ڈرائیور کا خیا ل تھا کہ اس کا ٹرک بآسانی پل کے نیچے سے گزر جائے گا مگر اس کا اندازہ غلط نکلا اور پل کی اونچائی کم ہونے کی وجہ سے ٹرک پل کے نیچے پھنس گیا۔ڈرائیور نے جب انجن کا زور لگا کر ٹرک کو نکالنے کی کوشش کی تو وہ مزید پھنس کر رہ گیا ۔اب وہ، نہ آگے ہوتاتھا نہ پیچھے۔صورت حال خراب ہوئی تو ڈرائیور نے ٹرک مالکان کو فون کیا۔ وہ پہنچ تو گئے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں وہ بھی ڈرائیور کی طرح ہی ناکام رہے۔بہت سے لوگ موقع پر جمع ہو چکے تھے۔ ہر کوئی اپنا اپنا مشورہ اور رائے دے رہا تھا۔ بعض کا خیا ل تھا کہ کسی مشین کی مدد سے پل کو نیچے سے کھرچ دیا جائے ، بعض کا خیا ل تھا کہ ٹرک سے سامان اتار کر اس کی باڈی کو کھولا جائے اوراس طرح اس کو گزارا جائے ۔لیکن کوئی بھی حل فوری اور آسان نہ تھا۔بڑے بڑے دماغ اس مسئلے کے سامنے چھوٹے نظر آئے ۔ اسی اثنا میں ایک بچے کا وہاں سے گزر ہوا ۔ اسے جب مسئلے کا علم ہوا تو وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ انکل یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے آپ یوں کریں کہ ٹائروں سے تھوڑی سی ہوا نکال دیں ،ٹرک ایک آد ھ انچ نیچے ہو جائے گا اور آرام سے گزر جائے گا۔ لوگ اس چھوٹے کی بڑی بات سن کر حیران رہ گئے اور بالآخرایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے اسی کی بات پرعمل کرنے پر مجبور ہوگئے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنہیں ہم چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں وہ کوئی بڑی بات کہہ رہے ہوتے ہیں اور جنہیں ہم بڑا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔لیکن سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح یہ لازم نہیں کہ ہر بڑے کی ہر بات بڑی ہی ہو ، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر چھوٹے کی ہر بات چھوٹی ہو۔
عمر ، عہدہ ، مال ، مقام مرتبہ ،اور اسی طرح جماعت ، تنظیم ، مسلک ، نظریہ ،قوم ، قبیلہ،بعض اوقات ہماری زبانوں کو گونگا ، کانوں کو بہرہ اورآنکھوں کو اندھا کر دیتے ہیں ۔یہ ایسے حجابات ہیں جو نہ صرف ہمیں حق کی پیروی سے محروم کر دیتے ہیں بلکہ حق سے بہت دوربھی لے جاتے ہیں۔حق کی پیروی کے لیے ان حجابات کو دورکرنے کی جدوجہدجس طرح ہر قوم قبیلے کے ذمے ہے اسی طرح یہ ہر فرد کے ذمے بھی ہے ۔ابھی وقت ہے کہ ہم جان لیں کہ اسلام کسی خاص رنگ، کسی خاص لباس، کسی خاص گروہ ، کسی خاص مسلک ، کسی خاص جماعت سے وابستہ ہونے کا نام نہیں بلکہ حق سے وابستہ ہونے اور اس سے چمٹے رہنے کانام ہے ۔
ہم عمر بھر ناموں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں لیکن یہ عین ممکن ہے کہ‘ منزل’ پہ پہنچ کے معلوم ہو کہ یہاں تو وہ سارے نام ،بے نام ہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جنہیں ہم بے نام سمجھتے رہے ،وہی تو اصل میں‘نام’ ہیں۔مسلمانوں والا نام رکھ کر اور خودکو مسلمان کہلا کر مطمئن ہوجانا بہت بڑا دھوکا ہے۔ اللہ اس سے بہت مستغنی ہے کہ کوئی خاص نام ،کوئی خاص فرد ، کوئی خاص جماعت ، کوئی خاص گروہ یا کوئی خاص قوم اس کی کمزوری بن جائے۔اسے حق کی پیروی مطلوب ہے اورحق کی پیروی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم ہروقت، ہر ایک کی بات نہ صرف پوری توجہ سے سننے کے لیے تیاررہتے ہوں بلکہ اس پرپورا غور بھی کرتے ہوں۔اور اگر بظاہرہم سے چھوٹے کی بات بھی کسی اچھائی ، بھلائی ، سچائی اورخیر کا پہلورکھتی ہو تو ہم اس کے مقابلے میں اپنی رائے قربان کرنے کے لیے بھی خود کو بخوشی تیار پاتے ہوں۔
حق کسی اجنبی چیز کانام نہیں بلکہ ہر خیر حق ہے ،ہر سچائی حق ہے اور ہر بھلائی حق ہے۔ یہ سب جہاں اور جس کے پاس بھی موجود ہوں انہیں حاصل کر نے کی تڑپ ہی حق ہے اور انہیں پانے کی جدوجہد ہی جوہر مسلمانی ہے ۔اصل کامیابی کے لیے ہمیں حق کی پیروی کرتے کرتے مرنا ہے اورمرتے مرتے بھی یہ پیروی کرنا ہے چاہے اس پیروی سے ہم دنیا میں چھوٹے ہی کیوں نہ کہلائیں۔ بڑا تواصل میں وہ ہے جو اللہ کے ہاں بڑا ہے اور چھوٹا بھی اصل میں وہی چھوٹا ہے جو اس کے ہاں چھوٹا ہے ۔یہاں کے کتنے ہی چھوٹے ‘وہاں’بڑے بن جائیں گے اور کتنے ہی بڑے چھوٹے ۔غبا ر چھٹے گا تو معلوم ہو گا ‘‘کون گدھے پر سوار تھا او رکو ن گھوڑے پر’’۔