مری ماں نے مجھ کو الف۔ ب سکھائی
مگر بیچ میں چھوڑ دی
میں پڑھنے میں کمزور تھا
بولتے ہی اٹک جاتا تھا
مرے ساتھ کے سارے بچے بہت تیز نکلے
وہ جملے بنانے لگے
مرا باپ دہقان تھا
وہ مایوس ہو کر بھی ہنستا رہا
اُسے ایک چھوٹا سا دہقان
کھیتوں میں اچھا اضافہ لگا
مگر ایک دن میری ماں نے کہا
‘‘جا وضو کر کے آ’’
اور خود بھی وضو کر کے کہنے لگی
‘‘اب۔ الف ب سنا’’
میں اٹکتا رہا۔ مار کھاتا رہا
اُس نے مایوس ہو کر کہا۔ ‘‘ چھوڑ دے۔
جا مصلّیٰ اٹھا لا۔ اذاں ہو گئی۔’’
اور صلّےِ علیٰ بھی کہا
میں نے رک رک کے پوچھا
‘‘مصلّیٰ کہ صلّےِ علیٰ؟’’
میری ماں پکاری
‘‘گرہ کھل گئی
ترا شکر مولیٰ کہ صلّےِ علیٰ سے
مرے توتلے کی زباں کھل گئی’’