محمود احمد غازی مرحوم اور غامدی صاحب

مصنف : مبشر حسین

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : ستمبر 2017

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم پاکستان کے مایہ ناز اسلامی سکالر تھے، قدیم و جدید کا حسین امتزاج، روایت و جدیدیت میں نقطہ اعتدال، مشرق و مغرب میں ایک پل اور بہت کچھ۔۔ اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کے باوجود ساری زندگی اپنے آپ کو قانون اسلامی کا طالب علم ہی کہتے رہے۔ فقہ حنفی کے علاوہ دیگر فقہ کی امہات پر بھی گہری نظر تھی۔ علم کے ساتھ عمل، دیانت اور اخلاق اتنا کہ "مخالفین" بھی مان گئے۔
کم و بیش چودہ/پندرہ سال پہلے ان کی کچھ تحریروں پر تبصرے کے ذریعے ان سے علمی تعلق قائم ہوا جو ان کی وفات تک مسلسل قائم رہا۔ (میں ان کی فکر، علم اور عمل ہر چیز سے نہایت متاثر ہوا۔ کئی مرتبہ خط و کتابت ہوئی، ہمیشہ خط کا جواب دیتے۔ تاہم پہلی باقاعدہ ملاقات غالباً 2004 میں اسلامی یونیورسٹی میں ہوئی۔ ظاہری حلیے (پتلون پہنے ہوئے، داڑھی برائے نام) سے کافی "ماڈرن" دکھائی دیے۔ میں تو ان کے لیے"جلیل القدر" علماء والا حلیہ ذہن میں رکھے ہوئے تھا، خیر جب مختلف موضوعات پر بات ہوئی تو علم کا سمندر اپنے سامنے پایا
خود دفتری کام میں مسلسل مصروف رہے، لیکن مجھے گہرے علمی سوال کر ڈالتے۔ پوچھنے لگے: برصغیر کے کن علماء و مفکرین کو پڑھا ہے؟ میں نام گنوانے لگا، جب آخر میں جاوید احمد غامدی کا نام لیا تو قلم روک کر میری طرف سنجیدگی سے مخاطب ہوئے کہ ان کی تفصیل بتاؤ۔ اس دور میں غامدی صاحب کو میں تفصیل سے پڑھ چکا تھا اور ان کے بعض افکار پر نقد بھی لکھے تھے، اس لیے میں تفصیل بتانے لگا۔ ان کے کچھ "متنازعہ" مسایل بتائے تو کہنے لگے یہ سب باتیں پہلے بھی علماء کر چکے ہیں، کوئی ایسی بات بتاؤ جو تم سمجھتے ہو کہ "خطرناک" ہے؟ میں نے کہا، وہ شاید یہ ہے کہ غامدی صاحب حدیث کے ایک بڑے حصے کو "وحی" نہیں سمجھتے اور اس بنیاد پر تشریعی اور غیر تشریعی سنتوں کی ایسی تفصیل کرتے ہیں جو شاید پہلے کسی نے نہیں کی۔ پھر میں مزید تفصیل بتانے لگا کہ غامدی صاحب کس طرح سنت، حدیث، اسوہ اور سیرت وغیرہ کی اصطلاحات کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ غازی مرحوم دلچسپی سے میری باتیں سنتے رہے اور پھر کہنے لگے کہ یہ سب کام آپ کے "اصولی" علماء صدیوں پہلے کر چکے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے بہت سے "علمائ" بھی اپنی اسلامی تراث سے واقف نہیں۔ کاش یہ اپنے اصولیوں کو پڑھیں بلکہ شاہ ولی اللہ ہی کو گہرائی سے پڑھ لیں تو بہت سی باتوں کا خلاصہ یہیں مل جائے گا۔ پھر پوچھنے لگے، کیا تم نے قانون پڑھا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو بڑی شفقت سے کہا: "مبشر! تمہیں قانون بھی پڑھنا چاہیے، اس لیے کہ جو علماء اپنے اصولوں کے ساتھ جدید قانون بھی جانتے ہیں، وہی امت کے لیے کچھ کر سکتے ہیں، باقی بہت "پیچھے" ہیں!"
غازی مرحوم کا ظاہری حلیہ دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ شاید علامہ اقبال کی طرح آپ بھی داڑھی کے قایل نہ ہوں گے تو آخر میں جسارت کر کے پوچھ ہی لیا کہ داڑھی کو آپ کون سی سنت سمجھتے ہیں؟ اتنے میں ان کے سیکرٹری دفتر میں آ کر کہنے لگے کہ غازی صاحب میٹنگ کے لیے آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ غازی صاحب فورا ًاٹھے اور یہ کہتے ہوئے مجلس برخاست کی کہ "اس پر آیندہ کسی وقت بات کریں گے"۔ اس کے بعد غامدی صاحب کے حوالے سے کئی مرتبہ غازی صاحب سے گفتگو ہوئی، ہر مسئلہ میں (سوائے غامدی صاحب کے بعض نئے نظریات کے)، غازی صاحب متقدمین کے حوالہ جات دے کر بتا دیتے کہ "یہ بات پہلے بھی اہل علم کہہ چکے ہیں!"۔
ایک اہم بات جو غازی مرحوم سے سنی، یہ تھی کہ تشریعی اور غیر تشریعی احادیث و سنن کا فرق اصولاً درست ہے لیکن اس کے اطلاق پر علمائے امت کا شروع سے اختلاف رائے رہا ہے اور آج بھی ہے اور آیندہ بھی اختلاف ہوتا رہے گا۔ میں نے کہا یہی بات علامہ اقبال نے امام ابوحنیفہ کے حوالے سے بیان کی ہے تو فرمانے لگے: ہاں، اقبال کے علمی نکات بعض دفعہ "علماء " سے بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔
اس کے بعد میں نے غازی صاحب کی رہنمائی میں اپنے مطالعے کا رْخ مقامی اختلافات کی بجائے قدیم اسلامی ادب کی طرف موڑ دیا۔ بہت سے مقامی مذھبی اختلافی مباحث کی بنیادیں مجھے قدیم لٹریچر میں نظر آئیں۔ حتی کہ معلوم ہوا کہ بہت سے ایسے مسایل جنہیں خواہ مخواہ ہمارے مقامی/روایتی علماء "اجماعِ امت" سے تعبیر کر دیتے ہیں، قطعاً اجماع کی قبیل سے نہیں ہیں۔ سلف حتی کہ خلفائے راشدین کی بہت سی تشریحات و تعبیرات، جن پر ان کے دور میں اتفاق راے بھی ہوا، کو "وقتی" اور "انتظامی" نوعیت کے مسایل قرار دیا گیا ہے(شاہ ولی اللہ نے تو جرأت کے ساتھ اس پر بات کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہ علماء غامدی صاحب پر علمی تنقید کیا کریں گے جنہیں خود اپنی فقہ کے علاوہ دوسرے اصولیوں کی آراسے پہلے ہی "بدہضمی" ہو۔ اور میرے اکثر اھل حدیث دوست تو ویسے ہی "بے چارے" ہیں جنہیں پورے فقہی و اصولی ذخیرے سے پہلے ہی "نفرت" ہے، الا ما شااللہ! اور یہ یقینا اور بڑی زیادتی ہے کہ آپ علمی اختلاف رائے کو "برداشت" بھی نہیں کر پاتے، دوسروں پر "بدگمانی" اور منفی پراپیگنڈہ بھی دل کھول کر کرتے ہیں اور جب کسی کی علمی دلیل کا جواب نہیں بن پاتا تو "بندوق" اٹھا لیتے ہیں اور "گن پواینٹ" پر دھمکانا شروع کر دیتے ہیں۔
غامدی صاحب پر مختلف تنقیدیں پڑھنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ ان کی متنازعہ آراء کا سنجیدہ علمی محاکمہ ابھی تک، میرے سمیت، کوئی پیش نہیں کر سکا، سوائے ان چند تحریروں کے جو مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھی ہیں۔
غامدی صاحب کا "قصور" بھی کو ئی ایک نہیں۔اختلافی مباحث میں اپنی "رائے کو "الہامی قطعیت" کے ساتھ "حق" قرار دینا، اور اسی شد و مد سے دوسری آراکو "باطل" کہنا۔ اپنے مریض معاشرے کی "نفسیات" کو سمجھے بغیر "ٹابو" مسایل کو چھیڑنا۔ جب انہیں (یقینًا) پتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ بھی جاہل سماج میں "کھل" کر کئی باتیں نہیں کہہ سکے، علامہ اقبال بھی صاف کہہ گے کہ مجھے    "روایتیوں" سے ڈر لگتا ہے، مولانا مودودی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے بھی آپ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، پھر بھی آپ نے "مذھبی شہید" بننے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا!، لیکن شاید غامدی صاحب کا ضمیر اس پر مطمین ہو) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ "مقامی حنفی اسلام" کے برعکس دوسری آراء کے اظہار میں قدیم مراجع کا عدم ذکر۔ اگر آپ نے ایک رائے قدیم  اسلامی ذخیرے سے لی ہے تو اس کے قایلین اور مصادر کا زیادہ سے زیادہ پرچار کرنا چاہیے تھا کیونکہ "اَکابر پرست" معاشرے کو اس طرح سمجھانا شاید آسان ہوتا۔
دراصل اسلامی تعبیرات اپنے آپ کو زمان و مکان کے ساتھ مربوط رکھنے کے لیے تغیر پذیر ہوتی رہتی ہیں اور اسی لیے اسلام چودہ صدیوں میں کبھی جامد یا غیر متعلق نہیں ہوا۔ زمان و مکان کے ساتھ ربط کا روایتی فلسفہ وہی ہے جو موسم کی تبدیلی یا سانپ کی کھلڑی/جلد کی تبدیلی سے آپ سمجھ سکتے ہیں اور غازی مرحوم تبدیلی کے اسی روایتی فلسفہ پر عمل پیرا تھے۔مودودی صاحب کو بھی بعد میں اسی پر آنا پڑا۔ علامہ اقبال بھی اسی کو پْرتاثیر سمجھتے تھے اور اسی لیے مولانا انور کاشمیری کی "منت" کی تھی تاکہ مذھبی "لینڈسکیپ"، "اہل روایت" ہی کے ذریعے بدل سکیں۔ دوسری طرف غیر روایتی طریقہ، جو غامدی صاحب نے اپنایا، یہ ہے کہ آپ راتوں رات "انقلاب" برپا کر دیں اور یہ روایتی طریقے کے مقابلے میں اکثر ممکن نہیں ہوتا، الا یہ کہ مارکس کی فکر کو لینن کی شکل میں "اقتدار" مل جائے۔ یہ وہ پسماندہ معاشرہ ہے جسے "سو سنیار کی" چاہییں خواہ "صدیاں" ضایع ہو جائیں مگر "ایک لوہار کی" نہیں چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں غامدی صاحب نے "ہومیوپیتھی" طریقہ علاج کی بجائے "سرجری" کرنی چاہی اور اس سرجری میں کچھ شریانیں "غلطی" سے کاٹ گئے ہیں، اب دیکھیے مریض معاشرہ، جسے "سرجری" کی "تکلیف" سے ہر "معالج" قاتل دکھائی دینے لگتا ہے، بحالیِ صحت کی طرف جاتا ہے یا مزید رجعت قھقری کی طرف۔
 میرے نزدیک غامدی صاحب بھی بنیادی طور پر ایک "عالم دین" ہی ہیں، خواہ آپ کتنا ہی اختلاف کریں اور ان آرا بھی دوسرے علماء کی طرح "اجتہادی آرائ" ہی ہیں، خواہ غامدی صاحب کے "مقلدین" کتنا ہی اسے "مقدس" کیوں نہ کہیں۔ خود مجھے ان کی بعض آراء سے اتفاق بھی ہے اور بعض سے سخت اختلاف بھی۔ اس لیے درست رویہ یہی ہے کہ اجتہادی اختلافی مسایل میں "برداشت" کے جراثیم پیدا کریں اور دوسرے کی "دلیل" کا اپنی "دلیل" ہی سے جواب دیجیے، پتھر اور بندوق خدارا نہ اٹھائیے۔جن دوستوں سے علمی بنیادوں پر جواب نہیں بن پاتا وہ آج کل اْس کہانی کو دہرا رہے ہیں جس میں مولوی صاحب ہندو دوکاندار کا "بل" (قرض) ادا کرنے سے مْکر جاتے ہیں اور اس کے خلاف "ملک رام وہابی ہو گیا" کا الزام لگا دیتے ہیں اور اس مظلوم کی دوکان ہی بند ہو جاتی ہے۔یعنی جب علمی جواب نہیں بن پاتا تو الزام لگا دیا جاتا ہے کہ "یہ تو "غامدی" ہو گیا ہے!۔۔۔ بیس تیس سال پیچھے جائیں تو غامدی کی جگہ "مودودی" اور مزید پیچھے جائیںتو "وہابی" کا لفظ دوبارہ رکھا جا سکتا ہے ۔باقی پھر کبھی۔

چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
۲۔وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔
۳۔ نفس کو جبراََ غیر کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور ان وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔
۴۔محسود(جس سے حسد کیا جائے) کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو ان تما م امور میں مزید کامیابیاں دے جن پر آپ کو حسد ہے۔
۵۔محسود سے محبت کا اظہار کیجئے اور اس سے مل کر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔
۶۔ ممکن ہو تو محسود کے لئے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔
۷۔اگرپھر بھی افاقہ نہ ہو تو ہو تو محسودسے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لئے کہیں۔لیکن اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کہیں بات بگڑ نہ جائے۔
٭٭٭