بچپن ہی سے مجھے یہ شوق تھا کہ سیرت ِبلال ؓکا مطالعہ کیا جائے لیکن وقت ہی نہ ملا، اور وقت کیوں نہ ملا ؟اس کی وجہ بھی کوئی خاص نہیں بلکہ یہ ہے کہ اصل میں ہم اپنے اردگرد لا یعنی مصروفیت کا ایک پہاڑ کھڑا کئے رکھتے ہیں جس کے بوجھ تلے ہماری شخصی آزادی بھی دبی رہتی ہے اورہم بہت سے کام آنے والے وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ۔ میرے اس شوق کے آگے بھی ایسی ہی لا یعنی مصروفیت آڑے رہی ۔ اور سیرت بلال کے مطالعے کا وقت نہ آپایا ، اور پھر جب یہ وقت آیاتو کچھ یوں آیا۔ حرمین شریفین کی حاضری کے دوران میں ، میں ایک روز احرام باندھنے کے لیے مسجد عائشہ گئی لیکن واپسی میں تاخیر ہو گئی ۔ ظہر کا وقت تھا ، بڑی کوشش سے حرم کے باہر صحن میں جگہ ملی۔ نماز شروع کرنے کے چند ہی لمحوں بعد محسوس ہوا گویا پاؤں انگاروں پر جل رہے ہیں اور جب سجدہ کیا تو پیشانی جھلس کر رہ گئی ۔ اس لمحے جو بلالؓ کاانگاروں پر لوٹنا اور احد احد کہنا یاد آیا تو عہد باندھ لیا کہ اب تو لازماً سیرت بلالؓ کا مطالعہ کرکے رہوں گی۔ان چند منٹوں نے یہ حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی کہ کسی کی تکلیفوں کا بیان کرنا بھی آسان ہے او رسن لینا بھی آسان لیکن اس کی حقیقت کا علم تب ہی ہوتا ہے جب انسان خود اس سے گزرتا ہے ۔ میری تکلیف بلال ؓ کے مقابلے میں پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی لیکن اسی نے چشم حقیقت کو وا کر دیا اور میں نے نہایت عقیدت سے اس ہستی کی سیرت کا مطالعہ کیا جس کوحضرت عمر ؓ سیدنا بلا ل کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
سیرت بلا ل ؓ کے چند گوشے کسی اور وقت۔ فی الحال اتنا کہناچاہتی ہوں کہ سیدنابلالؓ کی زندگی میں سبقت فی الاسلام ، تحمل، عشق رسول ، شوق جہاد ، شغف عبادت اور جوش ایمانی کا کچھ ایسا رنگ ہے کہ اس طرح کا رنگ کہیں اور نہیں ملتا۔ نیّر فاطمہ (ابو ظبی)