مسلمان کسی ملک اور کسی بھی خطے میں ہوں، نماز باجماعت کا اہتمام کرنا ان کا دینی فریضہ ہے اور اس کے لیے مسجد تعمیر کرنا ان کی سماجی وحدت کی علامت اور ان کے تہذیبی تشخص کا حوالہ ہے۔ دوسرے ملکوں کی طرح مسلمانوں نے جب برطانیہ میں قدم رکھا تو ان کو نماز باجماعت کے اہتمام کے لیے مسجد کی ضرورت پیش آئی، چونکہ وہ روزگار کی تلاش میں یہاں آئے تھے، یہاں کے باشندے نہ تھے، اس لیے ان کے پاس نہ تو زمین تھی اور نہ ہی اتنے مالی وسائل تھے کہ وہ مسجد تعمیر کر سکیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ ان کو مقامی یا بیرونی امداد حاصل ہو۔ مشرقی یورپ کے مقابلے میں مغربی یورپ بالخصوص برطانیہ میں مسجد کی تعمیر بہت بعد میں شروع ہوئی اور جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک انگریز وکیل کا سینہ کھول دیا۔ ۱۸۸۷ ء میں برطانیہ کے وکیل ولیم عبد اللہ قلیم نے اسلام قبول کر لیا اور نماز ادا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی رہایش گاہ واقع لیور پول میں چھوٹی سی مسجد بنائی، جس میں وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح برطانیہ کی پہلی مسجد وجود میں آئی۔ ۵ دسمبر ۱۸۸۹ ء کو عبد اللہ قلیم نے افغانستان کے سلطان کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عطیے سے ایک مسجد بنائی ، اس سے ملحق اسکول اور یتیم خانہ بھی بنوایا، اس مسجد میں سو نمازیوں کی گنجائش تھی۔
۱۸۹۴ء میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹز نے شاہ جہانی مسجد بنائی، ڈاکٹر لائٹز ہندوستان میں کمشنر برائے تعلیم تھے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے والی بھوپال بیگم شاہ جہاں نے خطیر رقم کا عطیہ دیا تھا، لہٰذا ان ہی کے نام سے شاہ جہانی مسجد معروف ہے۔ یہ مسجد لائٹز کی وفات کے دس سال بعد بند ہو گئی تھی۔ ہندوستانی بیرسٹر خواجہ کمال الدین کی کوششوں سے دوبارہ یہ مسجد ۱۹۹۳ء میں نمازیوں کے لیے کھول دی گئی۔ ۱۹۹۴ء میں مسجد کے صد سالہ قیام کے موقع پر اس کی تزئین کی گئی اوراسے نئی شکل دی گئی۔ ۱۹۲۸ ء میں برطانیہ کے دار الخلافہ لندن میں ایک مرکزی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس سلسلے میں نظامیہ ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ ۱۹۴۱ ء میں ایسٹ لندن مسجد ٹرسٹ کے کمرشل روڈ اسٹیپنی کی تین عمارتیں خرید کر ان کو لندن کی پہلی مسجد میں تبدیل کر دیا۔ آج اس مسجد کا انتظام بنگلہ دیش کے مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور حسن انتظام کا نمونہ ہے۔ یہاں خطبۂ جمعہ عربی، انگریزی اور بنگالی تینوں زبانوں میں ہوتا ہے۔ مسجد سے متصل طویل و عریض عمارت ہے، جو مختلف تعلیمی، دینی، سماجی اور کاروباری سرگرمیوں کامرکز ہے۔ اس مسجد کا ایک حصہ خواتین کے لیے مختص ہے۔
۱۹۱۴ ء میں لارڈ ہیڈ لے نے اسلام قبول کر لیا، قبول اسلام کے بعد انھوں نے مہم چلائی کہ پہلی جنگ عظیم میں جو مسلمان سپاہی شہید ہوئے ان کی یاد میں برطانیہ کی حکومت مسجد تعمیر کرے۔ یہ تجویز ۱۹۴۴ ء میں روبہ عمل آئی اور ریجنٹس پارک کے ہینور گیٹ نامی مقام پر مسجد بنائی گئی۔ اس کے لیے دو ایکڑ زمین شاہ جارج ششم نے عطیہ دی تھی اور حکومت نے ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم مختص کی تھی، یہ اراضی اور رقم اس تبادلے میں تھی کہ مصر میں انگلستانیوں کو چرچ بنانے کے لیے بڑی اراضی دی گئی تھی۔
۱۹۴۷ء میں اسلامی ملکوں کے ۱۳ سفیروں نے مل کر سنٹرل لندن مسجد ٹرسٹ قائم کیا۔ ۱۹۵۰ء کے دہے کے آخری حصے میں مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ایشیا بالخصوص پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئی تو متعدد مساجد وجود میں آئیں۔ لندن شہر میں ۱۹۶۴ ء میں چار مسجدیں تھیں۔ ۱۹۶۶ ء میں برطانیہ میں ۱۸ مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ اگلے دس سالوں میں سالانہ سات مساجد کے تناسب سے ان میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت صرف لندن میں ۵۰۰ کے قریب مسجدیں ہیں۔ برمنگھم دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں کی مسجدوں کے گنبد و مینار عظمت اسلام کی یاد دلاتے ہیں۔ ایک چھوٹے شہر بلیک برن میں ۲۵ سے زیادہ مسجدیں ہیں اور لیسٹر میں ۳۰ مسجدیں اسلام کے روحانی نظام کی افادیت کا احساس دلاتی ہیں۔
۱۹۷۷ء میں ریجنٹس پارک لندن میں ایک عالی شان مسجد سعودی عرب کے مالی تعاون سے تعمیر ہوئی۔ ریجنٹس پارک لندن کا پوش علاقہ کہلاتا ہے، جہاں وزرا، امرا، سفرا اور تاجروں کی رہایش گاہیں ہیں۔ اس مسجد کا شمار برطانیہ کی عظیم، کشادہ، خوبصورت اور پر شکوہ مسجدوں میں ہوتا تھا۔ دور دور سے مسلمان جمعہ اور عیدین کی نماز ادا کرنے کے لیے یہاں آتے تھے، نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے عیدین کی نماز چار مرتبہ ادا کی جاتی تھی، مگر بعد میں بہت سے علاقوں میں مسجدوں کی تعمیر ہوئی تو اس مسجد کی مرکزیت باقی نہ رہی۔ راقم نے اس مسجد میں حاضری دی ہے۔ آج بھی اس کا انتظام سعودی سفارت خانہ کرتا ہے جبکہ امام اورمؤذن مصر کے مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں ۱۹۴۴ ء میں برٹش حکومت کے تعاون سے چھوٹی سی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کا ایک بڑا دفتر لندن میں قائم ہے یہ دفتر پہلے مسجدوں کی تعمیر میں امداد فراہم کیا کرتا تھا، مگر ۱۱/ ۹ کے بعد حکومت کی سخت نظری کی وجہ سے اس نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کر لیا ہے۔ اس کے دفتر کی عمارت جمعہ کو نمازیوں کے لیے کھول دی جاتی ہے اور اس سے بھی مسجد کا کام لیا جاتا ہے۔
۱۹۸۵ء میں برطانیہ کی رجسٹرڈ مسجدوں کی تعداد ۳۳۸ ہو چکی تھی اور ۲۰۰۸ ء تک ان مساجد کی تعداد ۱۶۰۰ تک پہنچ چکی ہے، ان میں بعض مساجد تو وہ ہیں جو کسی گیراج، گودام، قدیم مکان یا کارخانے کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہیں اور بعض مسجدیں وہ ہیں جو پہلے سائنگاگ یا چرچ ہوا کرتی تھیں، وہ ویران ہو گئے تو ان کے مالکان نے فروخت کر دیا اور مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنا لیا۔ ایسی مسجدوں میں لیسٹر کی سینٹرل مسجد ہے جو بریلوی مکتب فکر کے مسلمانوں کا مرکز ہے اور دوسری مسجد عثمان ہے جو تبلیغی جماعت کامرکز ہے۔ تیسری قسم کی مسجد وہ ہے جو باقاعدہ زمین خرید کر منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہے۔
برطانوی قانون کے مطابق مسجدیں رجسٹرڈ خیراتی اداروں میں شمار ہوتی ہیں، جو اہل خیر افراد اور اداروں کے تعاون سے تعمیر ہوتی ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں برٹش حکومت متعصب نہیں ہے۔ ہر عمارت کی طرح مسجد کی تعمیر کے لیے بھی قانونی ضابطوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں زمین کا رقبہ، نقشہ، طرز تعمیر اور بلندی سب کچھ کے ضابطے شامل ہیں۔ البتہ مقامی عیسائی باشندوں کو نئی مسجد کی تعمیر پر اعتراض ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح برطانیہ کا عیسائی تہذیبی ماحول بدل جائے گا۔ خاص طور پر ۱۱\ ۹ کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو معاندانہ جذبات پیدا ہوئے ہیں ان کے باعث ایک طرف بہت سی مساجد پر حملے ہوئے۔ انھیں میں ایک مسجد عمر ہے جو فلپ چرچ لیسٹر سے متصل چوراہے پر واقع ہے، دوسری طرف مسجدوں کی تعمیر و ترقی کی مخالفت زیادہ ہونے لگی۔ چنانچہ اسلامی طرز تعمیر، گنبد ومینار کے ساتھ نئی مسجد تعمیر کرنا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ مگر کسی عمارت کو خرید کر مسجد بنا لینا آسان ہے۔ اب حکومت نے چرچ کو بیچنے پر پابندی لگا دی ہے۔
گزشتہ دنوں میں مجوزہ اولمپک اسٹیڈیم کے قریب ۷۰ ہزار نمازیوں کے لیے ایک وسیع مسجد کی تعمیر کا منصوبہ مسلمانوں نے بنایا تو اس کے خلاف عرضی دائر کی گئی۔ پونے تین لاکھ لوگوں کے دستخط سے مسجد کی مخالفت میں عریضہ وزیراعظم گورڈن براؤن کی ویب سائٹ پر بھیجا گیا۔ اس مسجد کے منتظمین میں ایک صاحب سے راقم کی بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ پرانی عمارت میں یہاں نماز ہو رہی ہے، مگر عظیم مسجد کے لیے جو ویران جگہ خریدی گئی اس کے پاس اسٹیڈیم بننے کی وجہ سے مجوزہ مسجد لوگوں کی نظر میں آ گئی ہے، اس لیے اس کی مخالف میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ان شاء اللہ دیر یاسویر یہ مسجد بن جائے گی اور رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ ابھی حال میں آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کا نیا کیمپس بنا ہے، اس کے فرنٹ پر گنبد و مینار والی خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے وقت مقامی باشندوں نے مقدمہ دائر کیا تھا کہ مسجد کا مینار چرچ کے کلس سے اونچا ہو گا اور یہ آکسفورڈ کی روایتی مسیحی ثفافت کے خلاف ہوگا، مگر وہ اس میں ناکام رہے اور مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی۔
برطانوی روایتی معاشرے میں چرچ تہذیبی مرکزیت کی علامت ہے۔ جب چرچ کی ویرانی اور مسجدوں کی آباد کاری کا منظر سامنے آتا ہے تومقامی باشندوں میں خوف و عناد کا پیدا ہونا کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال کی نشان دہی ہے جس میں مستقبل میں سماجی، تہذیبی اور سیاسی تبدیلی کے آثار پنہاں ہیں۔
مذہبی احکام کی پابندی اور تہذیبی قدروں کی حفاظت اور نمائندگی کے پیش نظر برطانیہ کے مسلمانوں نے مسجدوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ جو مسجدیں مسلمانوں نے بنائی ہیں وہ عام طور پر کشادہ، خوبصورت، جاذب نظر اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ وضو خانے اور حمام صاف ستھرے، گندگی اور بدبو سے پاک ملتے ہیں۔ سجدہ گاہ کے علاوہ فرش اور راہ داریوں کو بھی قالینوں سے ڈھک دیا جاتا ہے اور ان کی صفائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ حال ہی میں تعمیر ہونے والی مساجد میں لیسٹر کی دعوہ اکیڈمی کی مسجد ہے جو چالیس لاکھ پاؤنڈ کی لاگت سے بنائی گئی ہے۔ اس کی سادگی اور پرکاری، صفائی اور عمدگی مشاہدے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندو پاک میں اس طرح کی مساجد شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس مسجد میں دینی تعلیم کا مدرسہ بھی ہے اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے تعلیمی اکیڈمی بھی بنائی گئی ہے۔
بہت سی مسجدیں مسلمانوں کی رفاہی خدمات بھی انجام دیتی ہیں۔ برطانیہ کی مسجدیں عام طور پر شبینہ مدارس و مکاتب کا اہتمام کرتی ہیں۔ جہاں مغرب کی نماز کے بعد اسکول جانے والے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سنڈے اسلامی اسکول بھی ان مسجدوں میں چلتے ہیں۔ اس طرح کی مساجد میں جو عبادت کے علاوہ تعلیم و تربیت اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز ہیں، وال سال کی مسجد عائشہ بھی ہے جو اپنی ظاہری اور اندرونی خوبصورتی کے ساتھ، تعلیم و ثقافت کا مرکز ہے۔ اس کا انتظام جماعت اسلامی پاکستان کے متوسلین کرتے ہیں۔ اس مسجد کے احاطے میں بچوں کی دینی و عصری تعلیم کے ساتھ خاص طور پر خواتین کے تعلیمی پروگرام ہوتے ہیں۔ مسجد کے بالائی حصے میں ایک ہال ان کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اسی طرح برمنگھم کی جامع مسجد اور اسلامک مشن کی عظیم مسجد ہے جہاں تعلیم و تربیت ، دعوتی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ برطانیہ کے مسلمانوں نے مسجد کوعبادت گاہ کے ساتھ ‘‘اسلامی سینٹر’’ کی شکل دے دی ہے۔ جو نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی و تہذیبی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بلکہ غیر مسلمانوں کی رہنمائی کا بھی کام کرتا ہے۔
برطانیہ کی مساجد کی ایک خوبی یہ ہے کہ بڑی مسجدوں کا رابطہ مقامی گھروں سے ہوتا ہے۔ مسجد کے آس پاس مسلم گھروں میں ریڈیو فری کوئنسی ہوتی ہے، اس کے ذریعے جمعہ کا خطبہ، علما کے مواعظ، ہفتہ واری مجلس، درس قرآن اور درس حدیث کے جو بھی پروگرام مسجد میں ہوتے ہیں ، وہ گھروں میں بھی سنے جا سکتے ہیں۔ خواتین، بچے اور اہل خانہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ برطانیہ خاص طور پر لندن کی مساجد میں سب سے بڑا مسئلہ کار پارکنگ کا ہوتا ہے۔ نمازیوں کے پاس گاڑیاں ہوتی ہیں اور مساجد کے پاس پارکنگ کی جگہ مختصر ہوتی ہے۔
یوں تومسجدیں اللہ کی ہیں اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا مساجد کی تعمیر کا پہلا مقصد رہا ہے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہندو پاک کی مسجدوں کی طرح برطانیہ کی مسجدیں بھی نسلی اورمسلکی لائن پر منقسم ہیں۔ یہ مسجدیں دیو بندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر مکاتب فکر کی نمائندہ بن گئی ہیں۔ دینی اخوت، امت مسلمہ کی وحدت اوراسلام کی آفاقیت کا جو پیغام ان مسجدوں سے مل سکتا تھا، وہ متاثر ہو گیا ہے۔ ایشیائی مسلمانوں نے مسلکی تعصب اور مذہبی تنگ نظری کی وجہ سے دریا کو نالوں میں تقسیم کر لیا ہے۔ اس طرح کی مسلکی اور گروہی نمائندگی کرنے والی مسجدوں میں لکھا ہوتا ہے: یہاں کسی طرح کی تقریر کرنا، پمفلٹ یا اخبار تقسیم کرنا ، اعلان کرنا سخت منع ہے۔ انتظامی ضرورت سے زیادہ اس طرح کے نوٹس ایک خاص ذہنیت کی غمازی کرتے ہیں ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ دوسرے مسلک، بلکہ مشرب کے مسلمان ایسی مساجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے گھر میں نماز پڑھنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اور اگر مسجد میں نماز باجماعت کے لیے جاتے ہیں تو کشادگی ذہن اور سکون قلب کی جگہ گھٹن محسوس کرتے ہیں۔
مسلکی اور گروہی جھگڑے جو ہندو پاک کی مساجد میں ہوتے ہیں، وہ برطانیہ میں پہنچ چکے ہیں۔ بہت پہلے برمنگھم کی مرکزی مسجد میں رمضان المبارک میں جو جھگڑا ہوا اس نے برطانیہ کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھکا دیا۔ اس مسجد میں اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی ہر مکتب فکر کے مسلمان نماز ادا کرتے تھے۔ رمضان المبارک میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا کہ تراویح کی امامت کس گروہ کا امام کرے، اختلاف کا تصفیہ اس طرح کیا گیا کہ پہلے دس دن بریلوی امام نماز پڑھائے، پھر دس دن دیوبندی امام اور باقی دس دن اہل حدیث امام۔ اس پر اتفاق ہو گیا۔ چنانچہ پہلے دس دن بریلوی امام نے نماز پڑھائی، جب دیو بندی امام کے نماز پڑھانے کی نوبت آئی تو بریلوی حضرات نے اس امام کو نماز پڑھانے نہ دی، مصلیٰ سے کھینچ لیا، اس پر تنازع ہوا،مار پیٹ ہوئی، پولیس مسجد میں داخل ہوئی، گرفتاریاں ہوئیں اورپورے رمضان مسجد میں تالا لگا رہا۔ یہاں تک کہ عید کی نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اس طرح کی مذہبی شر پسندی نے مسلمانوں کو بہت رسوا کیا اور اسلام کی نہایت ہی قبیح تصویر کشی کی۔ آج کل اس طرح کے جھگڑے کم ہیں کیونکہ ہر مکتب فکر کے لوگ اپنی مسجدیں بنا رہے ہیں اورانتظام بھی انھی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے تاہم اللہ کی مسجدوں کو انسانی گروہ بندیوں کا نشانہ بنانا افسوس ناک عمل ہے۔
برطانیہ میں ہندو پاک کی طرح عیدگاہیں نہیں ہوتیں، عیدین کی نماز مسجدوں میں ادا کی جاتی ہے یا پارک میں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عید کی نماز بھی کئی دن ادا ہوتی ہے۔ ہندوستانی اپنے لحاظ سے، پاکستانی اپنے لحاظ سے اور عرب اپنے لحاظ سے عید کا دن منا لیتے ہیں۔ اسی لیے عید کی چھٹی برطانیہ میں نہیں ہوتی۔ ایک برطانوی شاعر احمد منیر نے اس تکلیف دہ صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے:
خبر ہے یہ عجیب سی اسی شہر میں عید کی
اک نماز کل ہوئی اک نماز آج ہے
سنا ہے پرسوں بھی کہیں عید کی نماز ہوئی
ہماری ایک عید پر بھی مفتیوں کا راج ہے
مسجدوں کو مسلمانوں کے داخلی تنازع کے ساتھ خارجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ۱۱/ ۹ اور ۷/۷ کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بڑھے ہیں اور اب یہ اسلامو فوبیا میں تبدیل ہو گیا ہے۔ میڈیا نے اسلام کی تصویر تشدد پسند مذہب کے طور پر اور مسلمانوں کی تصویر دہشت گرد قوم کی حیثیت سے بنائی ہے۔ عوام کے ایک طبقے نے مسلمانوں پر حملہ کیا، بلکہ مسلمانوں کی شکل رکھنے والے سکھوں کو بھی نشانہ بنایا اور خاص طور پر مساجد پر حملے کیے، نسلی نعرے لکھے اور حکومت نے مدارس اور مساجد کوانتہا پسندی کی تعلیم اور ٹریننگ دینے والے اداروں کی شکل میں دیکھنا شروع کیا۔ ان پر سخت نگاہ رکھنی شروع کی اور انسداد دہشت گردی کے نام پر ایسے ضابطے اور قوانین بنائے کہ اس کے تحت جس مسلمان کو چاہے گرفتار کر لے اور جس مسجد کے امام کو چاہے ملک بدر کر دے۔ دہشت گردی مخالف قانون کے پاس ہو جانے کے بعد مسجدوں کے منتظمین ، اماموں اور مسلمانوں کی ضرورت بن گئی کہ وہ اس قانون سے واقفیت حاصل کریں، ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے مسجدوں کا ناپسندیدہ استعمال نہ ہو اور اپنے تحفظ کے اسباب سے پوری طرح آگاہ اور اپنی سرگرمیوں کے معاملے میں محتاط ہوں۔ آج کل حکومت مسجدوں میں خطبہ کومانیٹر کرتی ہے۔ ائمۂ جمعہ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی لسانی قوت کو قابو میں رکھیں تاکہ مسلمانوں اورمعاشرے کے لیے کوئی آزمایش پیدا نہ ہو، وہ جرأت ایمانی سے ضرور سے کام لیں، مگر جراحت لسانی سے گریز کریں۔
مساجد کے امام اور ان کی تربیت
برطانیہ کی مساجد میں نماز کی امامت کے لیے اماموں کی ضرورت تھی، تو مساجد سے وابستہ نمازی جن ملکوں اور علاقوں سے نسلی تعلق رکھتے تھے، وہاں سے امام بھی لے آئے۔ بیشتر امام ہندو پاک ، بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں کے اماموں کی طرح ضروری تعلیم سے آراستہ تھے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق برطانیہ کی مساجد میں ۸۵ فیصد امام ایشیائی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ صرف ۱۵ فیصد برطانوی نژاد ہیں۔ اماموں کی تنخواہیں برطانیہ میں بھی معیاری نہیں ہیں، عام طور پر امام حضرات اسکولوں میں جز وقتی تعلیم دے کر یا ٹیوشن کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں، خاص طور پر وہ امام جو فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ کچھ امام ضرور ایسے ہیں جن کومعقول تنخواہ ملتی ہے اورکچھ ایسے بھی ہیں جو مسجد کے راستے سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔
یہ امام مسجدوں کی امامت کے علاوہ نمازیوں اور ان کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر مامور تھے، مگر انگریز ی زبان سے ناواقف تھے، اس لیے نہ تو سماج میں اپنا موثر رول ادا کر پا رہے تھے اور نہ برٹش اسکولوں میں زیر تعلیم مسلمانوں کی دوسری نسل جن کی زبان انگریزی تھی، کی تعلیمی و ثقافتی ضرورت میں تعاون کر سکتے تھے۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ درس نظامی طرز کے ایسے مدارس اور دار العلوم کا قیام عمل میں لا جائے جو مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کا مرکز بن سکیں، یہاں کے فارغین مساجد میں امامت کے فرائض انجام دے سکیں اور انگریزی میں خطاب اور رہنمائی کا کام کر سکیں۔ چنانچہ برطانیہ کے ہر اس بڑے شہر میں جہاں مسلمانوں کا ارتکاز ہے، دار العلوم کا قیام عمل میں آیا اور اب یہاں کی مساجد کے لیے ایسے امام کی فراہمی آسان ہو گئی ہے جو مقامی زبان میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اس کے باوجود آج بھی بڑی تعداد ان مساجد کی ہے، جن کے ائمہ انگریزی میں خطاب نہیں کر سکتے اور نئی نسل کی مؤثر رہنمائی نہیں کر سکتے۔
۱۹۷۰ء کی دہائی میں برطانوی حکومت نے ان اماموں کو پرمٹ فری ملازمت کی سہولت دے رکھی تھی۔ اس کا استحصال اس طرح ہوا کہ بہت سے لوگ امام کے نام پر برطانیہ آ گئے اور ٹیکسی ڈرائیوری اور دیگر پیشوں میں لگ گئے، اس لیے حکومت نے اپنے ضابطوں پر نظر ثانی کی۔ ۱۹۸۰ء میں داخل کلیرنس کو لازمی بنا دیا تاکہ برطانیہ کے ائیر پورٹ سے ان کو واپس کرنے کے بجائے خود ان کے ملکوں میں بغیر کلیرنس کے سفر کرنے سے روکا جائے۔ اس اثنا میں عارضی زائرین کو یہ اجازت تھی کہ وہ امامت حاصل کر سکیں اور زیارت کی جگہ ملازمت کا ویزا حاصل کر سکیں۔ ۲۰۰۴ء میں یہ سہولت بھی ختم کر دی گئی۔ کسی بھی قانون اور ضابطے کا غلط استعمال اسے سخت بنا دیتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے لوگوں نے برطانیہ کے اس نظام کا فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کا غلط استعمال کیا چنانچہ ضابطے سخت ہوتے چلے گئے۔ اب جو حضرات امامت کے نام پر ہندو پاک اور بنگلہ دیش سے بلائے جاتے ہیں ان کی چھان بین ، وابستگی ، ماضی کا ریکارڈ، تعلیمی لیاقت اور مادری درس گاہوں کی تفصیل سب کچھ کی واقفیت حاصل کی جاتی ہے۔ پھر ویزا دیا جاتا ہے، اس کے باوجود برطانیہ کی انتظامیہ ہندوستان کی انتظامیہ سے اس معنی میں بہتر ہے کہ وہ بلاوجہ اماموں کو پریشان نہیں کرتی اور نہ شکوک و شبہات کا دائرہ اتنا بڑھاتی ہے کہ سارے امام احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں۔
برٹش حکومت نے ایک طرف تو انسداد دہشت گردی کا قانون بنایا اور دوسری طرف مسلمانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے Preventing Extrimism Together Working Group تشکیل دی۔ اس ورکنگ گروپ کو سات حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان حلقوں کا کام مسلم نوجوانوں، خواتین، میدان تعلیم، تحفظ، انسداد انتہا پسندی اور کمیونٹی سے متعلق نئی شروعات اور ان کی امداد کے بارے میں رپورٹ تیار کر کے حکومت کو پیش کرنا تھا۔ اس ورکنگ گروپ کے ایک حلقے کا تعلق مسجدوں اور اماموں کے سلسلے میں رپورٹ کی تیاری سے وابستہ تھا، جس کو نام دیا گیا تھا:
''Imams'' training and accredition and the role of mosque as resource for the whole community"
‘‘اماموں کی تربیت اور ان کی لیاقت کی تعدیل اور مسلمانوں کے مابین مصادر کی حیثیت سے مسجدوں کا کردار۔’’
کمیٹی نے اکتوبر ۲۰۰۵ء کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی، اس رپورٹ میں کمیٹی نے یہ واضح کیا تھا کہ ملک میں انتہا پسندی کا بڑا سبب حکومت کی خارجہ پالیسی بالخصوص عراق پر حملہ ہے، اور اس کی اعلیٰ سطحی جانچ ہونی چاہیے کہ یہ حملہ کس حد تک بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق تھا۔ مساجد سے متعلق ورکنگ کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی اس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ حکومت، پولیس اورتفتیشی اہل کاروں کو جوتوں اور کتوں سمیت مسجدوں میں بھیجنے کے بجائے امام اور مساجد کی مشاورتی کونسل تشکیل دے، اس میں مختلف مکاتب فکر کی نمائندہ مساجد اور اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔
۲۔ حکومت مسجدوں، مدرسوں اور اسلامی سینٹرز کی ترقی کے لیے نیشنل ریسورس یونٹ قائم کرے، جو ان اداروں کے مدرسین کی رہنمائی اور تربیت کے لیے پروگرام بنائے۔
۳۔ مسجدوں کے اماموں اور منتظمین کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے پیشہ وارانہ ترقی کے پروگراموں کا آغاز کیا جائے۔ دینیات کی ٹریننگ کے لیے صرف مسلم علما اور اسکالرز کو مدعو کیا جائے۔
۴۔ برطانیہ کی مسجدوں، مدرسوں، اسلامی سینٹرز اور ان کے اماموں کے لیے اشاعتی سلسلہ شروع کیا جائے، جو مفید اور تعمیری کاموں کو نمایاں کرے، وغیرہ۔
برٹش حکومت نے مساجد ورکنگ گروپ کی سفارشات کی روشنی میں اب تک تین اقدامات کیے:
۱۔ مسجدوں اور امام مشاورتی بورڈ کی تشکیل کی منظوری دے دی، جس کا نام MINAB (مسجد اینڈ امام نیشنل ایڈوائزری بورڈ) ہے۔ اس بورڈ کا خاکہ اور دستور مرتب ہو چکا ہے اور جلد ہی اس کے نافذ ہونے کی توقع ہے۔
۲۔ عیسائی چپلننس (پادریوں) کی تربیت کی(بقیہ ص ۷۵ پر)
طرح مسجد کے اماموں کی تربیت کے لیے امام چپلنسی پروگرام کی منظوری دی۔
۳۔ بورڈ کی تشکیل اور مذکورہ پروگرام کے لیے ۷۹ ملین پونڈ مختص کر دیے۔
MINAB اگر ایک طرف مساجد کی تنظیم اور اماموں کی تربیت کے حوالے سے خوش آئند فیصلہ ہے تو دوسری طرف بہت سے مسلمان ابھی سے اس کے بارے میں مخمصے کا شکار ہیں کہ کہیں حکومت اس کے ذریعے سے مساجد و مدارس کی خود مختاری کو متاثر نہ کر دے۔ مسلمانوں اور برٹش حکومت دونوں کو مثبت اور معتدل نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ ،ماہنامہ زندگی نو، نئی دہلی،اپریل 2009ء)
٭٭٭