اللہ سے بندے کے تعلق کی اصل نوعیت تو عبداور معبود کی ہے لیکن اسی تعلق کی بہت سی جہات ،کیفیات اور نوعیتیں ایسی بھی ہیں جو بندہ ساری عمر دریافت کرتا رہتا ہے اور ہر دریافت اس پر ایک نئی آگہی کے دروازے کھولتی چلی جاتی ہے۔ دریافت کا لفظ بھی غالباً کچھ زیادہ موزوں نہیں کیونکہ یہ بندے کی کاوش سے بھلا کب ہوتا ہے !یہ تو جب مالک کا کرم ہوتا ہے تو وہ بندے کو اک نئے شعورسے خود ہی نواز دیتاہے ۔بقول جگر مراد آبادی، میری طلب بھی ان کے کرم کا صدقہ ہے ۔یہ قدم اٹھتے نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔یا بقول ایک عارف کے کہ ‘بھائی ہم پہ تو بس اختیار کی تہمت ہے ’ ۔ حقیقت یہ ہے کہ راہیں تو ساری ،وہ خود بناتا ہے اور کرم یہ کرتا ہے کہ نام ان پہ بندے کا لکھ دیتا ہے ۔اک اسباب کا پردہ ہے، ورنہ ہوتا تو سب کچھ پردے کے پیچھے سے ہے۔ خیر بات دور نکل گئی ۔بات یہ ہو رہی تھی کہ عبدیت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ ہر بندے کی اللہ سے تعلق کی نوعیت مختلف ہوتی ہے بلکہ وہ ا س مختلف نوعیت کے اند ر بھی آگے مختلف پہلو محسوس کرتا رہتا ہے بشرطیکہ اس کا اللہ سے تعلق ایک زندہ تعلق ہو ۔ وہ اللہ کو نہ صرف دل کی دھڑکنوں میں محسوس کرتا ہوبلکہ اس سے باتیں کرتا ہو ا اس کو شہ رگ سے قریب بھی پاتا ہو۔ راقم الحروف کی زندگی میں اللہ سے تعلق کی نوعیت اور اس نوعیت کے مختلف پہلوؤں کے بہت سے تجربات گزر چکے ہیں ۔شاید سب تجربات تو سب قارئین کے مفید نہ ہوں البتہ دوتجربوں میں اپنے قارئین کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں کہ شاید ان میں کسی کا کوئی فائد ہ مضمر ہو۔
غالباً میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ میرے چھوٹے بیٹے نے کھلونا خریدنے کی فرمائش کی تو میں اس کو دکان پہ لے گیا۔ وہاں جو کھلونا اس نے پسند کیا وہ دس روپے کا تھا اورجو میں نے پسند کیا وہ پچاس روپے کا۔ اس کا دھیان کھلونے کے رنگ کی طرف تھا اور میرا کھلونے کی پائیدار ی کی طرف۔ میں نے بڑھیا کھلونے کے حق میں دلائل دیے مگر اس کی ضد برقرار رہی کہ میں نے تووہی لینا ہے۔ اس کی ضدکو مانتے ہوئے میں نے اسے وہی یعنی دس روپے والا لے دیا۔لیکن معاًذہن میں یہ خیال کوند ا کہ جس طرح اس بچے نے ضد کرکے خو د کو بڑھیا چیز سے محروم کر لیااس طرح کہیں ایسا نہ ہوتا ہو کہ ہم بھی اللہ سے ضد کرکے خود کو کسی بڑی خیر سے محروم کروا لیتے ہوں۔ دل نے کہا کہ جب ایک باپ اپنی مرضی سے یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے بچے کو کم تر چیز لے کر دے تو مالک بھلا کیوں گوارا کرے گا؟وہ بھی بندوں کو بڑی سے بڑی خیرسے نوازنا چاہتا ہو گا مگر بعض اوقات بندے ضد کر کے خود ہی خو د کو بڑی خیر سے محروم کر لیتے ہو ں گے ۔ میں نے سوچا، اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ضد ترک کر تے ہوئے خود کو مالک کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ اس نئے دریافت ہونے والے رویے کو میں نے تسلیم و رضا کا نام دیا جبکہ اس سے قبل میں مالک سے ضد کر کے مانگاکرتا تھا۔ دوسرا تجربہ حال ہی میں ہوا اور میں اس کو ابھی تک کوئی نام بھی نہیں دے پایا۔ پانچ مارچ کی رات کو پیٹ میں شدید درد اٹھا جو کسی طور کم نہ ہوا۔ پوری رات میں نے یہ دعا مانگتے ہوئے گزار دی کہ مالک میری بے بسی ، تنہائی اور غریب الوطنی پر رحم فرما۔ خیر صبح ہسپتال پہنچے ۔ ڈاکٹروں نے اپنڈکس کی رائے دیتے ہوئے فوری آپریشن تجویز کیا۔اور سہ پہر آپریشن بھی ہو گیا۔ ہسپتال میں داخلے سے لے کر آپریشن تک ، وہاں تین دن گزارنے سے لے کر علالت کے باقی تمام مراحل تک اللہ کریم نے جس طرح کے وی آئی پی انتظامات فرمائے اورجس طرح میرے ادارے کی انتظامیہ اور تمام دوست احباب کے دل میں محبت ڈالی، اس سے معاً دھیا ن اس ماں کی طرف گیا جو بچے کو مارتی تو ہے لیکن جب بچہ رونے لگے تو خود ہی اس کو سینے سے چمٹا کے چپ بھی کروانے لگتی ہے۔ بلا تشبیہہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ میرے ساتھ بھی مالک کا معاملہ کچھ ایسا ہی لگتا ہے ۔ کسی غلطی ،کوتاہی او ر گنا ہ پر جھٹکاتودیتا ہے لیکن جب بند ہ رونے لگتا ہے تو پھر غیب ہی سے سارے انتظامات اس طرح کر دیتا ہے کہ روتا ہوابندہ ہنسنے بھی لگتا ہے او رخوش بھی ہو جاتا ہے۔تکلیف تو دیتا ہے لیکن تکلیف کو محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یہ سب تیرا کرم ہے آقا،اللہ اکبر ۔
انسان اگر خود کو صرف اپنے قول میں نہیں بلکہ عمل میں بھی بندہ بنائے رکھے ، عاجزی ، بے بسی اور احتیاج کی حالت کو ہر دم مستحضر رکھے اور ہر تکلیف میں صرف اسی کے حضوریہ فریاد قائم رکھے کہ مالک تجھ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں تو کریم مالک تکلیف میں بھی راحت کے وہ سامان پیدا کردیتا ہے کہ جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ سچ ہے وہ سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اورہم سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کرسکتے اگر وہ نہ چاہے تو۔اور یہ بھی سچ ہے کہ اللہ کا ماننے والاہر انسان اللہ سے تعلق کی ایک نوعیت ضرور رکھتا ہے لیکن اگر اس نوعیت کا اس پر انکشاف بھی ہوجائے تو یہ مالک کا مزید انعام ہے اور میرا خیا ل ہے کہ یہ انعام بھی مانگنے کی ایک چیز ہے ۔