ترجمہ: محمد صدیق بخاری
آج کل کی زندگی میں اعصابی دباؤ یا تناؤ کم وبیش ہر شخص کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے اور اس سے بچاؤ کی کوئی حقیقی صورت بھی نظر نہیں آتی۔تا ہم جب یہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اپنے ساتھ اور بہت سے امراض کو کھینچ لاتے ہیں مثلاً بھوک کا کم ہونا، نیند کافقدان، قوت برداشت کا ختم ہونا، اور بالآخر اعصاب کا جواب دے جانا۔یہ صورت حال کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلسل ذہنی و جسمانی دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسے شخص میں یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ اسے اپنے حالات پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ بس اسے حالات کے دھارے کے ساتھ بہتے چلے جانا ہے۔ایسے میں اس کی نہ صرف تخلیقی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے بلکہ وہ مایوسی اور چڑ چڑ ے پن کا شکار بھی ہوجاتا ہے ان حالات میں بعض اوقات تو اس کی ملازمت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا بزنس متاثر ہوتا ہے اورساتھ ہی اس کی صحت بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا تدابیر ہیں کہ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے ان حالات سے بچا جا سکتا ہے یا کم ازکم انہیں کنٹرول میں لایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک معلو م حقیقت ہے کہ اعصابی تناؤ ، دباؤیا کھنچاؤ عام طور پر حالات کا نتیجہ ہوتا ہے تا ہم اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی یا تباہی میں حالات سے زیادہ انسان کی اپنی اندرونی کیفیت کا زیاد ہ دخل ہوتا ہے۔یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کسی انسان میں کسی خاص عمل کا کیا خاص رد عمل پیدا ہوتا ہے ۔یہ رد عمل ہر انسان کے ہاں مختلف ہو گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس کی پرورش ، تعلیم و تربیت کس نہج پر ہوئی ہے ، وہ کس معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی اپنی نفسیات کس مقام پر کھڑی ہے ۔اس تعین کے نتیجے میں ہر انسان کو اس کے حالات کے مطابق دباؤ کم کرنے کے لیے چند خاص مشورے دیے جا سکتے ہیں تا ہم یہاں ہمارا مقصود ان عمومی تجاویز کو پیش کرنا ہے کہ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے ہر انسان دباؤ کوکسی حدتک کم کر سکتا ہے۔
غیر ضروری دباؤ سے بچنے کی کوشش کریں
بعض اوقات بہادری کے ساتھ کسی صور ت حال کا سامنا کرنا ہی اس کا حل ہوتا ہے اور بعض دوسرے حالات اورمقامات پر صورت سے پہلو تہی مناسب ہوتی ہے۔اپنے پیشے ، حالات اور واقعات کے حوالے سے ہر شخص کو اپنے حدود کا تعین خود کرنا ہوتا ہے ۔اسے اس بات کو خود طے کرنا ہوتا ہے کہ کب اس نے حالات کا سامنا کرنا ہے اور کب اس نے پہلو بچا کر گزر جانا ہے۔عمومی حالات میں مناسب یہی ہوتا ہے کہ اپنی استعداد سے زیادہ کام نہ کیجیے ۔کیونکہ یہ دباؤ میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ان لوگو ں سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ پر اعصابی دباؤ بڑھتا ہے بلکہ بعض حالات میں تو ایسے لوگوں پر دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کردینا ضروری ہوتا ہے کہ ان کے حدود کیا ہیں اور آپ کی حدکیا ہے خواہ اس کا نتیجہ تعلقات کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔
کوشش کریں کہ آپ کا موڈاور مزاج خوشگوار رہے۔اپنے گھر میں بھی خوشگواری کاماحول برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔غیر منظم ، بے ترتیب ، اور بکھر ی ہوئی زندگی گزارنے سے گریز کریں۔اگر ٹریفک کا اژدہام آپ پر دباؤ طاری کرتا ہو تو کم رش والا راستہ اختیارکریں یا گھر سے جلد نکلنے کی کوشش کریں۔اختلافی مسائل پر بحث سے گریز کریں اور فضول بحث میں الجھنے سے بھی۔شام کو کسی کھلے پارک میں چہل قدمی کو ترجیح دیں۔ کرنے کے کاموں کی ایک فہرست ہمیشہ بنارکھیں لیکن یہ خیال رکھیں کہ اس فہرست میں یہ امتیاز ضرور کریں کہ کون سی کام آپ کو کرنے چاہییں اور کون سے کام وہ ہیں جو آپ کو ہر صورت کرنے ہیں۔
صورت حال کے بعد
اگر کسی صورت حال سے دامن بچانا ممکن نہ ہو تو کوشش کریں کہ اسے اپنے مطابق تبدیل کر لیں۔اور اس عمل کو آپ روز مرہ زندگی کے بارے میں اپنے طرز فکر میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے ممکن بنا سکتے ہیں۔غصے ، جھنجھلاہٹ اور رد عمل کی بھاپ کو دوسروں سے ذکر کر کے نکالنے کی کوشش کریں۔یاد رہے کہ اس کے لیے مناسب ، بااعتماد اور حکیم لوگوں کا انتخاب کیجیے ورنہ یہ تذکر ہ آپ کی ٹینشن کو اور بڑھا بھی سکتا ہے۔غصہ اور ردعمل اتنا نقصان کا باعث نہیں بنتا جتنا اس کو جمع کرتے رہنا۔ اس لیے اس بھاپ کو مناسب موقعوں پر مناسب لوگوں کے سامنے نکالتے رہیے ۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجا کرتی۔اس لیے آپ کو اپنے حصے کا کردار ادا رکرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔جب آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے آپ کے لیے تبدیل ہوں تو بعینہ دوسرے بھی یہی توقع آپ سے رکھتے ہیں کہ آپ بھی ان کے لیے تبدیل ہوں۔قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق قول سدید اختیار کریں یعنی صاف ستھری اور سیدھی سادھی با ت کرنے کی عادت ڈالیں۔ دوسروں کو مغالطے ، دھوکے اور انتظار میں مت رکھیے اور نہ دوسروں کے مغالطے اور دھوکے میں آئیے ۔ یا د رکھیں کہ آ ج کل لوگوں میں بے مقصد بات کرنے، جھوٹے وعدے کرنے اور جھوٹی باتیں کرنے کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے اس لیے خود میں یہ صلاحیت پیدا کیجیے کہ آپ یہ تعین کر سکیں کہ دوسرا محض اپنی عادت کے تحت بول رہا ہے یا واقعی آپ سے مخلص ہے اور قول سدید کہہ رہا ہے۔‘کل ’کا لفظ بہت غلط استعمال کیا جا رہاہے اس بات کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کر یں کہ آپ کا مخاطب لفظ‘ کل’ کومحض عادتاً بول رہا ہے یاوہ واقعی مخلص ہے۔
اپنے وقت کا ایک نظم بنائیے اور اپنی ترجیحات کاتعین کیجیے اور دوسروں پر ان کو واضح بھی کردیں تا کہ عین وقت پر آپ کو پریشانی نہ اٹھانا پڑے۔اس کے باوجود کسی کو پریشانی ہوتی ہے تو ہونے دیجیے ۔ آپ اپنے سکون کو برقرار رکھیے۔
تبدیلی ممکن نہ ہو تو صورت حال کو قبول کر لیجیے
بعض اوقات اعصابی تناؤ پیدا کرنے والی صورت حال ناگزیر ہوتی ہے اس صورت میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ اسے قبول کر لیجیے ۔اور اس سے سمجھوتہ کرتے ہوئے زندگی گزارنا سیکھ لیجیے تکالیف ، حالات کا اتار چڑھاؤ ، مسائل ، بیماریاں اور بیمار ذہن لوگ زندگی کا حصہ ہیں۔ ان سب کے ساتھ ہی زندگی بسرکرنا سیکھیے ۔ مسائل فری زندگی کی تمنا عبث ہے ۔ایسی زندگی صر ف جنت میں ممکن ہے۔اس دنیا کا قانون ہی آزمایش ہے۔اور اللہ آزمایش مسائل ہی کے ساتھ کرتا ہے۔بعض اوقات ناگہانی مصیبت بھی انسان کو سٹریس میں مبتلا کر دیتی ہے ،اور بعض اوقات کسی عزیزکی موت ۔کسی وقت افراط زر آپ کو پریشانی میں مبتلا کرتا ہے تو کسی وقت عالمی مندے کارجحان، کسی وقت ملکی حالات پر آپ کڑھنے لگتے ہیں تو کسی وقت عالمی سیاسی اتار چڑھاؤ آپ کو دباؤ میں مبتلا کر دیتاہے۔ صرف یہی نہیں بعض اوقات بیوی کا رویہ ، بچوں کاعدم تعاون، ان کے تعلیمی معاملات بھی آپ پر منفی اثرات مرتب کر تے ہیں۔ان سب صورتوں میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ حالات کو قبول کر لیں اوران میں رہتے ہوئے ان کی اصلاح کی اپنی سی کوشش کرتے رہیں اور سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ رہنا ہی آپ ہی کامقدر ہے ۔
مشورہ کیجیے
اپنے غبار کو نکالتے رہیے ۔ اپنے جذبات و خیالات میں بااعتماد دوستوں کو شریک کیجیے ۔جذبات کا اظہار بھی سٹریس کو کم کر دیتا ہے اور اس سے بعض اوقات نئے گوشے بھی واضح ہوجاتے ہیں۔جو حالات میں گھرا ہو وہ حالات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا ۔ دوسرے غیر جانبداری سے اس کوزیادہ واضح کر سکتے ہیں۔مشورہ کرنا سٹریس کو کم کرنے کا ایک انتہائی قابل عمل حل ہے۔حدیبیہ کے مقام پر جب رسول کریمﷺ ایک غیر متوقع صورت حال سے دوچار ہوئے تو آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ سے مشورہ کیا اور صورت حال کاحل نکل آیا۔
نامکمل دنیا اور نامکمل لوگ
یہ بات یادر کھنے کے قابل ہے کہ ہم ایک نامکمل دنیا کے باسی ہیں۔کاملیت perfection ، مثالیتidealism کو کبھی ٹارگٹ نہ کیجیے ۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ دوسروں کی غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا سیکھیے ۔ دوسروں کی غلطیا ں معاف کیجیے تا کہ اللہ آپ کی غلطیا ں معاف کرے۔اگر آپ نے کامیابی کا معیار کاملیت یا اکملیت ہی کو ٹھہر ا لیا ہے تو جان لیجیے کہ ناکامی آپ کا مقدر ہے ۔ اس ضرب المثل کو یاد رکھیے کہ کامیابی کبھی حتمی نہیں ہوتی اور ناکامی کبھی مہلک نہیں ہوتی ۔گر کر اٹھ جانے کی ہمت اور پھر سے چل پڑنے کی اہلیت ہی وہ اصل بات ہے جو ااہمیت کی حامل ہے۔
حقیقت پسندی
خود سے اور دوسروں سے حقیقی امیدیں وابستہ کیجیے ۔مناسب پر اکتفا کر لیجیے نہ کہ ہمیشہ اعلی کی طلب کریں۔رجائیت پسند بننے کی کوشش کریں اورجب قنوطیت آپ پرغلبہ پانے کی کوشش کرے تو ایک لمحے کو ٹھہر کر ذرا ان نعمتوں پر غور کر لیں جو آپ کو میسر ہیں۔ان صلاحیتوں پر اللہ کا شکر ادا کر لیں جو آپ کے پاس موجود ہیں او ریہ دیکھ لیجیے کہ کتنے ایسے ہیں جن کے پاس یہ بھی موجود نہیں۔حقیقت کا ادراک اور چیزوں کو سادہ طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرنا آپ کے معاملات کو بہت سے بگاڑ سے بچا سکتا ہے۔
خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں
اگر آپ نہ تو صورت حال سے پہلو تہی کر سکتے ہوں ، نہ ہی اسے تبدیل کر سکتے ہوں اور نہ ہی اسے قبول کر سکتے ہوں تو خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اپنی امیدوں اورترجیحات کا نئے سرے سے تعین کیجیے ۔وقت کو متبادل طریقے سے استعمال کر نا سیکھیے۔ مثلاً آپ ٹریفک میں پھنس کر خود کو کوسنے یا کڑھنے کے بجائے اس وقت کا متبادل او ربہتر استعمال کرنا سیکھیں۔اس وقت ریڈیو سننے کی کوشش کریں۔کسی ایسے دوست کوکال کرنے کی کوشش کریں جس کو آپ عرصہ سے چاہ رہے تھے مگر مصروفیت آڑے آ رہی تھی۔مسائل کے تجزیے میں حقیقت پسندی سے کام لیجیے پریشان ہونے سے پہلے ایک بار پھر غور کر لیجیے کہ کیا یہ مسئلہ اس قابل بھی ہے کہ اس کے لیے پریشا ن ہو ا جائے۔
اپنی تربیت
سٹریس کو کم کرنے کے لیے بعض ایسے نکات جن پر آپ خود ہی عمل کر سکتے ہیں
۱۔ زندگی کی ہما ہمی او رگہما گہمی کو ایک حد سے آگے نہ گزرنے دیں۔
۲۔ خود کو سمجھاتے رہیے اس سے پہلے کہ دوسرے آپ کو سمجھائیں۔
۳۔ تفریح و آرام کے لیے بھی وقت فارغ کریں۔
۴۔ دوسروں سے رابطہ رکھیں اور ان کے خیالات پر بھی غور کرتے رہیں۔
۵۔ زندگی کی روٹین سے نکل کر کچھ ایسی مصروفیت بھی اپنانے کی کوشش کریں جو آپ کی دلچسپی کا باعث ہوں مثلاً باغبانی ، تاروں بھرے آسمان کو دیکھنا ، چاندنی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرنا،صبحدم باغ میں کلیوں کی ہمنشینی اختیار کرنا، موسیقی سے لطف اندوز ہونا یا لمبی ڈرائیونگ کرنا وغیرہ.
۶۔ اپنی حس مزاح کو زندہ رکھیں اور فکر کو ہنسی سے اڑانے کی کوشش کریں۔
۷۔ مثبت اور صحت مند طرز زندگی اختیار کریں۔
۸۔ روزانہ ورزش کریں۔
۹۔ نماز کی پابندی کریں اور مراقبہ کی عادت اپنائیں۔
۱۰. متوازن غذا کھائیں۔
۱۱۔ سماجی تقریبات و مصروفیات میں شمولیت اختیار کریں۔
۱۲۔ چینی ،چکنائی اورچائے کی زیادتی سے پرہیز کریں۔
۱۳۔ سگریٹ ، پان، چیونگم اور چاکلیٹ کو مکمل طور پر ترک کر دیں۔
۱۴۔ روزانہ کم ازکم نیند ضرور پوری کریں ۔ ( پانچ سے چھ گھنٹے )
اگر میں ان سب معروضات کا خلاصہ کرنا چاہوں تو کہوں گا کہ اصل میں سٹریس، ٹینشن اور اعصابی دباؤ کا علاج متوازن اور معتدل طرز زندگی میں ہے۔ خوراک ہو ،کام ہو یا آرام ، سماجی تعلقات ہوں، کھیل و تفریح ہویا دیگرمصروفیات ان سب میں اعتدال اور توازن ہی ہمارے اندروہ حوصلہ پیدا کر سکتا ہے کہ ہم دباؤ کے باوجود بھی نارمل رہ سکیں اور زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اعصابی تناؤ کا شکار نہ ہوں۔ زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کا رویہ اپنا نا ہی اصل حل ہے۔ یہی ہمارے دین کا تجویز کردہ اصول ہے اور یہی عقل و حکمت کا کہنا۔
خلاصہ
سٹریس کی چار قسمیں ہیں۔
ذہنی یا نفسیاتی، جسمانی، ادراکی اور جذباتی
ذہنی یا نفسیاتی سٹریس کی علامات
۱۔ افراط طعام یا قلت طعام
۲۔ افراط نوم یا قلت نوم
۳۔ کاموں کو التوا میں ڈالنے کی عادت
۴۔ بری عادات
۵۔ اعصابی بے چینی
۶۔ فضول بحث مباحثہ کی عادت
ادراکی سٹریس کی علامات
۱۔ منفی دباؤ یا مایوسی کی علامات
۲۔ یادداشت میں خرابی
۳۔ قوت فیصلہ کی کمی
۴۔ ارتکاز توجہ کی کمی
۵۔ چیزوں کی پرکھ میں کمی
۶۔ ہر بات پر فوری رد عمل
جسمانی سٹریس کی علامات
۱۔ سر درد
۲۔ کمر درد
۳۔ اعصابی تناؤ، کھنچاؤ
۴۔ بلند فشار خون
۵۔ قبض
۶۔ نیند کی کمی
۷۔ سینے کا درد
۸۔ نزلے زکام کا عود کرآنا
جذباتی سٹریس کی علامات
۱۔ اپنے ہی موڈ میں رہنا
۲۔ جلد غصے میں آ جانا
۳۔ بے چینی کا احساس
۴۔ تنہائی کا احساس
۵۔ بے آرامی
۸۔ نظر انداز کرنے کی عادت
اگر آپ ان میں سے کوئی بھی علامت محسوس کریں تو آپ کو چاہیے کہ جلد از جلد اس کا تدارک کریں اس سے پہلے کہ یہ آپ کے ایک لیے مسئلہ بن جائیں اور آپ کو مایوسی اور ناکامی کی وادی میں دھکیل دیں۔