ریاض الجنۃ میں:
مدینہ منورہ میں آپ ،اگر قبلہ رخ ہوں تو آپ کا منہ جنوب کی سمت میں ہو گا مسجد نبوی میں داخل ہونے کے لیے،چاروں طرف کئی دروازے تعمیر کیے گئے ہیں ان کے مختلف نام ہیں۔مرکزی دروازہ شمال کی طرف سے ہے جس کو باب شاہ فہد کہتے ہیں ۔ہم یہاں سے مسجد کے اندر داخل ہو ئے۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں تھے.........ہمارے مقدر کی سکندری دیکھیں ..........ہم وہاں تھے........جہاں پیارے آقا ،رسول رحمت،سراپا پیار و شفقت......صلی اللہ علیہ وسلم .....اپنے معزز رفقا سمیت ..........رضوان اللہ علیہم اجمعین........رہا کرتے تھے۔ہمارے سالوں کے خواب آ ج سچے ہو رہے تھے........ہماری آ رزوئیں آ ج بر آ ئیں تھیں.......ہماری دعائیں آ ج پوری ہورہی تھیں.......خوشی تھی......سرشاری تھی.....جذب و شوق....رقت و سوز......ادب واحترام....دِل پر ہیبت طاری تھی......جسم و جاں پرلرزہ طاری تھا....اتنی وسیع و عریض اور عظیم الشان عمارت ....کہ حیرت میں گم تھے.....مدتوں سے مشتاق آنکھیں ....برس رہی تھیں....مسجد پاک تقریباًخالی تھی،کیونکہ نماز عشاء کے دو گھنٹے بعد مسجد کو بند کرنے کا معمول ہے،اور اب یہ وقت ہوا چاہتا تھا۔ہماری خواہش تھی کہ رات کی اس تنہائی میں روضہ اقدس کی جالیوں کے سامنے حاضر ہو نے ا ور سلام عقیدت پیش کرنے کی سعادت حا صل ہو جائے،اس لیے ہم تیزی سے چلتے ہو ئے،ایک طویل فا صلہ طے کر کے،ریا ض الجنہ میں پہنچ گئے۔اکا دکا زائرموجود تھے۔ہم نے ایک طرف ہو کر،سب سے پہلے تو ،محترم بھائی حا فظ عطا الرحمن کی امامت میں نماز عشا ادا کی۔حافظ صاحب کی پر سوز تلاوت اور مسجد نبوی میں موجودگی اور بالکل قریب ہی رسالتمآب کا روضہ اقدس.......بس، ایک عجیب قسم کا لذت آ میز تجربہ تھا۔
سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ،‘‘میرے حجرے اور میرے منبرکے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر واقع ہے۔’’اور آ ج ہم اسی جنت کے باغ میں تھے اور یہ تصور کرکے ،ہماری آ نکھیں برس رہی تھیں کہ کہاں میرے ایسا گناہ گار اور کہاں یہ سعادت کہ جنت میں موجود ہوں۔کافی دیر گم سم بیٹھا رہا ....اتنے میں میرے ساتھیوں نے آواز دی کہ ،‘‘مسجد بند ہونے والی ہے ،اُٹھیے ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سلام عقیدت پیش کر لیں ،فرصت کا لمحہ ہے !’’.....لیکن.......میری ہمت جواب دے چکی تھی .......مجھ میں دربار عالی میں حاضر ہونے کی سکت نہ تھی.........کس منہ سے وہاں جاؤں......کیا لے کر آ یا ہوں......اندر سے ٹوٹ چکا تھا......چند قدموں-08 کا فا صلہ تھا..... اُس کے بعد کیا ہوا .......یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو بیان نہیں ہو سکتا۔وہ لفظ کہاں سے لاؤں جو اجڑے دِل کی کیفیات کو بیان کر سکیں۔میں نہ توکوئی ادیب ہوں اور نہ ہی کوئی بڑا لکھاری جو ان جذبات و احساسات کو لفظوں میں ڈھال سکوں......میں تو بس ایک گناہ گار امتی ہوں......چند آنسو....ساتھ لایا ہوں.....لیکن وہ بھی ادب اور رعب کے باعث ڈھلکنے سے انکاری ہیں....سلام پیش کرنے حا ضر ہوا ہوں لیکن زبان بولنے سے انکاری.......اس پر سکتہ طاری.......بس خاموشی سے....مبارک جالیوں سے گزر گیا......ہاں ہاں.....بس گزر گیا....پتا اس وقت چلا جب سامنے جنت البقیع نظر آئی....معلوم ہوا کہ میں آقا علیہالصلوٰۃ و السلام.........کے حضورحا ضری سے فارغ ہو چکا ہوں......میں حسرت سے پیچھے .....مسجد نبوی کی طرف..... منہ کرتا ہوں.....دربان دروازہ بند کر رہے تھے....اچانک نظر اوپر کو اُ ٹھتی ہے تو سامنے سبز گبند جلوہ افروز ہو تا ہے .....تو میری چیخیں نکل جاتی ہیں.....زبان پر بے ساختہ درود و سلام جاری ہو جاتا ہے ،اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید ۔
بعد کے دنوں میں ریاض الجنۃ میں خوب آ مد و رفت رہی ،اس کا تفصیلی بیان آ گے آ ئے گا۔مسجد نبوی میں،ہماری پہلی آمد میں ،اب خاصی رات بیت چکی تھی،اس لیے ہم ہوٹل میں واپس آ گئے۔رات کے کھانے پر ،اس دِ ن ہم اپنے ایک دوست خواجہ جنید کے ہاں مدعو تھے۔برادر عزیز،ڈاکٹر خواجہ جنید صاحب ہمیں اپنے گھر لے گئے اور نہایت اعلیٰ اور مزیدار کھانوں سے ہماری ضیافت کی۔ڈاکٹر صاحب سے طویل عرصے کے بعد ہماری ملاقات ہو رہی تھی۔۲۵سال قبل ،جب ہم نشتر کالج ملتا ن میں زیر تعلیم تھے تو،اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن ہونے کی وجہ سے ،خواجہ جنید کے بڑے بھائیوں سے،ہمارے نہایت دوستانہ مراسم تھے، یہ اُسوقت ابھی ہائی اسکول میں تھے ،وہ تعلق آ ج تک بفضل تعالیٰ قائم ہے۔اگرچہ ہم بہت تھکے ہوئے تھے ،پھر بھی باتوں اور یادوں میں،پتا ہی نہ چلا کہ خاصا وقت گزر گیا۔رات دیر گئے ،وہ ہمیں واپس ہمارے ہوٹل میں چھوڑگئے۔آتے جاتے ،وہ ہمیں جدید مدینہ شہر سے بھی متعارف کراتے رہے۔
احد پہاڑ:
ہماراقیام شاہراہ شاہ فہد(طریق الملک فہد) کی ایک ذیلی سڑک پرواقع ایک ہوٹل میں تھا۔مسجد نبوی شریف کے مین گیٹ سے،جو کہ شمالی سمت میں ہے ،سے یہ سڑک نکلتی ہے۔پہلے دِن جب صبح کی نماز پڑھ کر ہم باہر نکلے،ہمارا رُخ شمال کی طرف تھا ،تو سامنے واقع ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،میرے ساتھی زمان صاحب کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب !سامنے دیکھئے کیسا خوبصورت نظارہ ہے۔’’میں تو پہلے ہی اس نظارے میں کھویا تھا،عرض کی ،‘‘ بھائی! یہی وہ مشہور پہاڑہے جسے تاریخ اسلام‘‘ کوہ احد ’’ کے نام سے جانتی ہے ۔’’ ‘‘نام تو میں نے بھی سن رکھا ہے ،یہ فرمایئے، اس کی وجہ شہرت کیا ہے ؟’’ انھوں نے پو چھا۔میں نے عرض کی ،‘‘یہی وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں کفرو اسلام کے درمیان دوسرا بڑا معرکہ بپا ہوا تھا،اس غزوے کو غزوہ احد کہا جاتا ہے۔اسی جنگ میں سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دانت مبارک شہید ہوئے تھے اور اسی معرکہ میں آ پ کے پیارے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔’’
کوہ احدمدینہ منورہ سے تقریباً۳ کلو میٹر بجانب شمال واقع ہے۔مسجد نبوی شریف کے دروازے سے نکلتے ہوئے ،اس پر جب نظر پڑتی ہے تو ٹھیری رہ جاتی ہے ۔دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس پر سونے کا پا نی چڑھایا گیا ہو۔میں سوچتا رہتا یہ خشک پہاڑ اتناپیارا کیوں لگتا ہے۔میں جتنا عرصہ وہاں رہا اس کے حسن کے سحر میں کھویا رہا۔ہم میں سے وہ لوگ جنھوں نے پاکستان میں موجود،مری ،سوات ،کاغان،ناران اور شمالی علاقہ جات کے سرسبزوشاداب اور بلند بالا پہاڑ دیکھے ہوں،یقیناً گواہی دیں گے کہ قدرتی حسن کے اعتبارسے یہ پہاڑ ،قدرت کے ان شاہکا ر تخلیقات کا کوئی مقابلہ نہیں کرتا،لیکن جتنا پیارا یہ لگتا ہے اُتنا دنیا کا کوئی اور پہاڑ نہیں لگتا ۔کیوں ؟؟ایسا کیوں ہے؟
میرے نزدیک ،اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ اس پہاڑ سے پیارے آ قاصلی اللہ علیہ وسلم،بہت محبت فرمایاکرتے تھے اس لیے ‘‘ہماری گھٹی ’’میں بھی اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔روایات میں آ تا ہے کہ ٓا پ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے ،‘‘یہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جب بھی کسی سفر سے لوٹتے اور جیسے ہی احد پہاڑ پر نظر پڑتی تو آپ خوش ہو جاتے اور ارشاد فرماتے، ‘‘وہ دیکھو ہمارا احد آ گیا ،ہمارا طابہ (یعنی مدینہ ) آگیا۔ ’’یہ وہ مقدس پہاڑ ہے جومیرے آقا علیہ السلام کے اس مقدس خون کا امین ہے جو احد کی لڑائی میں اس پر گرا تھا۔اور ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ بانکپن اور اس کا یہ حسن ،اُس گوہر تاباں کا مرہون منت ہے جو اس کے دامن میں احد والے دِن گرا تھا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں،کفرو اسلام کے درمیاں لڑی جانے والی دوسری جنگ برپا ہوئی تھی جسے غزوہ احد کہا جاتا ہے۔ اس غزوے نے اسلامی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ہم چلتے آ رہے تھے اور باتیں کرتے آ رہے تھے۔زمان صاحب کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب ! اس جنگ کا کچھ حال ہی سنا دیں۔’’میں نے عرض کی ،ضرور سناؤں گا ،لیکن ابھی تو بھوک لگی ہے ،ناشتہ کرنے کے لیے،آئیے ،پہلے کوئی پاکستانی ہو ٹل دیکھتے ہیں۔’’لیکن ان کی بے قراری برقرار رہی۔ہوٹل میں بیٹھتے ہی وہ کہنے لگے،‘‘بھائی جی،اس جنگ کے بارے میں ابھی کچھ نہ کچھ ضرور بتائیں اور یہ بھی فرمائیں کہ اس کی زیارت کو کب چلنا ہے۔’’ان کے اس اشتیاق کو دیکھتے ہوئے میں نے ناشتے کی میز پر بیٹھے بیٹھے چند واقعات سنائے باقی کے بارے میں عرض کی کہ جب احد پہاڑ کی زیارت کو جائیں گے تو وہاں سناؤں گا۔
تصورجاناں:
آپ جب مدینہ طیبہ میں ہوتے ہیں تو ایک عجیب تجربے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔آپ کے ذہن میں چودہ صدیوں قبل کا شہرمدینہ ہوتا ہے اور آپ کے سامنے اکیسویں صدی کا جدید ترین شہر ہو تا ہے۔تصور میں کچی پکی گلیاں اور مٹی کے گھروندے ہو تے ہیں اور ،آپ عملاً مدینہ کی ،ٹریفک سے بھری سڑکوں کے کنارے ،ٹریفک کے بے پناہ شور کے درمیان،فٹ پاتھ پر ہوتے ہیں ،اور آپ کے سامنے سر بفلک عمارتیں اور آسمان سے باتیں کرتے پلازے سر اُٹھائے کھڑے ہوتے ہیں ،آپ کی آنکھیں بجلی کے قمقموں اور ٹیوب لائٹس اورپاور بلبوں سے چندھیا رہی ہوتی ہیں ،جبکہ آپ کا ذہن....... تاریخ کی بھول بھلیوں میں،کہیں کھویا ہوتا ہے ،جہاں آپ کے سامنے مٹی کے دیئے ٹمٹما رہے ہوتے ہیں مدینہ طیبہ کی وہ حسین بستی جو ہمارے خوابوں میں بسی ہوتی ہے ،یہاں آ کر خواب و خیال ہو جاتی ہے۔ہم اس کیفیت میں مدینہ طیبہ کی گلیوں میں پھرتے تھے کہ سڑکیں ،چوراہے ،عمارتیں جدید اور اُس میں عکس ڈھونڈتے ہیں ہم قدیم۔
سسکیاں:
مسجد نبوی کے باہرجو آثار تھے وہ پیدل چلنے کے لحاظ سے دُور تھے اور جو مسجد نبوی کے اندر تھے وہ تاریخی آثار کے بجائے محض مسجد کا تعمیراتی حسن تھا جو بندے کو تاریخ سے الگ کرکے اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے۔آجا کے ہمارا دِل حزیں مسجدپاک کے اس کونے میں جا پناہ لیتا تھا جہاں جنت ہے اور جنت والا ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔اس پناہ گاہ میں پہنچنے کے لیے اکثر اوقات بڑی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ ایک دِن یہ عاجز ،شدید رش میں،بڑی ہمت کرکے ،ریاض الجنۃ میں پہنچا،دھکے کھاتا،اللہ کے بندوں سے ٹکراتا،کہیں نمازیوں کو پھلانگتا اور کہیں آہ و زاری کرتے زائرکو لتاڑتا،منبر رسول کے پاس جا پہنچا......اور پھر....کیا دیکھتا ہوں کہ خاکسار کی پیشانی وہاں ہے ، جہاں قیام و سجود میں میرے آقا مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ہوتے تھے ..... .... جسم و جان کی عجیب حالت تھی....... قلب و ذہن ....کہیں گم تھے........سبحان ربی الاعلیٰ ....سبحان ربی الاعلیٰ کہہ رہا تھاکہ یکایک آ واز آئی یہاں سے اُ ٹھو ،میری طرف آؤ........ میں تمھیں اپنی کہانی سناتا ہوں......اس کے ساتھ ہی سسکیوں کی آوازیں آ نی شروع ہو گئیں.......محراب نبوی سے میں اُ ٹھ گیا،میرے ہٹتے ہی لائن میں لگا بندہ اللہ کریم سے رازو نیاز میں لگ گیااور میں سسکیوں والا آدمی ڈھونڈننے لگا جس نے مجھے وہاں سے اُٹھایا تھا۔دائیں طرف ہو کہ میں ایک ستون سے لگ کر،سوچ رہا تھا کہ اسی ستون سے ہی سسکیوں کی آواز آنے لگی۔ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب اپنے صحابہ کرام سے مخاطب ہو تے تو قریب ہی ایستادہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا لیا کرتے۔اس معمول کو کافی عرصہ گزر گیا۔ایک صحابیہ تھیں ،اُن کے بیٹے نے ترکھان کا ہنر سیکھ لیا۔اُس خاتون نے آپ سے عرض کی،‘‘یا رسول اللہ !اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے بیٹے سے ایک منبر بنواکر آپ کو ہدیہ کردوں جس پر آپ سکون سے تشریف فرما ہوں اور خطاب فرمایا کریں۔’’ معقول تجویز تھی،اس چیز کی آقا کو واقعی ضرورت تھی۔اُن ماں بیٹے نے ،جلد ہی ایک خوبصورت منبر لا کر مسجد مبارک میں رکھ دیا ،اور آج پہلا دِن تھا ،جب ، اس منبر پر تشریف فرما ہو کر آپ وعظ فرمانے لگے تو قریبی ستون سے سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی بچہ ماں کی جدائی میں رو رہا ہو۔لوگ یہ ماجرا دیکھ سہم گئے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم،منبر سے نیچے اُترے،اُسے پیار کیا ،اپنے مبارک بازؤوں کے گھیرے میں لیا اور جب اپنے مبارک سینے سے لگایا تواُس کی سسکیاں رک گئیں۔دراصل پیارے محبوب کی جدائی،اس لکڑی کے خشک تنے پر گراں گزری تھی۔یہ واقعہ ۸ ہجری کا ہے۔اس منبر کے دو قدم تھے۔
وہ ستون اسطوانہ حنانہ یا استوانہ محلقہ کہلاتا ہے۔یہ ستون آج بھی موجود ہے۔مسجد نبوی میں،منبر مبارک کے پاس ہی رونق افروز ہے۔درد دِل رکھنے والے صاحبان علم کو آج بھی، وہ اپنی کہانی سناتا رہتا ہے ۔
مسجد رسول کے دیگر ستون
‘‘ڈاکٹر صاحب!’’ بھائی زمان کہنے لگے،وہ ستونوں والی کیا بات ہے ، بٹ صاحب کہہ رہے تھے کہ یہاں کوئی خا ص ستون ہے جہاں نفلیں پڑھنی ہو تی ہیں،مجھے تو آپ نے کچھ نہیں بتایا۔’’میں نے عرض کیا ،‘‘یہ بتانے کی بات نہیں ،دکھانے کی بات ہے ،اب جب ریاض الجنۃ میں جائیں گے تو میں تمھیں وہ ستون بھی دکھا دوں گا اور تم جی بھر کر وہاں نوافل ادا کرنا۔’’ہمارا یہ ساتھی ،ان پڑھ تو ہے لیکن عبادت کا بہت شوقین تھا۔جب مکہ میں تھے تو بھاگ بھاگ کر طواف کرتا تھا،ایک دِن میں دس دس طواف،اور اب یہاں آئے تو جب دیکھو ریاض الجنۃپہنچا ہو تا تھا اور جب میں نے انھیں ان ستونوں کا تعارف کروایا تو پھر تو ان کا ذوق عبادت دیکھنے کے لائق تھا۔
ٓآ ئیے آپ کو بھی ان ستونوں کا تعارف کروا دیں۔ یہ کل ۶ہیں ، جن کے نام درج ذیل ہیں،
۱۔اسطوانہ وفود،۲۔ اسطوانہ حرس ،۳۔اسطوانہ السریر، ۴۔ اسطوانہ توبہ، ۵۔اسطوانہ عائشہ ،۶۔اسطوانہ المحلقہ،
اسطوانہ السریر،اسطوانہ حرس، اور اسطوانہ وفود ،روضہ انور کی مغربی دیوار میں چنے ہیں،المحلقہ منبرکی دائیں جانب.... بنا ہے،جبکہ اسطوانہ عائشہ آزادانہ ریاض الجنۃ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے اور اسطوانہ توبہ بھی آزادانہ طور پر اس سے اگلی لائن میں ہے۔حضور ﷺ کے مبارک زمانے میں یہی مسجد نبوی تھی جو ان ستونوں پر قائم تھی،ظاہر ہے اس وقت تو یہ کھجور کے تنے تھے لیکن بعد میں ان کی شکلیں بدلتی رہیں۔ ہر ایک کے اوپر اس کا نام لکھا ہوا ہے۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجدنبوی کی بنیاد رکھی تھی تو اس کا چھت ان ستونوں پر قائم کیا گیا تھا۔بعد میں ،تاریخ کے مختلف ادوار میں مسجد پاک کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی ،جس میں ان ستونوں کو بدلا جاتا رہا ،حتیٰ کہ ان کی اب موجودہ خوبصورت ترین شکل قائم ہوئی ،لیکن ان ستونوں کی جگہ کو نہ بدلا گیا۔ ان ستونوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ کے بارے جو روایات ہیں، اُن کا مختصرسا تذکرہ یہاں کرتا ہوں۔
اسطوانہ عائشہ:
یہ ریاض الجنۃ کے قریباً درمیان میں واقع ہے۔اس کی سمت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس مہینوں سے زیادہ فرض نمازوں کی امامت فرمائی ،پھر اس جگہ کو چھوڑ کر وہاں امامت فرمانے لگے جہاں موجودہ محراب ہے اور یہ ستون آپ کی پشت کی جانب آ گیا۔مہاجرین میں قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام ،اس ستون کے پاس اپنی مجلس کیا کرتے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ ریاض الجنۃ میں ایک ستون ایسا بھی ہے کہ جس کے پاس نوافل ادا کرنے کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ اگر لوگوں کو اس کا پتا چل جائے تو وہ آ پس میں قرعہ اندازی کیا کریں۔لوگ اُن سے اس ستون کا پو چھتے رہے لیکن انھوں نے اس کا مقام نہ بتایا ۔اُن کی وفات کے بعد ،اُن کے شاگرد اور بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک ستون کے پاس زیادہ نوافل اد اکرتے ہیں یہاں سے لوگوں نے خود بخود اندازہ قائم کر لیا کہ ہو نہ ہو ،یہ وہی ستون ہے جس کا ذکر جناب سیدہ عائشہ فرمایا کرتی تھیں۔لوگوں نے اس کا نام ہی اسطوانہ عائشہ رکھ دیا۔
اسطوانہ توبہ:
یہ ستون،سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے مثال توبہ کی یادگار ہے۔بیان کیا جاتا ہے کہ جنگ احزاب کے زمانے میں ،حملہ آور قوتوں کے پسپا ہو جانے کے بعد،جب یہود کے ایک قبیلہ بنو قریظہ کی مسلسل بد عہدیوں،مکارانہ چالوں اور مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سازشوں کی سزا دینے کے لیے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،اپنے جاں نثاروں کے ساتھ ،ان کے محلوں اور قلعوں کا محا صرہ کیا، تو پہلے تو وہ اپنی قوت کے زعم میں اکڑے رہے لیکن جب انھیں اپنی شکست نظر آنے لگی تو پھر اپنی جان بچانے کے راستے ڈھونڈنے لگے۔انھوں نے پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس ابو لبابہ بن عبدالمنذر کو بھیجا جائے ،وہ ہمارے حلیف اور دوست ہیں ،ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ،ان کو بھیج دیا۔یہ وہاں گئے،انھیں اونچ نیچ سمجھاتے رہے اور انھیں ،غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرتے رہے۔دوران گفتگو ،انھوں نے اشاروں اشاروں میں یہود کو یہ بتا دیا کہ اُن کے لیے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے۔یہ ایسی بات تھی جس کے بیان یا افشا کا مینڈیٹ اِن کے پاس نہ تھا۔سیدنا ابو لبابہ کہتے ہیں کہ مجھے فوراً ہی انتباہ ہو گیا کہ میں نے یہ اشارہ کر کے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے۔جوں ہی یہ خیال آیا ،وہ وہاں سے فوراً اُٹھ آئے اور شدید پچھتاوے اور پریشانی کے عالم میں ،بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکچھ بتائے ،یا کسی اور ساتھی سے مشورہ کیے،اپنے آپ کے لیے خود ہی یہ سزاتجویز کر لی کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے اس ستون سے باندھ لیا جسے اب اسطوانہ توبہ کہا جاتاہے اور یہ کہنے لگے جب تک اللہ اور اس کا رسول مجھے معاف نہیں کریں گے میں یہیں بندھا رہوں گا۔سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا ،تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ابو لبابہ میرے پاس آ جاتے ،معاف کر دیے جاتے ،اب تو اللہ تعالیٰ ہی کوئی فیصلہ صادر فرمائیں گے۔وہ بندھے رہے،کھانا بھی وہیں کھاتے ،نمازیں بھی وہیں ادا کرتے اور سوتے بھی وہیں۔آٹھ دس روز گزر گئے،پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرما لی اور سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انھیں اس خود اختیار کردہ سزا سے نجات دلائی۔
اسطوانہ وفود:
یہ ستون وہ ہے جس کے پاس پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت تشریف فرما ہوتے جب اطراف عرب سے لوگ آپ سے ملاقات کے لیے حا ضر ہوتے۔ویسے توان وفود کی آمد کا سلسلہ، حضور ﷺ کے مدینہ تشریف آوری سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس میں تیزی ۸ ہجرے کے بعد آئی ،حتیٰ کہ سیرت نگاروں نے ،سال ۹ اور ۱۰ ہجری کو عام الوفود یعنی وفدوں کا سال ہی قرار دے لیا۔
اسطوانہ حرس اوراسطوانہ سریر:
اس ستون کو اسطونہ سیدنا علی بھی کہا جاتا ہے۔یہاں پر وہ پہرے دار اپنا ٹھکانہ بناتے جن کی ڈیوٹی آقا علیہ السلام کی حفاظت پر ہوتی۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ ،چونکہ حضور ﷺ کی سیکورٹی کے انچارج تھے اس لیے وہ اکثر یہاں موجود ہوتے اور اپنے نوافل بھی یہاں ادا کرتے۔اس طرح اس ستون کا نام آپ ؓکے نام پر پڑ گیا۔اسی طرح ،اسطوانہ سریر وہ ستون ہے جہاں دوپہر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چارپائی بچھائی جاتی جہاں آپ قیلولہ فرمایا کرتے ۔آپ ﷺ کے اس کبھی کبھار کے معمول نے ،اس ستون کو ہمیشہ کے لیے یہ نام عطا فرما دیا۔ ( جاری ہے )
٭٭٭