اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن مولوی رضا علی خاں کی ولادت روہیل کھنڈ کے مشہور شہر بریلی کے محلہ جسولی میں ہوئی۔ سال ولادت ۱۲۷۲ ہجری، ماہ شوال، تاریخ دس بوقت ظہر، روز چہار شنبہ، انگریزی تقویم کے مطابق ۱۸۵۶ عیسوی، ماہ جون، تاریخ ۱۴، بقول ایک صاحب دل ۱۸۵۷ ء کے انقلاب سے ایک سال قبل پیدا ہونے والا یہ بچہ اپنے فکری و نظری انقلاب کے بے باک نقیب ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔
آپ کی عمر پانچ چھ برس کی ہو گی کہ مکان پر ایک مولانا بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لیے تشریف لانے لگے ۔ احمد رضا بھی ان سے کلام اللہ پڑھنے لگے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ مولانا کسی آیۂ کریمہ میں بار بار ایک لفظ کا تلفظ ننھے احمد رضا کو بتاتے، مگر آپ کی زبان سے وہ تلفظ ادا نہ ہو رہا تھا۔ مولانا زبر بتاتے اور آپ زیر پڑھتے۔ یہ کیفیت آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان بھی دیکھ رہے تھے ، انھوں نے کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں اسی لفظ کے اعراب کاتب نے غلط ڈال دیے تھے، یعنی زیر کی جگہ زبر لکھ دیا تھا۔ گویا غیر شعور ی طور پر بچے کی زبان سے جو لفظ نکل رہا تھا، وہی صحیح تھا۔ دادا نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا: ‘‘بیٹا! مولانا صاحب جس طرح بتا رہے تھے، تم اس طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے؟’’ ننھے احمد رضا نے جواب دیا: ‘‘حضرت! میں ارداہ تو کرتا تھا کہ اسی طرح پڑھوں، مگر زبان پر قابو نہ پاتا۔ زبر کے بجائے ہر بار زیر ہی سے زبان کام کرتی۔’’
اس طرح کے بہت سے حیرت انگیز واقعات درس و تدریس کے دوران میں پیش آئے۔ ایک روز قرآن مجید پڑھانے والے مولانا نے تنہائی میں اپنے شاگر احمد رضا سے کہا: ‘‘صاحبزادے! سچ سچ بتا دو۔ کسی سے کہوں گا نہیں۔ تم انسان ہو یا جن؟’’ آپ یہ سن کرہنس پڑے او رفرمایا: ‘‘خدا کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، البتہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔’’ایک روز یہی مولانا حسب معمول بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ ایک بچے نے آن کر سلام کیا۔ مولانا نے جواب دیا: ‘‘جیتے رہو’’۔ احمد رضا نے عرض کیا: ‘‘حضرت، یہ تو سلام کا جواب نہ ہوا۔وعلیکم السلام کہنا چاہیے تھا۔ یہ سن کر مولانا بہت خوش ہوئے اور شاگرد کو دعائیں دیں۔
والد نے آپ کا نام محمد او رجد امجد نے احمد رضا رکھا۔ تاریخی نام ‘‘المختار’’ ہے جس سے ۱۲۷۲ ہجری برآمد ہوتاہے۔ اعلیٰ حضرت نے بہت برس بعد قرآن کی اس آیت سے اپنی پیدایش کا سن برآمد فرمایا: اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ.
‘‘یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا ہے...۔’’
آپ کبھی کبھی بڑی دل سوزی سے فرماتے : ‘‘بحمد اللہ تعالیٰ اگر میرے قلب کے دو ٹکڑے کیے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لا الٰہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہو گا۔’’
اعلیٰ حضرت کے والد ماجد او رجد امجد دونو ں اپنے اپنے عہد کے متبحر عالم، ولی کامل ، عارف باللہ، صاحب کشف و کرامات او رشیخ طریقت و شریعت تھے۔ آپ کے والد مولانا نقی علی خاں صاحب بے شمار کتابوں کے مصنف، حسب و نسب کے اعتبار سے بھی اعلیٰ حضرت، خاندانی شرف و وقار اور وجاہت دینی و دنیوی کا امتیاز رکھتے تھے۔ آپ کے جد اعلیٰ حضرت محمد سعید خاں رحمۃ اللہ علیہ قندھار کے مؤقر قبیلے بڑہیچ کے پٹھان تھے۔ شاہان مغلیہ کے عہد میں نادر شاہ کے ہمراہ لاہور تشریف لائے اور ممتاز و معزز عہدوں پر فائز رہے۔ لاہور کا شیش محل انھی کی جاگیر تھا۔ پھر لاہور سے دہلی چلے گئے۔ سعید اللہ خاں شش ہزاروی منصب پر فائز تھے اور شجاعت جنگ کا خطاب رکھتے تھے۔ ان کے بیٹے سعادت یار خاں صاحب شاہِ دہلی کی جانب سے ایک خاص مہم پر بریلی روہیل کھنڈ بھیجے گئے۔ فتح یابی پر انھیں بریلی کا صوبے دار بنانے کا فرمان دہلی سے آیا، لیکن ایسے وقت جب وہ بستر مرگ پر تھے۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ اعظم خاں، معظم خاں اور مکرم خاں۔ یہ تینوں مناصب جلیلہ پر ممتاز تھے۔
اعظم خاں صاحب نے بریلی میں مستقل رہایش اختیار کی او ردنیا سے منہ موڑ کر ایک گوشے میں جا بیٹھے۔ محلہ معماراں بریلی میں شہزادے کا تکیہ آج بھی انھی کی نسبت سے معروف ہے۔ وہیں اعظم خاں صاحب کا مزار ہے۔ ان کے بیٹے حافظ محمد کاظم علی خاں ہر جمعرات کو اپنے والد کے سلام کے لیے حاضر ہوتے اور ہمیشہ گرانقدر رقم حاضر کرتے، مگر آپ وہ رقم ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے اور اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔ ایک مرتبہ جاڑے کے موسم میں حافظ صاحب اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حسب معمول حاضر ہوئے، دیکھا کہ شاہ محمد اعظم اس کڑاکے کے جاڑے میں ایک دھونی کے قریب تشریف فرما ہیں اور جسم پر کوئی سرمائی پوشاک نہیں۔ سعادت مند بیٹے نے فوراً اپنا بیش بہا دوشالہ اتار کر والد پر ڈال دیا۔ حضرت نے نہایت استغنا سے وہ دوشالہ آگ میں ڈال دیا۔ حافظ صاحب کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کاش! اس قیمتی دوشالے کو آگ میں ڈالنے کے بجائے کسی محتاج کو عطا فرما دیا جاتا۔ یہ وسوسہ دل میں آنا تھا کہ شاہ اعظم نے آگ کے بھڑکتے الاؤ میں سے دوشالا نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: فقیر کے ہاں یہ دھکڑ پکڑ کا معاملہ نہیں، لے اپنا دوشالہ۔ دیکھا تو اس میں آگ نے کچھ اثر نہ کیا تھا۔ ویسا ہی صفاف شفاف تھا۔
حافظ کاظم علی خاں شہر بدایوں کے تحصیل دار تھے۔ دو سو سواروں کا دستہ ہر وقت خدمت میں رہتا۔ آٹھ گاؤں جاگیر کے عطا ہوئے تھے۔ انھی حافظ صاحب کے صاحبزادے حضرت قدوۃ الواصلین ، زبدۃ الکاملین، قطب الوقت مولانا رضا علی خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ کے حالات مولانا رحمن علی نے اپنی معروف تالیف ‘‘تذکرۂ علمائے ہند’’ میں تفصیل سے رقم کیے ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ مولانا رضا علی فقر و تصوف میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ تقریر بہت پرتاثیر، زہد و قناعت، علم و تواضع او رتجرید و تفرید کی تصویر تھے۔ ان کی بہت سی کرامتیں اور خرق عادات و واقعات عوام و خواص میں مشہور ہیں۔
آپ نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ سے پڑھیں، پھر تمام علوم او رفنون اپنے والد ماجد امام المتکلمین مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے۔ تیرہ برس کی عمر میں صرف ، نحو ، ادب، حدیث، تفسیر، کلام، فقہ، اصول، معانی و بیان، تاریخ ، جغرافیہ، ریاضی، منطق، فلسفہ، ہیئت وغیرہ جمیع علوم دینیہ، عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کر کے ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ ہجری کو سند فراغت حاصل کی اور دستار فضیلت زیب سر فرمائی۔ اسی روز سب سے پہلا فتویٰ پیش ہوا، وہ یہ تھا کہ اگر بچے کی ناک میں کسی طرح دودھ چڑھ کر حلق میں پہنچ گیا تو کیا حکم ہے؟ آپ نے بڑے محققانہ انداز میں اس کا جواب تحریر فرمایا کہ منہ یا ناک سے عورت کا دودھ جو بچے کے پیٹ میں پہنچے گا، حرمت رضاعت لائے گا۔
اعلیٰ حضرت کی بے مثل ذہانت اور بے نظیر حافظے کے کمالات اتنے ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیے۔ مولانا احسان حسین ابتدائی تعلیم میں اعلیٰ حضرت کے ہم سبق تھے، ان کی روایت ہے کہ شروع ہی سے ذہانت کا یہ حال تھا کہ استاد سے کبھی چوتھائی سے زیادہ کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ چوتھائی کتاب استاد سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب از خود پڑھ کر اور یاد کر کے سنا دیا کرتے۔ بعض لوگ نام کے ساتھ حافظ لکھ دیا کرتے، چنانچہ خیال ہوا کہ قرآن مجید حفظ کر لیا جائے، لہٰذا صرف ایک ماہ میں پورا قرآن آسانی سے حفظ فرما لیا۔ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ روزانہ ایک پارہ حفظ کر لیتے ۔ مشکل سے مشکل فتاوی کا جوا ب شاگردوں اور احباب کو اس طرح قلم بند کرا دیتے کہ حیرت ہوتی۔ بے شمار کتابوں کے حوالے اس سلسلے میں دیے اور سب زبانی ۔ فرماتے: الماری میں سے فلاں جلد نکالو، اتنے ورق الٹ لو، فلاں صفحے پر اتنی سطروں کے بعد یہ مضمون ہو گا، اسے نقل کر دو۔ غرض کہ ان کا حافظہ اور دماغی باتیں عام لوگوں کی سمجھ سے باہر تھیں۔
اعلیٰ حضرت کے ایک شاگرد، جو فتاویٰ کی تحریر کے کام پر لگائے گئے تھے۔ ایک عجیب و غریب واقعہ حضرت کی ذہانت اور حافظے کا یوں بیان فرماتے ہیں: میں نے حساب کی تعلیم اسکول میں پائی تھی، لہٰذا مجھے حساب دانی میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ اعلیٰ حضرت حساب والے استفتا حل کرنے کے لیے زیادہ تر میرے ہی سپرد فرماتے۔ ایک مرتبہ ورثے کی تقسیم کے سلسلے میں پندرہ بطن کا مناسخہ آیا۔ ظاہر ہے کہ مورث اعلیٰ پندرھویں پشت میں درجنوں وارث ہوں گے۔ مجھے اس کے جواب میں دو راتیں او رایک دن مسلسل محنت کرنا پڑی۔ ایک ایک پیسے اور درجنوں وارثوں کا حق قلم بند کر دیا۔ عصر کے بعد حسب معمول اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بیٹھا تاکہ حساب کی مکمل تفصیل آپ سے عرض کر دوں اور آپ اصلاح کی ضرورت محسوس فرمائیں، تو اصلاح کر دیں۔ میں نے وہ استفتا پڑھنا شروع کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت سنتے سنتے اپنی انگلیوں کو بھی حرکت دے رہے ہیں۔ یہ استفتا چونکہ پندرہ پشتوں کے درجنوں وارثوں کے حساب کتاب پر مبنی تھا ، اس لیے یہ فل سکیپ کے دو صفحوں پر پھیلا ہوا تھا۔ میں نے استفتا یعنی صرف سوال ہی پڑھ کر ختم کیا اور ابھی جواب میں تحریر کیے ہوئے وارثوں کے حصے ظاہر نہ کیے تھے کہ اعلیٰ حضرت نے بلا توقف فرمانا شروع کیا : آپ نے فلاں کو اتنا، فلاں کو اتنا ا ور فلاں کو اتنا دیا، غرض درجنوں وارثوں کے نام اور ان کے حصے بتا دیے۔ اب میں حیران و ششدر تھا کہ مجھے اپنی حساب دانی پر اتنا ناز، استفتا کو میں نے اپنے طور پر بیس دفعہ پڑھا ، ہر ایک نام بار بار پڑھ کر ان کے حصے نکالے، اس کے باوجود مجھ سے کوئی ان سب وارثوں کے نام پوچھے تو حصے کجا میں نام بھی شاید پورے نہ بتا سکوں جب تک لکھے ہوئے کو سامنے نہ رکھوں۔ اللہ اللہ! یہ کیسا تبحر ، کیسی وسعت ادراک اور کتنی عظیم خدا داد صلاحیت تھی جو حق تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرماتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت نے علوم درسیہ کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی بھی تحصیل فرمائی۔ حیرت کی بات یہ کہ بعض علوم ایسے ہیں جن میں کسی استاد کی رہنمائی کے بغیر آپ نے اپنی خداداد ذہانت سے کمال حاصل کیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم نے یورپ میں تعلیم پائی تھی اور برصغیر کے بلند پایہ ریاضی دانوں میں آپ کا شمار تھا اور فی الحقیقت اس فن میں مثال نہیں رکھتے تھے۔ اتفاق سے ڈاکٹر صاحب کو ریاضی کے کسی مسئلے میں اشتباہ ہوا۔ ہر چند کوشش کی، مگر مسئلہ حل نہ ہوا، چونکہ صاحب حیثیت آدمی تھے اور علم کے شائق، اس لیے قصد کیا کہ جرمنی جا کر یہ مسئلہ حل کریں۔ حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب اس زمانے میں یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات میں ناظم تھے، ڈاکٹر صاحب نے ایک روز گفتگو کے دوران میں ان سے اس مسئلے اور اپنی مشکل کا ذکر کیا۔ مولانا سلیمان اشرف نے مشورہ دیا آپ بریلی جائیے اور اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں سے دریافت کیجیے۔ وہ اسے ضرور حل کر دیں گے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے حیرت سے کہا: مولانا، یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ کہاں کہاں سے تعلیم پاکر آیا ہوں، ریاضی کے ادق سے ادق مسائل حل کرنا جانتا ہوں۔ جب میں یہ مسئلہ حل نہ کر سکا، تو مولانا احمد، جنہوں نے کبھی یورپ کا تصور تک نہیں کیا ہے اور نہ ایسے مسئلے ریاضی کے انھوں نے جدید یونیورسٹیوں میں سیکھے ہیں ان بے چاروں نے تو اپنے ملک کے کسی کالج میں بھی تعلیم نہیں پائی۔ وہ کیونکر یہ مشکل مسئلہ حل کر سکیں گے؟ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے سفر یورپ کا سامان شروع کر دیا۔ مولانا سلیمان اشرف نے ایک دن پھر کہا آپ بریلی تو ہو آئیے اور ایک دفعہ اعلیٰ حضرت سے ملاقات تو کر لیجیے، پھر آپ کو اختیار ہے یورپ جائیں یا امریکا۔ یہ سن کر ڈاکٹر ضیاء الدین کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ تلخ لہجے میں کہا: مولانا ، آپ مجھے کیا رائے دیتے ہیں؟ آخر عقل بھی کوئی چیز ہے۔ فضول میں میرا وقت برباد ہو گا۔ یہ مسئلہ مولانا احمد رضا خاں کے بس کا نہیں۔ مولانا سلیمان اشرف نے زور دے کر کہا کہ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ بریلی کچھ زیادہ دور نہیں، چند گھنٹے کا سفر ہے۔ قصہ مختصر ڈاکٹر صاحب مولانا سلیمان کی معیت میں بریلی پہنچے۔ اعلیٰ حضرت کے دولت کدے پر گئے، اندر اطلاع بھیجی ،حضرت کی طبیعت ناساز تھی۔ مگر مولانا سلیمان اشرف کا نام سن کر فوراً بلوا لیا۔ ڈاکٹر صاحب کی بھی مزاج پرسی فرمائی اور پوچھا کیسے تشریف آوری ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ریاضی کا ایک مسئلہ آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں۔ جناب وہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ فوراً بیان کر دیا جائے، ذرا اطمینان کی صورت ہو تو کہوں۔ حضرت نے فرمایا: بیان کیجیے: ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پیش کیا۔ اعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا: اس کا جواب یہ ہے۔ جواب سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کو حیرت سے سکتہ ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے آنکھ سے پردہ سا اٹھ گیا۔ بے اختیار بول اٹھے : ‘‘میں سنا کرتا تھا علم لدنی بھی کوئی شے ہے۔ آج آنکھ سے دیکھ لیا۔ میں تو اس مسئلے کے حل کے لیے جرمنی جانا چاہتا تھا کہ مولانا سلیمان اشرف نے رہبری فرمائی۔ اب آپ سے اس کا حل سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آپ اس مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ دیر تک اسی فن اور اس کے متعلقات میں گفتگو ہوتی رہی۔ اعلیٰ حضرت نے اپنا ایک قلمی رسالہ منگوایا جس میں اکثر مثلثوں اور دائروں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ڈاکٹر صاحب نے نہایت استعجاب سے وہ رسالہ دیکھا اور فرمایا: ‘‘میں نے یہ علم حاصل کرنے میں بہت صعوبت اٹھائی، ملک ملک کا سفر کیا، بے انتہا روپیہ صرف کی، یورپین استادوں کی جوتیاں سیدھی کیں، تب کچھ معلومات ہوئیں۔ مگر جو علم آپ جانتے ہیں، اس کے مقابلے میں میں اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھ رہا ہوں۔ مولانا، یہ تو فرمائیے، اس فن میں آپ کا استاد کون ہے؟ اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا: میرا کوئی استاد نہیں، میں نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے صرف چار قاعدے جمع، تفریق، ضرب تقسیم محض اس لیے سیکھے تھے کہ ترکے کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ شرح چغمینی شروع کی ہی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو، مصطفی پیارے (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سرکار سے یہ علوم تم کو خود ہی سکھا دیے جائیں گے، چنانچہ یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، اپنے مکان کی چار دیواری کے اندر بیٹھا خود ہی کرتا رہتا ہوں یہ سب سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین پر اعلیٰ حضرت کی علمی جلالت اور اعلیٰ اخلاق کا ایسا اثر ہوا کہ بریلی سے علی گڑھ آتے ہی انھوں نے ڈاڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے بھی پابند ہو گئے۔
علم ہیئت،توقیت، نجوم اور جفر میں بھی اعلیٰ حضرت کو ایسی دستگاہ تھی کہ بیان سے باہر۔ مولانا غلام حسین صاحب، حضرت کے معاصرین میں ایک صاحب کمال بزرگ تھے، ہیئت اور نجوم کے ماہر۔ اکثر اعلیٰ حضرت کے ہاں تشریف لاتے اور بڑی دلچسپ گفتگو انھی فنون پر ہوتی اور اپنے اپنے تجربات کی جانچ دونوں حضرات فرمایا کرتے۔ ایک دن مولانا غلام حسین تشریف لائے۔ اعلیٰ حضرت نے پوچھا : فرمائیے بارش کا کیا انداز ہے، کب تک ہو گی؟ مولانا نے ستاروں کی وضع سے زائچہ بنایا او رفرمایا اس مہینے میں پانی نہیں آئندہ ماہ میں ہو گی۔ یہ کہہ کر وہ اعلیٰ حضرت کی طرف بڑھا دیا۔ حضرت نے دیکھ کر فرمایا: اللہ کو سب قدرت ہے، وہ چاہے تو آج ہی بارش ہو ۔ مولانا نے کہا، یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ ستاروں کی چال نہیں دیکھتے۔ حضرت نے فرمایا: سب دیکھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ ان ستاروں کے بنانے والے اور اس اس کی قدرت کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ سامنے کلاک لگا تھا۔ اعلیٰ حضرت نے پوچھا وقت کیا ہے؟ بولے: سوا گیارہ بجے ہیں۔ فرمایا: بارہ بجنے میں کتنی دیر ہے؟ جواب ملا، پون گھنٹہ۔ حضرت نے فرمایا اس سے قبل نہیں؟ کہا نہیں۔ ٹھیک پون گھنٹے بعد بارہ بجیں گے۔ یہ سن کر اعلیٰ حضرت اٹھے اور بڑی سوئی گھما دی۔ فوراً ٹن ٹن بارہ بجنے لگے۔ حضرت نے فرمایا، مولانا آپ نے کہا تھا کہ ٹھیک پون گھنٹے بعد ہی بارہ بجیں گے۔ یہ کیسے بارہ بج گئے۔ مولانا نے کہا آپ نے کلاک کی سوئی گھما دی ورنہ اپنی رفتار سے پون گھنٹے بعد ہی بارہ بجتے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا اسی طرح رب العزۃ جل جلالہ، قادر مطلق ہے کہ جس ستارے کو جس وقت جہاں چاہے پہنچا دے۔ وہ چاہے تو ایک مہینا ، ایک ہفتہ، ایک دن کیا ابھی بارش ہونے لگے۔ اتنا زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ چاروں طرف سے گنگھور گھٹا چھا گئی اور پانی برسنے لگا، غرض اعلیٰ حضرت کا اعتقاد اس قسم کے علوم پر ایسی ہی نوعیت کا تھا۔ ستاروں کے اثرات کے قائل، مگر اصل فاعل اللہ جل جلالہ کو جانتے تھے۔
علم تکسیر اور علم جفر میں تو ایسا کمال حاصل تھا کہ بیرونی ممالک سے علما یہ علوم سیکھنے آپ کے پاس آتے۔ اعلیٰ حضرت نے یہ علم خود اپنے ذوق اور شوق سے سیکھا اور ہر سوال کا جواب بالکل صحیح صحیح برآمد کر لیتے۔
تاریخ گوئی کا فن بھی اعلیٰ حضرت کے پاس اکتسابی نہیں، وہبی تھا۔ آپ نے کبھی ادنیٰ سی توجہ بھی اس فن کے حصول کی جانب نہ فرمائی۔ پھر بھی اس میں وہ ملکہ کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے۔ اعلیٰ حضرت اتنی ہی دیر میں بے تکلف تاریخی مادے اور جملے فرما دیا کرتے تھے۔ جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضور کی تصانیف کثیرہ میں سے بہت کم ایسی ہوں گی جن کا نام تاریخی نہ ہو۔ بعض عربی اور اردو کے قصائد اور تاریخ ہائے وصال جو بہت طویل ہیں، ان کے ہر ہر مصرعے سے تاریخ برآمد ہوئی۔ خوش نویسی اور خطاطی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ نسخ، نستعلیق، خط مستقیم اور خط شکستہ جیسے تمام اقسام و انواع کے رسم الخط میں آپ بے نظیر مہارت سے لکھتے تھے۔
بے شمار علوم میں آپ کی مہارت حد ایجاد تک پہنچ گئی تھی۔ مولوی رحمن علی صاحب ‘‘تذکرہ علمائے ہند’’ میں آپ کی ایک کتاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘اگر پیش ازی کتابے دریں فن نیا فتہ شود، پس مصنف را موجد تصنیف ہذا می تواں گفت ۔ (اگر اس فن میں اور کوئی کتاب نہ ہو تو مصنف کو اس تصنیف کا موجد کہا جا سکتا ہے)۔’’
علم توقیت میں کمال کا یہ عالم کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے، وقت بالکل صحیح ہوتا اور ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا۔ ایک دفعہ آپ بدایوں تشریف لے گئے، مسجد خرما میں حضرت محب الرسول مولانا عبد القادر بدایونی نے آپ کو نماز فجر پڑھانے کا ارشاد کیا۔ اعلیٰ حضرت نے قرأت اتنی طویل کی کہ مولانا عبد القادر کو شک ہوا شاید سورج نکل آیا۔ نماز کے بعد لوگ باہر نکل کر مشرق کی طرف دیکھنے لگے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا ابھی سورج نکلنے میں تین منٹ ۴۸ سیکنڈ باقی ہیں۔
اعلیٰ حضرت کا علمی سرمایہ یوں تو بے پناہ ہے، لیکن آپ کا فقہی شاہکار ‘‘فتاویٰ رضویہ’’ ہے جس کی بارہ جلدیں ہیں۔ ان میں سے پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں۔ ہر جلد جہازی سائز کے ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ تاریخ الفتاویٰ میں یہ مجموعہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مجموعے کے چند اوراق اعلیٰ حضرت نے مکہ معظمہ کے فاضل سید اسمعیل خلیل حافظ کتب الحرام کو ارسال فرمائے تھے، موصوف نے اپنے مکتوب میں ان اوراق فتاویٰ پر جو تبصرہ فرمایا اس کا آخری جملہ دیکھیے:
‘‘میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان فتووں کو اگر ابو حنیفہ نعمان رحمۃ اللہ علیہ دیکھتے تو یقینا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی اور اس کے مؤلف کو اپنے تلامذہ میں شامل فرماتے۔’’
شاعر مشرق علامہ اقبال اعلیٰ حضرت کے معاصرین میں سے تھے۔ آپ کو نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے، ایک موقع پر علامہ اقبال نے یہ فرمایا۔ یہ روایت داکٹر عباد احمد علی مرحوم کی ہے:
‘‘ہندوستان کے دور آخر میں مولانا احمد رضا خاں جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا۔ ان کے فتاویٰ کے مطالعے سے یہ رائے قائم کی اور ان کی ذہانت فطانت، جودت طبع،کمال فقاہت اور علوم دینییہ میں تبحر علمی کے شاہد عادل ہیں۔ مولانا ایک دفعہ جو رائے قائم کر لیتے ہیں، اس پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں۔ یقینا وہ اپنی رائے کا اظہار بہت غور و فکر کے بعد کرتے ہیں۔ اسی لیے انھیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاویٰ میں کبھی کسی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بایں ہمہ ان کی طبیعت میں شدت زیادہ تھی۔ اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہو تی، تو مولانا احمد رضا خاں گویا اپنے دور کے امام حنیفہ ہوتے۔’’
اقبال نے اعلیٰ حضرت کے ہاں جس ‘‘شدت’’ کا ذکر فرمایا ہے، اس میں نفسانیت کا شائبہ بھی نہ تھا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی سوزش تھی جسے حدت کہہ لیجیے یا شدت۔ او ریہ شدت بھی صرف اعدائے خدا و رسول کے لیے تھی، ورنہ اعلیٰ حضرت تو ہر مومن اور ہر اہل محبت کے لیے سراپا لطف و کرم تھے۔ یا بقول اقبال
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
فاضل بریلوی نے سلوک و طریقت کی منزلیں حضرت شاہ آل رسول ماہروی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر طے فرمائیں اور آپ کے دست حق پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت کی۔ پیرو مرشد نے آپ کو تمام سلاسل میں اجازت و خلافت کا شرف عطا فرمایا۔ بیعت کا واقعہ ۱۲۹۴ ہجری کا ہے یعنی ان دنوں جب اعلیٰ حضرت کی عمر اکیس بائیس برس سے زیادہ نہ تھی۔ آپ کے والد ماجد مولانا محمد نقی علی خاں بھی اس عالم رنگ و بو میں تشریف فرما تھے اور وہی اپنے پاکباز اور ہونہار فرزند کو شاہ آل رسول کی خدمت میں لے گئے۔ شاہ صاحب کی وفات ۱۲۹۷ ہجری میں ہوئی۔ گویا فاضل بریلوی کو اپنے پیرو مرشد سے تقریباً تین برس تک شرف ہدایت حاصل رہا۔ اعلیٰ حضرت کے نعتیہ دیوان ‘‘حدائق بخشش’’ میں ایک منقبت حضرت شاہ آل رسول کی شان میں موجود ہے۔ اس کا مطلع ہے:
خوشاد لے کہ دہندش دلائے آل رسول
خوشا سرے کہ کنندش فدائے آل رسول
شاہ صاحب بھی اعلیٰ حضرت سے بہت محبت فرماتے اور انھیں دیکھ کر خوش ہوتے۔ ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا:
‘‘بروز حشر اگر باری تعالیٰ پوچھے گا کہ اے آل رسول ! دنیا سے میرے لیے کیا لایا ہے ؟ تو عرض کر دوں گا کہ اے پروردگار ، میں تیرے لیے احمد رضا لایا ہوں۔’’
اعلیٰ حضرت کو جن سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی ان کی تعداد تیرہ ہے جن میں مشہور و معروف سلسلے قادریہ، چشتیہ، نظامیہ، محبوبیہ، سروردیہ، نقش بندیہ صدیقیہ، نقش بندیہ علویہ وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت شاہ آل رسول کی بیعت سے ایک سال بعد یعنی ۱۲۹۵ ہجری میں آپ کو اپنے والدین کی معیت میں پہلی بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ ‘‘الملفوظ’’ کی جلد دوم میں اس سفر حج سے واپسی کے حالات خود حضرت کی زبانی سن کر مرتب نے درج فرمائے ہیں اور نہایت اثر انگیز ہیں۔ مولانا رحمن علی نے بھی اپنی تالیف ‘‘تذکرہ علمائے ہند’’ میں اس حج کے واقعات و حالات تفصیل سے درج کیے ہیں۔ اسی سفر میں حرمین شریفین کے اکابر علما اور شیوخ سے آپ کی ملاقاتیں رہیں۔ مثلاً مفتی شافعیہ سید احمد دحلان، مفتی حنفیہ شیخ عبد الرحمن سراج وغیرہم۔ ان دونوں حضرات سے آپ نے حدیث، تفسیر، فقہ اور اصول فقہ میں سندیں حاصل کیں۔ ایک روز اعلیٰ حضرت حرم مبارک میں حاضر تھے اور مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ امام شافعیہ شیخ حسین بن صالح بغیر کسی سابقہ تعارف کے آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑتے ہیں او راپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ فرط محبت سے دیر تک آپ کی نوارنی پیشانی دیکھتے رہتے ہیں اور جوش عقیدت میں ان کے منہ سے نکلتا ہے: انی لاجد نور من ہذا الجبین۔
‘‘بے شک میں اس پیشانی میں اللہ کا نور پاتا ہوں۔’’
شیخ حسین بن صالح نے اعلیٰ حضرت کو صحاح ستہ کی سند اور سلسلۂ قادریہ کی اجازت اپنے دستخط خاص سے عنایت فرمائی اور آپ کا نام ضیاء الدین احمد رکھا۔ شیخ نے اپنی ایک کتاب ‘‘الجوہرۃ المضیۃ’’ کی شرح لکھنے کی فرمایش کی۔ نوجوان فاضل بریلوی نے صرف دو روز میں اس مشکل کتاب کی شرح عربی زبان میں تحریر فرما کر ان کے حوالے کی اور بعد میں تعلیقات و حواشی کا اضافہ کر کے اس کتاب کا تاریخی نام بھی تجویز کیا۔ واپسی میں تین روز تک مسلسل سمندر میں طوفان رہا اور ایسا شدید کہ بقول اعلیٰ حضرت: لوگوں نے کفن پہن لیے تھے۔ حضرت والدہ ماجدہ کا اضطراب دیکھ کر ان کی تسکین کے لیے بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ آپ اطمینان رکھیں، خدا کی قسم! یہ جہاز نہ ڈوبے گا۔ یہ قسم میں نے حدیث رسول ہی کے اطمینان پر کھائی تھی۔ یہ وہ حدیث ہے کہ جس میں کشتی پر سوار ہوتے وقت غرق سے حفاظت کی دعا ارشاد ہوئی ہے۔ میں نے وہ دعا پڑھ لی تھی اور حدیث کے وعدۂ صدقہ پر مطمئن تھا۔ الحمد للہ ، وہ مخالف ہوا جو تین دن سے چل رہی تھی دو گھڑی میں بالکل موقوف ہو گئی۔ وہ تین شبانہ روز کی سخت تکلیف یاد تھی۔ بریلی پہنچ کر اورمکان میں پہلا قدم رکھتے ہی والدہ نے مجھ سے فرمایا کہ حج فرض اللہ تعالیٰ نے ادا فرما دیا، اب میری زندگی بھر دوبارہ حج کا ارادہ نہ کرنا۔ ان کا یہ فرمانا مجھے یاد رہا۔ اور ماں باپ کی ممانعت کے ساتھ حج نفل جائز نہیں، یوں خود دوبارہ حج ادا کرنے سے مجبور تھا۔
۱۹۰۵ ء میں اعلیٰ حضرت کے چھوٹے بھائی اور بڑے صاحبزادے جب حج کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ کی طبیعت سخت بے چین ہوئی۔ دل چاہتا تھا پر لگ جائیں اور اڑ کر حرم شریف میں پہنچیں، مگر والدہ کی اجازت ضروری تھی۔ فرماتے ہیں: اجازت کا مسئلہ نہایت اہم اور اس کا یقین کہ والدہ اجازت نہ دیں گی۔ کس طرح ان سے عرض کروں، آخر کار زنانہ مکان میں گیا۔ دیکھا کہ حضرت والدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھیں اور فرمایا : کیا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور، مجھے حج کی اجازت دے دیجیے۔ پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا : خدا حافظ۔ میں الٹے پیروں باہر آیا اور فوراً سوار ہو کر اسٹیشن پہنچا۔ حج سے جب واپس آیا تو معلوم ہوا کہ ابھی اسٹیشن تک بھی نہیں پہنچا ہوں گا کہ والدہ نے فرمایا: میں اجازت نہیں دیتی، اسے بلا لو، مگر میں جا چکا تھا کون بلاتا؟ چلتے وقت جس لگن میں میں نے وضو کیا تھا اس کا پانی والدہ نے میری واپسی تک پھینکنے نہ دیا کہ اس کے وضو کا پانی ہے۔
والدین کے ادب، احترام اور اطاعت کی ایسی بہت سی مثالیں اعلیٰ حضرت کی حیات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب آپ کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں صاحب کا انتقال ہوا، تو اعلیٰ حضرت اپنے حصے کی جائیداد کے خود مالک و مختار تھے۔ مگر سب اختیار والدہ ماجدہ کے سپرد تھا۔ وہ مالکہ کی حیثیت سے جس طرح چاہتیں صرف فرما دیتیں۔ حضرت کو کتابوں وغیرہ کی خریداری کے لیے کسی بڑی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدہ کی خدمت میں درخواست کرتے اور جب وہ اجازت دیتیں تب کتابیں خریدتے۔
اعلیٰ حضرت کے اس دوسرے حج کے واقعات نہایت عظیم الشان اور سبق آموز ہیں۔ اس موقع پر آپ نے ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے:
شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
علمائے حجاز نے آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی ، حد درجہ مدارات سے پیش آئے۔ بہت سوں نے درخواست کی کہ انھیں سند اجازت مرحمت فرمائی جائے چنانچہ اعلیٰ حضرت نے ہر درخواست منظور فرمائی۔ حضرت کے صاحبزادے مولانا حامد رضا خاں نے اس سفر کے حالات تفصیل سے رقم فرمائے ہیں۔ بعض علمائے مکہ نے ‘‘علم غائب’’ کے بارے میں چند سوال لکھ کر اعلیٰ حضرت کے پاس بھیجے اور صرف دو دن میں لکھ دینے کا مطالبہ کیا۔ آپ کی طبیعت ناساز تھی او رنہ حوالے کے لیے کوئی کتاب موجود تھی، مگر آپ نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان تمام سوالوں کے جواب فصیح و بلیغ عربی میں، صرف آٹھ گھنٹے کے اندر اندر قلمبند کروا دیے اور اس طرح چار سو صفحے کی ایک ضخیم کتاب تیار ہو گئی۔ آپ نے اس کتاب کا جو نام تجویز فرمایا وہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس سے نہ صرف موضوع کی صراحت ہوتی ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کتاب کہاں تصنیف کی گئی اور کس سنہ میں لکھی گئی۔ کتاب کا نام ہے: ‘‘الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبۃ، ۱۳۲۳’’۔
مدینہ منورہ میں بھی بے حد اکرام و اعزاز سے نوازے گئے۔ اس کا آنکھوں دیکھا حال شیخ محمد عبد الحق الہٰ آبادی مہاجر مکلی رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی سنیے:
‘‘ میں کئی سال سے مدنیہ منورہ میں مقیم ہوں۔ برصغیر کے ہزاروں ا صحاب علم آتے ہیں۔ ان میں علما، صلحا، اتقیا سب ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی انھیں مڑ کر بھی نہیں دیکھتا، مگر فاضل بریلوی کی شان عجیب ہے۔ یہاں کے علما اور بزرگ سبھی ان کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں او ران کی تعظیم میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔’’
مدینہ طیبہ میں بھی آپ سے اکثر علما نے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ مولانا جعفر شاہ پھلواری جس زمانے میں کپور تھلہ کی مسجد کے خطیب تھے، انھوں نے اپنے والد حضرت شاہ سلیمان پھلواری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر اعلیٰ حضرت کے اسی دوسرے سفر حج سے متعلق ایک ایمان افروز واقعہ نہایت موثر انداز میں بیان کیا تھا۔ آپ بھی اس کی سماعت میں شریک ہو جائیے۔
‘‘جب مولانا احمد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ دوسری مرتبہ زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، شوق دیدار میں روضۂ شریف کے مواجہ میں درود پڑھتے رہے اور یقین کیا کہ ضرور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم عزت افزائی فرمائیں گے اور بالمواجہ زیارت سے مشرف فرمائیں گے، لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا ۔ آپ نے کچھ کبیدہ خاطر ہو کر ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
نعت کے مقطع میں عجب انداز سے اپنی محرومی اور نارسائی کا اشارہ کیا
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ نعت مواجہہ شریف میں عرض کر کے انتظار میں مؤدب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگی اور چشم سر سے بیداری میں زیارت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے۔’’
مدینے میں حضرت کا قیام طویل رہا۔ اکتیس بار مسجد نبوی میں حاضری نصیب ہوئی۔ صبح سے عشاء تک علما، شیوخ اور طلبا کا ہجوم رہتا۔ کوئی حدیث پڑھنے آتا، کوئی اجازت لینے اور کوئی بیعت کرنے۔ حضرت کسی کو مایوس نہ کرتے۔ مولانا حکیم سید عبد الحئ لکھنوی صاحب نزہتہ الخواطر اپنی گرانقدر تالیف میں اعلیٰ حضرت کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘آپ نے کئی بار حرمین شریفین کا سفر کیا اور علمائے حجاز سے بعض مسائل فقیہ اور کلامیہ میں مذاکرہ بھی کیا۔ بعض رسائل بھی قیام کے دوران میں لکھے اور علمائے حرمین نے بعض سوالات کیے، تو ان کے جوابات بھی تحریر کیے۔ فقہ، حدیث اور اختلافی مسائل پر ان کی ہمہ گیر معلومات، سرعت تحریر اور ذہانت دیکھ کر سب کے سب حیران و ششدر رہ گئے۔’’
اعلیٰ حضرت کو عربی زبان پر ایساعبور تھا کہ خود اہل عرب رشک کرتے ، آپ کے ایک خلیفہ مولانا شیخ ضیاء الدین مدنی جو بفضل خدا حیات ہیں اور مدینہ منورہ میں قیام ہے، ان کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ مصر کے فاضل ترین علمائے کرام کے اجتماع میں میں نے اعلیٰ حضرت کا ایک قصیدۂ عربیہ پڑھا جو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تھا۔ سب نے بیک زبان کہا کہ یہ قصیدہ کسی فصیح اللسان عربی النسل عالم کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے بتایا کہ اس قصیدے کے لکھنے والے مولانا احمد رضا خان بریلوی ہیں جو عربی نہیں، عجمی ہیں۔ علمائے مصر یہ سن کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ وہ عجمی ہو کر عربی میں اتنے ماہر ہیں۔’’
اعلیٰ حضرت جامع کمالات بزرگ تھے۔ جس فن اور جس موضوع پر قلم اٹھایا، اپنی انفرادیت کا سکہ ثبت فرما دیا۔ ان کی اصل دولت حب رسول تھی۔ اس پاک جذبے سے ان کی روح سرشار رہی۔ اعلیٰ حضرت کی شاعرانہ حیثیت بھی اتنی ہی وقیع اور عظیم ہے جتنی ان کی دوسری حیثیتیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ برصغیر میں جو اچھے اچھے نعت گو شعرا گزرے ہیں، ان سب کا ذکر کسی نہ کسی حیثیت سے ادب کی کتابوں میں موجود ہے، مگر اعلیٰ حضرت کی بہترین شعری تخلیقات کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ شاید اس لیے کہ ان کی شاعری دوسرے علوم و فنون کے نتیجے میں دب گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کا نعتیہ کلام بڑے سے بڑے شاعر کے کلام کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں جذبۂ دل کی بے ساختگی، خیال کی رعنائی، الفاظ کی شان و شوکت او رعشق رسول کی جھلکیاں قدم قدم پر موجود ہیں۔ ان کی نعتوں میں کیف واثر کی ایک دنیا آباد ہے۔ اعلیٰ حضرت کے سوانخ نگار مولانا بدر الدین احمد کا مشاہدہ یہ ہے کہ آپ عام ارباب سخن کی طرح صبح سے شام تک اشعار کی تیاری میں مصروف نہیں رہتے تھے، بلکہ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تڑپاتی اور درد عشق آپ کو بیتاب رکھتا تو ازخود نعتیہ اشعار زبان پر جاری ہوتے اور پھر یہی اشعار آپ کے سوزش عشق کی تسکین کا سامان بن جاتے،چنانچہ آپ اکثر فرمایا کرتے کہ جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تڑپاتی ہے تو میں نعتیہ اشعار سے بے قراروں کو تسکین دیتا ہوں، ورنہ شعر و سخن میرا مذاق نہیں۔ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے بھائی مولانا حسن رضا نہایت خوش گو اور نفیس شاعر تھے۔ فصیح الملک نواب مرزا داغ دہلوی سے تلمذ تھا۔ ایک روز انھوں نے اعلیٰ حضرت کی نعتیہ غزل کا یہ مطلع داغ کو سنایا:
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
مطلع سن کر داغ جھومنے لگے، بار بار پڑھواتے اور وجد کرتے۔ بہت تعریف کی اور فرمایا:‘‘مولوی ہو کر ایسے اچھے شعر کہتا ہے۔’’
یہ بہترین داد ہے جو استاد داغ کسی شاعر کو دے سکتے تھے ۔ حضرت محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ لکھنؤ کے شعرا کی ایک محفل میں اعلیٰ حضرت کا قصیدۂ معراجیہ اپنے خاص انداز میں پڑھا تو سب جھومنے لگے اور بیک آواز کہا کہ اس قصیدے کی زبان تو کوثر میں دھلی ہوئی ہے۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ دہلی میں پیش آیا۔ سرآمد شعرا ئے دہلی نے کہا: سبحان اللہ، مولانا احمد رضا کی شاعری کے کیا کہنے! آپ عمر بھر پڑھتے رہیے، ہم عمر بھر سنتے رہیں گے۔
مولانا محمد علی جوہر نے علامہ اقبال کے لیے کہا تھا کہ انھوں نے مسلمانوں کے دل قرآن کی طرف پھیر دیے، لیکن مولانا احمد رضا خاں کا اعجاز شاعری یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے دل صاحب قرآن کی طرف پھیر دیے۔ نعتیہ شاعری کا کمال یہ ہے کہ اس سے شاعر کے کمال فن کا نہیں کمال عشق کا سکہ دل پر بیٹھ جائے۔ شاعر شاگرد ہوتے ہیں، مگر عاشق شاگرد نہیں ہوا کرتے۔ مولانا احمد رضا خاں فن شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے، وہ عاشق صادق تھے۔ فیضان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وہ کچھ دیا کہ بس سوچا کیجیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بے شمار شعرا نے اپنی اپنی حسن نیت اور توفیق الٰہی کے باعث سلام لکھ کر ہدیۂ عقیدت پیش کیا،مگر اعلیٰ حضرت کے لکھے ہوئے ایک سلام کو ایسا قبول عام نصیب ہوا کہ ایک صدی گزر چکی ، برصغیر پاک و ہند کی فضائیں آج بھی اس سلام کی والہانہ آواز سے گونج رہی ہیں۔ ایک ایک شعر جذب و کیف اور عشق و سرمستی کا مرقع ہے:
مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
شہریار ارم، تاجدار حرم
نوبہار شفاعت پہ لاکھوں سلام
حضرت اطہر ہاپوڑی اردو کے مشہور شاعر تھے اور ان کاشمار نہایت جید اساتذۂ غزل میں تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے اعلیٰ حضرت کی موجودگی میں نعت سنائی اور مطلع پڑھا:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
مجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلےٰ کے سامنے
مطلع سن کر اعلیٰ حضرت ناخوش ہوئے اور فرمایا کہ اس کا دوسرا مصرع مقام نبوت کے لائق نہیں۔ اطہر صاحب محجوب ہو کر حضرت کا چہرہ دیکھنے لگے۔ اعلیٰ حضرت نے برجستہ فرمایا کہ اسے یوں کر دیجیے:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلّے کے سامنے
حضرت محسن کاکوروی کا قصیدۂ معراجیہ بہت مشہور ہے جس کا آغاز یوں ہے:
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
حضرت محسن یہ قصیدہ اعلیٰ حضرت کو سنانے کے لیے بریلی تشریف لائے۔ ظہر کے بعد دو شعر سنے، پھر ارشاد فرمایا کہ عصر کے بعد باقی قصیدہ سنا جائے گا۔ اعلیٰ حضرت نے عصر سے پہلے اپنا طویل قصیدہ معراجیہ سنایا۔ محسن نے جب آپ کا قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا مولانا آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔
آپ چونکہ عربی ، فارسی، بھاشا اور اردو سب زبانوں پر پوری قدرت رکھتے تھے، اس لیے ان زبانوں میں بے تکلف شعر کہتے۔ ایک مرتبہ احباب کی فرمایش پر ایسی نعت کہی جس میں یہ چاروں زبانیں استعمال کی گئی ہیں۔ بعض قصائد نہایت عجیب اور مشکل صنعتوں میں بھی کہے۔ غرض کہ اعلیٰ حضرت کا یہ رخ بھی نہایت حسین اور یادگار ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
اعلیٰ حضرت کے اخلاق و عادات نہایت عمدہ اور اچھے تھے۔ پوری زندگی حب نبوی اور اتباع شریعت میں گزری۔ اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لیتے نہ کچھ شکایت کرتے، مگر خدا اور رسول کا معاملہ ہوتا تو ہر گز رو رعایت نہ کرتے، پانچوں وقت کی نماز نہایت اہتمام سے اداکرتے۔ طبیعت شدید ناساز ہوتی تب بھی مسجد میں تشریف لاتے اور جماعت سے نماز ادا کرتے۔ فرض روزوں کے علاوہ اکثر نفلی روزے رکھتے۔ ایک بار رمضان میں بیمار پڑے او رحالت نازک ہو گئی۔ طبیبوں نے ہر چند اصرار کیا کہ روزہ توڑ دیجیے مگر نہ مانے اور روزے کی برکت ہی سے صحت حاصل ہو گئی۔ رات کو سوتے وقت نام اقدس محمد کی شکل میں لیٹتے۔ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے، کسی چیز کے لینے اور دینے کے لیے دایاں ہاتھ بڑھاتے، کبھی قہقہہ نہ لگاتے، تبسم فرماتے۔ قبلے کی طرف منہ کر کے کبھی نہ تھوکتے ، قبلے کی طرف پاؤں کبھی دراز نہ کرتے۔ آہستہ آہستہ چلتے، اکثر نگاہیں نیچی رکھتے۔ ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھ کر بیٹھنے کو ناپسند کرتے۔ اگر آپ کوئی حدیث بیان کر رہے ہوتے یا قرآن کی آیت کا ترجمہ کر رہے ہوتے اور درمیان میں کوئی قطع کرتا تو سخت ناراض ہوتے۔ نہایت سخی اور سیر چشم تھے جو دروازے پر آتا، خالی نہ جاتا۔ غریبوں ، طالبعلموں، ناداروں، یتیموں اور بیواؤں کے وظائف مقرر تھے۔ بیرونی ضرورت مندوں کو منی آرڈر کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ روپیہ جمع کر کے نہ رکھتے، فوراً تقسیم فرما دیتے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا: ‘‘میں نے کبھی ایک پیسہ زکوٰۃ کا نہیں دیا، کیوں کہ میرے پاس کبھی اتنی رقم جمع ہوئی ہی نہیں کہ سال گزر جانے کے بعد اس پر زکوٰۃ واجب ہو۔
اعلیٰ حضرت کو بیت اللہ اور حرمین شریفین سے جو عشق تھا، اس کاتذکرہ سوز و گداز سے پر ہے۔ دوسرے حج کے موقع پر جبکہ آپ مکہ معظمہ میں تھے، شدید بخار میں مبتلا ہوئے۔ ایک ترکی ڈاکٹر رمضان آفندی نے بہت قلیل مقدار میں ایک نمک دیا اور کہا کہ آب زم زم میں ملا کر پی لو۔ اعلیٰ حضرت یہ سن کر خوش ہوئے۔ فرماتے ہیں: ڈاکٹر صاحب نے دوا وہ بتائی جو مجھے بالطبع محبوب اور مرغوب تھی یعنی زمزم شریف ۔ میری عادت ہے کہ باسی پانی نہیں پیتا اور اگر پیوں تو فوراً زکام ہو جاتا ہے، مگر زمزم کی برکت دیکھیے کہ صحت میں، مرض میں، دن میں، رات میں تازہ ، باسی کثرت سے پیا۔ بخار کی شدت میں رات کو جب آنکھ کھلتی ، کلی کرتا اور زمزم پیتا۔ وضو سے پہلے پیتا، وضو کے بعد پیتا۔ پونے تین مہینے مکہ معظمہ کے قیام میں میں نے حساب کیا تو تقریباً چار من آب زمزم میرے پینے میں آیا ہو گا۔
اواخر محرم میں صحت ہوئی اللہ کے فضل سے، وہاں ایک سلطانی حمام ہے، میں اس میں نہایا۔ باہر نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ابر ہے۔ حرم شریف پہنچتے پہنچتے پانی برسنا شروع ہوا۔ مجھے حدیث یاد آ گئی کہ جو مینہ برستے میں طواف کرے، وہ رحمت الہٰی میں تیرتا ہے۔ فوراً حجر اسود کا بوسہ لے کر بارش ہی میں سات پھیرے طواف کیا، بخار پھر ہو گیا۔ مولانا سے اسمٰعیل مکی نے فرمایا: ایک ضعیف حدیث کے لیے تم نے اپنے بدن کی بد احتیاطی کی۔ میں نے کہا حدیث ضعیف ہے، مگر امید بحمد اللہ تعالیٰ قوی ہے، یہ طواف بہت مزے کا تھا۔
علما او رطلبہ کا حد درجہ احترام کرتے اور ان کے آنے پر بے حد مسرور نظر آتے۔ مہمانوں کے ہاتھ خود دھلاتے اور عمدہ سے عمدہ کھانے انھیں کھلاتے۔ مزاج میں عُجب، غرور اور کبر بالکل نہ تھا۔ سادات کرام کے سامنے فرط تواضع اور انکسار سے بچھ بچھ جاتے۔ آپ کے ہاں ہر تقریب میں سادات کرام کو دوہرا حصہ دیا جاتا۔ ایک دفعہ نو دس برس کی عمر کے ایک صاحبزادے امور خانہ داری کے لیے رکھے گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ سید ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے گھر والوں کو تاکید فرما دی خبردار، صاحبزادے سے کوئی کام نہ لیا جائے او رجس تنخواہ کا وعدہ ہوا ہے وہ بطور نذر پیش ہوتی رہے۔ ایک دفعہ اسی موضع پر گفتگو فرماتے ہوئے کہا: قاضی وقت اگر سید کو حد لگائے تو یہ خیال نہ کرے کہ میں سزا دے رہا ہوں، بلکہ یہ تصور کرے کہ شہزادے کے پاؤں میں کیچڑ بھر گئی ہے، وہ دھو رہا ہوں۔ مدینہ منورہ میں سید محمد سعید مغربی کے الطاف کی تو حد ہی نہ تھی۔ اس فقیر سے خطاب میں یا سیدی فرماتے۔ میں شرمندہ ہوتا ۔ ایک بار میں نے عرض کی حضرت، سید تو آپ ہیں۔ فرمایا، واللہ تم سید ہو۔ میں نے عرض کی میں سیدوں کا غلام ہوں۔ فرمایا تو یوں بھی سید ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ‘مولیٰ القوم منہم’ قوم کا غلام آزاد شدہ انھی میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ سادات کرام کی سچی غلامی عطا فرمائے۔
مزاج میں نہایت اعلیٰ درجے کی لطافت اور مزاح تھا۔ کسی ہندو آریا نے اپنے مذہب کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ‘‘آریہ دھرم پرچار’’ رکھا اور کتاب کا ایک نسخہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھی ارسال کیا۔ حضرت نے وہ کتاب ملاحظہ فرمائی۔ جگہ جگہ حاشیے پر اس کا رد لکھا اور جہاں کتاب کا نام تھا، وہاں سیاہ روشنائی لے کر جلی قلم سے لفظ ‘‘پرچار’’ کے بعد ‘‘حرف’’ لکھ دیا۔ اب اس کتاب کا نام یوں ہو گیا۔ ‘‘آریہ دھرم پر، چار حرف’’ اعلیٰ حضرت کو مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور دینی فلاح و بہبود کا خیال ہمیشہ رہتا۔ ان کی زندگی کے آخری دور میں مسلمانان ہند، ہندوؤں کی سیاست کی زد میں آ گئے تھے۔ بڑے بڑے نامور مسلمان بھی اس زد میں بہ گئے۔ ۱۹۱۹ ء میں تحریک خلافت کا آغاز ہوا، دوسرے ہی سال تحریک ترک موالات شروع ہوئی۔ احمد رضا خاں نے اختلاف کیا اور ایک رسالہ تصنیف کیا جس میں دلائل سے ثابت کیا کہ کفار و مشرکین سے اختلاط اور ان کے ساتھ سیاسی اتحاد ناجائز ہے اور اگر ایسا ہوا، تو اس کے نتائج نہایت خطرناک نکلیں گے۔ گویا دو قومی نظریے کے بانیوں میں سے اعلیٰ حضرت بھی ہیں۔ ان کے معتقدین نے ‘‘جماعت رضائے مصطفی’’ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اس کے بعد آل انڈیا سنی کانفرنس کے نام سے دوسری تنظیم قائم ہوئی۔ ان جماعتوں نے ہندو مسلم اتحاد و اختلاط کے خلاف کام کیا۔ اس کے ایک اہم رکن اور بانی مولانا نعیم الدین مراد آبادی تھے جنھوں نے اعلیٰ حضرت سے دستار خلافت حاصل کرنے کا شرف پایا۔ اعلیٰ حضرت کے مریدوں، خلفا اور ان کے عقیدہ و خیال کے علما نے جو اہل سنت کہلاتے ہیں، تحریک پاکستان کے لیے خاصا کام کیا ہے۔
اعلیٰ حضرت نے ۲۵ صفر المظفر، ۱۳۴۰ ہجری/ ۱۹۲۱ ء یوم جمعۃ المبارک دوپہر دو بج کر ۳۸ منٹ پر بریلی میں وصال فرمایا۔ چند ماہ قبل اعلیٰ حضرت نے قرآ ن مجید کی اس آیت سے اپنا سند وفات برآمد فرمایا تھا۔ ‘ویطاف علیہم بآنیۃ من فضۃ واکواب’ اس آیت کے حروف سے ابجد کے مطابق ۱۳۴۰ عدد برآمد ہوتے ہیں۔ مولانا حسین رضا خاں نے اعلیٰ حضرت کے الودائی سفر کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کا بیان ہے :
اعلیٰ حضرت نے وصیت نامہ تحریر کرایا، پھر اس پر خود عمل کرایا۔ اس روز تمام کام گھڑی دیکھ کر ٹھیک وقت پر ہوتے رہے۔ دو بجنے میں چار منٹ باقی تھے کہ وقت پوچھا۔ عرض کیا گیا اس وقت ایک بج کر ۵۶ منٹ ہو رہے ہیں۔ فرمایا: گھڑی رکھ دو۔ یکایک ارشاد ہوا تصویر ہٹا دو۔ حاضرین کے دل میں خیال گزرا کہ یہاں تصاویر کا کیا کام۔ یہ خطرہ گزرنا تھا کہ خود ارشاد فرمایا یہ کارڈ، لفافہ، روپیہ پیسہ۔ پھر ذرا وقفے سے اپنے بھائی مولانا محمد رضا خاں صاحب سے خطاب فرمایا: وضو کر آؤ، قرآن عظیم لاؤ۔ ابھی وہ تشریف نہ لائے تھے کہ اپنے چھوٹے بیٹے مولانا مصطفی رضا خاں سے پھر ارشاد فرمایا: اب بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ سورۂ یٰسین شریف اور سورۂ رعد شریف تلاوت کرو۔
اب آپ کی عمر کے چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ حسب الحکم دونوں سورتیں تلات کی گئیں۔ ایسے حضور قلب اور تیقظ سے سنیں کہ جس آیت میں اشتباہ ہوا یا سننے میں پوری نہ آئی یا سبقت زبان سے زیر و زبر میں فرق ہوا، خود تلاوت فرما کر بتا دی۔ سفر کی دعائیں جن کا چلتے وقت پڑھنا مسنون ہے، تمام و کمال ، بلکہ معمول سے زائد پڑھیں، پھر کلمۂ طیبہ پورا پڑھا۔ جب اس کی طاقت نہ رہی اور سینے پر دم آیا۔ ادھر ہونٹوں کی حرکت اور ذکر پاس انفاس کا ختم ہونا تھا کہ چہرۂ مبارک پر ایک نور کی کرن چمکی جس میں جنبش تھی۔ اس کے غائب ہوتے ہی وہ جان نور جسم اطہر حضور سے پرواز کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خود اسی زمانے میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا: ‘‘جنھیں ایک جھلک دکھا دیتے ہیں، وہ شوق دیدار میں ایسے جاتے ہیں کہ جانا معلوم بھی نہیں ہوتا۔’’
مولانا عبد العزیز محدث مراد آباد استاد دار العلوم اشرفیہ، درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشیں دیوان سید آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم کی زبانی ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں جسے یہاں درج کرنا مناسب ہو گا۔ موصوف کا ارشاد ہے:
ماہ ربیع الثانی ۱۳۰۴ ہجری میں ایک شامی بزرگ، دہلی تشریف لائے۔ ان کی آمد کی خبر پا کر ان سے ملاقات کی۔ بڑی شان و شوکت کے بزرگ تھے۔ طبیعت میں بڑا استغنا اور مسلمان جس طرح عربوں کی خدمت کیا کرتے، ان بزرگ کی بھی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ نذرانہ پیش کرتے، مگر وہ قبول نہ فرماتے اور کہتے بفضلہ تعالیٰ میں فارغ البال ہوں۔ مجھے ضرورت نہیں، ان کے اس استغنا اور طویل سفر سے تعجب ہوا۔ عرض کیا حضرت یہاں تشریف لانے کا سبب کیا ہے؟ فرمایا مقصد تو بڑا زریں تھا، لیکن حاصل نہ ہوا جس کا افسوس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ۲۵ صفر ۱۳۴۰ ہجری کو میری قسمت بیدار ہوئی۔ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا حضور تشریف فرما ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حاضر دربار ہیں، لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے۔ قرینے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی کا انتظار ہے۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: فداک ابی وامی! کس کا انتظار ہے؟ارشاد فرمایا: احمد رضا کا۔ میں نے عرض کیا، احمد رضا کون ہیں؟ فرمایا: ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔
بیداری کے بعد میں نے تحقیق کی ۔ معلوم ہوا مولانا احمد رضا خاں صاحب بڑے جلیل القدر عالم ہیں اور بقید حیات ہیں۔ مجھے مولانا کی ملاقات کا شوق ہوا۔ ہندوستان آیا ، بریلی پہنچا۔ پتا چلا ان کا انتقال ہو گیا اور وہی ۲۵ صفر ان کی تاریخ وصال تھی۔ میں نے طویل سفر صرف ان کی ملاقات کے لیے کیا، مگر افسوس ملاقات نہ ہو سکی۔
شہر بریلی، محلہ سوداگراں میں دار العلوم منظر اسلام کے شمالی جانب ایک پر شکوہ عمارت میں آپ کا مزار مبارک ہے
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک و انائے راز آید بروں
٭٭٭