اک ملحد سے پوچھا، تمہیں اللہ پہ ایمان لانے سے کس بات نے روکا ؟
کہنے لگا ، اس دنیا کی ناانصافی نے ،دیکھو نا، جا بجا ظلم ہو رہا ہے۔ اگر اللہ ہے تو پھر یہ ظلم کیسا ؟
پھر مجھ سے پوچھنے لگا۔
آپکو کیا چیز اس پہ ایمان لانے پہ مجبور کیے ہوئے ہے ؟
میں نے کہا ، وہی چیز جو تمھیں روکے ہوئے ہے ! پوچھنے لگا ، مطلب ؟
'ہاں مطلب یہ کہ ! دیکھو اس دنیا کی نا انصافی بہت کچھ بول رہی ہے۔کان رکھتے ہو تو سنو۔ یہی چیز تمہیں اللہ سے دور کرتی ہے مگر مجھے اللہ کے مزید قریب کر دیتی ہے "
کہنے لگا وہ کیسے؟ سمجھاؤ ذرا ۔میں نے کہا،
اس معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر لو، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ۔
مظلوم طبقے میں اک شخص نے پوری زندگی اپنی اک جھونپڑی کے اندر گزاردی، اسکی زندگی اسی کچے مکان کے سوراخ بند کرتے کرتے گزر گئی ،جہاں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔اس نے عاجزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس جرم کی سزا بھی بھگتتا رہا جو اس نے کبھی کیا ہی نہ تھا۔ اک شخص نے شاندار حویلی میں فرانسی پلنگوں پہ بے فکری سے سوتا رہا اور اپنے کیے ہوئے ہر جرم پہ بولنے والے کو اک دھاڑ میں ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیتا ہے۔
پھر اک عورت کی مثال لو جس نے عمر بھر تنگی میں گزار دی، اپنی ہر خواہش کو خاندان کی روایتوں کی نذر کر دیا ،مگر اہ تک نہ کی۔ اولاد کو بھوکا ، بیمار ، تڑپتا ہوا دیکھتی رہی اور اپنے ارمانوں کو اک اک کر کہ گھر کہ تکیوں میں سیتی رہی ۔دوسری جانب وہ عورت جسے اپنے اور بچوں کے عیش و عشرت کی زندگی میسر ہے، اک آواز پہ ہر سہولت حاضر ہے، مگر اس سٹیٹس پہ اسکے پاؤں زمیں پہ یوں پڑتے ہیں جیسے زمین پہ پڑی ہر چیز کو روندھ ڈالے گی، اس کے علاوہ گھروں کو اجاڑنا اسکا اولین فرض ٹھہرتا ہے ۔
پھر اک لڑکی ، جسے خوبصورتی ملی اور معاشرے میں قدم قدم پہ اسے ایسے ایسے مواقع فراہم کیے گئے کہ اگر وہ آگے بڑھتی تو آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتی، لیکن پھر بھی اس نے کوئی غلط رہ اختیار نہ کی۔ ان مواقع پہ دو حرف بھیجے اور غیرت کی چادر اوڑھے رکھی ۔دوسری طرف وہ لڑکی دیکھو جس نے ضرورت سے بھی زائد کی تمنا میں اپنی چادر کو بھی داؤ پہ لگا دیا۔ اور آخر کار لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے کھیلتے خود بھی کھلونا بن گئی۔
اب اگر خدا نہیں ہے، تو پھر قیامت بھی نہیں ہے۔ اسکا مطلب کہ ان تمام مختلف طبقات کے لوگوں کا انجام صرف موت ہو ہی گا ،اور کچھ بھی نہیں !لیکن کیا آپکی عقل مانتی ہے کہ یہ سب مر گئے تو انکی لاشوں کے ساتھ ہی سارا ماجرہ بھی وہیں ختم ہو جائے گا ؟
ان تمام لوگوں کا انجام 'صرف موت ' ہونا چاہیے؟ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ؟
جس نے ہزار قتل کے اسکی بھی اک بار جان نکلے،اور جس نے نا حق کسی کو تھپڑ بھی نہیں مارا اسکی بھی جان اک بارنکلے ؟؟
یعنی کوئی پوچھنے والا نہیں جو ہزار قتل کرنے والے کو اپنے سامنے کھڑا کرے ۔ اور دھاڑ کہ سوال کرے ؟
کیا انسانی عقل یہ تسلیم کر سکتی ہے کہ ان دو مختلف طبقوں کی زندگیوں میں، جہاں زمین آسمان کا فرق ہو لیکن دونوں کا انجام اک جیسا ہو ؟ یعنی کہ دونوں اپنی موت مر جائیں گے۔اور کچھ بھی نہیں ؟
یہ اک تلخ حقیقت ہی سہی کہ سب کو برابر نہ ملا ۔لیکن کیا یہ عقل مانتی ہے کہ یہاں بھی سب کو برابر نہ ملا۔ لیکن کیا آنکھ بند ہوتے بھی کسی ایسے سلسلے کا گمان نہ رکھا جائے ، جس میں اک عدالت قائم ہو اور جس میں سب کا حساب برابر کر دیا جائے !
کیا یہ معاشرتی ناانصافیاں کسی ایسی عدالت کی طرف اشارہ نہیں کررہیں ؟ جہاں سب کو برابر حق مل جانے کی امید ہو، وعدہ ہو ؟
جہاں ایسا 'جج' بیٹھا ہو جس کا ہر فرد سے برابر کا رشتہ ہو ، نہ کوئی اسکا بیٹا ہو نہ چچا نہ ماموں نہ نواسہ نہ بہنوئی، سب اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے کردار ہوں ، اور بس ! مزید کوئی تعلق نہیں ،اسکی عدالت میں کوئی رشتہ داری نہ ہو، کسی کو کوئی فیوور نہ ملے ۔وہاں سب کے لئے اک ہی میزان ہو ، اک ہی معیار ہو ، یعنی کہ تقویٰ ! سوائے عملی تقویٰ کہ کسی کو کسی پہ فضیلت نہ ہو ! وہ ایسا جج ہو کہ کوئی اسے بلیک میل نہ کر سکے ۔
اک ایسی عدالت قائم ہو جس میں ان لوگوں کا حساب طلب کیا جائے جنہیں اس دنیا میں زیادہ دیا جا رہا ہے !
جس میں ہم غافلوں کو پیشانی سے پکڑا جائے. اور ہمیں باور کروائے کہ تم پہ عطا کی فروانی میں تمہارا کوئی کمال نہیں تھا۔ بلکہ تمہاری آزمائش تھی۔
پھر جنہیں دنیا میں کم ملا تھا، انھیں راضی کرے کہ تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں تھا، بلکہ یہ بھی تمہاری آزمائش ہی تھی۔ اور انھیں وہ ساری خوشیاں اور تسکین فراہم کی جائے جو انہیں اک زندگی میں حاصل نہ ہوئی۔
اب جو ملحدین کہتے ہیں کہ ہم عالمی انصاف کی طرف کوشاں ہیں؛
تو جناب والا !
اگرآپ سر توڑ کوشش کر کہ اکیسویں صدی پہ انصاف کا بہترین معیار قائم کر بھی لو (جو کہ اس دنیا میں فی الوقت نا ممکن لگتا ہے) تو انکا کیا ہوگا جو اپنی اپنی حسرتوں کو لے کر تمہاری اکیسویں صدی سے قبل ہی قبروں میں جا لیٹے ہیں؟ کچھ وہ ہیں، جو خاندان کے خاندان اڑا کہ قبروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں ان کو کون نکالے گا اور تمہاری ریشنل عدالت میں کھڑا کرے گا تا کہ انھیں ان کے حصے کی سزا مل سکے؟ جس نے سو قتل کیے اسے بھی اک پھانسی اور جس نے اک قتل کیا اسے بھی اک ہی پھانسی ؟ کیا تمہاری عقل کسی ایسے دن کی طرف راغب نہیں ہوتی جس میں سو قتل والے کو سو بار ہی پھانسی پہ چڑھایا جائے ؟
تو عقل کے پجاریو ! جو نا انصافی آپکو خدا سے دور کر رہی ہے نا ! وہ ناانصافی نہیں بلکہ ڈھیل ہے، مہلت ہے، جو در حقیقت انصاف پہ مبنی ایک عدالت کا عقلی ثبوت دے کہ اس جج کی موجودگی کا سگنل دے رہی ہے ۔
فکر و نظر
نا انصافی