‘‘بعض لمحے زندگی بھر نہیں بھلائے جا سکتے۔ وقت خواہ کیسی کروٹ لے، حالات کا بہاؤ چاہے جس طرف چل پڑے، وہ یادگار لمحات ذہن سے محو نہیں ہوسکتے۔ ایسا ہی ایک منظر برسوں سے میری سوچوں کے دریچوں سے ہٹتا نہیں۔ ’’ ڈاکٹر انتظار بٹ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے تاسف سے سر جھٹکا اور پھر اپنی بات کا سلسلہ دوبارہ سے جوڑا، ‘‘یہ سوڈان کے انتہائی پسماندہ علاقے جنوبی ڈار فر کا ایک گاؤں تھا۔پچیس لاکھ آبادی کے اس علاقے میں صرف دو آنکھوں کے سرجن موجود تھے۔ وہاں پر ہزاروں ایسے بینائی سے محروم افراد موجود تھے، جو چند منٹوں کے آپریشن سے صحت یاب ہوسکتے تھے۔ ہم وہاں فری آئی کیمپ لگانے گئے۔ ایک سکول گئے تو معلوم ہوا کہ یہاں بلیک بورڈ، چاک ، پنسل یا کاغذ نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ سکول ٹیچر باہر ریت میں بچوں کو گول دائرہ بنا کر بٹھا دیتی اور انگلی سے ریت میں لکیریں لگا کر حروف تہجی سمجھاتی۔ ان کی تمام تر تعلیم ریت پر کھنچی ان لکیروں کی مرہون منت تھی۔ ہم یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ آئی کیمپ ختم ہوگیا، ہم واپس آگئے، مگر وہ ریت پر لکھے الفاظ میرے ذہن پر نقش ہوگئے۔ چند ماہ بعد دوبارہ وہاں جانے کا پروگرام بنا۔ ہم اس بار اپنے ساتھ دو ڈھائی سو بچوں کے سکول بیگ، کاپیاں پنسلوں کے ڈبے وغیرہ لے گئے۔ اس سکول میں جا کر بچوں کو بلایا۔ وہ سکول بیگ اور کاپیاں ، کتابیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کے لیے یہ انوکھی چیزیں تھیں۔ چند ہی منٹوں میں سب سامان ختم ہوگیا۔ ابھی ہم جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک نو دس سالہ بچی بھاگی بھاگی آئی۔ اس نے عربی میں سکول بیگ مانگا۔ بد قسمتی سے ہمارے پاس ایک بھی بیگ نہیں بچا تھا۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی عربی میں اسے پنسلوں کا ایک پیکٹ اور دو تین چھوٹی موٹی چیزیں پیش کیں۔ اس نے اپنی چمکدار آنکھیں اٹھا کر میری جانب دیکھا اور سنجیدگی سے بولی،‘‘مجھے صرف وہی بیگ چاہیے تھا۔’’ یہ کہہ کر وہ واپس پلٹی اور چلی گئی۔ اس بچی کی آنکھوں میں موجود اداسی مَیں آج تک نہیں بھلا پایا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ وہاں گئے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ وہ معصوم بچی مل جائے اور اس بارہم اس کی من پسند چیزیں دے سکیں، مگر وہ کبھی نظر نہیں آئی۔ اس بچی کی محرومی اور یاسیت بھری نگاہ میرے دل میں کسی صلیب کی طرح گڑی ہوئی ہے۔ روزانہ جب میرے بچے اپنے اپنے سکول بیگ اٹھا کر روانہ ہوتے ہیں تو مجھے وہ سوڈانی بچی یاد آجاتی ہے۔’’
ڈاکٹر انتظار خاموش ہوگئے۔ محفل میں تادیر خاموشی چھائی رہی۔ یوں لگا کہ الفاظ ہی ختم ہوگئے۔ ایک طویل وقفے کے بعد میں نے موضوع بدلتے ہوئے ان سے پوچھا‘‘ آپ کی زندگی کا سب سے خوش کن لمحہ کون سا رہا؟’’ ڈاکٹر انتظار کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ ابھری۔ ایک لمحے کے لیے انہوں نے سوچا اور گویا ہوئے، ‘‘ خوشگوار تجربات کئی ہیں۔ بطور آئی سرجن ہم بہت مرتبہ خوشیاں دینے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی بار فری آئی کیمپس کے دوران جب مریض کامیاب آپریشن کے بعد آنکھیں کھول کر دنیا کے رنگوں کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار ان کے ہونٹوں سے ہمارے لیے دعا نکلتی ہے۔ سوڈان اور دیگر افریقی ممالک میں تو ہر بار ایسا ہوا۔ جنوبی ڈار فر کے دارالحکومت جن ینہ، جس کی ڈھائی ملین آبادی ہے اوروہاں کوئی آئی سرجن موجود نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے وہاں فری آئی کیمپ لگایاتو ایسے ایسے مریض آئے، جنہیں پیدائشی سفید موتیا تھا، مگر ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث وہ اپنی زندگی میں دیکھ ہی نہیں سکے۔ ایک سوڈانی کے چار بیٹے تھے اور وہ سب نابینا تھے۔ آپریشن کے بعد جب انہوں نے دیکھنا شروع کیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کیمپ کے دوران ایک سوڈانی نوجوان آیا۔ اس نے بتایا کہ میری بوڑھی دادی نابینا ہے۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ جس گاؤں میں اس کی پوری زندگی گزری، ایک بار تو اسے دیکھ سکے۔ ہم نے اسے آپریشن کے لیے بلا لیا۔ اس کی دونوں آنکھوں کے آپریشن ہوئے۔ جب پٹی کھلی تو روشنی دیکھتے ہی وہ کھلکھلا کر پہلے ہنسی اور پھر روئی۔ اپنے پوپلے منہ سے اس نے ہمیں جتنی دعائیں دیں، اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔’’
یہ چند دن پہلے ساون کی ایک بھیگی شام تھی، جب ڈاکٹر انتظار بٹ نے اپنے ادارے پی او بی ٹرسٹ (Prevention of Blindness)کے بارے میں ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ ڈاکٹر انتظار بٹ پیشے کے اعتبار سے آئی سرجن ہیں۔ وہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم(فیما) کے سرگرم رکن ہیں۔ پیما اور فیما کے پلیٹ فارم سے وہ بڑے متحرک رہے۔ انہیں پاکستان سے باہر بھی کئی ممالک میں جانے کا موقع ملا۔ دو سال پہلے ڈاکٹر زاہد لطیف ، ڈاکٹر طاہر اور چند دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک فلاحی تنظیم پی او بی ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی۔ اس قلیل مدت میں اس تنظیم نے وہ کام کر دکھایا، جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ پی او بی کی ویب سائٹ www.pobtrust.orgپر اس کے منصوبوں کی تمام تر تفصیل موجود ہے۔ معلومات کے لیے info@pobtrust.orgپر ای میل کی جاسکتی ہے۔ پی او بی اب تک پاکستان میں 228 اور بیرون ممالک 44فری آئی کیمپس لگا چکی ہے۔ ان کیمپس میں چار لاکھ ستر ہزار مریضوں کو دیکھا جا چکا ہے۔ ان میں سے 45000کی سرجری کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کمیپس میں آنے والے مریضوں سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا جاتا۔ حتی کہ لینز بھی مفت بدلے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے بارے میں مجھے کچھ عرصہ پہلے سمہ سٹہ، بہاولپور ، فورٹ عباس اوربہاولنگر کے بعض قارئین نے فون کر کے بتایا۔ ان علاقوں میں پی او بی ٹرسٹ نے فری کیمپ لگائے تھے، جن میں سینکڑوں مریضوں کی بالکل مفت سرجری کی گئی۔ فورٹ عباس کے مقامی حلقوں کے مطابق اس ٹرسٹ نے اس قدر مریض آپریٹ کر دیے، جس قدر سرکاری ہسپتال میں دس سال کے دوران بھی ممکن نہیں ہوپاتے۔
ڈاکٹر انتظار بٹ کے اخلا ص اور commitmentکو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ لاہور کے ایک معروف سرکاری ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں کئی معروف نجی ہسپتالوں کی جانب سے پارٹ ٹائم کام کی پیش کش کی گئی، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ کہنے لگے انسان کی خواہشات لا محدود ہیں اور وسائل محدود۔ میری ترجیح اس ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ پی او بی ٹرسٹ آنکھوں کے مریضوں اور پاکستان اور تیسری دنیا کے آئی سرجنز کی تربیت کے لیے لاہور میں ایک ادارہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس ٹرسٹ کے تحت نابینا بچوں کی کمپیوٹر تعلیم کے لیے بھی ایک منصوبے کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کو تجاویز، آرا اور مستقبل کے حوالے سے مشورے0321-4488124پر دیے جا سکتے ہیں۔ وہ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ڈاکٹر خصوصاً آئی سرجنز ویلفیئر کے حوالے سے بڑے متحرک ہیں۔ سوات متاثرین کے لیے پی او بی کی سندھ اور بلوچستان برانچوں سے اس قدر ڈاکٹروں نے رابطہ کیا کہ انہیں زبردستی روکنا پڑ گیا۔
گپ شپ کے دوران میں نے ڈاکٹر انتظار سے پوچھا کہ آپ کو زندگی میں کسی چیز کا خوف بھی لاحق ہوا۔ ایک لمحے کے لیے ڈاکٹر کے چہرے پر نرمی اور آنکھوں میں اداسی اتر آئی۔ وہ آگے کو جھکے اور دھیرے سے بولے، ‘‘اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے بندوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا کام لے رہا ہے۔ مجھے ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں کسی غفلت سے یہ اعزاز ہم سے چھن نہ جائے۔’’