محمد یونس ایک کسان ہے اور اس کا تعلق چھانگا مانگا کے قریب چک نمبر 117 سے ہے۔ چند سال پہلے تک وہ ہمیں روزانہ دودھ مہیا کرتا تھا۔ 22-04-2004 کو اس نے مجھے بتایا کہ تقریباً 25 سال پہلے ہمارے گاؤں میں دو لڑکوں -حبیب اور منظور- نے ایک غریب آدمی کی گونگی بہری لڑکی کو زبردستی ریپ کیا۔ دونوں کی وقت پر شادیاں ہوئیں۔ حبیب کے ہاں چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ سب گونگے بہرے تھے۔ منظور کو خدا نے تین بیٹے عطا کیے۔ یہ تینوں بھی ابنارمل تھے۔ ان کے سر بڑے بڑے تھے جنہیں یہ دائیں بائیں ہلاتے رہتے تھے۔ انہیں دیکھ کر خوف محسوس ہوتاتھا۔
٭٭٭
محمد شکور صاحب میرے عزیز ہیں۔ چک نمبر 104 جنوبی سرگودھا سے تعلق ہے ۔ انہوں نے بتایا (17-04-2004) کہ خوشی محمد میرا تایا زاد بھائی تھا۔ 2001 ء میں اس کی کینسر سے وفات ہوئی۔ سگریٹ بے تحاشا پیتا تھا۔ اس کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب ذہنی طور پر معذور تھے۔ خوشی محمد خود بتاتا تھا کہ میں ضلع جیک آباد سندھ کی تحصیل تھل کے گاؤں میر پور بلڑا میں زمیندارہ کرتا تھا۔ ایک روز کھیت میں غلے کا ڈھیر لگا ہوا تھا کہ ایک فقیر آیا۔ اس نے خیرات مانگی۔ میں نے کچھ دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس نے اصرار کیا تو میں نے اسے خوب گالیاں دیں۔ اور ڈنڈے سے اس کی پٹائی کی۔ اس پر اس نے بددعا دی کہ خدا تمہارا بیڑہ غرق کر دے اور تمھیں کبھی سکھ نہ ملے۔
خوشی محمد نے بتایا کہ اس کے بعد میری شادی ہوئی اور سارے بچے معذور پیدا ہوئے اور فقیر کی بددعا کے عین مطابق مجھے زندگی بھر سکون نہ ملا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شیر محمد خاں صاحب (ایم بی بی ایس) کا تعلق لیّہ سے ہے۔ بہت نیک، مخلص اور خدا ترس انسان ہیں۔ تقریباً ہر سال رمضان المبارک میں منصورہ کی جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھتے ہیں اور یہیں ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ 30-10-05 کو موصوف محترم نے ایک عبرت ناک واقع سنایا۔
فرمایا کہ لیّہ میں دانتوں کا ایک عطائی ڈاکٹر تھا،ڈاکٹر منظور۔ عیاش اور بے عمل آدمی تھا۔ ایک دن وہ ایک شخص کو میرے پاس لایا اور اسے باہر بٹھا کر علیحدگی میں مجھے کہنے لگا کہ میں اس آدمی کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہوں، آپ میری مدد کریں اور اسے زہر کا ٹیکا لگا دیں۔ اس پر میں نے اسے ڈانٹا اور اس ظلم میں حصہ دار بننے سے انکار کر دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ واقعی ڈاکٹر نے اسے مروا دیا ہے۔ ڈاکٹر شیر محمد خاں صاحب نے بتایا کہ دراصل اس عطائی ڈاکٹر کے مقتول کی بیوی سے تعلقات تھے او رقتل کی قبیح حرکت اس نے رقابت کی بنیاد پر کی تھی۔ اس کے بعد اس شخص نے اس عورت سے اعلانیہ تعلق استوار کر لیا اور کچھ عرصے کے بعد جب اس نے کچھ بیگانگی اور بے نیازی کا مظاہرہ کیا تو ایک روز یہ مٹی کے تیل کی بوتل لے کر اس کے گھر میں آگیا اور اعلان کیا کہ آج میں تمہارے سامنے اپنے آپ کو آگ لگا لوں گا اور ثابت کر دوں گا کہ تمہارے عشق میں میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ شخص بہت ہی چھچھورے مزاج کا غیر سنجیدہ آدمی تھا اور محض ڈرامہ کر رہا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے کپڑوں پر مٹی کا تیل ڈال لیا اور ماچس کی تیلی جلا کر کپڑوں کو دکھا دی او رجونہی قمیض کو آگ لگی اس نے بڑی تیزی کے ساتھ قمیض اتار کر پھینک دی اور شلوار اتارنے کی کوشش کی۔مگر ازار بند پھنس گیا اتفاق سے تیل کی کافی مقدار نے شلوار کو سامنے سے خاصا گیلا کر دیا تھا، چنانچہ شلوار نہ اتری، آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اس کے جنسی اعضا کو بری طرح جلا دیا اور وہ دو دن تک تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
٭٭٭
محمد شکور صاحب (سن پیدایش 1940ء) قیام پاکستان سے پہلے ضلع سنام، ریاست پٹیالہ کے ایک گاؤں سوملہر میں رہا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے والد (چودھری محمد حسن مرحوم) کے حوالے سے یہ واقعہ سنایا کہ ایک برس گندم سے غلہ نکالنے میں تاخیر ہو گئی اور برسات کا موسم شروع ہو گیا۔ اتفاق سے ایک سکھ کسان پریتم سنگھ نے اپنا غلہ بروقت نکال کر اپنے مکان میں محفوظ کر لیا۔ اس پر محمد حسن صاحب نے اسے کہا کہ پریتم سنگھ تم پر تو خدا نے بڑا کرم کیا ہے، تم نے غلہ وقت پر نکال لیا ہے، اب دیکھیں ہمارا کیا بنتا ہے۔ اللہ مالک ہے، بارشیں تو شروع ہو گئی ہیں۔ اس پر پریتم سنگھ بدبخت نے موٹی سی گالی دی کہ خدا نے مجھ پر کوئی کرم نہیں کیا، میں نے ڈنڈے کے زور سے غلہ بچایاہے۔
اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جس کمرے میں پریتم سنگھ نے غلہ ڈھیر کیا ہوا تھا، اس کی چھت کی ایک کڑی ٹوٹ گئی، دو دن مسلسل بارش ہوتی رہی اور چھت کا سارا پانی کمرے میں جاتا رہا، حتیٰ کہ تمام غلہ مکمل طور پر غارت ہو گیا اور پریتم سنگھ کو اس وقت خبر ہوئی جب تلافی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی۔
٭٭٭
محمد شکور صاحب نے بتایا کہ ان کے گاؤں (چک نمبر 104 جنوبی سرگودھا) میں بشیر احمد نامی زمیندار تھا۔ نیم خواندہ تھا اور زمیندارے کے ساتھ ساتھ پتھر کرش کرنے کا کاروبار بھی کرتا تھا، اس لیے خاصا امیر ہو گیا تھا اور دولت کی ریل پیل نے اسے شدید قسم کے غرور میں مبتلا کر دیا تھا اور اذیت پسندی اس کے مزاج اور کردار کا لازمی حصہ بن گئی تھی۔ وہ طنز، تمسخر، تضحیک کے اسلحے سے ہمہ وقت لیس رہتا اور کسی کو معاف نہ کرتا۔ نہ کسی بزرگ کو، نہ نوجوان کو، گاؤں کا کوئی فرد اس کی نشتر زنی سے محفوظ نہ تھا۔ جو بھی اس کے قریب سے گزرتا وہ اسے سان پر چڑھا لیتا ۔ کسی کو خاندان کا طعنہ دیتا، کسی کے قد کا مزاق اڑاتا اور کسی کے رنگ اور حلیے پر طنز کرتا۔ مزید یہ ہوا کہ وہ جوا بھی کھیلنے لگا اور معمولی باتوں پر لوگوں کے ساتھ مقدمہ بازی کرتا اور نقصان پہنچانے سے دریغ توکرتا ہی نہیں تھا۔
خلق خدا کے لیے بشیر احمد کی مسلسل ایذا رسانیوں کے نتیجے میں آخرکار خدا کا کوڑا حرکت میں آ گیا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ بڑا نشے پر لگ گیا اور صرف 35 سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ دوسرے دونوں بیٹے بھی پرلے درجے کے آوارہ اور نالائق تھے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کسی نے بھی انھیں رشتہ دینا پسند نہ کیا اور دونوں کی شادی نہ ہو سکی۔
بشیر احمد کی کمائی سے برکت بھی جاتی رہی۔ کرش کا کاروبار مکمل تباہ ہو گیا اور اولاد کی نالائقی کی وجہ سے فصلوں کی رونق بھی جاتی رہی۔مالی نقصانات اور مسلسل صدمات کا نتیجہ تھا کہ بشیر احمد فالج میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا ایک بازو بیکار ہو گیا اور زبان بند ہو گئی۔ اب وہ کبھی یہاں، کبھی وہاں بیٹھا رہتا ہے اور بٹر بٹر فضا میں گھورتا رہتا ہے۔
٭٭٭
میری ایک عزیزہ شاہدہ عباس نے بتایا (31-05-06) کہ تقریباً سولہ سال قبل یتیم خانے(لاہور) کے علاقے میں کہ جہاں پہلے ہماری رہایش تھی ، تاجر گھرانے کی ایک خاتون شمیم اختر صاحبہ کو سینے میں تکلیف محسوس ہوئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئیں۔ ڈاکٹر نے ضروری چیک اپ اور ٹیسٹوں کے بعد تشخیص کی کہ موصوفہ کو دل کی خرابی کا عارضہ لاحق ہے۔ اس کا فوری آپریشن کرانا چاہیے، جس پر ستر ہزار روپے خرچ آئے گا۔ محترمہ شمیم اختر صاحبہ نے شاہدہ عباس کو بتایا کہ میں نے ستر ہزار روپے کی رقم اپنے رشتہ داروں میں دو یتیم بچیوں کی شادی کے لیے دے دی اور ایک یتیم بچے کی تعلیم کا بندوبست کر دیا۔ اور چند روز بعد جب میں دوبارہ اسی ڈاکٹر کے پاس گئی اور اس نے چیک کیا، تو وہ یہ دیکھ کر حیران پریشان رہ گیا کہ اب اس کے جسم میں مرض کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔
٭٭٭
چودھری جاوید نے بتایا کہ میرا ہم زلف احمد علی گجرات میں ایک فیکٹری کا مالک تھا۔ شنیل کے دوپٹے بناتا تھا۔ اس کا کاروبار چل پڑا تھا اور وہ خاصاخوشحال تھا۔ فیکٹری کے قریب ہی اس کا کشادہ اور خوبصورت گھر تھا۔
احمد علی گجرات میں بابا کاواں والی سرکار کے مزار پر گیا اور منت مانی کہ بابا مجھے بیٹا عطا کر دو، میں تیرے مزار پر ننگے پاؤں حاضری دوں گا۔ چنانچہ بیٹا تولد ہوا تو احمد علی نے اپنے گھر سے مزار تک کئی میل کا سفر ننگے پاؤں اس حال میں طے کیا کہ آگے ڈھول بج رہا تھا، پھر کچھ لوگ جھنڈے اور نیاز کی دیگیں اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے چودھری احمد علی ننگے پاؤں ناچتا ہوا چل رہا تھا۔
چودھری جاوید نے بتایا کہ آج احمد علی کا وہ بیٹا ماشاء اللہ جوان ہوچکا ہے اور پرلے درجے کا آوارہ اور بدمعاش، بلکہ بدکار ہے۔ سارے عیب اس میں موجود ہیں اور وہ والدین کے لیے مصیبت بنا ہوا ہے۔ احمد علی پر اللہ کی مزید ناراضی یہ طاری ہوئی کہ اس کا کاروبار مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، فیکٹری اور مکان سب بک گئے ہیں۔ دو بیٹے ہیں، دونوں بیرون ملک دھکے کھا رہے ہیں۔ شادی شدہ بیٹی آٹھ سال سے باپ کے گھر میں بیٹھی ہے اور وہ خود گوجرانوالہ میں چار مرلے کے مکان میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
٭٭٭
پروفیسر شیر محمد شاہ صاحب نے اپنے خاندانی حالات کے حوالے سے ایک عبرت ناک واقعہ لکھ کر دیا کہ ہم نے اپنے ایک بیٹے کی شادی اپنے ہی شہر یعنی پاک پتن میں کی۔ اس کے سسرال والوں نے مجبور کیا کہ وہ ہم سے مکمل علیحدگی اختیار کر لے چنانچہ اس نادان نے گھر کے درمیان دیوار کھینچ لی اور ہم سے میل جول ختم کر لیا حتیٰ کہ وہ اپنی بیمار ماں سے بھی ملنا گوارا نہ کرتا۔ اس کا فوری خمیازہ اسے یہ بھگتنا پڑا کہ اس کے گھر میں چوری ہو گئی اور وہ پچیس ہزار کے زیورات سے محروم ہو گیا۔ اب سسرال والوں نے اس کے مزید کان بھرے کہ یہ چوری تمھارے والدین نے کرائی ہے۔ وہی پڑوس میں رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تم لوگ کب گھر پر نہیں ہوتے۔
میرے بیٹے نے اس بہکاوے پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا اور ہم سے ربط و تعلق اس حد تک کم کر دیا کہ عید کے ایک موقع پر بھی وہ ہمارے گھر نہ آیا۔ اس کی بیمار والدہ نے اس رویے کاگہرا اثر لیا، اس کی بیماری مزید شدت اختیار کر گئی اور وہ اسی حالت میں ایک روز دم توڑ گئی۔
اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میرے اس بیٹے کے سالے نے جو لاہور میں وکالت کرتا تھا اور اب بھی وہیں مقیم ہے، والدین کی اجازت اور مشورے کے بغیر لاہور ہی میں شادی کر لی اور ماں کواس وقت پتا چلا جب اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور اسے مجبور ہو کر گھر والوں کا تعاون حاصل کرنا پڑا۔ اس پر ماں نے ناراضی کا اظہار کیا تو اس کی بیوی نے اسے پاک پتن جانے اور والدین سے معمولی تعلق قائم رکھنے سے بھی روک دیا۔ اوراس نے زن مرید ہونے کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کے ہاں آنا جانا بالکل چھوڑ دیا۔
تب تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا، مکافات عمل کا الٰہی قانون حرکت میں آ گیا اور میرے بیٹے کی ساس اپنے بیٹے کے سنگ دلانہ رویے کے نتیجے میں بیمار ہو گئی اور اسی علالت نے اسے قبر کی آغوش میں پہنچا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہی وہ خاتون تھی جس نے اپنے داماد کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے والدین سے مکمل قطع تعلق کر لے۔
٭٭٭
انگریزی کتب کے مشہور ناشر شیخ محمد اشرف قیام پاکستان سے قبل ایک ہندو ناشرِ کتب کے پاس ملازمت کرتے تھے۔ تقسیم کے وقت ہندوستان جانے سے پہلے اس ہندو نے دکان اور کاروبار کا حق ملکیت شیخ صاحب کے نام منتقل کر دیا اور باقاعدہ کاغذات پر دستخط کر دیے۔ مگر شاید اس خدشے کے تحت کہ کہیں یہ ہندو دوبارہ یہاں نہ آ جائے اور اپنی جائداد واپس نہ لے لے، انھوں نے اسے قتل کرا دیا۔
یہ بات مجھے ماہنامہ ‘‘ترجمان القرآن’’ کے منیجر چودھری بشیر احمد خاں صاحب نے بتائی تھی اور یہ کسی زمانے میں ہفت روزہ ‘‘چٹان’’ میں شائع بھی ہوئی تھی کہ اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد شیخ محمد اشرف کا اکلوتا بیٹا سلیم حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ یہ چھبیس سال کا شادی شدہ نوجوان تھا۔ اردو بازار لاہور کے قریب سلیم ماڈل ہائی اسکول اسی کے نام سے موسوم ہے۔
چودھری بشیر احمد خاں صاحب نے بتایا کہ شیخ اشرف صاحب برملا اعتراف کرتے تھے کہ مجھے اکلوتے بیٹے کی موت کے المیے سے اس لیے دوچار ہونا پڑا کہ میں نے اپنے سابق ہندو مالک کو ناحق قتل کرایا تھا۔ یقینا میں نے ظلم کیا تھا اور اسی ظلم کی سزا مجھے بھگتنی پڑی۔ چودھری بشیر احمد خاں نے یہ عجیب بات بھی بتائی کہ قتل کے فوراً بعد ہندو سیٹھ کی لاش میو ہسپتال کے شعبہ حادثات میں جس بیڈ پر رکھی گئی تھی، عین اسی بیڈ پر زخموں سے چور سلیم کو لٹایا گیا تھا اور وہیں اس نے دم توڑ دیا تھا۔
٭٭٭