اْردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ان کا تلفظ اور مطلب مختلف ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ایسے ہی کچھ الفاظ کا ذکر کریں گے۔
حروف پہ لگے ہوئے اِعراب (زیر، زبر، پیش اور جزم) کو غور سے دیکھئے تاکہ تلفظ کا فرق واضح ہو سکے۔
اَتَم: (الف پر زبر، ت پر بھی زبر) یہ لفظ عربی سے آیا ہے اور اسکا مطلب ہے پورا، مکمل، کامل۔
اُتّم: (الف کے اوپر پیش، ت کے اوپر زبر اور تشدید) یہ لفظ سنسکرت سے آیا ہے اور اس کا مطلب ہے اْونچا۔
اَثنا : ( الف کے اوپر زبر، ث کے اوپر جزم) عرصہ، وقفہ، دوران، مثلاً دریں اثنا یا اسی اثنا میں۔
اِثنا عَشَر: ( الف کے نیچے زیر) بارہ۔ 12۔ مثلاً وہ اِثنا عشری عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔
اِشفاق: ( الف کے نیچے زیر) خوش خلقی ، اچھا سلوک، مہربان رویّہ۔
اَشفاق: (الف کے اوپر زبر) شفقت کی جمع۔
اِشکال: (الف کے نیچے زیر) مْشکل، دشواری، پیچیدگی۔
اَشکال: (الف کے اوپر زبر) شکل کی جمع، شکلیں، صورتیں۔
اَعراب: (الف پر زبر) عرب کی جمع یعنی خطہّء عرب کے باشندے، عربی لوگ۔
اِعراب: ( الف کے نیچے زیر) حروف کے اوپر نیچے لگنے والے نشانات جیسے زیر، زبر، پیش وغیرہ۔
اَقدام: ( الف کے اوپر زبر) قدم کی جمع۔
اِقدام: ( الف کے نیچے زیر) قدم اْٹھانے کا عمل، آغازِ کار۔
اَمارَت: (الف کے اوپر زبر) امیری، دولت مندی
اِمارت: (الف کے نیچے زیر) ریاست، حکومت، سٹیٹ، اسکی جمع ہے اِمارات، چنانچہ متحدہ عرب اِمارات میں الف کے نیچے زیر آئے گی۔
آذر: ( ‘ذ’ کے ساتھ) آگ، شمسی سال کا نواں مہینہ۔
آزر: (‘ز’ کے ساتھ) حضرت ابراہیم کے والد کا نام۔
پارس: ( ‘ر’ کے اوپر جزم) ایران کا پرانا نام۔
پارَس: ( رے کے اوپر زبر) ایک داستانی پتھر جس کے چھونے سے ہر چیز سونا بن جاتی ہے۔
ثَقَل: ( ث پر زبر، ق پر بھی زبر) بوجھ، سامان، قیمتی یا اہم چیز۔
ثِقل: ( ث کے نیچے زیر، ق پر جزم) بوجھل ہونے کی کیفیت، بھاری پن، مثلاً ثِقلِ سماعت یا کششِ ثِقل۔
جَدّی: ( جیم پرزبر، دال پر تشدید) آبائی، مثلاً جدّی پْشتی اِملاک۔
جَدی: ( جیم پر زبر لیکن کہیں کوئی تشدید نہیں) خطِ اِستِوا کے جنوب میں ایک اور فرضی خط۔ نجوم کی اصطلاح میں ایک برج کا نام۔
جْرم: ( ج پر پیش، رے پر جزم) خطا، قصور،
جِرم: ( ج کے نیچے زیر، رے پر جزم) جسم، وجود، اسکی جمع اَجرام ہے مثلاً اَجرامِ فلکی۔
جَگ: (جیم پر زبریعنی دنیا، عالم)۔
جُگ: (جیم پر پیش) دَور، زمانہ، مثلاً جُگ جُگ جیو۔ اس کی پرانی سنسکرت شکل ْیگ بھی مستعمل ہے مثلاً کل ْیگ اور ست ْیگ وغیرہ۔
جُھری: ( جھ کے اوپر پیش) شکن، سِلوٹ مثلاً جھریوں سے بھرا چہرہ۔
جِھری: ( جھ کے نیچے زیر) درز، دراڑ، مثلاً دروازے کی جھِری سے دکھائی دینے والا منظر۔
چَنٹ: ( چ پر زبر، ن پر جزم) چالاک، تیزطرار، چالباز۔
چُنّٹ: ( چ کے اوپر پیش، ن کے اوپر تشدید) کپڑے میں سلائی کے وقت ڈالی جانے والی فیشنی سلوٹ۔
حُب: ( ح کے اوپر پیش) پیار، لگاؤ، محبت۔
حَبّ: ( ح کے اوپر زبر) گولی، دانہ، مثلاً حَبِّ قبض یعنی قبض کی گولی۔
حَرّ: ( ح پر زبر) گرمی، تپش، اسی لفظ سے حرارت بنا ہے۔
حُرّ: ( ح پر پیش) آزاد، فری، اسی لفظ سے حْریّت بنا ہے۔
حْکم: ( ح پر پیش، ک پر جزم) امر، آرڈر، فرمان۔
َحکَم: ( ح پر زبر، ک پر بھی زبر) ثالِث، مْنصِف۔
حِکَم: ( ح کے نیچے زیر، کاف کے اوپر زبر) حِکمت کی جمع۔
خَبَث: ( خ پر زبر، ب پر بھی زبر) زنگ، آلائش، گندگی، مَیل
خُبث: ( خ کے اوپر پیش، ب پر جزم) کینہ، بدی، کھوٹ مثلاً خبثِ باطِن۔
خَفا: ( خ کے اوپر زبر) ناراض، ناخوش،
حِفا: ( خ کے نیچے زیر) چھْپنا، پردے میں ہونا، پوشیدگی۔
خَلَف: ( خ کے اوپر زبر، ل کے اوپر بھی زبر) بیٹا، جمع اخلاف یعنی اولادیں۔
خَلف: ( خ کے اوپر زبر، ل پر جزم) پیچھے، عقب میں۔ فوج کا پچھلا حصّہ
خِیام: ( خ کے نیچے زیر) خیمہ کی جمع
خَیّام: ( خ پر زبر‘ی’ پر تشدید) خیمے بنانے والا۔
دَہاڑ: ( دال پر زبر) شیر کی گرج۔
دھاڑ: جتھا، گروہ، ٹولا۔
ذَبح: ( ذال پر زبر، ب پر جزم) حلال کرنا، قربانی کرنا
ذِبح: ( ذال کے نیچے زیر، ب پر جزم) قربان کیا ہوا جانور۔
رَسَد: ( رے پر زبر، س پر بھی زبر) اشیائے ضرورت کی دستیابی، سپلائی۔
رَصَد: ( رے پر زبر، ص پر بھی زبر) دوربین سے آسمان کا مشاہدہ کرنا۔ چنانچہ آبزرویٹری کو رصد گاہ کہا جاتا ہے۔
سْدھارنا: ( س کے اوپر پیش) سنوارنا، درست کرنا، اِصلاح کرنا۔
سِدھارنا: ( س کے نیچے زیر) جانا، روانہ ہونا، راستہ پکڑنا۔
صَدِیق: ( ص پر زبر، دال کے نیچے زیر) دوست، رفیق، ساتھی۔
صِدِّیق: ( ص کے نیچے زیر، دال کے نیچے بھی زیراور دال کے اوپر تشدید) نہایت سچّا انسان۔جیسے ابوبکر صدیق
َصفَر: ( ص پر زبر، ف پر بھی زبر) قمری سال کا دوسرا مہینہ
صِفر: ( ص کے نیچے زیر، ف پر جزم) زِیرو۔
َضلال: ( ض پر زبر) گْمراہی، راستے سے بھٹک جانا۔
زْلال: ( ز کے اوپر پیش) نتھرا ہوا صاف پانی۔
عَیّار: ( ع پر زبر ‘ی’ پر تشدید) چالاک، بدمعاش، چالباز۔
عِیار: ( ع کے نیچے زیر) کسوٹی، معیار۔
کم عیار کا مطلب ہو گا غیر معیاری یا کھوٹا مال
عَمد: ( ع پر زبر م پر جزم) ارادہ، نیّت، مثلاً قتلِ عمد یعنی جان بوجھ کر کسی کو مار ڈالنا۔
عُمَد: ( ع پر پیش، م پر زبر) عْمدہ کی جمع، معاشرے کے اہم لوگ، اْردو میں عمائدین زیادہ استعمال ہوتا ہے جوکہ جمع الجمع ہے۔ مثلاً عمائدینِ سیاست، عمائدینِ حکومت وغیرہ۔
غَیض: نامکمل، ادھورا، کچّا۔ عربی کا یہ لفظ اْردو میں استعمال نہیں ہوتا۔
غَیظ: غصّہ، قہر۔اردو میں یہ غضب کے ساتھ مِل کر مرکب بناتا ہے۔غیظ و غضب۔ نوٹ کیجئے کہ غیظ میں ظ استعمال ہوتا ہے نہ کہ ض۔
فَرّار: ( ف پر زبر، رے پر تشدید) تیز دوڑنے والا۔
فِرار: ( ف کے نیچے زیر) بھاگ جانا، چنپت ہوجانا۔
قُوّت: ( ق کے اوپر پیش، واؤ کے اوپر زبر اور تشدید) طاقت، زور، توانائی۔
قُوت: ( سْوت اور بھْوت کے وزن پر) غذا، خوراک۔ قوتِ لایمْوت سے مْراد ہے بس اتنی سی خوراک جو جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔
کوڑی: گنتی کا پیمانہ جو 20 کے عدد کی نمائندگی کرتا ہے۔ دو کوڑی مالٹے سے مْراد ہو گی چالیس مالٹے۔ پانچ کوڑی کا سینکڑہ ہوتا ہے۔
کَوڑی: ( ک کے اوپر زبر) ایک طرح کا سمندری گھونگھا جو کھیلنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں سِکّے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، چنانچہ کَوڑی کَوڑی کو محتاج۔ انتہائی غریب شخص کو کہتے ہیں۔
لیس: چِپک جانے والی چیز، چپچپامادّہ۔
لَیس: ( ل کے اوپر زبر) تیار، آراستہ، سجابنا، ریڈی، مثلاً کِیل کانٹے سے لیس۔
لَیَلہ: (ل کے اوپر زبر) عربی کا لفظ ہے۔ مْراد ہے رات۔ مثلاً لَیَلۃالقدر
لَیلیٰ: ( لَے+لا) مجنوں کی محبوبہ کا نام۔
لِیلا: ( لام کے نیچے زیر) ہندی کا لفظ ہے، مْراد ہے جلوہ، تماشا مثلاً رام لِیلا۔
ماندا: (ہندی) بیمار، نحیف، کمزور، ناتواں، مثلاً تھکاماندا
ماندہ: (فارسی) بچا ہوا، رہا ہوا، ٹھہرا ہوا۔ عموماً تراکیب میں جزوِ ثانی کے طور پر آتا ہے مثلاً پس ماندہ یعنی پیچھے رہ جانے والا۔
مُثْبَت: ( م کے اوپر پیش، ث پر جزم، ب پر زبر) محکم، اقراری، موافق، منفی کی ضِد۔
مُثْبِت: ( ب کے نیچے زیر) عربی کا اسمِ فاعل ہے اور اْردو میں عموماً استعمال نہیں ہوتا۔ مْراد ہے ثابت کرنے والا۔
مُصَنِفّہ: ( م کے اوپر پیش، ص کے اوپر زبر، ن کے نیچے زیر اور ف پر تشدید) مْصنف کی مؤنث یعنی خاتون رائیٹر۔ مثلاً اس کتاب کی مُصنفہ عصمت چْغتائی ہیں۔
مُصَنَفّہ: ( ن کے اوپر زبر) اسمِ مفعول ہے یعنی لکھی گئی یا تحریر کی گئی چیز مثلاً تاریخِ لاہور مُصنفہ عبداللطیف یعنی عبداللطیف کی لکھی ہوئی تاریخِ لاہور۔
مکاتِب: ( ت کے نیچے زیر) مکتب / مکتبہ کی جمع مثلاً مکاتبِ فکر۔
مکاتیِب: (ی کا اضافہ دیکھیئے) مکتوب کی جمع یعنی خطوط۔ مثلاً مکاتیبِ اقبال، مکاتیبِ غالب۔
مَلَکہ: ( م کے اوپر زبر، لام کے اوپر بھی زبر) مہارت، مشّاقی۔
مَلِکہ: ( ل کے نیچے زیر) بادشاہ کی بیگم۔
نَظِیر: مثال، جیسے ماضی میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بے مثال چیز کو بے نظیر بھی کہتے ہیں۔
نَذِیر: خبردار کرنے والا، ڈرانے والا، تنبیہہ کرنے والا۔
نَفَس: ( ن پر زبر، ف پر زبر) سانس، اسکی جمع ہے انفاس۔
نَفس: (ف پر جزم) ذات، من، جی، دِل، روح، جان، اسکی جمع ہے نفوس۔
نُقطہ: نشان، بِندی، جیومیٹری میں دو خطوط کے قطع ہونے کا مقام۔
نُکتہ: ( جمع نِکات) کوئی باریک بات یا بات کا کوئی لطیف پہلو جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہو، نیز کسی بیان یا اعلان کی کوئی شِق مثلاً قائدِاعظم کے چودہ نکات
ملتے جْلتے الفاظ میں سب سے عام غلطی ان مرکبات میں نظر آتی ہے جو ‘کن’ پہ ختم ہوتے ہیں چنانچہ یہ نکتہ ذرا وضاحت سے بیان کیا جارہا ہے۔ فارسی میں ایک مصدر ہے ‘ کردن’ جسکا مطب ہے‘ کرنا’دوسرا مصدر ہے کَندن ( ک پر زبر) جسکا مطلب ہے کھودنا یا گودنا۔ پہلے مصدر سے ہمیں‘ کْن’ حاصل ہوتا ہے جس کا تعلق کچھ کرنے سے ہوتا ہے۔ مثلاً کارکْن یعنی کام کرنے والا، پریشان کْن پریشان کرنے والااور حیران کْن یعنی حیران کرنے والا۔ اِن تمام مرکبات میں کْن استعمال ہوا ہے جس کے کاف پر پیش ہے۔ اب دوسرے مصدر کی طرف آئیے جس سے ہمیں ‘ کَن’ کا لفظ ملتا ہے ( کاف پر زبر) اور اسکا تعلق کھودنے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ کان کَنی اور بیخ کَنی(جڑ کھودنا) وغیرہ لکھتے ہوئے اور بولتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کاف کے اوپر زبر ہے ، پیش نہیں ہے۔ موازنے کے لئے ایک بار پھر دیکھیئے کہ کام کرنے والے کو کہتے ہیں کارکْن ( ک کے اوپر پیش) لیکن کان کھودنے والے کو کہیں گے کان کَن، اسی طرح پہاڑ کھودنے والا کہلا ئے گا کوہ کَن کاف کے اوپر زبر ہے)