میں ہمیشہ سے بہت مذہبی واقع ہوئی ہوں۔میری امی کا کہنا ہے کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا، جب میں نے خدا کا ذکر نہ کیا ہو۔دوپہر کے کھانے کے وقفے میں مذہبی رسوم ادا کرنے کی غرض سے میں عام طور پر گرجا گھر چلی جاتی تھی۔اتوار کو علی الصبح بیدا ر ہو کر عبادت کے لیے جانا بھی میرے معمولات میں شامل تھا۔میرے والدین کو مذہب سے میری اس دلچسپی کی کوئی پروا نہ تھی۔کیونکہ انہیں مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔دس برس کی عمر میں ہی مجھے یہ احساس ہو چلا تھاکہ ایٹمی اسلحہ انسانیت کے لیے کتنی بڑی تباہی لا سکتا ہے چنانچہ چھوٹی عمر ہی سے میں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہوناشروع کر دیا تھا۔ میں اس زمانے میں رونالڈ ریگن ، یوری اندروپوف اور مارگریٹ تھیچر کے نام خطوط میں ان سے درخواست کرتی تھی کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر دیں۔سماجی انسان کا مجھے نہایت گہرا شعو ر حاصل تھااور مجھے پختہ یقین اور اعتماد حاصل تھا کہ میں بالکل صحیح نظریات اور درست انداز فکر کی حامل ہوں۔اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ بہت چھوٹی عمر سے مجھے بڑوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع مل گیا تھا۔ میری والدہ ایک ماڈلنگ ایجنسی چلا رہی تھیں اس لیے ہر طرز فکر کے لوگوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا جن میں عیسائی ، یہودی اور مسلمان سبھی شامل تھے۔میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔یہی وجہ تھی کہ میں اورمیرے بھائی بہن مذہبی تعصبات سے دورہی رہے۔میرے بھائی نے ہندستان کی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنے کی غرض سے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ میرے والدین نے اپنے بیٹے کے قبول اسلام پر کوئی بڑا ہنگامہ کھڑ ا نہ کیاتاہم میں بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی۔ جب میری بھاوج کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی اور اس کا نام رکھا گیا تو وہ میرے لیے بالکل اجنبی تھا اور میں سوچنے لگی کہ ایسا نام کیسے ہو سکتا ہے۔اپنے مذہبی رحجانات کے سبب میں خود ہی اپنے مذہبی تعصبات کا شکار ہو چلی تھی۔ میں نے بھائی کے قبول اسلام کو ذہنی طور پر قبول نہ کیا تھا۔ بہر کیف جس انداز میں میری تربیت ہوئی تھی اس نے مجھے یہ سمجھنے میں بڑی مدد دی کہ ‘‘دنیا میں ہر خوف کی بنیاد اصل میں لاعلمی ہوتی ہے’’ چنانچہ میں نے اس لاعلمی کو دور کرنے کے لیے اسلام کے مطالعہ کا فیصلہ کیا ۔اس مطالعے اور تحقیق کے دوران یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی کہ کیتھولک چرچ کی تاریخ میرے لیے بالکل قابل قبول نہیں۔یہ سب انکشافات میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔عیسائیت سے میرا ایما ن اٹھ چکاتھا۔اور کچھ عرصہ کے لیے میں خود کو برزخ میں محسوس کر رہی تھی۔میرے ذہن میں عجیب طرح کے خیالات آنا شروع ہو گئے۔اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر مذہب کی ضرورت ہی کیوں ہے؟
جوں جوں میں اسلام کامطالعہ کرتی رہی ، اسلام سے میری دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی۔کیتھولک چرچ کی تعلیمات میں ازلی گنا ہ کاتصور میرے لیے بالکل بھی قابل قبول نہ تھا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسلام میں اس طرح کا کوئی تصور موجو د نہیں۔میں خود کو اسلا م کے بہت قریب محسوس کرنے لگی۔تا ہم جب میں نے اپنے والدین کو اپنے خیالات سے آگا ہ کیا تو انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ سر پر حجاب پہننے کا تصور ان کے لیے سوہان روح تھا۔اور یہ تھا بھی عجیب کا ایک ماڈل ایجنٹ کی بیٹی سر پر حجاب رکھنے جارہی تھی۔جب میں اکیس برس کی ہوئی تو میری ملاقات محمود سے ہوئی جو اب میرے شوہر ہیں۔ میرے باس اور ان کے دوست محمود کا خیال تھا کہ ہم خیال او رہم مسلک لوگوں کے مابین شادی زیادہ کامیاب ہوتی ہے ۔ چنانچہ میں نے محمود سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
نائن الیون کے بعد ہم دونوں لیکچر دینے کی غرض سے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ اس دوران میں اسلام کے بارے میں جاننے اور اس کی تعلیمات کو جاننے کا جنون مغرب میں پیدا ہو چکا تھاچنانچہ ہم نے ان کے اس جنون سے فائدہ اٹھایا اور ہر ہر جگہ لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے آگا ہ کیا۔ہم دہشت گر دی کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کیا کرتے تھے کہ مسلمان ہونے کا اصل مطلب کیا ہے؟اور ایک مسلمان کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔اس سفر میں میرے بیٹے کی عمر فقط تین ہفتے کی تھی اور بعض اوقات لیکچر کے دوران بھی مجھے اسے ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ جن باتوں اورجن چیزوں کے آپ خلاف ہیں صرف ان کا تذکر ہ کر کے ہم اپنے آپ کو ٹھیک طور سے متعارف کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلکہ ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ مسلمان کا بنیادی مقصد اور نصب العین کیا ہے ؟مسلم کمیونٹی کس قدر متنوع ہے اور کس طرح اس کمیونٹی میں اپنی شنا خت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ہم نے امید کے نام سے ایک میگزین جاری کیا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی مانندبالکل نارمل ہوتے ہیں۔اس میگزین کو توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی اور اب غیر مسلم بھی اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ اسلام اورعیسائیت کے پیروکاروں کے مابین سنجیدگی سے مکالمہ ، تبادلہ خیال اور گفت وشنید کی ضرورت ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ایک ایساماحول تخلیق کرنا چاہیے کہ جہاں بچے آزادی کے ساتھ پروان چڑھ سکیں ۔ وہ چاہیں تو اسلام قبول کریں چاہیں تو نہ ۔ ایسی ہی دنیا ہم سب کے لیے محفوظ ترین اور پرامن مقام ہو سکتا ہے ۔ میں اب اسی کوشش میں مصروف ہوں۔
(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار ، نئی دہلی ، دسمبر ۲۰۰۸)