(مسلمان دولتمندوں کے لیے لمحہ فکریہ)
دنیا میں ہنری فورڈ کے بعد روکفلر سب سے بڑا مالدار ہے۔ یہ ابتدا میں مزدور تھااور پندرہ پندرہ گھنٹے روزانہ کام کیا کرتا تھا۔ اس کی دولت کا اندازہ ۲۳ کروڑ پاؤنڈ ہے۔ بڑا محنتی شخص تھا۔اس نے ابتدا سے یہ عہد کیا کہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ خیرات کر دیا کرے گا۔
اس کی نوٹ بک جس میں وہ پائی پائی کا حساب لکھا کرتا تھا، اس کے پاس اب بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ اس نوٹ بک میں اس کی سب سے پہلی خیرات پانچ پینس درج ہے۔ جونہایت ہی حقیر رقم ہے۔یہ رقم مسیحی دین کی تبلیغ کے لیے دی گئی۔ اس حساب سے پورے ماہ کی خیرات تین شلنگ اس نے تبلیغ کی مد میں دیے اور کل پانچ ہفتوں میں اس کی خیرات ۷شلنگ ہوئی۔ حالانکہ اس وقت تک اسے تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اور یہ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لیے گلوبند بھی خرید سکے۔ مگروہ یہ عہد کر چکا تھا کہ روز ی کا حساب لگا کر اس کا دسواں حصہ ، روز خیرات کر دیاکروں گا۔ اس کی خیرات مذہب کی تبلیغ میں اور قومی کاموں میں صرف ہوتی تھی۔ اس کے بعد جب وہ ترقی کر گیا تو اپنی خیرات بھی اسی حساب سے بڑھا دی۔ 1890ء میں اس نے ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے پندرہ لاکھ روپے دیے۔ ایک اور یونیورسٹی کو اس نے بعد میں جو رقم دی وہ حیرت میں ڈالنے والی ہے۔ تقریبا ً یونیورسٹی کے قیام کے نصف مصارف ساٹھ لاکھ روپے اس نے دیے۔ اس یک مشت عطیہ کے علاوہ اس زمانہ میں اس نے جو متفرق خیراتیں دیں، ان کی میزان بھی چالیس لاکھ روپے ہے۔
1929ء میں جس روز اس نے کام چھوڑا اس روز بھی اس کی ثروت اور دولت کا اندازہ تئیس کروڑ پونڈ تھا۔
جب حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے اپنی زندگی میں اس رقم سے تگنی رقم مذہبی اور قومی کاموں میں صرف کر دی ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ ساٹھ ستر کروڑ خیرات کر چکا ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کے ساتھ وہ روزانہ گرجا میں پابندی سے جاتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ امر قابل عبرت ہے۔جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اتنی دولت کہاں ہے کہ وہ اتنی بڑی رقمیں خیرات کی مد میں دے سکیں۔ انہیں اس شخص کی ابتدائی زندگی پر غور کرنا چاہیے کہ جب وہ ایک گلو بند بھی نہیں خرید سکتا تھا، جب بھی اس کایہی حال تھا، اور جب وہ پٹرول کا بادشاہ کہلانے لگا اس وقت بھی وہ اپنے عہد پر قائم رہا۔ نہ صرف یہ ، بلکہ اس کی مجموعی خیرات اس کی دولت کے تین حصے سے بھی زیادہ تھی۔ کیا مسلمان کسی ایسے شخص کا نام بتا سکتے ہیں ، جس نے اسلام کے لیے یا مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے اپنی دولت سے تگنی رقم خیرات کی ہو؟ جس قوم میں ایسے افراد موجود ہوں، اس کے مشنریوں کے تبلیغی نظام کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔