جولائی ۲۰۰۹ میں جرمنی میں ایک مسلمان خاتون کے بہیمانہ قتل کے پس منظر میں لکھی گئی ایک تحریر
میں انتظار کرتارہا کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کسی کی گنگ زبان کھلے گی ،پسند کی شادی کے چکر میں گھر سے بھاگنے والی خواتین کا ادارہ چلانے والیوں میں سے کوئی آنکھ میں آنسو لیے ،اس درد ناک قتل پر گفتگو کرتی نظر آئے گی ۔مختارا ں مائی کو عالمی شخصیت کا درجہ دلانے والوں میں سے کسی کی چیخ و پکار سنائی دے گی،ویت نام او ر انگولا کے مظلوموں پر شاعری کرنے والے شاعروں میں سے کوئی اس عورت کا نوحہ لکھ لا ئے گا۔آزاد ہوتے اور اپنی آزادی کا لوہا منواتے میڈیا ،کے شیر بہادر گفتگو کر رہے ہوں گے۔وہ عظیم اینکر پرسن ،رپورٹر ،ڈاکو مینٹری بنانے والے جو کسی جانور پر زیادہ بوجھ لاد ا جائے ،کسی پرندے کا گھر اجاڑا جائے تو دکھ بھری آواز میں چلا ّ رہے ہوتے ہیں،یہاں تو ایک جیتے جاگتے انسان کی موت تھی ۔
میرا انتظار پھر بھی قائم رہا ۔مغرب کامیڈیا ہم سے کئی سال پہلے اپنی آزادی کا دعویٰ کرتا آرہا ہے ۔میں نے ہر بڑے ٹی وی چینل اور ریڈیو کے بلیٹن کھنگا لے ،ویب سائٹوں پر گیا ۔جس میڈیا پر سوات کے طالبان کے ہاتھوں ایک برقع پوش بہروپیے کو کوڑے پڑنے والی نام نہاد ویڈیو ،جس میں نہ مقام کا پتا چلتا تھا ،نہ انسانوں کے چہرے دکھائی دیتے تھے ،جس کا کوئی گواہ میسر نہیں تھا ،اسے ہر خبروں کی بلیٹن میں بار بار دکھایا گیا ہو،اور آج بھی اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے چلایا جاتا ہو ۔اس پورے مغربی میڈیا میں اس مظلوم عورت کا کوئی ذکر نہ تھا ۔اس کا بہیمانہ اور بے رحمانہ قتل اس قابل تک نہ تھا کہ اسے گٹر میں گرنے والے کسی جانور کی موت کے برابر ہی خبروں میں جگہ دی جا سکے ۔
آپ اس ماحول اور اس منظر کو صرف چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھوں کے سامنے لائیے اور تھوڑی دیر کے لیے سوچئے کہ ان شدت پسند ،متعصب اور دہشت گرد افراد کا نشانہ آپ خود یا آپ کا کوئی پیارا خاندان ہے ،تو یقین کیجئے آپ کی نیند حرام ہو جائے گی ۔
مصر کے شہر اسکندر یہ کی رہنے والی ایک خاتون مروا البشر ینی جو اپنے اسکول کے زمانے سے ایک ذہین بچی تصور کی جاتی تھی ،جسے پڑھائی کے ساتھ ساتھ والی بال کا بھی شوق تھا اور وہ مصر میں خواتین کی والی بال کی چمپئین رہ چکی تھی ۔لیکن اس سب کے باوجود وہ اسلام کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے مستقل حجاب اوڑھے رہتی ۔اس کی شادی ایک جنیٹک انجینئر (Genetic Engineer)علوی العکاظ سے ہوئی ،جو ایک جرمن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے چلا گیا۔دونوں کو اللہ نے ایک خوبصورت بیٹے سے نوزا ۔مروا،بھی وہیں اس کے ساتھ جرمنی میں رہنے لگی ۔عکاظ کی پی ایچ ڈی اختتام کو پہنچ رہی تھی اور اس نے اپنا تھیسز جمع کروا دیا تھا ،جس پر بحث اورPresentation ہونی تھی ۔ایک دن مروا اپنے بیٹے کے ساتھ ڈریسڈن پارک کے اندر بیٹھی تھی کہ ایک جرمن ایلکس اس کے پاس آیا اور اسے حجاب میں دیکھ کر دہشت گرد اور اسلامی طوائف کہہ کر پکارنے لگا ۔لوگ وہاں جمع تھے ۔مروا،نے عدالت میں اس توہین کا مقدمہ درج کروا دیا ، جس پر ایلکس کو صرف ۷۸۰ یورو جرمانہ عائد کر دیا گیا ۔ایلکس نے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی ۔اس دوران عکاظ کی ڈاکٹریٹ مکمل ہوگئی تھی اور وہ دونوں واپس اپنے ملک مصر جانے کی تیاریوں مصروف تھے ۔مروا ،اپنے بچے اور خاوند کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوئی ۔وہ اس وقت ایک تین ماہ کے بچے کا وجود بھی اپنے جسم میں لئے ہوئی تھی ۔عدالت نے جیسے ہی فیصلہ سنانا شروع کیا ،ایلکس نے ایک چاقو نکالا اور بھری عدالت میں اس حاملہ خاتون مروا، پر وار کرنے شروع کر دئیے ۔اس کے جسم میں اٹھارہ دفعہ چاقو گھونپا گیا ۔عکاظ جیسے ہی اپنی بیوی کو بچانے کیلئے آگے بڑھا اور اس دہشت گرد کے وار ،اپنے اوپر لینے لگا تو عدالت میں موجود ایک پولیس کے سپاہی نے اس پر فائر کھول دیا اور وہ آج بھی موت و حیات کی کشمکش میں ہسپتا ل میں پڑا ہوا ہے ۔پولیس والے سے جب یہ پوچھا گیا کہ تم نے فائر کیوں کیا ،تو اس نے جواب دیا کہ میں سمجھا کہ یہ ایلکس کا ساتھی دہشت گرد ہے ۔اس سارے ظلم و تشدد اور بربریت کا گواہ وہ تین سالہ بچہ بھی ہے جس نے اپنی اس شہید ماں کی گود میں ہنسنا سیکھا تھا ۔اس کی انگلی پکڑ کر چلنا شروع کیا تھا ،اس کی آواز میں آواز ملاکر بو لنا سیکھا تھا ۔اس سے زیادہ بے حسی اور غیر انسانی رویہ نہیں ہو سکتا کہ جرمنی کے اخبارات میں اس بات پر بحث نہیں ہو رہی کہ ایک عورت کا ظالمانہ قتل ہوا،بلکہ اس بات پر تبصرے کئے جارہے ہیں کہ عدالت میں سکیورٹی کا نظام اتنا کمزور کیوں ہے ۔آج اس واقعہ کو گزرے ہوئے پندرہ روز ہو چکے ہیں ۔وہ اخبارات اور ٹی وی چینل ،جو ا س ملک میں مائیکل جیکسن کی آخری رسومات براہ راست دکھاتے ہوں ،فرانس کے فیشن شو سے لے کر بھارت کے فلمی ایوارڈوں کے لچر اور بیہودہ ڈانس براہ راست نشر کرتے ہوں ۔جن کے ہاں کسی ہالی وڈ یا بالی وڈ کی اداکارہ کی مستیاں ،بے وفائیاں اور چوری چھپے آشنائیاں ،خبروں میں ہیڈ لائنز کا موضوع بنتی رہتی ہوں ۔جہاں اخبارات اور رسائل میں دنیا بھر سے فیشن ،فلم ،ٹی وی ،کھیل اور دیگر شعبوں کے چسکے دار خبریں ،رنگین صفحات کی زینت بنتی ہو ں۔اس سارے میڈیا میں نہ اس خاتون کا قتل کوئی واقعہ تھا اور نہ ہی ایسا سانحہ یا المیہ تھا جس پر کسی کا ضمیر جاگے ،آنکھ سے آنسو چھلک پڑیں یا قلم لکھنے کو بے قرار ہو جائے ۔
ہم جس تشدد ،دہشت گردی اور تعصب کی زد میں ہیں اس میں ہماری آواز صدا بصحرا ہے، ہما رے آنسو ہمارے اپنے ہی دامن میں گر کر خشک ہو جاتے ہیں اور ہمارے دکھ وہ بلائیں ہیں جو ہمارے آنگنوں میں اتری ہوئی ہیں ۔
مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی جب انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی باوقار خواتین عالمی یوم خواتین پر سمینار کریں گی ،واک کا اہتمام ہوگا ،دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے اعداد و شمار جاری ہوں گے ،یہ ساری فیشن زدہ خواتین مدرز ڈے بھی منائیں گی ،بچوں کے حقوق کا دن بھی منایا جائے گا ۔لیکن کوئی اس تین سالہ بچے کے کرب اور چھبیس سالہ مروا،کے پر تشدد قتل کو یاد نہیں کرے گا ۔
جن قوموں میں احتجاج ،ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی قوت اور میڈیا کی آزادی ،ڈونرز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ بک چکی ہو وہاں ایسے ہی دہشت گرد راج کرتے ہیں جو چند سی ڈیاں جلانے او ر ایک عورت کو حبس بے جا میں رکھنے پر جامعہ حفصہ میں ہزاروں عورتوں اور بچوں کا قتل کروا دیتے ہیں ۔عورتوں پر ڈنڈے برسانے کی کیسٹ دکھا کر ،افغانستان پر حملہ کروا دیتے ہیں اور چند کوڑوں کی کیسٹ کے تحفے میں ۲۵ لاکھ لوگوں کو بے گھر ، کئی سو انسانوں کوقتل اور کئی سو فوجیوں کو مروا دیتے ہیں ۔میں اس منظر کو سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں ۔جب ایسے شدت پسند ،دہشتگرد اور متعصب کسی بھی ملک پر چھا گئے ،انہیں کوئی روکنے والا نہ ہوا ،تو ہر حجاب پہن کر باہر نکلنے والی عورت کو ایسے ہی اوباش اسے اسی طرح کے القاب سے چھیڑیں گے اور میڈیا شاید اس قدر گنگ ہو کر ایک محلے کی خبر دوسرے محلے تک نہ جا سکے ۔زبانوں پر مہریں ،ضمیر پر تالے اور قلم کی قیمت میسر آجائے تو پھر تحریر خاموش ہوجاتی ہے اور انتقام جاگا کرتا ہے ۔ (بشکریہ، المنبر ، فیصل آباد )