سیرت صحابہؓ قسط دوم
مراد مصطفی حضرت عمرؓ
عمر قاسمی
حضرت عمرؓ روم و ایران کے بادشاہ بن چکے تھے مگر پھر بھی آپؓ سے فقر وفاقہ کی زندگی نہ چھوٹی۔ ایک مرتبہ آپؓ کی صاحبزادی اُم المومنین حضرت حفصہؓنے جرات کر کے یہ کہہ ہی دیا کہ’’ والد محترم! اللہ نے آپؓ کو بہت بڑا درجہ دیا ہے ،آپؓ کو اچھے لباس اور اچھی غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ائے میری بیٹی! لگتا ہے کہ تم رسولﷺ کے فقروفاقہ کو بھول گئی ہو۔ خدا کی قسم! میں انہیں کے نقش قدم پر چلوں گا۔ اس کے بعد آپؓ نے حضور اکرم ﷺکی تنگدستی کا ذکر شروع کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ آبدیدہ ہو گئیں۔
حضرت عکرمہ بن خالدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ پر جب کمزوری کے آثار شدت اختیار کرنے لگے تومسلمانوں کے ایک وفد نے مل کر عرض کی کہ’’ ائے امیر المومنین اگر آپؓ ذرا بہتر کھانا کھا لیا کریں تواللہ کے کام میں اور زیادہ قوی ہوجائیں گے‘‘۔ آپؓ نے پوچھا کیا یہ تمہاری ذاتی رائے ہے یا سب مسلمانوں کا یہی تقاضا ہے؟ عرض کیا یہ سب مسلمانوں کی متفقہ رائے ہے۔ فرمایا! میں تمہاری خیرخواہی کا مشکور ہوں۔ مگر میں اپنے دوپیش رؤوں کی شاہراہ ترک نہیں کرسکتا۔ مجھے اُن کی ہم نشینی یہاں کی لذتوں سے زیادہ عزیز ہے۔
چنانچہ۲۳ھ تھی کرمان، سجستان، مکران اوراصفہان کے علاقے فتح ہوچکے تھے۔ اسلامی سلطنت کی حدود مصر سے بلوچستان تک وسیع ہوچکی تھیں۔ اسی سال آپؓ نے آخری حج فرمایا۔ حج سے تشریف لا تے ہوئے راہ میں ایک مقام پر ٹھہر گئے۔ پتھروں پر ہی چادر بچھائی اورلیٹ گئے پھر آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے اوردعا کرنے لگے اے میرے رب! اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے میری قوت کمزور پڑنے لگی ہے۔ اوررعایا ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ اب تومجھے اس حالت میں اُٹھالے کہ میرے اعمال برباد نہ ہوں اور میری عمر کا پیمانہ اعتدال سے متجاوز نہ کرے۔
حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں !میں نے کہا کہ تورات میں پڑھ چکا ہوں کے آپؓ شہید ہوں گے۔ آپؓ نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب میں رہتے ہوئے میں شہید ہو جاؤں؟ پھر دعا فرمائی ائے اللہ! مجھے اپنے راستوں میں شہادت عطا کر اوراپنے محبوب کے مدینے کی حدود کے اندر پیغام اجل بھیج۔
ایک دن آپؓ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک مرغ آیا ہے اورمجھے جونچیں ماررہا ہے۔ اسکی تعبیر یہی ہوسکتی ہے کہ اب مجھ پر موت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ یادرکھو ! میں موت کا مالک ہوں نہ دین اورخلافت کا، خداتعالیٰ اپنے دین اورخلافت کا خود ذمہ دار اور محافظ ہے ،وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
امیر المومنین سیدنا عمرؓ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد یہ حکم دیا تھا کہ کوئی مشرک جو بالغ ہو، مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ گورنر کوفہ نے آپ کو لکھاکہ یہاں فیروزنامی بہت ہوشیار نوجوان ہے جو نقاشی، نجاری اور آہن گری میں بڑی مہارت رکھتا ہے اگرآپؓ اُسے مدینہ میں داخلے کی اِجازت عطا کریں تووہ مسلمانوں کے بہت کام آئے گا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس کو بھیج دو۔ فیروز نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی مغیرہ بن شعبہؓ نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھا ہے آپ کم کروا دیجئے۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کتنا ٹیکس ہے؟
اس نے جواب دیا کہ دودرہم روزانہ۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہارا پیشہ کیاہے؟
اس نے جواب دیا نجاری، نقاشی، آہن گری۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم تو کافی ہے۔ فیروز کے لیے یہ جواب نا قابل برداشت تھا۔وہ عناد سے لبریز ہوکر دانت پیستا ہوا واپس چلا گیا۔ اوریہ کہتا جارہاتھا کہ امیر المومنین میرے سوا ہر ایک سے انصاف کرتے ہیں۔چند روز بعد حضرت عمرؓ نے اسے پھر یاد فرمایا۔ اورپوچھا! کہ میں نے سنا ہے تم ایسی’’ چکی ‘‘تیار کرسکتے ہو جو ہوا میں چلے؟ فیروز چونکہ ایرانی النسل تھا۔ اورایرانی ضربِ فاروقیؓ کامزہ چکھ چکے تھے۔ لہٰذا اُس نے بڑی ترش روئی سے جواب دیا کہ ہاں! میں آپ کے لئے ایک ایسی’’ چکی‘‘ تیار کروں گا جسے یہاں کے لوگ کبھی نہ بھول سکیں گے۔ فیروز کے جانے کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کرگیا ہے‘‘
دوسرہی روز ابولولو فیروز مجوسی ایک دودھاری خنجر آستین میں چھپائے ہوئے صبح سویرے مسجد نبویؓ کے گوشے میں آبیٹھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ محرابِ مصطفی میں امامت کے لیے آئے، صفیں سیدھی ہوچکیں تھیں۔کائنات ایک بار پھر یتیم ہونے کو کھڑی تھی۔
زمین سے آسمان تک ہرایک چیز عمر ابن خطابؓ کو،امیر المومنینِ وقت کو، ’’مراد مصطفی ﷺسے فاروق اعظمؓ ‘‘ تک کا سفر طے کرنے والی شخصیت کو،اب آخری بار شہیدِ محراب ہوتا دیکھنے جارہی تھی۔ گویا ہر چیز یہ کہتی ہوئی دکھائی دے رہی ہو کہ۔
ازل سے کہہ دو کہ رک جائے دوگھڑی۔
مگر خدائی فیصلہ آچکا تھا۔ نماز شروع ہوچکی تھی کہ اتنے میں فیروز مجوسی نے دفعتہ گھات لگا کر سیدنا فاروق اعظمؓ پرچھ وار کئے۔ اس درد ناک ترین حالات میں بھی دنیا نے خداپرستی کا ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ اپنے قدموں پر گر رہے تھے آپؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑکر انہیں اپنی جگہ کھڑا کردیا تاکہ بقیہ مسلمان فرض بندگی ادا کر سکیں۔ اورخود زخموں سے چور ہو کر زمین پر گر گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ امیر المومنین سامنے پڑے تڑپ رہے تھے۔ فیروز نے اور بھی کئی صحابہ کرامؓ کو زخمی کیا۔
حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ آپؓ نے سب سے پہلے سوال کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ، فیروز۔ یہ جواب سن کر چہرہ کا انور پربشاشت ظاہر ہوئی۔ اورفرمایا کہ اللہ کا شکر میں کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ زخم زیادہ گہرے نہیں ہیں،جلد شفا ہوجائیں گے۔ چنانچہ طبیب کوبلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ مگر یہ دونوں چیزیں زخم کی راہ سے باہر آگئیں۔ یہ حالت دیکھ کر تمام مسلمانوں پر افسردگی طاری ہوگئی۔ صحابہؓ رضائے الہٰی سمجھ چکے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ ساتھ پورا مدینہ زخمی ہوگیا۔ خلافت زخمی ہوگئی بلکہ پورا اسلام زخمی ہوگیا۔ جب حضرت عمرؓ بستر ناگہاں پر گر پڑے تومسلمانوں کو پہلی مرتبہ اپنی بے بسی کا ،اسلام کی تنہائی کا احساس ہوا اب ہر مسلمان کو اس ہی بات کی فکر تھی کہ سیدنا عمرؓ کے بعد اس اُمت کا محافظ کون ہوگا؟
حضرت عمرؓ خود بھی صاحب نظر، اورگہری سوچ کے مالک تھے۔ لہذا آپؓ مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اضطراب کو بھانپ چکے تھے۔ آخر آپؓ نے فرمایا کہ ؛’’جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں تومیرے بعد عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمن عوفؓ، اور سعد بن وقاصؓ میں سے جس پر تم سب کومتفق پاؤ اس کو خلیفہ منتخب کرلینا‘‘۔ پھر آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کوبلا کر فرمایا کہ میری ایک آخری تمنا ہے۔ تم اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے گذراش کرو !عمرؓ چاہتا ہے کہ اسے اپنے دورفیقوں کے پاس دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آپؓ کا پیغام اُم المومنین حضرت عائشہؓ تک پہنچایا تووہ سن کر انتہائی درد مند ہوئیں اورفرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی۔ ’’مگر آج میں اپنی ذات پر عمرؓ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘ ایک وقت تھا جب مجھ سے میرے اہل و عیال نے رُخ موڑ لیا تھا۔پورے مدینے میں ایک پریشانی کا عالم تھا۔ایسا لگتا تھا کہ مجھ سے ہر چیز روٹھ گئی ہو۔مگرعمرؓ نے اس وقت بھی حق کا ساتھ دیا اوردربار رسول ﷺمیں میری پاکدامنی کی گواہی اس انداز میں دی کہ عرش وفرش پرچرچے ہوگئے۔
جب بیٹے نے آپؓ کوحضرت عائشہ کی منظوری کی اطلاع دی تو بے حد خوشی کااظہار فرمایا۔ اوراس آرزو کی قبولیت پرشکر ادا کرنے لگے۔ اور پھر اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا کہ’’ میرا سرتکیہ سے اٹھا کر نیچے خاک پر رکھ دو شاید میرا اللہ میرے خاک آلود سر کی وجہ سے مجھ پر رحم فرمائے۔ پھر فرمایاکہ جب میں مر جاؤں تومیری آنکھیں بند کردینا اورمیرے کفن میں سادگی اور قبر میں اختصار کرنا ،اگر میں اللہ کے ہاں مقبول ہوں گا تو مجھے کفن سے بہتر لباس اور قبر کے اِختصار کی جگہ جنت کی کشادگی عطا فرمائے گا۔ اورپھر اس عظیم انسان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ تاریخ اسلام کا ایک عظیم باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اتوار کا دن تھا۔ یکم محرم۲۴ھ کو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے غسل دیا اورحضرت صہیب رومیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، عثمان بن عفانؓ، سعید بن زیدؓ، اورعبدالرحمان بن عوفؓ نے آپؓ کوقبر میں اُتارا۔
عرب وعجم پرحکومت کرنے والے شخصیت کو سلام عقیدت پیش کرناشاید قلم کے بس میں نہ ہو۔ مگر سیرت عمرؓ کا خوشہ چین ہونے کی حثیت سے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ۔
غرض میں کیا کہوں تم سے وہ صحرانشین کیاتھا
جہاں بانی وجہاں گیروجہاں دار وجہاںآراء
اگرچاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تصور سے فزوں ترہے وہ نظارا