ایک اللہ والے نے کہا کہ بھائی اگر چاہتے ہوکہ تمہاری نماز ہمیشہ قبول ہی ہو ا کرے تو اسے جماعت کے ساتھ پڑھا کرو۔ فرمایا، اس لیے کہ جماعت کی نماز اللہ کے ہاں ایک گروپ کی شکل میں حاضر ہوتی ہے ۔ اس گروپ میں سے اگر کسی ایک کی بھی قبول ہو جائے تو اس کے صدقے سب کی قبول ہو جاتی ہے ۔ فرمایا کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جب گندم بوری میں بند ہو کے بکتی ہے تو گندم میں موجو د کنکر بھی گندم کے بھائو بک جاتے ہیں۔ورنہ یہ کنکر الگ سے بکتے تو ان کی کوئی قیمت نہ تھی۔ یہ سن کے میں نے سوچا کہ حج کے لیے جانا ہے تو کسی ایسے گروپ میں شامل ہونا چاہیے جس میں نیک لوگ شامل ہوں کہ ان کی دعا سے قرعہ اندازی میں ہمارا نام بھی آجائے ۔ چنانچہ میں نے ایسے گروپ کا انتخاب کیا جس میں دو نیک خواتین شامل تھیں۔ اور پھر واقعتا ایسے ہی ہوا کہ ان دو خواتین کی دعا سے سارا گروپ ہی قبول ہو گیا۔ ورنہ مجھے تو قرعہ انداز ی میں نام آنے کی امید نہ تھی۔
انسان کی صحبت اور مصاحبت کا معاملہ دعائوں کی قبولیت تک ہی محدود نہیں بلکہ صحبت انسان کے ہاں بنیاد ی اخلاقی تبدیلی میں بھی غیر معمولی کردارادا کرتی ہے ۔کوئی انسان جیسا بننا چاہے اسی طرح کے لوگوں کی صحبت اختیار کر لے وہ دھیرے دھیرے ویسا ہی بنتا چلا جائے گا۔اصل میں تو انسان کے حواس خمسہ ہیں جو اس کی اخلاقیات کے بننے اور بگڑنے کے ذرائع ہیں کیونکہ وہ جو دیکھتا ہے ، جو بولتا ہے ، جو سنتا ہے ، جو سوچتا ہے، سب کا اثر اس کے ایمان و اخلاق پر ہوتا ہے ۔ ایمان و اخلاق انہی راستوں سے بنتا ہے اور انہیں راستوں سے بگڑتا ہے ۔ اور صحبت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے ان سب راستوں پرمسلسل اثرا نداز ہو رہی ہوتی ہے۔او رہاں یہ نہ سمجھیے کہ اچھی صحبت کی نصیحت بس ایک اخلاقی نوعیت کی چیز ہی ہے ، نہیں بلکہ، یہ تاکید ربانی بھی ہے اور وہ تاکید ہے کونو مع الصادقین۔