قسط -۳
زیارتیں
حجاز کا ایک ایک انچ،تاریخ اسلام کا امین ہے۔مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ ،میدان عرفات ہو یا وادی طائف،جبل احد ہو یا بدر کی بے آب وگیاہ وادی،یہاں کا ایک ایک ذرہ ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اوراُن کے اصحاب کی زندگیوں کا گواہ ہے۔اگرچہ تاریخ کے صدیوں کے اس سفر میں بہت کچھ گردشِ زمانہ کی نذر ہو چکا ہے لیکن صاحبان ِ ذوق کے لیے اب بھی ،دیکھنے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔ حج وعمرہ پر جو لوگ جاتے ہیں وہ اپنے شاندارماضی کے امین ان مراکز ایمان و یقین کی زیارت کے لیے ضرور وقت نکالتے ہیں۔ہم بھی چونکہ سیرت ِ پیغمبرﷺ کے ادنیٰ طالب علم ہیں اس لیے شدید خواہش رکھتے تھے کہ ان تاریخی مقامات و آ ثار کی زیارت سے مستفید ہوں۔
مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران میں ،ہم ان زیارات مقدسہ میں سے جو کچھ دیکھ پائے تھے اُس کے مبارک ذکر میں آپ کو شریک کرتے ہیں۔
مولد نبوی شریف:
کتنی مبارک تھی وہ جگہ اور کتنا عظمت بھرا تو وہ گھر ،جس گھر میں خیر البشر سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔وہ گھر جناب عبداللہ کا تھا اور اُس گھر کی مالکہ سیدہ آمنہ بنت وہب تھیں۔یہ گھر مکہ مکرمہ میں ،خانہ کعبہ کے مشرق میں واقع تھا۔اپنی طرز تعمیر کے اعتبار سے ،ظاہر ہے،یہ کوئی عالیشان محل نہ تھا ،لیکن اپنی عظمت و رفعت اور اپنے مکین ﷺ سے نسبت کی وجہ سے بلا شبہ ،زمین کایہ ٹکڑارشک بریں تھا۔آج ہم اس مقدس گھر کی زیارت کو آئے تھے ۔مجھے اپنے مقدر پر نازتھا کہ میں وہ جگہ دیکھنے جا رہا تھا جہاں پر فخر کائنات،سید الرسل ،آمنہ کے دُرِ یتیم سیدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔اس جگہ کووہ شرف اور نسبت حاصل ہوئی جو کائنات میں اور کسی کو حا صل نہ ہوئی۔ابھی چند لمحے قبل میں یہ باتیں سوچتا آ رہا تھا کہ گائیڈ نے ایک دو منزلہ بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،‘‘ڈاکٹر صاحب ، یہ ہے مولد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم! ’’میں سوچوں سے باہر نکلا تو میرے سامنے اینٹ گارے سے بنی ایک دو منزلہ عمارت تھی جو اپنے فن ِ تعمیر کے اعتبار سے اور اپنی آ رائش و زیبائش کے اعتبار سے ہرگز ہرگز پر شکوہ اور لائق دید عمارت نہ تھی۔مجھے ذہنی دھچکا لگا۔یہاں مکہ میں ایسی ایسی پر شکوہ عمارتیں ہیں اور ایسے ایسے دیدہ زیب محلات ہیں کہ انسان جنھیں دیکھ کر حیرا ن رہ جاتا ہے ۔مجھے یہ تو توقع نہ تھی کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر اپنی اوریجنل حالت میں محفو ظ ہوگا ،لیکن یہ اندازہ ضرور تھا کہ یہ خو بصورتی سے آراستہ کیا گیا ایک مقام ضرور ہو گا۔لیکن میرے سامنے جو عمارت تھی اپنے انداز تعمیر کے حوالے سے کوئی آ راستہ و پیراستہ بلڈنگ نہ تھی۔بہر حال مجھے یہ تو یقین تھا کہ عمارت پر شکوہ نہ سہی اور اُس گھر کی اوریجنل شکل محفوظ نہ سہی ،کم ازکم یہ تو ہے کہ زمین کا یہ قطعہ تو معلوم و محفوظ ہے اور حکومت کی طرف سے لگایا گیا بورڈ، اِس بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ یہ جگہ وہی ہے جہاں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے۔
بندہ وہاں کھڑا تھا ،جہاں کبھی میرے آ قا صلی اللہ علیہ وسلم ،اپنی پیاری ماں سے باتیں کیا کرتے تھے۔میں آ ج وہاں تھا جہاں میرے محبوب اپنے خوبصورت بچپن مں اٹھکیلیاں کیا کرتے تھے۔ہاں ہاں ! یہ گناہ گار بندہ آج وہاں تھا جہاں کبھی سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب قدموں سے چلا کرتے تھے۔میری آ نکھوں میں آ نسو تھے۔خوشی کے آنو ،محبت کے آ نسو حیرت اوررشک کے آنسو۔میں حیرت زدہ تھا۔میں جذبات میں ڈوبا تھا۔میں لذت دیدار سے آ شنا ہو رہا تھا ۔
یہ وہ لمحات تھے جب تاریخ مجسم بنی میرے سامنے تھی۔‘‘ڈاکٹر صاحب اندر چلنا ہے۔’’میرے گائیڈ نے پوچھا ۔اُسے کیا خبر ،کہ میں پہلے ہی اندر تھا ، اور اس کے مکین ﷺ کے قدموں میں بیٹھا آ نسو بہا رہا تھا۔ لیکن یہ اور دُنیا تھی ،وہ مجھے ایک اور دنیا میں لا نا چاہ رہا تھا۔وہ مجھے سامنے والی عمارت کے اندر چلنے کو کہہ رہا تھا جسے آ جکل لائبریری کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش کو حکومت وقت نے لائبریری میں تبدیل کر دیا ہے۔ہم فوراً اندر چلے گئے۔کچھ دیر کتابیں دیکھیں ،کچھ رسائل کی ورق گردانی کی اور زیادہ تر تصورِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں رہے کیونکہ یہ جگہ میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش تھی۔وہاں کا گزرا ایک ایک لمحہ محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم محبتوں اور چاہتوں میں گزرا۔
میدان عرفات:
حج کی عبادت کا اصل رکن،۹ذوالحج کو میدان عرفات میں موجودگی ہے۔میدان عرفات میں حاضری کا عمرے کی عبادت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس مقدس میدان کی زیارت کرنا تو بہر حال ہم پر لازم تھا،لہٰذا ایک گائیڈ کے ہمراہ میں اس میدان کی زیارت کو بھی گیا۔پہاڑوں میں گھرا یہ میدان ،حرم سے باہر واقع ہے۔مسجد ِ حرام کے جنوب مشرق میں ،قریباً۱۹۔۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر یہ میدان ہے۔بڑی خوبصورت اور کشادہ شاہراہ پرگاڑی فراٹے بھرتی ہوئی گئی اور چند ہی لمحوں میں حدود عرفات میں پہنچ گئی۔زمین کا وہ حصہ جسے عرفات کہا جاتا ہے ،اس کی حدود کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ حج والے دِن اگر کوئی زائر اس کی حدود سے باہر رہ جائے تو اس کا فریضہ حج ادا نہیں ہوگا۔یہ بڑا وسیع میدان ہے۔اس کے اندر حکومت نے سڑکوں کا جال بچھا رکھا ہے۔حجاج کرام کی آسانی کے لیے ،یہاں وسیع پیمانے پرطہارت خانے ،غسلخانے اورپینے کے پانی کے لیے ٹینکیاں بنا دی گئی ہیں جو ظاہر ہے سال میں ایک ہی دِن استعمال ہوتی ہیں۔ سائے کے لیے ،لاکھوں کی تعداد میں،نیم کے درخت لگائے گئے ہیں۔چونکہ سال کے زیادہ مہینوں میں ،مکہ میں گرمی ہوتی ہے اور شدید ہوتی ہے ،اس لیے اس ایک دِن کے آرام کے لیے حکومت وقت نے ایسی ایسی سہولتیں مہیا کر رکھی ہیں کہ انسان حیران بھی ہوتا ہے اور انھیں داد دیے بغیررہ بھی نہیں سکتا۔اب ان درختوں والے خیال(idea )کو دیکھ لو۔کم خرچ ،بالا نشین۔مفت کا سایہ اور ٹھنڈک۔بے آب و گیاہ وادی میں ،جہاں کبھی کوئی بوٹا اور پودا اگتا ہی نہیں تھا، وہاں سایہ دار درخت لگانے کی سوچ اور اُس پر عملدرآمد کے لیے کاوشیں! سبحان اللہ کیسی عمدہ سوچ اور کیسی عمدہ ترکیب تھی !یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیم کے یہ درخت پاکستان کے سابق صدر ضیا الحق نے تحفے میں دیے تھے۔ اللہ بہتر جانتاہے البتہ آج یہ درخت جوان ہو رہے ہیں اور بہار پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ جگہ جگہ فوارے بھی لگائے گئے ہیں جو اُس دِن(حج کے دِن ) ہوا میں پانی چھوڑتے ہیں جس سے درجہ حرارت کنٹرول رہتا ہے اور حاجی سکون محسوس کرتا ہے۔میدان عرفات دُعا کا مقام ہے۔حج کے دِن بھی یہاں کا سب سے بڑا عمل اللہ پا ک سے دُعائیں کرنا ہی ہے۔
مسجد نمرہ:
ُمیدان عرفات کے مغربی سمت ،ایک خوبصورت مسجد ہے۔اس کی زیارت سے فیض یاب ہوئے ۔روایات میں آ تا ہے کہ ،اپنے آخری حج کے موقع پر سید البشر ،پیارے آ قا محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنا خیمہ لگوایا تھا اور جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حج ارشاد فرمایا تھا،اس جگہ پر ،بعد میں یہ مسجد بنا دی گئی ،اس مسجد کو مسجد نمرہ کہتے ہیں۔ اصل میں تو یہ حدود عرفات سے باہر ،وادی عرناurna) (میں واقع تھی،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر جو توسیعات ہوتی رہیں وہ عرفات کی طرف ہو تی رہی ہیں۔اس مسجد کا امام صاحب والا حصہ اور آ گے کی دو چار صفیں ، آج بھی حدود عرفات سے باہر ہیں اور اس چیز کی واضح نشان دہی وہاں کر دی گئی ہے تاکہ حج والے دِن کوئی حاجی یہاں نہ بیٹھا رہے اگر ایسا ہو گا تو اس کا حج ادا نہیں ہوگا۔ یہ بہت وسیع و عریض اوردیدہ زیب بنائی گئی ہے۔وضو گاہیں اورحماموں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔حج کے روز ،ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر،جو خطبہ حج نشر ہوتا ہے اور جسے پوری دنیا میں بڑے شوق اور محبت سے دیکھا اور سنا جاتا ہے،وہ یہیں اسی مسجدسے نشر ہوتا ہے۔
جبل رحمت:
یہ میدان عرفات کے حدود کے اندر ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی کا نام ہے ۔سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں وقوف فرمایا تھا یعنی اپنے آ خری حج کے موقع پر ،میرے آ قا ﷺ ،خطبہ اور نماز کے بعد ،مسجد نمرہ والی جگہ سے چل کر یہاں تشریف لے آ ئے تھے اور قیام عرفات کا باقی وقت یہاں پر اللہ کریم سے دعائیں مانگنے اور اپنے صحابہ کرام سے ملاقاتیں اور انھیں وعظ و نصیحت کرنے میں گزارا تھا۔ اس پہاڑی کی یہ نسبت عظیم ہی ہمارے لیے ،اس کو وارفتگی اور محبت سے دیکھنے کا باعث ہے۔میرے آقا ،سیدی خیر البشر ﷺ یہیں کہیں ،اس چھوٹی سی پہاڑی کے آ س پاس ،گھنٹوں تشریف فرما رہے تھے۔اس کے قریب ،حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے سانسیں لیں تھیں۔میرے محبوب کی سانسوں کی خوشبو اور میرے آقا کی معطر جسم اطہرکی مہک انھی فضاؤں میں رچی بسی ہے۔ہر کوئی اسے محسوس کر سکتا ہے بشر طیکہ محبتِ رسول کی شمع دِل میں روشن ہو۔
اس جگہ پر میلے کا سا سماں تھا۔ایک طرف کوفرشی بازار سجا تھا تو دوسری طرف کچھ مقامی لوگوں نے اونٹوں کو سجایا ہوا تھا اور لوگوں کو سواری کے لیے پیش کر رہے تھے۔یہ سواری اُن کے لیے ذریعہ آ مدنی اورزائرین کے لیے تفریح طبع کا باعث تھی۔یہ پہاڑی کوئی زیادہ اونچی نہیں ہے اور اوپر تک جانے کے لیے سیڑھیاں بھی بنا دی گئی ہیں۔اس لیے زائرین اوپر چوٹی تک بڑی آ سانی سے آ جا رہے تھے۔ہم بھی اوپر پہنچ گئے ،کیا معلوم میرے پیارے رسول کے نقوش پا کو پانے کی سعادت حا صل ہو جائے۔میرے ساتھی نے پو چھا ،‘‘ڈاکٹر صاحب اس پہاڑی کوجبل رحمت کیوں کہتے ہیں۔’’میں نے عرض کی کہ‘‘اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت تو مجھے معلوم نہیں ہے ،البتہ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ وہ پہاڑی ہے جہاں سیدنا آ دم علیہ السلام اور سیدہ اماں حواسلام اللہ علیہا کی پہلی ملاقات ہوئی تھی جب وہ جنت سے زمین پر اُتارے گئے تھے۔یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں حج والے دِن وقوف فرمایا تھا اس وجہ سے لوگوں نے خود ہی یا شاید خود رسول اللہ ﷺ نے ہی اس پہاڑی کو جبل رحمت قراردے دیا ہو ۔واللہ اعلم۔البتہ ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے آ قا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ تو اس جگہ کے کوئی مخصوص فضائل بیان فرمائے ہیں اور نہ ہی یہاں پر کسی قسم کی عبادت مشروع فرمائی ہے۔’’اس نے پوچھا ،‘‘پھر یہ لوگ نوافل کیوں پڑھ رہے ہیں ۔’’ میں نے کہا، ‘‘بس ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی۔’’
مزدلفہ اور منیٰ:
یہ بھی حج کے مقامات ہیں۔پہاڑی علاقہ ہے۔پتھریلی زمین ہے۔بے آب و گیاہ وادی ہے۔جس بندے نے مری سوات کے پہاڑ دیکھ رکھے ہوں،اُ س کے لیے اِن خشک پہاڑوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔لیکن ٹھہرئیے !! اِن بنجر پہاڑوں کی قدروقیمت کا آپ کیا اندازہ لگا سکتے ہیں اور ان کی عظمت و رفعت کا کیامقام متعین کر سکتے ہیں ،جن بنجر پہاڑوں کو اللہ کریم نے مقامات حج بننے کا شرف بخشاہے۔ان پتھریلی وادیوں کا مقابلہ دنیا کی کوئی اور وادی کیسے کر سکتی ہے جہاں فخر کائنات اور سید ولد ِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم ،پیدا ہوئے ،پلے بڑھے اورجہاں میرے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی حسن بھری زندگی بسر کی۔ جن ذروں کو میرے آ قا کی قدمبوسی کا شرف ملا ۔جو پتھر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوے چاٹتی رہے اور جو جڑی بوٹیاں میرے آ قا علیہ السلام کا نظارہ کرتی رہیں،اُن کی بلندیوں کو کون چھو سکتا ہے۔ اُن کی اس نسبت پر لا کھوں‘‘ مری اور سوات ’’ قربان اور کروڑوں سر سبز نظارے قربان۔
ہم مزدلفہ میں تھے۔سخت پتھریلی علاقہ۔یہیں کہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ،یوم عرفہ کے بعد،رات بھر قیام کیا تھا۔یہاں ایک مسجد ہے ،بڑی خوبصورت،وسیع اور کشادہ ،ہمیں اُسے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا شرف حا صل ہوا،اس کا نام ہے مسجد مشعر ِ حرام،سنا ہے کہ اس کی قبلے والی جگہ پر ،جہاں آ جکل امام کھڑا ہوتا ہے ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا رات بھر قیام رہا۔آقا نے یہیں مغرب اور عشا ء کی نمازیں اکٹھی کر کے پڑھی تھیں اور یہیں آ پ ﷺ مناجات میں مصروف رہے تھے اور ۱۰ تاریخ کی صبح کو بعد از نماز فجر ،یہیں سے منیٰ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ہم آگے بڑھتے چلے گئے اور منیٰ میں پہنچ گئے۔یاد رہے یہ سارا علاقہ حج کے دِنوں میں آ باد ہو نے والا علاقہ ہے۔ سال کے باقی دِنوں میں ،یہ جگہیں تعمیر ومرمت کے لیے زیادہ تر بند ہی رہتی ہیں اس لیے تفصیل سے دیکھنا ممکن نہ تھا۔اکثر راستے بند تھے اس لیے گاڑی پر بیٹھے بیٹھے ہی زیارتیں کر سکے۔ اس طائرانہ نظر سے تسلی تو نہ ہو سکی البتہ ان جگہوں کی زیارت ہو جانے سے روحانی خوشی ضرورحاصل ہوئی۔
شیطان کدھر ہے؟:
میرے ساتھی کہنے لگے ،‘‘ڈاکٹر صاحب وہ شیطان کدھر ہے،جس کو پتھر مارنے ہوتے ہیں ،ادھر آپ نہیں لے کر جا رہے،میں نے تو اس کے بارے میں بہت کچھ سوچ رکھا ہے۔’’میں نے عرض کی بھائی ،ہم عمرے پر آئے ہیں ،اس موقع پر شیطان کو کنکریاں نہیں مار سکتے۔رمی جمرات حج کا عمل ہے۔ویسے وہ جہاں پا یا جا تا ہے ،وہاں تمھیں لے چلتا ہوں۔’’لیکن میرے دوست کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی کیونکہ آج کل‘‘ شیطانوں ’’ کے پاس تعمیر و توسیع کا کام جاری تھا اور راستے بند تھے۔افسوس کہ میرے دوست کی‘‘ شیطان’’ سے ملاقات نہ ہو سکی،وگرنہ خطرہ تھا کہ دنیا شیطان سے پاک ہو جاتی۔وہ کہنے لگے ‘‘ڈاکٹر صاحب، آپ نے ابھی ابھی ایک لفظ بولا تھا رمی جمرات، یہ کیا چیزہے؟ ’’ ‘‘بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے’’میں نے عرض کی۔‘‘عام لوگ جس چیز کو ‘‘شیطان کو کنکریاں مارنا’’ کہتے ہیں ،اُس عمل کا صحیح نام رمی جمرات ہے۔یہ مسنون عمل ،حج کے موقع پر ،ذوالحجہ کی ۱۰،۱۱ اور ۱۲ تاریخ کو، یہاں منیٰ میں کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت کا ایک عمل ہے جو تسبیح ،ذکر اذکار اور دعاؤں پر مبنی ہو نا چاہیے لیکن جاہل عوام نے اسے ایک تماشا بنا دیا ہے ۔یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔اس کی روح عبات ،ذکر اور دعا ہے نہ کہ شیطان کو کوسنا ،گالیاں دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ کنکریاں اُس کو پڑ رہی ہیں۔یہ عمل منیٰ میں تین مقامات پر کیا جاتا ہے۔اُن مقامات پر ،ماضی قریب تک تو تین ستون بنائے گئے تھے لیکن اب وہاں دیواریں بنا ئی گئی ہیں۔ان تین ستونوں کو جمرات کہتے ہیں،جمرہ اولیٰ ،جمرہ وسطیٰ اورجمرہ عقبہ۔ہر جمرہ کو الگ الگ سات سات کنکریاں ماری جاتی ہیں اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون ہے۔ مٹھی بھر کر ایک ہی بار سات کنکریاں مارنا جائز نہیں ہے۔یار لوگوں نے ان جمرات کو ‘‘شیطان ’’قرار دے لیا ہے اورمعلوم نہیں کب اور کیسے اس عمل کو‘‘ شیطان پر کنکریاں مارنا’’ سمجھ لیا گیاہے ۔’’
منیٰ میں چونکہ، حج کے موقع پر ،لمبا قیام ہوتا ہے ،اس لیے وہاں اس قیام کو پر سکون اور آ رام دہ بنانے کے لیے حکومت کوششیں کرتی رہتی ہے۔لا کھوں کی تعداد میں ،وہاں خیمہ نما ،مستقل رہائشی کمرے بنے ہو ئے ہیں۔ حج کے زمانے میں یہاں ایک پورا شہر آ باد ہو تا ہے ،اس لیے تمام تر شہری سہولیات یہاں مہیا ہوتی ہیں۔منیٰ ،مزدلفہ اور میدان ِ عرفات میں گھومتے ہوئے ،یہی دعا رہی کہ مولا کریم ہمیں حج پریہاں آنے کی توفیق دے ،اصل لطف تو اُسی وقت حاصل ہوگا۔مجھ سے زیادہ میرے بھائی زمان صاحب کی لبوں پر تو یہی دعا رہی کہ اللہ اُن کے گھر والوں کو یہاں لائے۔ ہمیں اپنے مہربان اور پیار کرنے والے رب سے پوری اُمید ہے کہ وہ جلد ہی ایسے حالات پیدا فرمائیں گے کہ ہم فیملی سمیت اِن مقامات ِ حج پر حا ضر ہوں گے۔انشاء اللہ العزیز۔
عمرہ جعرانہ
مکہ مکرمہ میں جا کر ،انسان کا جذبہ عبادت قدرے بڑھ جاتا ہے۔نمازوں میں باقاعدگی اور ذکر اذکار میں اضافہ اور طواف میں کثرت دیکھنے میں آتی ہے۔انسان وہاں جو اعمال کرتا ہے اُن میں سے ایک مسجد عائشہ سے عمرہ کرنا ہے۔مسجد عائشہ ،تنعیم میں واقع ہے جوکہ حدود حرم سے باہر ،مدینہ منورہ کے راستے پر ایک مقام ہے۔مسجد میں جا کر انسان غسل کرتا ہے ،احرام باندھتا ہے اور دو رکعت نفل پڑھ کر عمرے کی نیت کرتا ہے اور حرم میں واپس آ کر،طواف اور سعی کرکے ،بعد میں حجامت کروا لیتا ہے اور یوں ایک عمرہ مکمل ہو جا تا ہے۔عوام الناس میں اس طرح عمرہ کرنے کا جتنا شوق پایا جاتا ہے ،محتاط اور مستند علما کرام میں اُتنا ،اس عمل سے اجتناب پا یا جاتا ہے۔وہ واضح طور پر اس طرح عمرہ کرنے سے روکتے بھی نہیں اور اس کی ترغیب بھی دیتے نظر نہیں آ تے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سے اس کی ترغیب نہیں پاتے۔ہم بھی اگرچہ اس کے جواز کے قائل ہیں ،لیکن ہمارے اندر بھی،قیام مکہ کے دوران میں بار بار اس عمل کو کرنے کا داعیہ نہیں پا یا جاتا۔میرے ساتھی،چودھری محمد زمان کی یہ خواہش تھی کہ وہ روزانہ ایک دو عمرے تو ضرور کرے،اس کے لیے راستہ اور اس کا طریقہ کار اُسے معلوم نہ تھا اور اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کے کے لیے مجھے ساتھ جانا پڑتا تھا اور میرا جو معاملہ ہے وہ اوپر لکھ چکا ہوں۔ان حالات میں ،بہر حال میں نے اپنے ایک کزن کو، جو جدہ میں بسلسلہ مزدوری ،رہتاہے،عرض کی کہ میرے اس دوست کو عائشہ مسجد لے جائے اوراِسے عمرہ کے لیے احرام بند ھوا لائے ،اور میں خود اس دوران میں حرم میں ،انتظار کروں گا اور پھر طواف اور سعی میں خود کروا لوں گا۔وہ دونوں چلے گئے اور بندہ ابھی ہوٹل میں ہی تھا کہ ،مکہ میں مقیم ایک اور دوست کا فون آ گیا کہ ڈاکٹر صاحب ،آپ اگر تیار ہوں تو میں آپ کو جعرانہ لے جا سکتا ہوں ،تاکہ آپ وہاں سے احرام باندھ کر آئیں اور عمرہ کریں۔میں جو اس طرح کے عمروں کے لیے زیادہ آمادہ نہیں تھا ،اس پیشکش پر فوراً تیار ہوگیا۔اپنے اس دوست سے وقت طے کر لیا اور اپنے برادر نسبتی محترم ڈاکٹر حافظ عطا ء الر حمان کے سامنے جب یہ تجویز رکھی تو وہ بھی فوراً اِس سعادت کے حصول کے لیے تیار ہوگئے۔ہماری اس فوری آمادگی کی ایک خاص وجہ تھی،آئیے،سطور ذیل میں آپ کو اس خاص وجہ سے آ گاہ کرتا ہوں۔
یہ مقام جعرانہ حدود حرم سے باہر ،طائف جانے والی سڑک پر واقع ہے۔مکہ مکرمہ کے قریب ،یہ واحد مقام ہے جہاں سے پیارے رسول سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا تھا اور عمرہ ادا فرمایاتھا ۔مذکورہ پیشکش میں ،ہمارے لیے ،دراصل، یہی کشش تھی کہ ہم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور پیروی میں،وہاں جانا اوریہ منزل طے کرنا چاہتے تھے۔ جعرانہ سے عمرہ کرنا ،عام نہیں ہے اس لیے میری یہ خواہش تو تھی لیکن ،کسی ہمدم دیرینہ اورواقف حال دوست کے بغیر،بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آ تا تھا،لیکن آج جب برادرم عبدالغفار نے یہ پیش کش کی تو دِل باغ باغ ہو گیا ،اگرچہ اس وقت کچھ حالات زیادہ موزوں نہ تھے ،لیکن پھر بھی ہم اس سعادت کے حصول کے لیے،بھائی عبدالغفار کے ساتھ ،اُن کی گاڑی پر چل پڑے۔ہمارے یہ دوست،باتیں کرنے کے دھنی ہیں۔گاڑی میں خاموش رہنا،ان کے لیے ممکن نہیں۔مجھے اس بات کا اندازہ تھا،میں نے بیٹھتے ہی عرض کی کہ ‘‘بھائی،جہاں آپ ہمیں لے چلے ہیں ،اُس کی تاریخی اہمیت سے تو ہمیں آ گا ہ کریں۔’’ وہ کہنے لگے کہ‘‘ ڈاکٹر صاحب ،مجھے تو کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے۔’’حافظ صاحب میرے اس سوال کا مطلب سمجھ گئے ،کہنے لگے ،‘‘بھائی جان! آپ ہی کچھ بتا دیں۔’’مجھے معلوم تھا کہ محترم حافظ صاحب،مجھ سے زیادہ اس کہانی سے واقف تھے لیکن محبوب ﷺ کے دیس میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے اور بیان کی سعادت کا موقع میں کھونا نہیں چاہتا تھا ،اس لیے بندہ نے جو کچھ عرض کیا ،اُس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ عمرہ مبارک ذی قعد کے مہینے میں وقوع پذیر ہوا۔صلح حدیبیہ کے بعد سے،مسلمانوں کے لیے دنیاوی سرفرازی کے جو راستے کھلے تھے ،ان کے نتیجے میں ، دو ہی سالوں کے اندر،فتح ِ مکہ کی راہ ہموار ہو گئی۔اس مہم پر حضور ﷺ ،مدینہ طیبہ سے ،۱۰۔رمضان المبارک،سن ۸۔ہجری کو،مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ کم و بیش دس ہزار صحابہ کرام کو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔اللہ کریم نے اپنی خاص مہربانی سے ایسے حالات پیدا فرما دئیے،کہ بغیر کسی جنگ و جدل اور خوں ریزی کے، مکہ، حضور اکرم ﷺکے قدموں میں آ گرا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے، لیکن اس موقع پر میرے آقا کا سرمبارک،شکر و امتنان کے جذبات کے ساتھ،اپنے اللہ کے حضور جھکا ہوا تھا۔اللہ کی مدد اور نصرت سے،مکہ سلطنت ِ مدینہ کا حصہ بنا اور حضور ﷺ کی رسالت و حکومت کا پرچم مکہ پر لہرانے لگا۔حق آ گیا اور باطل نیست و نابود ہو گیا ۔تسخیرِ مکہ کے بعد شرک نے اپنا آ خری مورچہ،مکہ کے مضافات میں،حنین کی پہاڑیوں میں جا لگایا۔تاجدار ِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ،شرک کی ان تیاریوں کی خبر ملی تو آپ نے اپنے جاں نثاروں کو،مشرکین سے آ خری معرکہ لڑنے کا حکم دیا۔کم و بیش بارہ ہزار کا لشکر تیار ہو گیا جو وادی حنین کی طرف چل پڑا۔شوال کے مہینے میں یہ غزوہ پیش آ یا ۔اس میں کئی مشکل ترین مراحل آئے،کئی بار کفر کا پلڑا بھاری نظر آیا، لیکن آ خر کار،مسلمانوں کو اللہ کریم نے فتح سے ہم کنار فرمایا۔اس جنگ میں لگ بھگ چھ ہزار مشرکین جنگی قیدی بنے اور بہت سا مال و اسباب اورمال مویشی ہاتھ آ ئے۔قیدیوں اور مالِ غنیمت کو،آپ نے اسی مقام جعرانہ پر بھیج دیا،جسے آپ نے پہلے ہی اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر قرار دے دیا تھا اور خود، دشمن کے تعاقب میں روانہ ہو گئے تھے۔حنین کی وادی سے شکست خوردہ دشمن،طائف کے قلعے میں گھس کر بیٹھ گیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعے کا محاصرہ فرما لیا۔حکمتِ عملی یہ اختیار فرمائی کہ بس ان کا محاصرہ کرنا ہے۔باہر کی دنیا سے دشمن کا رابطہ منقطع کرکے،انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرناہے۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے لشکر کو آ رام مل گیا۔زخمیوں کے زخم بھی بھرنے لگے اورمسلمان اپنے قائد کی قیادت میں ،اور آزاد فضا میں دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا کام بھی کرتے رہے۔دشمن اندر قید ہوکر رہ گیا تھا۔ان کا سامان خورو نوش ختم ہونے لگا تھا۔باہر سے ان کا رابطہ منقطع تھا۔اس سے ان کے لوگوں میں بد دلی اور مایوسی پھیلنے لگی۔غرض چند ہی دنوں میں ان کی قوت ِ مدافعت ختم ہو کر رہ گئی اور بغیر لڑے ان کے مفتوح ہونے کے آثار پیدا ہو گئے۔اُن میں سے کچھ لوگ، مدنی کیمپ میں آنے لگے ۔اس مرحلے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو محاصرہ اُ ٹھا لینے اور جعرانہ جا مقیم ہونے کے احکامات جاری فرما دیے۔
کئی دِ ن آپ ﷺ جعرانہ میں مقیم رہے۔ساتھیوں کی تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔اس مقام پر ہی آپ نے مال ِ غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔آس پاس کے قبائل کے سینکڑوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔اہل طائف میں سے بھی بیشتر لوگ یہیں پر ہی مطیع بن کر آ ئے۔اور آج یہی جگہ ہم دیکھنے جا رہے تھے۔
زمانہ قیام ِ جعرانہ میں ہی ،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ اپنے چند قریبی صحابہ کرام کو ساتھ لیا۔رات کے وقت احرام باندھا،تلبیہ پڑھتے پڑھتے،روانہ ہو گئے۔حرم میں جا کر،طواف فرمایا،صفا و مروہ کی سعی فرمائی،سرمبارک منڈوایا۔عمرہ مکمل کر کے ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہو تے ہی جعرانہ واپس تشریف لے آ ئے۔عام لشکریوں کو یہی معلوم ہوا کہ گویا آ پؐ رات اِ دھر ہی تشریف فرماتھے۔
میں یہ کہانی سنا رہا تھا تو میری آنکھیں جدید شہر دیکھ رہی تھیں۔مکہ شہر ایک خوبصورت شہر ہے۔سڑکیں بڑی عمدہ اور عمارتیں بڑی عالی شان ہیں۔پہاڑی شہر ہے لیکن اکثر جگہوں پر پہاڑ کاٹ کر عمارتیں بنائی گئی ہیں۔مکہ شہر کے اصل باسی ،یہاں ان علاقوں میں ،حرم سے دور رہتے ہیں ۔حرم کے آس پاس کا علاقہ تو ،زائرین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہوٹلز اور مارکیٹوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔شہری آ بادی ،شہری دفاتر اور شہری ادارے،سب حرم سے دور تعمیر کیئے گئے ہیں۔بعض پہاڑیوں کے اندر سرنگیں بنائی گئی ہیں۔حرم سے باہر جب بھی آپ کسی ٹیکسی یا پرائیویٹ گاڑی میں جاتے ہیں تو ان سرنگوں سے ضرور گزرنا ہوتا ہے۔ہمارے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی۔لاہور میں انڈر پاس دیکھے تھے لیکن یہ سفری سرنگیں اور ہی نوعیت کی ہیں۔ ہم جب جعرانہ جا رہے تھے تو جدیدشہر کا دیدار بھی ہو رہا تھا۔ام القریٰ یونیورسٹی بھی دور سے دیکھی۔ایک عظیم الشان جدید ترین فٹ بال گراؤنڈبھی راستے میں آیا۔یہ حدود حرم سے باہر تھا،بقول حافظ صاحب ،شاید اس لیے کہ غیر مسلم کھلاڑی بھی یہاں آ سکیں۔اتنے میں‘‘ جعرانہ’’ کی میقات آ گئی۔کوئی خاص رونق تو نہیں تھی ۔ایک دو آ دمی ،احرام باندھنے کے لیے آ ئے ہوئے تھے۔چھوٹا سا بازار تھا، کوئی رش وش نہیں تھا۔سادہ سی کچھ دکانیں تھیں۔میں تو ہوٹل سے ہی اپنا احرام لایا تھا،ڈاکٹر صاحب کو چونکہ ہم نے حرم سے ہی لیا تھا ،اس لیے ان کا احرام نہیں تھا اس لیے ایک دکان سے بھائی عطا الرحمان نے احرام خریدا۔ہم حماموں کی طرف گئے۔اگرچہ عصر کے بعد کا وقت تھا پھربھی قدرے گرمی محسوس ہو رہی تھی ۔ہم نے غسل کیا ،احرام باندھا اورمسجد شریف کے اندر آ گئے۔سادہ سی مسجد تھی،نہ بہت بڑی اور نہ بہت چھوٹی۔ دو رکعت نفل ادا کر کے ،لبیک اللھم لبیک کی صدا بلند کی۔اللہ کریم کے حضور اپنی حاجات و ضروریات پیش کیں۔دعاؤں کے دوران میں بڑی بیٹی سمیہ مریم خاص طور پر یاد آ ئی توہم نے اپنا یہ عمرہ اُس کے نام کر دیا۔
اپنی سوچ کی رو سے ،اگرچہ ہمیں یہ بات عجیب لگتی ہے کہ کسی اور کے نام کا عمرہ کیا جائے ،جیسا کہ وہاں عامۃ الناس میں عام رواج ہو تا ہے اور اس کی ایسی کوئی شرعی دلیل بھی ہمیں میسر نہیں ہے کہ جس سے اطمینان ہو جائے،لیکن پھر بھی ،بچی سے ،اُس وقت جو محبت و رافت کے جذبات امڈ کر آئے تھے اس کی بنا پر ہم نے‘‘ اپنی اس محنت ’’ کو بچی کے نام کرنے کا عہد کیا ،آگے اللہ جانے اور اس کا کام،کسی عبادت کی قبولیت یا عدم قبولیت تو میرے اُس مالک کا اپنا حق ہے ہم تو سراسر اُس کی رحمت پر آ سرا کیے ہیں ۔
مسجد سے باہر آئے تو بھائی عبدالغفار کہنے لگے ،‘‘یہاں ایک کنواں ہے جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اس میں میرے پاک نبی ﷺ نے اپنا لعاب دہن ڈالا تھا اور یہ میٹھا ہو گیا تھا ۔آئیے آپ کو اس کی زیارت کروائیں۔’’‘‘ضرور ضرور،اس سے بڑی عمدہ بات اور کیا ہو سکتی ہے۔’’ہم دونوں نے بیک وقت کہا۔وہ ہمیں لے کر ،مسجد کے دائیں طرف والی سڑک کو پار کر کے ایک چار دیواری کی طرف لے گئے اور کہا کہ اس کے اندر وہ کنواں ہے لیکن اس وقت وہ چار دیواری بند تھی،آس پاس کوئی بندہ بھی نہ تھا جس سے کوئی معلومات مل سکتیں اور کچھ ہمیں بھی جلدی تھی ،کیو نکہ ہماری خواہش تھی نماز مغرب حرم میں جا کر پڑھیں اس لیے ہم واپس آ گئے اس احساس شکر و امتنان کے ساتھ ،کہ ہم کچھ لمحات اس سر زمین کے ٹکڑے پر رہے جہاں کبھی میرے محبوب ﷺ اور اُن کے پیارے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین ،چلے پھرے ہوں گے۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔
واپسی پر ،ہمارے رہنما اور ہم پر یہ فکر غالب رہی کہ کسی طرح کم وقت میں حرم پہنچ جائیں۔وہ ہمیں مختلف شارٹ راستوں پرگھماتے پھراتے ،آ خر کا راس وقت حرم لے آئے جب نماز مغرب کی جماعت کھڑی ہو گئی تھی۔نماز کے بعد ہم نے عمرہ ادا کیا۔طواف اور سعی کے وہی پھیرے اور چکر ،لیکن ایک نئی لذت کے ساتھ،ہمارے گناہوں کی وہی پوٹلی لیکن ایک نئے رخ سے کھلی تودرِ مغفرت کو نئے اسلوب اور نئے ڈھنگ سے کھٹکھٹانے کا باعث بنی۔ نماز عشا کا وقت بھی ہو گیا اور نماز کے بعد ہم واپس بازار میں آ ئے اور ایک بار پھر اپنے سر پر استرا چلوایا اور یوں ہمارایہ یادگارعمرہ مکمل ہوا۔
مدرسہ صولتیہ
مکہ مکرمہ میں ہمارا قیام ،شیڈول کے مطابق ،کم ہورہا تھا۔عمرے پر آ تے ہو ئے میرے استاد محترم حا فظ ظہورالحسن صاحب نے حکم دیا تھا کہ اُن کے ایک کلاس فیلو ،حافظ سعید عنایت اللہ صاحب سے ملنا ہے جن سے عرصہ ہوا ان کا رابطہ منقطع تھا۔اُستاد صاحب کے بقول کئی سال قبل جب ،موصوف سے آخری بار رابطہ ہوا تھا وہ حرم کے قریب واقع ایک دینی مدرسے ،جس کا نام مدرسہ صولتیہ ہے،میں پڑھا رہے تھے۔مکہ مکرمہ آ کر میں اس مدرسے کی تلا ش میں تھا ۔چند ایک عربی لباس میں ملبوس لوگوں سے پو چھا بھی ،وہ کچھ نہ بتا سکے کیونکہ وہ خود بھی میری طرح وہاں اجنبی تھے اور جو چند ایک پاکستانی لوگ ملے جو وہاں مزدوری وغیرہ کر رہے تھے ، انھیں بھی کچھ خبر نہ تھی۔ہمیں صرف مدرسے کا نام اور ‘‘حرم کے آس پاس اس کے واقع ہو نے’’ کا ایڈریس معلوم تھا۔ہمارے دوست عبدالغفارصاحب نے یہ مشکل بھی حل کر دی اور انھوں نے مدرسہ صولتیہ کا محل وقوع سمجھا دیا۔ہماراشوق ہمیں کشاں کشاں وہاں لے گیا۔استقبالیہ پر تشریف فرما ایک صاحب سے ،اردو میں ہی ،مولانا سعید عنایت اللہ صاحب کا معلوم کیا جو انھوں نے کمال مہربانی سے بتا دیا اور آ خر کار ،ہم ان کے پاس پہنچ گئے۔
مدرسہ صولتیہ ایک دینی مدرسہ ہے جہاں بچے قرآن مجید کی تعلیم پاتے ہیں ،حفظ کی کلاسیں چلتی ہیں اور درس نظامی کا کورس پڑھایا جاتا ہے۔اس مدرسے کی عمر لگ بھگ ڈیڑھ صدی ہے۔ اس کی بنیاد ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی اور آج تک اُن کی اولاد ہی اس کا انتظام و انتصرام سنبھالے ہوئے ہے۔پورے سعودیہ میں یہ واحد مدرسہ ہے جو پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہا ہے اور جس کی ڈگری سعودیہ میں سرکاری سطح پر مانی جاتی ہے۔اپنی بلڈنگ اور رقبے کے اعتبار سے یہ مدرسہ کوئی زیادہ پر کشش نہیں ہے اور اپنی تعلیم وتربیت کے اعتبار سے کیسا ہے اس کا اندازہ اس مختصر ترین دورے میں ممکن نہ تھا۔ (جاری ہے )
٭٭٭