فیصل عجمی


مضامین

پکارتا ہوں تو جانے کہاں سے آتے ہیں وہ ہاتھ مجھ کو بچانے کہاں سے آتے ہیں امید کیسے جزیرے تلاش کرتی ہے  سمندروں میں ٹھکانے کہاں سے آتے ہیں زمیں اپنے خزانے لٹاتی رہتی ہے مگر زمیں میں خزانے کہاں سے آتے ہیں سخن میں کس طرح آتے ہیں عکس خواہش کے  ن...


  صبح کو رات میں داخل بھی وہی کرتا ہے درمیاں شام کو حائل بھی وہی کرتا ہے   وہی گویائی عطا کرتا ہے رفتہ رفتہ پھر زباں حمد کے قابل بھی وہی کرتا ہے   حوصلہ دیتا ہے وہ بے سر و سامانی میں دل کو دنیا کے مقابل بھی وہی کرتا ہے  ...


  رختِ سفر ہے اِس میں قرینہ بھی چاہیے آنکھیں بھی چاہئیں ، دلِ بینا بھی چاہیے   اُن کی گلی میں ایک مہینہ گذار کر کہنا کہ اور ایک مہینہ بھی چاہیے   مہکے گا اُن کے در پہ کہ زخمِ دہن ہے یہ واپس جب آؤ تو اسے سینا بھی چاہیے   ...


  مری ماں نے مجھ کو الف۔ ب سکھائی مگر بیچ میں چھوڑ دی میں پڑھنے میں کمزور تھا بولتے ہی اٹک جاتا تھا مرے ساتھ کے سارے بچے بہت تیز نکلے وہ جملے بنانے لگے مرا باپ دہقان تھا وہ مایوس ہو کر بھی ہنستا رہا اُسے ایک چھوٹا سا دہق...