کائنات کے خالق و مالک نے اس کائنات میں چیزوں کی پیدایش ، ان کی نشو ونما اور بڑھوتری کی ایک خاص ترتیب قائم کر رکھی ہے اور عام طور سے نظام فطرت میں یہ ترتیب اسی طرح رو بہ عمل رہتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ترتیب ‘اند ر سے باہر’ کی طرف کا سفر ہے۔تمام جانداروں کی نسل شکم مادر کے ‘اندر’ بنتی ، مخصوص عرصہ تک پروان چڑھتی اور پھر ‘باہر ’ آتی ہے ۔استثنائی صورتوں سے قطع نظرتقریباًتمام فصلیں ،سبزیاں ، پھل اورپودے بھی زمین کے ‘اند ر’ سے‘ باہر’ کا سفرطے کرتے اور ایک خاص ترتیب سے پروان چڑھتے ہیں ۔جس طرح مادے کی دنیا میں یہ ترتیب کارفرما ہے بالکل اسی طرح روح یعنی دل و دماغ کی دنیا میں بھی یہی ترتیب جلوہ گر ہے۔انسانوں کو ہدایت ملنے اور ہدایت کے پروان چڑھنے کا بھی یہی رخ ہے ۔ ہدایت کا بیج پہلے دل کی زمین میں جڑ پکڑتا ہے اور پھر اس کے برگ و بار جسم پر اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔انبیا کرام کو بھی اللہ کریم یہی ترتیب دے کر بھیجتے ہیں ، اس لیے وہ سب سے پہلے انسانوں کے دلوں کی زمین میں ہدایت کی تخم ریزی کرتے ہیں۔ یہاں یہ بیج جب اچھی طرح جڑ پکڑ لیتا ہے تو پھر ، شرک و بدعت ، ضلالت و گمراہی،ھوا و ہوس ،حرص و لالچ ، حسد و کینے کے جھکڑ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔اور انسان زمین پر ہی رہتے ہوئے نفس مطمئنہ کی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔انبیا کی اس خاص ترتیب اور طریق تربیت کے نتیجے میں وہ انسان ظہور پذیر ہوتے ہیں جو نہ صرف خود بھوکے رہ کر مہمان کی تواضع کرتے ہیں بلکہ چراغ بھی گل کروا دیتے ہیں تا کہ مہمان کو یہ بھی احساس نہ ہو نے پائے کہ میزبان نہیں کھارہا،جو ایک طرف گھر کا سارا اثاثہ بارگاہ رسالت میں ڈھیر کر دیتے ہیں تو دوسری طرف افلا س کی بد ترین حالت میں بھی سارا دن مزدوری کرکے دن بھر کی مزدوری سے حاصل ہونے والی کھجوریں راہ خدا میں قربان کرکے خوش ہوتے ہیں۔جو جان کنی کے عالم میں بھی بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں اور پانی اُسے پیش کر کے خود پیاسے ہی آخرت کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔اس ترتیب سے پیدا ہونے والے کردارایڑیوں کے بل کھڑے ہو کر خود کو جہاد کا اہل ثابت کر تے اورشہادت پانے پر فزت برب الکعبہ کا نعر ہ لگاتے ہیں،رات کے اندھیرے میں اور ماں کے اصرار کے باوجود بھی دودھ میں پانی پلانے سے انکار کر دیتے ہیں ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ،اجنبی قافلوں کی دیکھ بھال کر تے ہیں، بدوی عورت کو رقم دے کر اس سے یہ سودا طے کر تے ہیں کہ اللہ کے ہاں شکایت نہ کرنا،اور مدائن کے گورنر بننے کے باوجود بھی خود ہی اپنا سامان اپنے سر پر اٹھائے چلے جاتے ہیں۔اور جب ترتیب بدل جائے یعنی رخ‘ باہر’ سے ‘اندر’ کی طرف کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں جو کردار وجود میں آتے ہیں وہ سر پر عمامہ ، جسم پر کرتا، ٹانگوں پر ٹخنوں سے اونچی شلوار ،چہرے پر ڈاڑھی ، ہاتھ میں تسبیح ، ماتھے پر محراب کے باوجود بھی جھوٹ بولتے ،کم تولتے ، دھوکا دیتے ،ملاوٹ کرتے ،طعن و طنز کے تیر چلاتے ، ایک ایک پیسے کے لیے لڑتے جھگڑتے ، حسد ،کینے، بغض ،تکبر، غرور ، ریا کاری،غیبت، نفرت ،تعصب ، تنگ نظری ،فرقہ پرستی ،غصے ،لالچ، حرص، ہوس، نفسانیت و شیطانیت میں مبتلااور مچھرچھانتے اور اونٹ نگلتے نظر آتے ہیں۔وجہ صرف یہی ہے کہ ان کے ہاں ہدایت کا بیج ‘باہر ’ بونے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ چاہا جاتا ہے کہ یہ‘ باہر’ جڑ پکڑ کے ‘اندر’ برگ و بار لے آئے ۔ ایسا ہونا قانون قدرت کے خلاف ہے ۔ نہ پہلے کبھی ایسا ہوا ہے نہ اب ہو گا۔ اس لیے ہمارے خیال میں کرنے کا کام یہ ہے کہ ترتیب درست کرنے کی کوشش کی جائے۔چیزیں ایک ترتیب ہی میں ثمرآور ہوا کرتی ہیں ۔ بغیر ترتیب کے جنگل تو پیدا کیے جاسکتے ہیں باغ نہیں۔انسانوں کا باغ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسانوں کے خالق کی ترتیب کوملحوظ خاطر رکھیں۔ اور خالق کی ترتیب میں دل کا پہلا نمبر ہے اور جسم کا دوسرا۔ یہ معاملہ ایک کو دو اور دو کو ایک کی جگہ پر لانے کا نہیں بلکہ الٹے کو سیدھاکرنے والی بات ہے ۔بظاہر یہ معاملہ آسان لگتا ہے لیکن اتنا آسان نہیں ۔ شاید آسان ہی ہوتا اگر‘ الٹا’ یہ نہ سمجھتا کہ وہ تو پہلے ہی ‘سیدھا’ ہے۔