اردو املا کی درستی

مصنف : خالد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : جولائی 2008

            آپ نے دیکھا ہوگا کہ اردو کے بہت سے الفاظ مختلف کتابوں، رسالوں اور اخبارات میں مختلف طریقوں سے لکھے جاتے ہیں۔ املا کا یہ اختلاف اور انتشار ایک افسوس ناک صورت حال کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس اختلاف کو کم اور دور کرنے کے لیے ذیل میں چند اصول اور قاعدے بیان کیے جارہے ہیں۔

۱:۔ حتی الوسع لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔ خصوصاً مرکبات کو، مثلاً : ان کو، آپ کے، کے لیے، جائے گا، جس قدر، خوب صورت، آج کل، قلم کار، عقل مند، بے شک، بے خوف، ہم قدم۔

اِنہیں یوں لکھنا درست نہ ہوگا: انکو، آپکے، کیلئے، جائیگا، جسقدر، خوبصورت، آجکل، قلمکار، عقلمند، بیشک، بیخوف، ہمقدم۔

۲:۔ انگریزی اور یورپی الفاظ بھی الگ الگ لکھنا ہی مناسب ہے، اس طرح انہیں پڑھنا نسبتاً آسان ہوگا، مثلاً:کاپی رائٹ ، پبلی کیشنز، یونی ورسٹی، سیمی نار، انڈی پینڈنٹ، ٹیلی گراف، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، انسٹی ٹیوٹ، ایجی ٹیشن، سائنٹی فک، انسائی کلوپیڈیا۔البتہ بعض الفاظ ملا کر ہی لکھے جائیں گے، جیسے: کانفرنس، پارلیمنٹ، میونسپلٹی وغیرہ...

            ہائے ملفوظ (ہ) والے الفاظ ( ہ، شروع میں ہو، خواہ درمیان میں) کہنی دار ‘ہ’ سے لکھنا درست ہے۔ جیسے کہ: ہمیشہ، دہلی، لاہور، انتہا، ہمارا، اہم وغیرہ...

            ہائے مخلوط‘ھ’ اور ہائے ملفوظ ‘ہ’ میں امتیاز کرنا ضروری ہے، ورنہ الفاظ کے معنی بدل جائیں گے، جیسے: ‘بھائی’ اور ‘بہائی’ ۔ اسی طرح: ‘‘گھر’’ اور ‘‘گہر’’ مختلف المعانی الفاظ ہیں۔

۳:۔ بعض عربی الفاظ کے آخر میں الف کی آواز ہے، مگر وہاں بجائے الف کے ‘ی’ اور ‘واؤ’ لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف( الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے(اسے کھڑا زبر بھی کہتے ہیں) جیسے: ادنیٰ، اعلیٰ، ربوٰ... مگر اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پورے الف سے رائج ہیں، جیسے تماشا، تقاضا، ربا، مدعا وغیرہ...(کئی الفاظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں) ایسے لفظوں کا املا اس طرح مناسب ہوگا، جیسے:ادنا، اعلا، تمنا، مدعا، مولا، دعوا، فتوا، معرا وغیرہ...باقی الفاظ اس طرح لکھنا مناسب ہوگا، جیسے: اولیٰ، مقفیٰ، عقبیٰ، مجلسِ شوریٰ، تقویٰ، مجتبیٰ، موسیٰ، عیسیٰ، تعالیٰ، یدِ طولیٰ، سدرۃ المنتہیٰ وغیرہ...

خیال رہے کہ ‘استعفا’ صحیح ہے‘استعفی’ غلط ہے۔

۴:۔ سابقے اور لاحقے (بہ، چہ، کہ) ملا کر لکھنا بہتر ہے، مثلاً: بلکہ، چنانچہ، کیونکہ، جبکہ، بشرطیکہ، بخدا، بخوبی، بدقت، بہرحال، بدستور، بدولت وغیرہ...

۵:۔ بعض عربی الفاظ کے درمیانی حروف پر چھوٹا الف(کھڑا زبر) آتا ہے۔ (جیسے اسمٰعیل، رحمٰن) بہتر ہے، ایسے الفاظ پورے الف سے لکھے جائیں۔ اس طرح کمپوزنگ میں بھی آسانی ہوگی ، مثلاً : ابراہیم، اسماعیل، رحمان، اسحاق، یاسین، مولانا، (نہ کہ : مولیٰنا) وغیرہ۔

۶:۔ عربی اور ترکی کے کچھ الفاظ اسی طرح غیر عربی یعنی انگریزی ، ہندی، اور یورپی زبانوں کے الفاظ بھی‘ہ’ سے نہیں بلکہ ‘الف’ سے لکھنا درست ہے، مثلاً:ملغوبا، قورما، سانچا، ڈاکیا، شوربا، ڈھانچا، معما، تماشا، بقایا، تمغا، مچلکا، حلوا، مربا، خون خرابا، ناشتا، آریا، داروغا، کٹورا، غنڈا، راجا، ڈراما، دھماکا، بھروسا، کلیجا، پتّا، پتا، باڑا، بلبلا، تارا، گھونسلا، میلا، انگارا، فرما، انڈا، وغیرہ بطور استثنا ، بعض الفاظ کا املا یہ ہوگا (کیونکہ یہ اسی طرح رائج ہیں: نقشہ ، کمرہ، زردہ، غبارہ، عاشورہ، خاکہ، بارہ، تکیہ، مہینہ، سموسہ، سقہ، ماشہ، تولہ، آزوقہ، پسینہ، روپیہ وغیرہ...

۷:۔ بعض الفاظ میں ہمزہ اور بعض میں ‘ی’ کا استعمال اس طرح ہوگا۔

صحیح:               غلط:

لیے                   لئے

چاہیے                چاہئے

جیے                  جئے

چاہییں                چاہئیں

لکھیے               لکھئے

کیجیے              کیجئے

دیے                  دیئے

۸:۔ ‘انشاء اللہ’ کا املا قرآن پاک کے مطابق لکھنا مناسب ہے: ‘ان شاء اللہ’۔ اگر اسے ملا کر‘انشاء اللہ’’ لکھیں گے تو اس کا معنی مختلف ہوگا۔

۹:۔ اضافت کے قاعدے میں ‘لفظ’ کے آخری حرف کے نیچے زیر آتاہے، جیسے: ماہِ رمضان، تحریکِ اسلامی، اتمامِ حجت...مگر جن الفاظ کے آخر میں یائے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں، اس ‘ے’ کے نیچے زیر آئے گا( نہ کہ ہمزہ) مثلاً:

صحیح:                  غلط:

مرضیِ خدا             مرضیء خدا

رعنائی ِ خیال          رعنائیء خیال

آزادیِ وطن             آزادی ء وطن

۱۰:۔ عربی جمع اور مصادر کے آخر میں ہمزہ آتا ہے جبکہ اردو میں ان کے آخر میں ہمزہ نہیں لکھیں گے، مثلاً: ابتدا، انتہا، ارتقا، التوا، ابتلا، استدعا، اولیا، انبیا، جہلا، وزرا، فقرا، حکما، غربا، املا، اخفا،ا لقا وغیرہ۔

۱۱:۔ الف پر ختم ہونے والے انگریزی الفاظ کے آخر میں ہمزہ لکھنا قطعی غلط ہے۔ مثلاً: مار شل لا، بارایٹ لالکھنا صحیح ہے جبکہ: مارشل لاء ، بار ایٹ لاء غلط ہے۔

۱۲:۔ مرکب اضافی لکھنے کی صحیح صورت یہ ہوگی: حکماے اسلام، ابتداے کار، یعنی ‘ے’ پر ہمزہ نہیں ہوگا، کیونکہ ‘ے’ اضافت کی علامت ہے اور ہمزہ کی قائم مقام ہے، اس کے اوپر ایک اور ہمزہ لگانا زائد اور غیر ضروری ہے۔

۱۳:۔ مرکب عطفی کی صورت یہ ہوگی: شعرا و ادبا، فقرا و مساکین ، آباو اجداد وغیرہ...

۱۴:۔ بعض فارسی الفاظ اردو میں فارسی ہی کے طریقے پر اور کبھی اس سے مختلف اندا ز میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ کا یہ املا درست ہے: آیندہ، جویندہ، نمایندہ، آزمایش، آلایش، آرایش، آسایش وغیرہ۔

۱۵:۔ بعض انگریزی الفاظ کا املا اس طرح صحیح ہوگا: بنک نہ کہ بینک، بائبل نہ کہ بائیبل، انجینر نہ کہ انجینیر وغیرہ۔

۱۶:۔ اردو کتابوں، رسالوں اور عبارتوں میں ہندسے بھی اردو میں لکھنا مناسب اور انگریزی میں لکھنا غلط ہوگا، جیسے: ۷، ۱۳۶، ۶۱۵ نہ کہ: 615,136,7...

۱۷:۔ بعض انگریزی الفاظ، اب اردو کے الفاظ بن چکے ہیں۔ ان کی جمع اردو (نہ کہ انگریزی) قاعدے کے مطابق بنائی اور لکھی جائے گی، مثلاً سکول کی جمع سکولوں نہ کہ سکولز، یونی ورسٹی کی جمع یو نی ورسٹیوں نہ کی یونی ورسٹیز، کالج ،کالجوں نہ کہ کالجز، چیلنج: چیلنجوں نہ کہ چیلنجز، پروگرام، پروگراموں نہ کہ پروگرامز۔خیال رہے کہ سکول، کالج، پروگرام، ہسپتال، وغیرہ واحد ہیں مگر اردو میں جمع کے معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔