صبح کو رات میں داخل بھی وہی کرتا ہے
درمیاں شام کو حائل بھی وہی کرتا ہے
وہی گویائی عطا کرتا ہے رفتہ رفتہ
پھر زباں حمد کے قابل بھی وہی کرتا ہے
حوصلہ دیتا ہے وہ بے سر و سامانی میں
دل کو دنیا کے مقابل بھی وہی کرتا ہے
وقت اس کا ہے، زماں اُس کے، زمانے اُس کے
ان کو احساس پہ نازل بھی وہی کرتا ہے
بارشیں اُس کی ہیں، بہتے ہوئے دریا اُس کے
ان کو صحراؤں سے غافل بھی وہی کرتا ہے
امتحاں لیتا ہے بے رحم سمندر میں وہی
پھر عطا ناؤ کو ساحل بھی وہی کرتا ہے
لوحِ محفوظ پہ تحریر ہے تقدیر کے بعد
سعی کرتا ہے جو حاصل بھی وہی کرتا ہے
حمد ہونٹوں پہ ہے دھڑکن میں ثنا ہے فیصلؔ
میں جو کرتا ہوں مرا دل بھی وہی کرتا ہے