اصلاح و دعوت
ظالم و مظلو م
مفتی مطیع الرحمن
دنیا ہر قسم کے ظلم کو برا و معیوب سمجھا جاتاہے۔حکومت کارعایاپر ظلم،فوج پولیس کا ظلم،سیٹھ لوگوں کا اپنے نوکروں پر ظلم ،بڑوں کا چھوٹوں پر ظلم ،پڑوسی کا پڑوسی پر ظلم ،طاقتور کا کمزور لوگوں پر ظلم ،عوام الناس کا ایک دوسرے پر ظلم ،انسان کا اپنی جان پر ظلم وغیرہ وغیرہ ۔ظلم کی بے شمار قسمیں مشہور و معروف ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کا ایک ظلم ایسا ہے جس کو ظلم نہیں سمجھا جا رہا ۔ اور اس ظلم میں زیادہ تر دیندار طبقہ ملوث ہے۔ وہ اپنی دینداری پر بڑے مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم حاجی ،نمازی، ہرگناہ سے پاک صاف ہیں۔ لیکن شیطان نے انہیں انجانے میں گناہ کبیرہ میں مبتلا کیا ہوا ہوتا ہے ۔
وہ ظلم ہے وراثت میں صنف نازک (عورت ) بہن ،بیٹی، بیوی کو وراثت سے محروم کرنا۔ یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں رائج تھا کہ وہ وراثت میں عورت کوپوچھتے تک نہ تھے ۔اسی جاہلی سنت پر آج مسلمانوں کی اکثریت عمل پیرا ہو کر حقوق العباد کے عظیم اور مہلک وبال کا بار گراں اٹھائے اپنی موت اور قیامت کے دن کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہی ہے ۔اسلام کے نام لیوا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے سورہ نساء کی آیت نمبر ۷کا یہ پہلاحصہ پڑھتے ہیں :
للرجال نصیب مما ترک الوالدن والاقربون ( النساء :۴ ؍۷ )
’’مردوں کے لیے حصہ مقرر ہے اس چیز میں سے جو ان کے والدین اور قریبی رشتہ داروں نے مرتے وقت چھوڑا ہے ‘‘
اور ماشاء اللہ اس پر عمل کرتے ہیں چونکہ اس پر عمل کرنے میں مردوں کا دنیاوی فائدہ ہے اس لیے ہر ایک اس پر خوب عامل ہے لیکن اس سے متصل آیت نمبر ۷ کا بقیہ حصہ :
ولنسآ ء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون ( النساء :۴؍۷)
’’کہ جو کچھ والدین یا قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے اس میں عورتوں کا بھی حصہ ہے ‘‘۔
آیت کے اس جملہ سے امت مسلمہ نے گویا نعوذ باللہ بائیکاٹ کر رکھا ہے اور عام مسلمانوں کے عمل سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا آیت کا یہ حصہ منسوخ ہوچکااور صرف تلاوت کی حد تک باقی رہ گیا ہے ۔
پھر قرآن کے اسلوب کو دیکھئے ! لرجال و للنساء کو جمع کرکے ایک ہی جملہ میں، مختصر الفاظ میں ان کا حق بیان ہو سکتا تھا لیکن اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ مرد کے حق کو جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ،اسی تفصیل کے ساتھ عورتوں کا حق جداگانہ بیان فرمایا تاکہ دونوں کے حقوق کا اہم و مستقل ہو نا واضح ہو جائے۔( معارف القرآن :۳۱۱؍۲) بلکہ مزید آگے چل کر جہاں حصے متعین کیے وہاں لڑکیوں کے حصے کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ متعین کیا ’’ للذکر مثل حظ الانثین ‘‘کہ جتنا دو لڑکیوں کو ملے اتنا ایک لڑکے کو ملے گا ۔حالانکہ یوں بھی کہا سکتا تھا ’’للانثیین مثل حظ الذکر ‘‘کہ جتنا ایک لڑکے کو ملے ،اتنا دو لڑکیوں کو ملے گا۔عام مسلمان تو ایک طرف ہے ،بہت سے اچھے دیندار اور کافی مذہبی سمجھے جانے والے گھرانوں میں بھی اس اہم مسئلے سے تغافل پایا جاتا ہے ۔ہزاروں لاکھوں روپیہ خرچ کرکے دین کی اشاعت اور سر بلندی کی خاطر اندرون بیرون ملک سفر کرنے والے بعض لوگ اپنی بہنوں کو والد کے ترکہ میں سے ایک کوڑی بھی نہیں دیتے ۔الا ماشا ء اللہ ۔ہر سال حج کرنے جا رہے ہیں ۔عمرہ پر عمرہ ادا کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی بہن کا حصہ ہڑپ کئے ہوئے ہیں ،دین کو کو صرف نماز روزہ زکوۃ میں منحصر سمجھ لیا ہے۔ اگر چہ ہمارے لیے کسی کا عمل حجت نہیں کہ کوئی کچھ بھی کرے۔ لیکن عوام الناس تو دینداروں کے عمل کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ،ان کو لاکھ کوئی سمجھائے وہ یہی جواب دیتے ہیں اگر یہ حصہ دینا اتنا ہی ضروری ہے کہ تو ہمارے علاقہ کے فلاں بزرگ دیندار امیر صاحب حاجی صاحب نے تو نہیں دیا۔ ہم کیوں دیں کہ پورے علاقہ میں ان کے لیے کوئی ایک بھی شخصیت اسوہ حسنہ کے طور پر ایسی نہیں ہوتی جسے مثال بنایا جا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ شیطان جو ہمارا کھلا دشمن ہے ،وہ ہمیں مختلف حیلے بہانہ سکھاتا رہتا ہے اور ہم اس کے مشورے مانتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں اس مسئلہ کے حوالے سے مختلف غلط تصورات قائم ہو گئے ہیں ۔مثلا
(۱) میرے گھر میں بھی تو کسی کی بہن ہے ( یعنی میری بیوی بھی بھائیوں سے حصہ لینے کا حق رکھتی ہے ) جب میرے سالے میرے بیوی جو کچھ نہیں دیتے تو میں اپنی بہن کو کیوں دوں ۔
(۲) بعض کو نفس یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اپنی بہنوں کو عید شادی وغیرہ خوشی کے مواقع میں بلا کر کچھ ہدیہ ( کپڑے کا جوڑا وغیرہ ) دیدیا کر ویہی کافی ہے۔آگے میراث کے بکھیڑوں میں نہ پڑو اس سے فتنہ پیدا ہوگا ۔
(۳) بعض شرفا ء کے دل میں یہ خیال شیطان ڈال دیتا ہے کہ دس بارہ سال تک ہمارے والد نے یا بھائیوں نے جو اس بہن کی تعلیم پر خرچہ کیا ہے ۔اس کا ہمیں کیا فائدہ ہو رہاہے ۔اسی کو فائدہ ہو رہا ہے ،لہذا وہ خرچ ہی وراثت ہو گیا ۔
( ۴) ایسے تو بہت ہیں جن کا استدلال یہ ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں کو جہیز میں کیا کچھ نہ دیا۔ جو آج وراثت میں اپنا حصہ الگ مانگ رہی ہے ( اسے شرم نہیں آتی ) اس جیسے اور بہت سے بہانے ہیں ۔
بعض کہتے ہیں کہ وقتا فوقتا عید وغیرہ کے مواقع پر بہنوں کو ہدایا دینے کا دستور ہے۔وہ اس کے عوض اپنا میراث کا حصہ بھائیوں کو دے دیتی ہیں۔یہ خیال بھی غلط ہے اس لیے کہ اس پر بہنوں کی رضا مندی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ رواج کے مطابق مجبورہوتی ہیں۔غرض یہ کہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہ میراث ہضم کرنے کے لیے جو چالیں بھی چلائی جاتی ہیں ،سب مردود ہیں ۔غور کرنے کی بات ہے کہ جب قرآن نے واضح طور پر ’’نصیبا مفروضا‘‘ ( مقرر کیا ہوا حصہ ) اور’’ فریضۃ من اللہ ‘‘( اللہ کی طرف سے فرض اور مقرر کیا ہوا حصہ ) کہہ دیا تو اس میں کمی بیشی کا کسی کو حق نہیں۔ اور یہ مومن کی شان سے بعیدہے کہ ان حصص میں تغیر و تبد ل کرے ۔مزید یہ کہ اگر بہنوں کا مقررہ حصہ ان کو دے دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ کوئی احسان کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو ان کے لیے براہ راست اللہ کی عطا ہے۔ جو والدین کے ترکہ میں بیٹی ہونے کی حیثیت سے ان کا حق ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور وہ اسے لے کر ہی رہے گی ۔یہاں نہیں تو روز محشر عدالت لگے گی جہاں ہر نفس کو پوراپورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے حق میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔وہاں تو وہ بہن بھائیوں سے اپناحق لے کر رہے گی ۔اس موقع پر بہت سے والدین اور بھائیوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ سب کاروبار تو میری اولاد نے یا ہم بھائیوں نے محنت کر کے چمکایا ،بڑھایا ،ترقی دی ،جائیدادیں بنائیں ،آج جب تقسیم کا وقت آیا تو بہنوں کو بغیر محنت کے ویسے ہی حصہ نکال کے دیں۔ یہ ان کی بہت بڑی خام خیالی ہے کہ انہوں نے سب کچھ اپنی محنت کے بل بوتے پر سمجھ لیا ۔اللہ کی دین اور اس کے عطایا کو کچھ سمجھا ہی نہیں کہ اگر محنت ہی سب کچھ ہے تو آج محنت کرنے والا مزدور سب سے زیادہ مالدار ہوتا لیکن ایسانہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ آپ کو سب کچھ اسی کمزور بہن کی بدولت مل رہا ہو۔لہذا جو بہن اپنا حق مانگ رہی ہے وہ بے غیرت نہیں ،بے غیرت وہ بھائی ہے جو اللہ کے مقررکردہ حق سے اپنی بہن کومحروم کر رہاہے ۔وہ بے چاری تو اپنا حق مانگ کے آپ پر احسان کر رہی ہے کہ آپ کو اللہ کے عذاب اور آخرت کے مطالبہ سے بچا رہی ہے ۔آپ ا سکو دے کر احسان نہیں کر رہے ،آپ تو اس کا حق اسکو دے رہے ہیں ۔
یہاں آخر میں ایک اور حیلہ کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ لوگ والد کے انتقال کے فورا بعد یا چند برس گزرنے پر اپنی بہنوں سے سرکاری کاغذات ( محکمہ مال کے رجسٹرو اندراجات ) میں ان کا حصہ اپنے حق میں معاف کر الیتے ہیں اور اس حیلے کے وقت بہن کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے والد کا کل ترکہ کتنا ہے ؟منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی کیا تفصیل ہے ؟ خود اس کا شرعی حصہ کتنا ہے ؟وراثت کی تقسیم کب کہاں ہوئی ؟بس زبردستی یا انجانے میں انگوٹھا یا دستخط کروا لیتے ہیں جب کہ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کاغذات کس قسم کے ہیں ۔اس میں لکھا ہوا ہے اگر وہ دستخط کرنے میں ذرا جھجھک کا مظاہرہ کرے یا اپنے شوہر یا اولاد کی ترغیب و ترہیب کی وجہ سے انکار کردے۔ تو ہمیشہ کے لیے اپنے بھائیوں کی دہلیز سے محروم کر دی جاتی ہے ۔اگر بوڑھی والدہ زندہ ہے تو اس کے دیدار سے محرم کر دی جاتی ہ۔ بلکہ اکثر و بیشتر وہی والدہ اپنی بیٹی کو کوستی ہیں کہ تو ایسی جرات کیوں کر رہی ہے ۔کیا تو بھوکی ہے ،چھوڑ دے اپنا حصہ۔ حدتو یہ ہے کہ بعض سخت دل لوگ اس مغز کھپائی سے بچنے کے لیے وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی اپنی تمام بہنوں کو کاغذات میں مردہ قرا ر د ے کر بعد میں بڑے اطمینان و آرام سے اپنے نام و راثت منتقل کرالیتے ہیں اور وہ یہ سمجھ کر بادل نخواستہ شرما شرمی معاف کردیتی ہے کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو کیوں بھائیوں سے برائی لیں ۔ایسی معافی شرعا معافی نہیں ہوتی ، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے ۔یہ میراث دبانے والے سخت گناہگار ہیں ،ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں ،ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک کواس کا حصہ حوالہ کر دیا جائے پھر جس کی مرضی جو چاہے کردے ،ھبہ کردے ،بخش دے ۔سورہ نساء میں میراث کے رکوع کے آخر میں ان احکام کو نہ ماننے والوں کے لیے جہنم اور اس کے سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ بے زبان بہنوں کو حصہ میراث ہی اپنی سے محروم کرنا بہت سنگین جرم اور عظیم ظلم ہے اور اللہ کے مقررہ کردہ احکام کا مذاق اڑانے کی ناروا جسارت ہے ۔لہذا اپنے معاملات و مالیات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیں اور جو کمیاں ہیں ،اس کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔اللہ اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔