سرکاری افسر

مصنف : مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2008

میں لکھا گیا ایک مضمون ، آج کے ماحول میں اس کے پیغام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے

‘‘جو ملازم چاہے وہ وزیر ہی کیوں نہ ہو، اگر وقت پر دفتر پر نہ پہنچے تو اس کا کوئی کردار نہیں ہے اور وہ ایک بہت بڑے قومی جرم کامرتکب ہوجاتا ہے۔ لوگوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ خامیاں اور برائیاں صرف اونچے درجہ کے افسران ہی میں موجود ہیں۔ برائیاں تمام ادنیٰ و اعلیٰ افسران میں سرایت کر چکی ہیں، مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے کہ نچلے درجہ کے افسروں میں زیادہ برائیاں ہیں اور وہ کھلم کھلا لوگوں پر ظلم وستم کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں اور وزیر مال خان پیر محمد خاں ضلع مظفر گڑھ کے دورے پر گئے ہوئے تھے کہ ایک بوڑھا شخص لرزتا، کانپتا اور لاٹھی کا سہارا لیتا ہوا ان کے پاس آیا اور کہا:‘‘ میرے ملک کے وزیرو! میں ابھی زندہ ہوں لیکن قانونی طور پر مرچکا ہوں۔’’ ہم نے کہا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ تو اس بوڑھے نے بتایا کہ علاقہ کے تحصیلدار نے اس کی تمام زمین چھین کر اسے بے دخل کر کے مکان سے بھی نکال دیا۔ اس نے لاکھ سر مارا، خوشامدیں کی اور افسروں سے بھی داد رسی چاہی لیکن بے سود اور ناکام ثابت ہوئی، ہم نے اسے تسلی دی اور وعدہ کیا کہ اس کی شکایت پر غور کیا جائے گا، لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک خط ملا جس میں اس بوڑھے کا فوٹو تھا اور ایک پرچے پر لکھا ہوا تھا کہ یہ بوڑھا اب مرگیا ہے لیکن اس کی داد رسی اب تک نہ ہوسکی۔ یہ خط اس کے بیٹے کی جانب سے تھا۔ جب میں نے یہ خط پڑھا تو بہت رنجیدہ ہوا اور فوراً ہی تحصیلدار، نائب تحصیلدار، قانون گو اور پٹواری کو معطل کرنے کے احکام صادر کر دیے۔ اس طرح کا دوسرا قصہ یہ کہ ایک دن شام کے وقت جب میں اپنے بنگلے میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک نوجوان نہایت خستہ حال میں آیا جو زارو قطار رورہا تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا وہ ضلع مظفر گڑھ کا رہنے والا ہے اور وہاں سے تین سو میل پیدل چل کر آیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اشتمال اراضی کرنے والے افسران نے اس کی ۱۸ بیگھ زمین پر ناجائز قبضہ کر لیا ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں جو ان کے دل میں مخفی ہیں اور اگر وہ بیان کریں تو ساری رات گذر جائے۔ عوام بھی انسان ہیں، ان سے بہتر سلوک کیا جائے اور ان کی تکالیف کو ختم کیا جائے۔ اگر ایک تحصیلدار خراب اور اس کا ضمیر مر چکا ہے تو ڈپٹی کمشنر جو حالات سے قطعی بے خبر ہے، کیا کرسکتا ہے۔ میرے سامنے موجود تحصیل افسران سچ سچ بتائیں کہ کیا کبھی انہوں نے ایمانداری اور دیانتداری سے کام لیتے ہوئے، ڈپٹی کمشنروں کو پٹواریوں کی رپورٹ لکھتے وقت جذبہ انصاف سے کام لیا ہے کہ پٹواری بد دیانتی کرتے ہیں۔ لیکن تحصیلدار ان کی رپورٹ نہایت اچھی لکھتے ہیں۔ آج ساری کی ساری قوم اخلاقی اعتبار سے تباہی کے غار میں گرچکی ہے۔ ہم سب حمام میں ننگے ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اس اخلاقی تباہی اور بربادی سے نکلنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں۔ ایک دوسرے پر اعتماد کریں، دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اپنے کردار کو بہتر بنائیں اورا پنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کریں۔’’

یہ طویل اقتباس نہ تو کسی ایسے لیڈر کی تقریر کا ہے جو موجودہ حکومت سے اختلاف رکھتا ہو اور نہ ہی کسی اخبار کا اداریہ ہے جو حکومت اور افسران پر تنقید کا خوگر ہو۔ یہ الفاظ مغربی پاکستان کے وزیرِ زراعت و آبپاشی ملک قادر بخش کے ہیں جو انہوں نے پشاور ترقیات اکیڈمی کی سالانہ تقریب میں عشائیہ کے موقع پر کہے۔

سرکاری افسران اور عام دفاتر کے کارکنوں کے متعلق ملک قادر بخش صاحب نے جو فرمایا ہے او ر جو واقعات انہوں نے بیان کیے ہیں ، یہ تفصیلات نہ تو کوئی انکشاف ہیں اور نہ ہی ان میں کسی مبالغہ اور الفاظ آرائی سے کام لیاگیا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو روز مرہ کے مشاہدات ہیں اور ملک کا ہر شخص ان سے آگاہ ہے۔ مزید برآں یہ واقعات نہ آج ہی رونما ہوئے اور نہ ہی یہ درست ہے کہ ان کا علم صرف عوام اور صوبائی وزرا کو ہے۔ مارشل لا جیسے مہیب نظام حکومت میں ایک مرکزی وزیر ہونے کے باوجود اپنے نجی کاروبار کے لیے ایک سرکاری سر ٹیفکیٹ رشوت دے کر حاصل کیا تھا اور شاید صدر ایوب تب بھی بعض مواقع پر برملا کہہ چکے ہیں کہ سرکاری افسران اپنے فرائض کو انجام دیتے وقت نامناسب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔

اور بات یہاں تک بھی کب محدود ہے۔ یہ جو آئے دن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرکاری افسران پر خیانت، غبن، رشوت اور ظلم و تعدی کے سلسلے میں مقدمات چلتے رہتے ہیں اور جو باقاعدہ سرکاری محکمے انسداد رشوت ستانی اور دوسرے جرائم کے انسداد کے لیے قائم کیے گئے ہیں جو صرف سرکاری ملازمین سے سرزد ہوتے ہیں، تو کیا یہ سارے شواہد اس حقیقت کی ترجمانی کے لیے کافی نہیں ہیں کہ آج ہی نہیں حصول آزادی ہی کے دن سے ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرنے کاطرزِ عمل اختیار کر لیا ہے اور سرکاری دفاتر عوام کے حقوق کی بحالی، عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی داد رسی کے بجائے انہیں ہراساں کرنے، ان کے اوقات ضائع کرنے، انہیں مرعوب ومتاثر کر کے ان کے نا جائز استحصال کرنے اورعوام کو حقیر جان کر ان سے انتہائی غلط سلوک کا مرکز بن چکے ہیں اور ان برائیوں میں یوماً فیوماً اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے……بلکہ کہنا چاہیے کہ جتنے محکمے ان غلط کاریوں کو روکنے کے لیے قائم ہوئے ہیں، اتنا ہی اضافہ ان جرائم میں ہوتا جارہا ہے۔

ملک قادر بخش نے جس اندوہناک صورت حال کی جانب سرکاری افسروں کو توجہ دلائی، اس کا موجودہ المناک مرحلہ یہ ہے کہ ملک کے عوام اس وقت اس مقام ذلت پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ ان کا کوئی اصول ہے جس پر وہ عامل ہوں، نہ وہ کسی اخلاقی ضابطے کے پابند رہ سکے ہیں اور نہ ہی اب وہ اس بات کے قائل ہیں کہ سچائی ، عدل اور اخلاقی اصولوں پر کاربند رہ کر زندگی گذاری جاسکتی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ صحیح الفاظ یہ کہ اپنی مشکلات میں یوماً فیوماً اضافہ اور سرکاری دفاتر کے بے رحمانہ بلکہ ظالمانہ سلوک سے وہ اس قدر متاثر اور وحشت زدہ ہیں کہ انہیں جو محبت اپنے ملک سے تھی اور جو احساسِ آزادی ان کے اندر تحریکِ حریت نے پیدا کیا تھا وہ بھی کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ ملک کے اجتماعی مسائل اور آزادی کے تحفظ و دفاع سے اپنی بے شعوری کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی لا تعلقی کا سا رویہ اختیار کر رہے ہیں کہ ان کی زندگی کو سرکاری پالیسیوں اور سرکاری دفاتر نے اتنا بوجھل بنا رکھا ہے کہ وہ اجتماعیت کے شعور سے ہی تہی دامن ہوتے چلے جارہے ہیں اور آزادی کو وہ غلامی سے کوئی زیادہ اونچی شے تصور نہیں کر رہے۔

مرض، اس کی ہولناکیاں اور آلام و شدائد اور اس کے نتائج کی ان انتہائی ادھوری تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد یہ سوال ہر سلیم الفطرت انسان کے ذہن کی سطح پر ابھرآتا ہے کہ یہ خوفناک بیماری جو ہزارہا بیرونی مسلح حملوں اور سیکڑوں دشمن قوتوں کی سازشوں سے زیادہ تباہ کن ہے، کیا کوئی نسخہ شفا ایسا ہے جسے استعمال کر کے جسدِ ملت کو اس کی ہلاکتوں سے بچایا جاسکے؟

اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہم ایک ایسی اساس و بنیاد کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں جسے نظر انداز کر کے نہ اس مرض کا علاج ممکن ہے اور نہ ہی نقطہ نظر صحتمندانہ باقی رہ سکتا ہے۔ ہماری مراد اس حقیقت کے اظہار سے ہے کہ سرکاری افسران اور سرکاری دفاتر کے عام ملازمین کے بارے میں جو شکایات اوپر بیان کی گئی ہیں، یہ نہیں ہے کہ یہ سرکاری افسران اور کارکن کوئی ایسی مخلوق ہیں جو آسمان سے براہِ راست یہاں آن ٹپکی ہے یا کسی دوسرے منطقے سے درآمد کی گئی ہے۔ بلکہ یہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہی عزیز ، بھائی اور بزرگ ہیں جو ایوانِ صدر سے لے کر ہمارے وارڈ کی پولیس چوکی اور میونسپل کمیٹی کے گیٹ تک کارفرما ہیں۔ یہ ذہن و شعور، اخلاقی کردار، فکرو عقیدہ اور معاملات کے ہر پہلو میں انہی روایات کے حامل ہیں جو بحیثیت مجموعی ہماری قوم کی روایات ہیں۔ اگر یہ رشوت لیتے اور عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ انہیں رشوت دی جائے تو عوام کی ایک اہم تعداد ایسی ہے جو خود انہیں رشوت کا راستہ دکھاتی ہے۔ اگر یہ جھوٹ بولنے پر عوام کو مجبور کرتے ہیں تو عوام بھی انہیں جھوٹی شہادتوں کے تسلیم کرنے پر مجبورکرتے ہیں۔ اگر یہ خدا کے خوف سے عاری ہیں تو عوام بھی اپنی روز مرہ زندگی سے ، اجتماعی زندگی کے ہر مرحلے میں اسی نا خدا ترسی کو اپنائے ہوئے ہیں……

اس اعتبار سے مریض صرف سرکاری افسران اورحکام و ملازمین ہی نہیں ہیں، مریض قوم ہے اور مرض سب کا ایک ہی ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ عوام کا دائرہ کار، بہ نسبت سرکاری افسران کے محدود ہے اور ان کے اختیارات سرکاری کارکنوں کے اختیارات سے کم ہیں۔ اس لیے جو خرابی ایک سو عوام کے برے کردار سے پیدا ہوسکتی ہے وہ ایک سرکاری افسر اور ایک سرکاری ملازم کے برے عمل سے پیداہوجاتی ہے، لیکن اس فرق کا نتیجہ صرف نسبت اور فیصد ہی کی صورت میں سامنے رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس یہ تصور کہ ساری خرابی کے ذمہ دار برے سرکاری افسروں کو قرار دے کر ان کے خلاف محاذ قائم کرلینا اور سیاسی سٹیجوں سے ‘‘سرکاری ملازمین کی سازشوں’’ کے افسانے تصنیف کرنا اس ذہنی کمزوری کی علامت ہے جو ہر اس معالج و طبیب کو لاحق ہوتی ہے، جس کی ذہانت مرض کے اسباب اور اس کی نوعیت کو تو نہ سمجھ پائے اور وہ محض الفاظ کے زور اور لب و لہجے کے نستعلیقی انداز سے مریض اور اس کے تیمار داروں پر اپنی حذاقت کا رعب جمانے کی کوشش کرے(اس جملہ معترضہ سے مقصود صرف یہ ہے کہ صحیح نہج پر کام کرنے والے دیانت دار اور خدا ترس افسر اس ساری بحث سے مستثنیٰ ہیں……) مرض کی صحیح نوعیت کو سمجھ کر اگر اس کے مداوا کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش صحیح لائن پر جاری ہوگی، وگرنہ عطایانہ طریق سے نہ صرف یہ کہ یہ کوشش رائیگاں جائے گی بلکہ مرض میں اور اضافہ ہوگا۔ اب رہا یہ سوال کہ اس مرضِ بد انجام کا علاج کیا ہے تو ہم چند اہم باتوں کی جانب اس ملک کے بہی خواہوں کو متوجہ کریں گے۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ جس بیماری کی شکایت ہم آپ ہی نہیں، وزرا تک بھی کر رہے ہیں، اس کے اہم ترین اسباب دو ہیں: ایک تو یہ کہ ہمارے ملک کی عظیم اکثریت، جس میں ہمارے ملازمین بھی شامل ہیں…… فکر و عقیدے کے اعتبار سے اس مقام پر ہیں کہ یہ دنیا ہمارا اصلی گھر ہے، ہم یہاں آزاد و خود مختار ہیں اور اس دنیا میں ہم جو چاہیں کر گزریں، نہ اس کے اچھے اعمال کی کوئی جزا ہمیں ملے گی اور نہ برائیوں اور بد اعمالیوں کی کوئی سزا ہمیں دی جائے گی۔ اس تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں ہر ایک ،اس دنیا میں اقتدار ، عزت، شہرت اور منفعت حاصل کرنے کے لیے مصروف سعی وجہد ہے اور اس بات کو نظر انداز کرکے اپنے عہدے، منصب اور اختیار کو بروئے کار لارہا ہے کہ اسے اپنی بے اعتدالیوں کے بارے میں جوابدہ ہونا ہوگا اور اس اقتدار و اختیار کی جو ذمہ داری خدا نے اس پر عائد کی ہے وہ اس پر مسؤل بھی ہوگا۔

دوسرا اہم سبب اس مرض کا یہ ہے کہ حکمرانی اور افسری کا جو مزاج انگریز نے یہاں اختیار کیا تھا ، وہ یہ تھا کہ عوام کو ڈھور ڈنگر سمجھنے پر ہی اس نے اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے اس ملک کے باشندوں کو‘‘سرکش غلام’’ کی حیثیت دی، ہر قدم پر انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی اور اس انداز سے حاکمانہ طمطراق اختیار کیا کہ ملکی باشندے اس سے مرعوب ہوں، انگریز نے یہ طرزِ عمل اس لیے اختیار نہیں کیا تھا کہ اس کی ضرورت یہی تھی، وہ اپنے ملک میں حکومت کے اختیارات کوخدمت و بہبودِ قوم کا ذریعہ سمجھتا تھا اور سمجھتا ہے اور وہ وہاں مثالی جمہوریت کا علمبردار ہے۔ لیکن جن ممالک کو اس نے بالجبر اپنا غلام بنایا اور ان میں سے بھی وہ ملک جنہوں نے انگریز کی حکومت کو پسند نہیں کیا، ان ممالک کو اس نے سرکش باغی تصور کر کے جبر ظلم، استبداد اور فرعونیت سے زیر نگیں رکھنے کی کوشش کی اور افسروں کو خدا بنا کر عوام پر مسلط کیا۔

انگریز نے جن ہندستانی (ہندستان وپاکستان دونوں کے) باشندوں کو حاکمانہ تربیت دی وہ انگریز کے اسی نقطہ نظر کا عملی مظہر تھے اور ان کا مزاج اسی اجنبی اور ظالمانہ حکمرانی کے سانچے میں ڈھلا تھا۔ حصولِ آزادی کے بعد اس ملک کی اولین ضرورت یہ تھی کہ کوئی ایسا ادارہ اس ملک میں قائم ہوتا جو گریجوایٹ طبقے کو ملکی نظم و نسق کے اس تصور سے آشنا کرتا جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ یہ ادارہ یا تو حکومت قائم کرتی اور یا ملک میں کوئی ایسی ایمانی شخصیت یا ایمانی بصیرت رکھنے والا عنصر ہوتا جو ایسا تربیتی ادارہ قائم کرتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں رہی ان کی اکثریت خود انگریزی عہد کی تربیت یافتہ تھی اور حکومت کے چسکے نے انہیں اور بھی زیادہ متمرد اور عوام سے بے گانہ بنا دیاتھا۔ اسی طرح یہ ملک ایسی شخصیتوں سے بھی محروم رہا ہے جو مجدد الف ثانیؒ اور محمد بن عبدالوہاب علیہم الرحمۃ کی وراثت کی حامل ہوتیں اور اقتدار کی حرص سے نہ صرف بلندو بالا بلکہ اپنی ذات کی حد تک اقتدار سے متنفر رہ کر اصحاب اقتدار کی اصلاح و تربیت کرتیں، بلکہ ہوا یہ کہ جو لوگ اسلامی نظامِ حکومت کا تصور رکھنے کے دعویدار تھے، ایک تو بتدریج ان کے عقیدے میں یہ فتور پیدا ہوتا چلا گیا کہ اسلام ایک جبری مذہب ہے جو اصلاح و تربیت کے بجائے سیاسی دباؤ سے ہی ‘‘کامیاب’’ ہوسکتا ہے۔ ثانیاً وہ بحیثیت گروہ، اقتدار کے اسی طرح سے حریص بن گئے جس طرح خود اصحاب اقتدار اس کے حریص تھے۔

نتیجتاً دونوں جانب، حرص اقتدار کا مرض بڑھتا چلاگیا اور اصلاحِ نفوس و تربیت و تزکیہ کا وہ باب تقریباً مسدود ہوگیا، جس سے گزرنے کے بعد ہی انسان کا دل مہر و مروت اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہوتا ہے اور جس سے صاحبِ اختیار حکمران، حکام، آفیسرز اور سرکاری کارکن خلقِ خدا کے لیے رحمت کا نمونہ بن سکتے ہیں۔

تیسری افتاد یہ پڑی کہ ہمارے ملک کے عوام اور خواص ، سیاسی احزاب اور خانوادۂ حکومت سبھی آزادی کے صحیح تصور سے بڑی حد تک محروم رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی، یعنی خدا کے حضور جواب دہی کے احساس کا نہ ہونا، لیکن اس واقعہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی اکثریت نے آزادی لڑ کر حاصل نہیں کی۔ انہیں آزادی، حریت کی جدو جہد میں جان و مال لٹانے والے اور خدا کے دین کو اس سرزمینِ ہند پر غالب کرنے کی دھن میں جام شہادت نوش کرنے والے مجاہدین کے طفیل ملی ہے۔ ان حکمرانوں کا وطیرہ اس کھلنڈرے نوجوان کا سا ہے جس نے اس وقت آنکھیں کھو لیں، جب اس کے باپ کے ہاں عروج و اقبال کا دور دورہ تھا اور اس کا گھر خادموں سے بھرا پڑا تھا۔ وہ اس دور سے بالکل بے خبر ہے جب اس کا والد محنت و مشقت کیا کرتا تھا اور اس نے اس مقام پر پہنچنے کے لیے حوادث کے مقابلے میں بارہا جان ہارنے تک کا خطرہ مول لیا تھا۔

افسران اور ملازمینِ حکومت…… اور اسی طرح ملک کے دوسرے باشندوں…… کے مزاج، اخلاق اور باہمی برتاؤ کی خرابی کے کچھ اور بھی اسباب ہیں۔ اساسی اور بنیادی اسباب یہی تین ہیں اور جب تک ان کو سامنے رکھ کر اصلاح کا کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیا جائے گا اور جب تک اس منصوبہ کو بروئے کار لانے والے وہ اشخاص نہیں ہوں گے جو کم از کم یہ کہ ان امراض سے پاک ہوں، جن سے شفا حاصل کرنا مقصود ہے، اس وقت تک نہ ملک قادر بخش صاحب کی وہ رپورٹ نفع بخش ہوسکتی ہے جو انہوں نے بڑے زور اور بڑی جر ات کے ساتھ آج سے چند سال قبل سرکاری ملازمین کے بارے میں مرتب کی تھی اور نہ ہی تقریریں جو آج وہ کر رہے ہیں۔ان کی قدر و قیمت مسلم لیکن مرض جس حد تک عام ہوچکا ہے اور اس نے جس بری طرح اخلاق و کردار کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ اصلاح وتربیت کا ایک عظیم ادارہ قائم کیا جائے جو انسانوں کو سچے مسلمان بنانے کے لیے ان کے اخلاق کو ایمانی بنیادوں پر تعمیر کرے اور ایسے کردار سے انہیں آراستہ کرے جو اختیار و اقتدار کے حصول کے باوجود انہیں افسر نہیں، خادم بنائے رکھے اور حکومت کے ہاں اس ادارے کی تربیت کی اہمیت اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی ضرور ہو جتنی اہمیت تعلیمی ڈگریوں اور تجرباتی سرٹیفیکیٹ کو اس کے ہاں ملازمت کے لیے دی جاتی ہے۔

(بشکریہ: پندرہ روزہ المنبر، مارچ، ۲۰۰۶)