وفا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2008

            وہ بہت خوبصورت تھی۔رنگ ایسا سفید کہ جیسے خالص دودھ سے بنی ہو۔ اس کے سب انداز نرالے تھے ۔ہم اٹھتے تو وہ بھی اٹھ جاتی ہم بیٹھتے تو وہ بھی بیٹھ جاتی ، ہم چلتے تو وہ بھی چل پڑتی اور ہم رکتے تو وہ بھی رک جاتی ۔اسے ہمارے ساتھ ساتھ رہنا بے حد پسند تھا۔کبھی کبھی تو وہ دور کھڑی صرف ہمیں دیکھا کرتی ،ایسے میں اس سے لپٹ جانے کو دل کرتا۔ ہمارے ساتھ اس کی سنگت کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں بنتی مگر آج ۲۲ برس گزر جانے کے بعد بھی وہ ہماری یادوں ہی ایسے ہی تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ اسے صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ گھر کے درودیوار سے بھی عجب طرح کی محبت تھی ۔ گھر سے اور گھروالوں سے دوری اسے پسند نہ تھی۔لیکن موت سے کسے مفر ہے؟ آخر اسے بھی موت نے آن گھیرا لیکن اس کا جان دینے کا انداز بھی سب سے جدا نظر آیا۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی آئی اور اس نے میری اہلیہ کے قدموں میں گر کر جان دے دی۔اگر اس کی ایک چونچ، دو پنجے اور پیاری سی کلغی نہ ہوتی تو وہ کسی اورہی سیارے کی مخلوق نظر آتی بلکہ میرادوست کہا کرتا تھا کہ اگر یہ ہندستان میں ہو تی تو ہند و بھائی اسے بھی دیوی بنا لیتے۔

            وہ پہلی او رآخری مرغی تھی جسے ہم نے بڑی محبت سے پالا تھا۔جب وہ چوزے کی صورت، میرے گھر میں آئی تھی تو انہی دنوں میری اہلیہ دلہن کی صورت آئی تھی چنانچہ دونوں میں بہت دوستی ہو گئی۔جوں جوں وہ جوان ہوتی گئی اس کی محبت بھی ہمارے ساتھ جوان ہوتی گئی۔ میں اہلیہ سے کہا کرتا کہ یہ تو میری رقیب لگتی ہے مجھ سے زیادہ تو یہ تمہارے قریب رہنا پسند کرتی ہے۔ اُس کا زیادہ وقت کچن میں گزرتا تھاکیونکہ اس کی مالکن بھی زیادہ تر کچن میں ہوتی تھی مگر مجال ہے کہ وہ وہاں کوئی گندگی پھیلاتی ہو۔ اسے جب بھی بھوک محسوس ہوتی تو وہ بڑی مدھم آواز میں اپنی مالکن کے قریب آکر پکارا کرتی تھی ۔زور زور سے چلاّنا اسے سخت ناپسند تھا۔غالباًفطری طور پر وہ شور کی آلودگی سے انسانوں سے زیادہ آگا ہ تھی۔ اسے آٹا گوندھنے کے وقت کا پورا علم تھا۔ اس وقت وہ ضرور حاضر رہتی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی مالکن اسے ضرور آٹاکھلائے گی اور یہ اس کی پسندیدہ غذا تھی۔ اس کے علاوہ اسے پراٹھا بہت پسند تھا۔ سادہ روٹی سے البتہ پرہیز کرتی تھی۔سبزی بھی شوق سے کھاتی ،کچی بھی اور پکی ہوئی بھی۔ تمام سالن اور چاول بھی اس کو مرغو ب تھے۔البتہ اسے زمین پر کھانا ناگوار گزر تا تھا ۔اگر کبھی اس کی مالکن ایسا کرتی تو وہ منہ بسور کے بیٹھ جاتی۔ وہ ہمیشہ برتن میں کھانا پسندکرتی تھی۔دن میں بعض اوقات وہ سیر کے لیے باہر نکل جاتی۔لیکن وہ والدہ مرحومہ کی آواز کو خوب جانتی تھی وہ جوں ہی اسے بلاتیں تو وہ فوراً لوٹ آتی۔وہ نہ گھر کاراستہ بھولتی تھی اور نہ ہی اسے کبھی گھر پہچاننے میں دقت پیش آتی تھی۔اسی اثنا میں ہمارے گھر کی تعمیر نو شروع ہو گئی۔ ظاہر ہے ایک ہنگامہ تھا جو برپا ہو گیا۔شروع شروع میں تو وہ بہت گھبرائی لیکن جلد ہی اس نے خود کو اس ماحول کا بھی عادی کر لیا۔ جوں ہی مستری مزدور آتے وہ باہر نکل جاتی ۔ دوپہر کے کچھ لمحات میں واپس آتی اور کچھ کھا پی کے واپس چلی جاتی ۔وہ اذان مغرب کی بہت شناسا تھی۔اذان کے ساتھ ہی وہ گھر لوٹ آتی۔ اور اپنے دڑبے میں بیٹھ کے سو جاتی لیکن سونے سے قبل وہ اپنی مالکن کا طواف کرنا نہ بھولتی۔سیٹرھیوں کے نیچے ہم نے اس کا ایک چھوٹا سا دڑبہ بنا رکھا تھا۔ لیکن تعمیر میں یہ بھی درہم برہم ہو گیا تو اس کی مالکن نے اس کے لیے ایک لکڑی کا ڈبہ بیڈ روم میں رکھ لیا۔ ایک دن اسے بتا یا گیا کہ اب تم نے اس میں سونا ہے ۔ وہ فوراً سمجھ گئی اور پھر خود ہی وہاں سونے لگی۔اس افراتفری میں بھی اسے یہ نہ بھولتا کہ اس نے ہر حال میں انڈہ اپنے گھرمیں ہی دینا ہے۔ اس کی اڑان بھی خوب تھی۔ وہ مستریوں مزدوروں کو خاطر میں نہ لاتی اور شٹرنگ کو پھلانگتی ہوئی آتی اور اپنے ڈبے میں انڈہ دے کر پھر باہر نکل جاتی۔چار دیواری جب گیٹ کے ساتھ مکمل ہو گئی تووہ سمجھ گئی کہ اب گیٹ کے راستے ہی آنا ہو گاچنانچہ وہ گیٹ سے آنے لگی ۔اس کے لیے کبھی کبھار اسے بہت انتظار کرنا پڑتا کہ گیٹ کا راستہ سامان یا مزدوروں وغیرہ سے اٹا ہوتا۔ ایک بار وہ باہر تھی اور ہمیں کسی کام سے سسرال جانا پڑ گیا۔ مستری مزدور چھٹی پر تھے۔ہم نے گیٹ کو تالا لگایا اور چلے گئے۔ وہاں مغرب ہو گئی میری اہلیہ کو یاد آیا کہ مرغی تو باہر تھی اس کا کیا بنے گا؟ ہم جلد ی جلد ی لوٹے ۔ رات کا اندھیرا پھیل چکاتھا۔ جب ہم پہنچے تو وہ گلی میں گیٹ کے ساتھ چمٹی بیٹھی تھی۔ یہ غنیمت تھی کہ نہ تو کسی اچکے کی نظر اس پر پڑی اور نہ کسی بلے کی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ خوشی سے نہال ہو گئی۔ ہم نے گیٹ کھولا ، پہلے تووہ کٹ کٹ کرتی اپنی مالکن کے قدموں سے لپٹی اور پھر بھاگ کر اپنے ڈبے میں آ بیٹھی۔انڈہ دینے کی عمر کو پہنچی تو وہ ر وزانہ انڈہ دینے لگی اس کے بعد اس نے کبھی ناغہ نہ کیا۔ میں کبھی کبھی حیران ہوکے اہلیہ سے کہتا کہ یہ کیا مخلوق ہے ؟یہ کبھی ناغہ نہیں کرتی۔

            گھر کی تعمیر مکمل ہو گئی تو پھر اس کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا۔ اسے فضول باہرپھرنا پسندنہ تھا۔لیکن وہ جو کہتے ہیں اللہ واسطے کابیر ، یہ اس کے معاملے میں بالکل صادق آیا۔ ایک بلے کو اس سے اللہ واسطے کا بیر ہو گیا اور وہ ہر وقت اس کی تاک میں لگا رہتا۔وہ بھی اس کو سمجھ گئی تھی اس لیے وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنی مالکن سے چمٹی رہتی۔ وہ بہت معصوم تھی اور بلا بہت عیار۔وہ مسلسل موقع کی تلاش میں رہا ۔ چند دن بعد بیچاری نے سمجھاکہ اب دشمن تھک گیا ہے اس لیے وہ تھوڑا بہت ادھر ادھر بھی ہو جاتی۔ دشمن کوموقع مل گیا،وہ اس پر جھپٹا۔ بھلااس معصوم کا اس سے کیا مقابلہ! اس کی چیخ سن کر اس کی مالکن ننگے پاؤں بھاگی۔بلاّ یہ حملہ دیکھ کر گھبرا یا اور اسے چھو ڑ کر بھاگ گیا۔ لیکن دشمن جاتے جاتے کاری وار کر گیا تھا۔ اس کی گردن اور سینے پرزخم آئے تھے۔شام ہوئے مجھے اس سانحے کی خبر ملی تو بہت افسو س ہوا۔ ہم نے اس کے علاج کی حتی الوسع کوشش کی۔دن میں کئی کئی بار اہلیہ اسے مرہم اور دوا لگاتی ۔ کچھ امید سی ہو گئی تھی کہ شاید وہ بچ جائے ۔ وہ سارا دن ڈبے میں پڑی رہتی اور جب ہم اس کی مرہم پٹی کرنے لگتے تو وہ بہت حسرت سے ہماری طرف دیکھا کرتی۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولتی البتہ کبھی کبھی ایسی آوازیں نکالتی کہ جس سے محسوس ہوتا کہ شاید آخری سلام کہہ رہی ہے۔اور پھر تین دن بعد وہی ہواجو ہونا تھا ۔ کچھ نہ دوا نے کام کیا، اور موت کاوقت آن پہنچا۔ وہ اپنے ڈبے سے نکلی ، لڑکھڑاتی ہوئی آئی اور اپنی مالکن کے قدموں میں گر کر جان دے دی۔ میں شام کو گھر پہنچا تو دیکھا کہ اہلیہ کارو روکر برا حال ہے ۔ معلوم ہوا کہ مرغی تو رخصت ہو گئی۔یہ خبر سنتے ہی مجھے یوں محسو س ہوا کہ جیسے وہ جاتے جاتے میرے لیے یہ کہہ گئی ہو۔ ‘‘اب وہ آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا ۔ یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو!’’ اس کی ‘‘رخصتی’ ’کے ساتھ ہی ہماری مرغیوں سے محبت بھی رخصت ہو گئی ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب کوئی مرغی اس گھرمیں نہ آئے گی۔ آئے بھی کیوں؟ نہ اس جیسی ملے، نہ لائیں!

            ۲۲ برس ہو چلے آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ وہ مرغی کتنی قیمتی مرغی تھی۔ اس کی ۳۶۵ دن کی زندگی میری ہزاروں روزہ زندگی کویہ سبق سکھا گئی کہ مالک کا بن کر جینا ہے اورمالک کا بن کر مرنا ہے ۔ جس کا کھانا ہے اسی کا دم بھرنا ہے ۔ سوچتا ہوں وفااور وفاداری بھی کتنی عزیز چیز ہے۔ مرغی جیسی بظاہر حقیر مخلوق اگر وفاکر جائے تو وہ بھی دلوں میں جگہ بنا لیتی ہے اگر انسان اپنے مالک کا وفادار بن جائے تو کیا وہ اپنے مالک کے نزدیک مقام نہ پائے گا! اور پھر جب کہ مالک ہو بھی رحیم اور کریم ! مرغی تو انڈہ دیتی ہے ،اس کا انڈہ اس کا استحقاق ثابت کرتا ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے، اسے کھلایا اورپلایاجائے ۔ ہمارے مالک کو تو ہمارے ‘‘انڈوں’’ کی ضرورت نہیں اورویسے ہمارے پاس ہے بھی کیا؟

            تہی دامن ہونے کی شرمندگی کبھی کبھی دل کو اتنا بوجھل بنا دیتی ہے کہ پہروں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ مالک میں تیرا شکر کیسے ادا کروں۔میرے پاس تیرے حضور پیش کرنے کو ہے کیا؟ عبادت میری ناقص ،اطاعت میری گھٹیا، محبت میری خود غرضی،سوچ میری آلودہ ، عمل میرے کم تر اور لفظ میرے محددو۔اور آخر میں یہ کہہ کے چپ رہ جاتا ہوں کہ مالک اپنے اس بندے کو تو خود ہی وفا کرنا سکھا دے کہ جس کے پاس تیرے حضور پیش کرنے کو کچھ بھی نہیں سوائے دعاؤں کے الجھے لفظوں کے ۔ تو کریم ہے اور کریم تو بغیر استحقاق کے بھی دیا کرتا ہے، انہی الجھے لفظوں کو قبول فرما اور میرے الجھے رستوں کو سلجھا دے۔