا، فراڈ بہت ہورہے ہیں، کسی پرائیویٹ منی چینجر سے کرنسی تبدیل نہ کرانا۔ کسی بنک یارجسٹرڈ منی چینجر ہی سے رقم تبدیل کرانا۔ مگر بدقسمتی سے اس نے میرے مشورے اور نصیحت کی پروا نہ کی۔ وہ لاہور سے سمجھوتا ایکسپریس پر سوار ہوا تو ٹرین میں ایک منی چینجر آگیا۔ اس نے جھانسا دیا کہ میں عام بنکوں کے مقابلے میں زیادہ ہندستانی کرنسی دوں گا۔ چنانچہ میرے بیٹے نے اسے ایک ہزار کا پاکستانی نوٹ دے کر ہندستان کے سو سو کے نوٹ حاصل کر لیے۔
واہگہ سے آگے ہندستان کی سرحد شروع ہوئی۔ راؤ یوسف بارڈر کراس کر کے اٹاری پہنچا اور ریلوے بکنگ آفس پر دلی کا ٹکٹ لینے کے لیے ایک سو روپے کا نوٹ متعلقہ کلرک کو دیاتو اس نے ٹکٹ دینے کے بجائے نوٹ کو جعلی قرار دے دیا اور فوراً ہی پولیس بلا لی۔ راؤ یوسف کو گرفتار کر لیا گیا اور ہتھ کڑی لگا کر حوالات پہنچا دیا گیا۔
راؤ یعقوب صاحب نے بتایا: دوسرے روز مجھے امرتسر سے فون آیا، میں سردار بھگت سنگھ وکیل بول رہا ہوں، آپ کا بیٹا راؤ یوسف جعلی کرنسی کے کیس میں گرفتار ہوگیا ہے، وہ حوالات میں ہے ، آئیے اور اس کی ضمانت کروا لیجیے۔
یعقوب صاحب نے بتایا کہ آپ میری پریشانی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ صدمے سے برا حال ہوا۔ لیکن ظاہر ہے بیٹے کا معاملہ تھا بیٹھا تو نہیں جاتا تھا۔ میں اسلام آباد میں تھا اور صحافتی حلقوں میں میرے وسیع مراسم تھے۔ میں نے بھاگ دوڑ کر کے ہندستان کا ایمرجنسی ویزہ حاصل کیا۔ زرِ مبادلہ میں ایک لاکھ روپے کا انتظام کیا اور دوسرے ہی روز ہوائی جہاز سے دلی پہنچ گیا۔ وہاں سے پہلے اعظم گڑھ گیا، اپنی بیگم کے بھائی کو ساتھ لیا اور امرتسر پہنچ گیا۔ وہاں بھگت سنگھ وکیل سے ملا۔ پہلے ہی روز میرے ساٹھ ہزار روپے خرچ ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے بیٹے کی ضمانت ہوگئی اور ضمانت اُسی ماموں نے دی جس کے گھر میں راؤ یوسف نے بضد ایک دن بھی ٹھہرنا گوارا نہ کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگرچہ ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جارہا ہے لیکن جب تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوگا، وہ ہندستان سے باہر نہیں جاسکتا۔ اس طرح راؤ یوسف کو گیارہ مہینے تک انتہائی ذلیل و خوار ہو کر اسی ماموں کے ، اُسی گھر میں رہنا پڑاجہاں تین سال پہلے اس نے سنگ دلی اور سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں میں وہ ذہنی اور عملی طور پر کس اذیت اور ذلت کی کیفیت میں مبتلا رہا ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان تین سالوں میں گاؤں نے ترقی کا ایک بھی زینہ طے نہیں کیا تھا۔ اللہ نے حیرت انگیز طور پر اپنی صفتِ عدل کا کرشمہ دکھا دیا تھا۔