تو جناب جب میرم پور میں میرا دھندہ کسی طور نہ چلا، فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ گئی تو میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ گھر میں تھوڑا سا آٹا بھی نہیں ہے کیا؟ و ہ نیک بخت بولی:‘‘چار چپاتی کا ہوگا۔’’میں نے جیب میں سے آخری اٹھنی نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا:‘‘ جا بازار سے بینگن لے آ، آج چپاتی کے ساتھ بینگن کی بھاجی کھالیں گے۔ ’’ وہ نیک بخت بولی:‘‘اس وقت تو کھالیں گے، شام کے کھانے کا کیا ہوگا؟’’ ‘‘تو فکر نہ کر، وہ اوپر والا دے گا۔’’ میں نے کہا۔ پھر میری نظر شیشے کے اس بکس پر پڑی جس میں چھوٹا سا تاج محل رکھا ہوا تھا۔ یہ تاج محل میں نے نئی نئی شادی کے دنوں میں اپنی بیوی کے لیے آگرہ میں خریدا تھااور تاج محل کو دیکھ کر ہی خریدا تھا۔ محبت بھی کیا چیز ہے، اس بیس روپے کے تحفے کو پا کر میری بیوی کا چاند سا مکھڑا گلابی ہوگیا تھا۔اس وقت جب میں نے اس شیشے کے تاج محل کو دیکھ کر کہا:‘‘کچھ نہ ہوا تو اس کھلونے کو بیچ دیں گے۔’’تو جناب اس کا چہرہ ایسا پیلا پڑ گیا جیسے کسی نے یکایک اس کے چہرے کا سارا خون کھینچ لیا ہو، خوف، مجبوری اور نا امیدی کے ملے جلے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں بولیـ:‘‘نہیں میں اِسے بیچنے نہ دوں گی، یہ تو... یہ تو میرے سہاگ کی نشانی ہے۔’’میں نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہوئے بہت نرمی سے کہا:‘‘ اچھا نہیں بیچیں گے اِسے، کچھ اور بیچ دیں گے۔ ہوسکتا ہے اوپر والا کوئی اور سبیل کردے، تو اس وقت جا کر بینگن تو لے آ، بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔’’
وہ بازار سے بینگن لے آئی۔ رسوئی میں بیٹھ کر اس نے پہلا بینگن کاٹا ہی تھا کہ اسے اندر سے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ ‘‘ارے’’ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔‘‘کیا ہے؟’’ میں رسوئی کے اندر گیا اس نے مجھے کٹا ہوا بینگن دکھایا۔ ‘‘دیکھو تو اس کے اندر کیا لکھا ہے؟’’ میں نے غور سے بینگن دیکھا۔ بینگن کے اندر بیج کچھ اس طرح ا یک دوسرے سے جڑ گئے تھے کہ لفظ اللہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ‘‘ہے بھگوان’’ میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:‘‘یہ تو مسلمانوں کا اللہ ہے۔’’
محلہ پور بیاں جہاں میں رہتا تھا، ملا جلا محلہ ہے یعنی آدھی آبادی ہندوؤں کی اور آدھی مسلمانوں کی ہے۔ لوگ جوق در جوق اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ ہندوؤں اور مسیحیوں کو تو اس بینگن پر یقین نہ آیا لیکن حاجی میاں چھنن اس پر ایمان لے آئے اور پہلی نذر نیاز انہوں نے ہی دی۔ میں نے اس کٹے ہوئے بینگن کو اس شیشے کے بکس میں رکھ دیا جس میں تاج محل رکھا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک مسلمان نے اس کے نیچے ہرا کپڑا بچھا دیا۔ منن میاں تمباکو والے نے قرآن خوانی شروع کر دی۔ پھر کیا تھا شہر کے سارے مسلمانوں میں اس بینگن کا چرچا شروع ہوگیا۔ جناب! سمتی پورہ سے میمن پورہ تک اور ہجواڑے سے کمانی گڑھ تک اور ادھ ٹیلا میاں کے چوک سے لے کر محلہ کوٹھیاراں تک سے لوگ ہمارا بینگن دیکھنے کے لیے آنے لگے۔
لو گ باگ بولے ایک کافر کے گھر میں ایمان نے اپنا جلوہ دکھایا ہے۔ نذر نیاز بڑھتی گئی۔ پہلے پندرہ دنوں میں سات ہزار سے اوپر وصول ہوگئے۔ جس میں سے تین سو روپے سائیں کرم شاہ کو دیے جو چرس کا دم لگا کر ہر وقت اس بینگن کی نگرانی کرتا تھا۔
پندرہ بیس دن کے بعد جب لوگوں کا جوش ایمان ٹھنڈا پڑتا دکھائی دیا تو ایک رات جب سائیں چرس کا دم لگا کر بے سدھ پڑا تھا میں نے آہستہ سے اپنی بیوی کو جگایا اور کٹے ہوئے بینگن کے اوپر سے شیشے کا بکس ہٹا کر کہا:‘‘ دیکھو کیا دِکھائی دیتا ہے۔’’ وہ بولی:‘‘اللہ۔’’ میں نے کٹے ہوئے بینگن کا رخ ذرا سا سرکایا اور پوچھا:‘‘اب کیا دکھائی دیتا ہے؟’’ ‘‘اوم ، ارے یہ تو اوم ہے۔’’ میری بیوی نے انگلی ٹھوڑی پر رکھ لی۔ اس کے چہرے پر استعجاب تھا۔ راتوں رات میں نے پنڈت رام دیال کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بلا کر کٹے ہوئے بینگن کا بدلا ہوا رخ دکھایا۔ پنڈت رام دیال نے چیخ کر کہا:‘‘ارے یہ تو اوم ہے اوم۔ اتنے دنوں تک مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہے۔’’ اس کی چیخ سن کر سائیں کرم شاہ جاگ گیا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ پھٹی پھٹی سرخ آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ پنڈت رام دیال نے اسے لات مار کر کہا:‘‘ نکل بے، ہمارا دھرم بھرشٹ کرتا ہے، اوم کو اللہ بتاتا ہے۔’’بس پھر کیا تھا سارے شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کٹے ہوئے بینگن کے اندر دراصل ‘‘اوم’’ کا نام کھدا ہوا ہے۔ اب پنڈت رام دیال نے اس پر قبضہ جما لیا۔ رات دن آرتی ہونے لگی۔ بھجن گائے جانے لگے، چڑھاوا چڑھنے لگا۔ میں نے رام دیال کا حصہ بھی رکھ دیا تھا کہ جو محنت کرے اسے بھی پھل ملنا چاہیے، لیکن بینگن پر ملکیت میری ہی رہی۔ اب شہر کے بڑے بڑے سنت جوگی اور شدھ مہاتما اور سوامی اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے جہاں اللہ نے اوم بن کر اس کٹے ہوئے بینگن میں گویا مسلمانوں کو شکست دی تھی اور پانی پت کی تینوں لڑائیوں کا بدلا چکا دیا تھا۔ شہر میں جابجا لیکچر ہورہے تھے ۔ ہندو دھرم کی فضیلت پر دھواں دار بھاشن دیے جارہے تھے۔ شہر میں تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ہندو کہتے تھے یہ اوم ہے، مسلمان کہتے تھے یہ اللہ ہے۔ اللہ اکبر۔ ہری اوم ست۔اگلے پچیس دنوں میں کوئی پندرہ بیس ہزار کا چڑھاوا چڑھا اور سونے کی انگوٹھیاں اور سونے کا ایک کنگن بھی ہاتھ آیا لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کا خمار پھر ڈھلنے لگا۔ تو جناب! میں نے سوچا اب کوئی اور ترکیب لڑانی چاہیے۔ سوچ سوچ کر جب ایک رات پنڈت رام دیال بھنگ کے نشے میں دھت فرش پر لیٹے ہوئے تھے، تو میں نے اپنی بیوی کو جگا کر کہا:‘‘ نیک بخت دیکھو اس شیشے کے بکس کے اندر کٹے ہوئے بینگن کے اندر تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟’’‘‘اوم ہے صاف اوم ہے۔’’ میں نے اوم کا زاویہ ذرا سا اور سرکا دیا! اور پوچھا‘‘اب بتا کیا دکھائی دیتا ہے؟’’ وہ دیکھ کر گھبرا گئی۔ منہ میں انگلی ڈال کر بولیـ:‘‘ہے رام یہ تو عیسائیوں کی صلیب ہے۔’’ ‘‘شش۔’’ میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا:‘‘بس کسی سے کچھ نہ کہنا۔ صبح تک چپ رہنا ہوگا۔ کل اتوار ہے۔ کل صبح میں پادری ڈیورنڈ سے ملوں گا۔’’
کٹے ہوئے بینگن میں مسیحی صلیب کو دیکھنے کے لیے پادری ڈیورنڈ اپنے ساتھ گیارہ عیسائیوں کو لے آئے اور بینگن کی صلیب دیکھ کر اپنے سینے پر بھی صلیب بنانے لگے۔ اور عیسائیوں کے بھجن گانے لگے اور سر پرجالی دار رومال اوڑھے خوب صورت فراک پہنے سڈول پنڈلیوں والی عورتیں اس معجزے کو دیکھ کر نہال ہوتی گئیں۔ شہر میں تناؤ اور بھی بڑھ گیا۔ ہندو کہتے تھے اس بینگن میں اوم ہے، مسلمان کہتے تھے اللہ ہے، عیسائی کہتے تھے صلیب ہے۔ بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جانے لگے۔ اکا دکا چھرے بازی کی وارداتیں ہونے لگیں۔ سمتی پورہ میں دو ہندو مار ڈالے گئے اور مستری محلے میں تین مسلمان۔ ایک عیسائی شہر کے بڑے چوک میں ہلاک کر دیا گیا۔ شہر میں دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی گئی۔
جس دن میری گرفتاری عمل میں آنے والی تھی اس سے پہلے دن کی رات میں نے بینگن کو موری میں پھینک دیا۔ گھر کا ساراسامان باندھ لیا اور بیوی سے کہا:‘‘ کسی دوسرے شہر چل کر دوسرا دھندا کریں گے۔’’
‘‘ تو جناب! تب سے میں بمبئی میں ہوں۔ میرم پور کے ان دو مہینوں میں جو رقم میں نے کمائی تھی اس سے ایک ٹیکسی خرید لی ہے۔ اب چار سال سے ٹیکسی چلاتا ہوں اور ایمانداری کی روزی کھاتا ہوں۔’’ اتنا کہہ کر میں نے میز سے اپنا گلاس اٹھایا اور آخری گھونٹ لے کر اسے خالی کر دیا۔ یکایک میری نگاہ میز کی اس سطح پر گئی جہاں میرے گلاس کے شیشے کے پیندے نے ایک گیلا نشاں بنا دیا تھا میں نے اپنے دوسرے ساتھی ٹیکسی ڈرائیور محمد بھائی سے کہا:‘‘ محمد بھائی دیکھو تو اس گلاس کے پیندے کے نیچے جو نشان بن گیا ہے یہ اوم ہے کہ اللہ؟’’
محمد بھائی نے غور سے نشان کو دیکھا، مجھے دیکھا پھر میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر کہا:‘‘ابے سالے! یہ بمبئی ہے یہاں اوم ہے نہ اللہ نہ صلیب۔ جو کچھ ہے روپیہ ہے بس روپیہ۔’’ اتنا کہہ کر محمد بھائی نے میز پر ہاتھ پھیر کر پانی کے نشان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔