نومبر ۲۰۰۵ میں، جب میں نے اپنے ایک محسن سے کہا، کہ میں نے ابوظبی کے ایک سکول میں جاب کی پیشکش قبول کر لی ہے تو انہوں نے جوفی البدیہہ تبصرہ کیا وہ یہ تھا ، کہ سکول کی جا ب ایک thankless جاب ہے ۔آج چار برس کے بعد ان کا تبصرہ پہلے سے کہیں زیادہ جاندار اور بامعنی محسوس ہوتا ہے اس لیے کہ آج جب کبھی کلاس میں موجود ننھے منے ، ہنستے کھیلتے اور پھول سے مسکراتے چہرے دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ کیا ان چہروں کو ‘میں ’یاد رہ جاؤں گا؟ توخود میراشعور ہی مجھے فوری ڈانٹ پلا دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تمہارے بچپن کے کتنے استاد ہیں جنہیں تم نے یاد رکھا ہے ۔اگر تم نے یاد نہیں رکھا تو تم ان سے کیوں امید رکھتے ہو؟ مجھے فوراً ہی اپنے شعور کے سامنے ہار ماننا پڑتی ہے کیونکہ اس کا موقف بالکل درست ہوتاہے۔ کالج یونیورسٹی کے کتنے ہی اساتذہ ایسے ہیں جن کے نہ صرف نام یاد ہیں بلکہ ان کے چہرے ، ان کی یادیں اور باتیں بھی قائم ہیں مگر بچپن کے کتنے ہی محسن اساتذہ ایسے ہیں کہ آج جن کا نام تو کجا چہرہ تک یاد نہیں۔ذہن پر بہت زور دوں تو اُس وقت کے ضلع‘ لائل پور’ اور آج کل کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک قصبے ‘پیرمحل ’کے ایک پرائمری سکول میں چارپائی پر بیٹھے ایک شفیق استاد کا خاکہ پردۂ ذہن پر ابھرتا ہے جو تہبند باندھے ہر ہر بچے کی قلم خود بنارہے ہوتے اور ہر ہر بچے کی تختی پر خود تحریر کی مشق کروا رہے ہوتے تھے۔بچے ان کی چارپائی کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ان سے لکھنا سیکھتے تھے ۔وہ کسی کی تختی صاف کرتے ،کسی کی قلم بناتے توکسی کی دوات۔ ان کی بنائی ہوئی قلم کے ہم ایسے عادی ہوئے تھے کہ بہت بعد تک بھی ہم خود قلم نہ بنا سکتے تھے البتہ اچھا لکھ ضرور سکتے تھے۔ یہ زمانہ وہ ہو گا جسے آج کل کی زبان میں ون اور ٹو کہتے ہیں اور اس زمانے میں اول ، دوم کہتے تھے۔ سوم چہارم میں کیا تھا ، کچھ بھی یاد نہیں ۔ پھرپنجم کے زمانے کا ایک اور خاکہ ابھرتا ہے جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر ایک کا ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ اس محسن استاد کا نام شاید اکر م تھا۔ وہ چند منتخب بچوں کو چھٹی کے بعد بٹھا لیتے اوردیر تک پڑھاتے رہتے ۔نہ کسی صلے کی تمنا نہ کسی ستائش کی پروا۔ بس ان کا ایک ہی ٹارگٹ ہوتا کہ ان کے شاگرد وظیفے کے امتحان میں کامیا ب ہو جائیں۔ اب تو معلوم نہیں کیا ہے اس زمانے میں محکمہ تعلیم ذہین بچوں کے لیے مقابلے کے امتحان کا انتظام کیا کرتا تھا جسے ہم وظیفے کا امتحان کہتے تھے اور اس میں کامیاب بچوں کو حکومت وظائف دیتی تھی ۔ ان کی اس بے لوث محنت کے نتیجے میں ہم اس میں کامیاب ہوئے ۔چھٹی ساتویں کے زمانے کے ایک اپنے ہم نام استاد یاد آتے ہیں جو ریاضی پڑھایا کرتے تھے ، اسی طرح انگریزی زبان کی اے بی سی سکھانے والے مہربان استاد یاد آتے ہیں جن کے نام کابس آخری حصہ یاد رہ گیا ہے یعنی رضوی صاحب۔ اس زمانے میں انگریزی زبان کی ‘ مصیبت ’کا آغاز جماعت ششم سے ہوتا تھااور بہت عرصہ تک بچے اس زبان سے مانوس ہی نہ ہو پاتے تھے ۔ رضوی صاحب کو یہ بہت شوق ہوتا تھا کہ ان کے بچوں کو فوراً اے بی سی لکھنا آ جائے اور وہ اس پر اتنی محنت کرواتے کہ ان کے بچے بڑے ہو کر بھی ان کے رسم الخط سے باہر نہ نکل سکتے تھے ۔یہ اپنے ہاتھوں سے تختہ سیاہ پر چار لکیریں لگاتے اور ہمیں اے بی سی لکھنا سکھاتے ۔ ان کا انداز تحریر بہت خوبصورت او رکلاسیکل تھا۔ ہم جو انگریزی کے چار حرف لکھ لیتے ہیں یہ ان ہی کی برکت ہے ۔ ان کا کلاسیکل انداز تحریر آج تک ہمارے ساتھ ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کل کے شاگرد نہ ہمارا ‘بی ’ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ‘ٹی’ اسی طرح انہیں ‘ایف’ اور ‘پی ’سمجھنے میں بھی دقت پیش آتی ہے جبکہ ہمیں ان بچوں کی طرح لکھتے شرم آتی ہے اسی طرح نہ جانے کتنے ہی ایسے محسن ہو ں گے جنہیں ہم فراموش کر بیٹھے ہیں لیکن یہ اُن ہی کی محنت اور برکت ہے کہ آج ہم پڑھ بھی لیتے ہیں اور لکھ بھی۔
سوچتا ہوں کہ کیا آ ج کا ایک بڑا شاعر اوربڑا ادیب یہ بات جانتا ہے کہ اس کی کتابوں کا اصل کریڈٹ تو اس شخص کو جاتا ہے جس نے اس کے ہاتھ میں پہلی بارقلم پکڑاکر لکھنا سکھایا تھا۔کیا آج کے ایک بڑے عالم یامقبولِ عام قاری کو اس بات کی خبر ہے کہ اس کی علمیت یا خوش الحانی کا سارا جوہر تو اصل میں اس کا مرہون منت ہے جس نے اسے پہلی بار الف ،با، تا پڑھایا تھا ۔کیا آج کا ریاضی دان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے کہ اس کی لیاقت اصل میں اس گمنا م شحص کا صدقہ ہے جس نے اسے ایک دو تین رٹایا تھا۔شاید نہیں۔ اور یہی وہ بات تھی جسے ہمارے محسن نے اس اسلوب میں بیان کیا تھا کہ سکول کی جاب تو ایک thankless جاب ہے ان کا کہنا تھا کہ طلبا کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے استاد تو یاد رہ جائیں گے نہیں یاد رہیں گے تو یہ لوگ جو ان کے نخرے برداشت کر کر کے انہیں پڑھاتے ہیں۔پھر سوچتا ہوں کہ شاید یہی قانون فطرت ہے کہ جس طرح کسی عمارت کی بنیادوں کا کام یہ ہے کہ وہ خود زمین میں دفن ہو کر عمارت کو شان و شوکت عطا کریں اسی طرح سکول کے اور خاص طور سے پرائمری کے اساتذہ کا کام بھی یہ ہے کہ وہ خود گمنام رہ کر اپنے شاگردوں کو نام عطا کریں۔اور پھر یہ سوچ کرمزید اطمینا ن ہو جاتا ہے کہ اگر بنیاد بھی نمود کی خواہش رکھے تو عمارت کیسے بن پائے ،اسی طرح اگر سکول کا استاد بھی نام کی خواہش رکھے تو اس کے شاگردوں کو نام کیسے مل پائے۔قانون فطرت یہی ہے کہ بعض لوگ بیج بن کر زمین میں مل جائیں اور بعض فصل بن کر لہلہائیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسان کو بیج بھول جائے اوررونق ِ فصل یاد رہ جائے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ بیج اگانے والی ذات کو بھی بیج بھول جائے۔کیونکہ وہ ذات ہی ایسی ہے کہ ا س کا علم کائنا ت کے ذ رے ذرے کو محیط ہے ۔وہ نہ بھولتا ہے اور نہ اس سے کوئی غلطی ہوتی ہے ۔ نہ ہی اس کے رجسٹروں سے کوئی چیز محو ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے ہاں کسی کی کوئی ذرہ برابر محنت اکارت جاتی ہے ۔جو اپنے معاملے کو اس ذات سے وابستہ کر لیتے ہیں ، انہیں نہ نام کی خواہش ہوتی ہے او رنہ نمود کی کیونکہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ ان کا مالک انہیں دیکھ رہا ہے اور وہ اُن کو اس وقت نام و نمود دے گا جب اور جہاں اصل میں اِن کی ضرورت ہو گی ۔اور جو میری طرح یہ اور وہ سوچتے اور ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں ان کا چلنا ٹامک ٹوئیاں اور ان کا بیٹھنا بوجھ بن جاتا ہے ۔ اور سیانے کہتے ہیں کہ اس بوجھ کے اتارنے کا واحد حل بھی یہی ہے کہ میرے جیسے بھی thankless اور thankful کی بحث میں پڑے بغیر خود کو اس مالک کا thankful بنانے کی کوشش کر تے رہیں باقی سارے مسئلے وہ خود ہی حل کر دے گا۔ کیونکہ اس کا وعد ہ ہے لئن شکرتم لازیدنکم۔۔۔۔