چند معاشرتی خرابیاں اور ان کاعلاج

مصنف : شہزاد احمد رضی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2009

              آج کے پُر آشوب دور میں اسلام کی اصل روح کو جس شدت سے بیدار کرنے کی ضرورت ہے، اتنی شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بہت ساری ایسی چیزوں کو اسلام کا حصہ سمجھ لیا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ہم ان کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق ہمارے عقائد سے اور کچھ کا تعلق ہمارے رویوں سے ہے۔ ان میں سے کچھ کو تو ہم اپنی نجات کا بنیادی ذریعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اگر ہم تعصب اور تنگ نظری کے بغیر دیکھیں تو ہمیں یقینا اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایسی چیزیں تو ہمارے معاشرے میں بہت ساری ہیں لیکن ہم اس مضمون میں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔

            ہمارے ہاں ایک عجیب سی اجتماعی عادت پائی جاتی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب آپ ؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی بات ہو تو ہم اس سے کنی کترا کر نکل جاتے ہیں اور‘‘وہ تو نبی تھے ہم بھلا دنیا دار اور گناہگار لوگ کیسے ایسا کر سکتے ہیں؟’’ یا ‘‘کیا کریں دنیا داری بھی تو دیکھنی پڑتی ہے’’ وغیرہ جیسے گھسے پٹے فقرے بول کر اپنی دنیا داری میں مگن ہو جاتے ہیں، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی کیا یا فرمایا ، ہمیں بھی وہی کچھ کرنا چاہیے۔ اگر آپؐ کے اقوال یا اعمال پر عمل ناممکن ہوتا تو سورۃ الاحزاب میں یوں نہ فرمایا جاتا: لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ. (آیت ۲۱)

            ‘‘مسلمانو! یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐ ہی بہترین نمونہ ہیں۔’’

             محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کی ہر خواہش اور عمل کی اتباع اور پیروی کی جائے۔ ہمارے ہاں آج کل آپؐ سے اظہار محبت کا معیارصرف باتیں کرنا رہ گیا ہے ۔

            ایک اور عادت جو ہمارا ٹھوس عقیدہ بن چکی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اولیاء کرام کی تعلیمات اور ارشادات پر عمل تو کرتے نہیں، البتہ ان کے مزارات کو عبادت گاہیں ضرور بنا لیتے ہیں۔ہم شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت علی ہجویری، حضرت بابا فرید ، حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہم سے محبت کے دعوے دار تو ہم ہیں لیکن ہم نے ان کی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اگر ہم ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو ان کا مذاق کیوں اڑاتے ہیں؟ بزرگانِ دین کے عرس کے موقع پر ہم سرکس، تھیٹر، قمار بازی اور دوسری خرافات کا جو بندوبست کرتے ہیں، کیا یہ ان کی تعلیمات کا مذاق نہیں؟ غنیۃ الطالبین اور کشف المحجوب پڑھ کر دیکھ لیں یا کسی اور ایسی شخصیت کی کتاب یا کلام پڑھ کر دیکھیں، کہیں بھی ایسے افعال کا تذکرہ نہیں ملے گا، لیکن آج ہم یہ سب کچھ ان کے نام پر کر رہے ہیں۔ ہم اولیاء کرام کو راضی کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت سے یہ خود ہی ہمارا معاملہ طے کر لیں گے، حالانکہ یہ سراسر بھول ہے۔ ہمیں اپنے انداز بدلنے چاہییں اور ان اولیا ء کرام کی اتباع میں اللہ کو راضی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔

            ایک اور بری عادت جو ہمارے معاشرے خصوصاً دیہاتوں میں تو حد درجہ عام ہے، وہ ‘‘پیر پرستی ’’ ہے۔ اگرچہ شہر کے لوگ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہیں لیکن شہروں میں یہ قدرے کم ہے۔ بعض جگہ تو یہ عادت شرک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اگر کوئی پیر اللہ اور رسولؐ کی اتباع کی دعوت دے تو اس کی بات ضرور ماننی چاہیے، مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ بہت سارے نام نہاد پیر وہ لوگ ہیں جن کی اپنی اخلاقی اور مذہبی حالت خطرناک حد تک غیر شرعی ہے، لیکن وہ اپنے بزرگوں کے گدی نشین بن کر بیٹھے ہیں۔ ان ہی کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا: زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!

            ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت سے منسلک ہو کر شریعت پر عمل کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور ان کے مریدین جو مرضی کریں، وہ پکے جنتی ہیں۔ ایسے ایسے پیر حضرات بھی ہیں جو اپنے مریدین کو نماز و روزہ سے روکتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے بزرگوں کا وسیلہ ان کے مریدوں کو دوزخ میں جانے ہی نہیں دے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ محبوب رب العالمین، سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور آپؐ کے اہل بیت کو تو عبادات اور دوسرے احکام دین سے استثنا نہ مل سکا، اور آج کے پیر یہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے! ان میں سے بہت سارے پیر حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے مریدن کو فحش گالیاں بکتے ہیں اور کئی تو اس سے بھی بڑھ جاتے ہیں اور اپنے مریدین سے غیر اخلاقی اور غیر شرعی مطالبات کرتے ہیں، جبکہ مرید بے چارے ، اپنی جہالت کی بنا پر ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی ناراضی کو خدا کی ناراضی سے بھی بڑی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اہل اسلام سے گزارش ہے کہ شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کریں اور اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل کریں۔

            ان کے علاوہ کسی کی وفات پر جو ہمارے ہاں رسومات ہیں، انہوں نے معاشرے میں بہت ساری برائیوں اور پریشانیوں کو جنم دیا ہے۔ ان رسومات پر بے انتہا اسراف کیا جاتا ہے۔ اس قدر اسراف کے باوجود شریک محفل لوگوں میں کسی نہ کسی کو کھانے کے معاملے میں اعتراض رہتا ہے ۔ اگر ہم مرحومین کے لیے کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ان کی طرف سے صدقہ جاریہ کر دیں، جیسا کہ حضرت محمد بن عبادہؓ کے پوچھنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کرنے کو کہا تھا جس پر انہوں نے اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے کنواں کھدوا دیا، تاکہ اس کا ثواب مرحومہ کو ملتا رہے۔ ہمیں بھی مرحومین کے لیے ایسا کوئی نیک کام کرنا چاہیے نہ کہ بدعات میں پڑنا چاہیے۔

            ایک اور قبیح عادت جو ہمارے معاشرے میں رواج پا رہی ہے ، یہ ہے کہ ہم عورتوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، حالانکہ اسلام نے عورتوں کو جتنے حقوق دیے ہیں، وہ کسی مذہب نے نہیں دیے۔ عورت ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی ہر روپ میں قابل احترام ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بعض گھرانوں میں بیٹی کی پیدایش پر جس طرح افسوس کا مظاہرہ ہوتا ہے، اس کو دیکھ کر زمانۂ جاہلیت اور ہندوانہ معاشرے کا دور تازہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کے ہاں دو جڑواں بچیاں پیدا ہو جائیں تو لوگ ان کے گھر ایسے افسوس کرنے آتے ہیں جیسے کسی عزیز کے فوت ہونے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہیز اور بارات کے طوق و اغلال ہیں جو ہم لوگوں نے خود اپنے گلے میں ڈال رکھے ہیں۔ دین اسلام میں ان کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ لڑکے کے پیدا ہونے پر مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، چاہے وہ بعد میں کیسا ہی نا خلف ثابت ہو، لیکن بیٹی جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے، اس کی پیدایش پر صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھول جاتے ہیں کہ: مَن عَالَ جَارِیتَینِ حَتّٰی تَبلُغَا جَاءَ یَومَ القِیَامَۃِ اَنَا وَہُوَ وَضَمَّ اَصَابِعَہُ.

            ‘‘جو شخص دو لڑکیوں کا بار اٹھائے اور ان کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ شخص قیامت کے دن (اس طرح اکٹھے) آئیں گے۔(حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ) آپؐ نے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا کر دکھایا۔’’

            یعنی بیٹیوں کی اچھی پرورش پر اس قدر اعزاز ہے تو ہم کیوں اس قدر افسوس اور ماتم کا اظہار کرتے ہیں ؟ شہروں میں تو پھر بھی عورت کو احترام دیا جاتا ہے لیکن ہمارے دیہات میں توصورت حال خاصی مخدوش ہے۔ دیہات میں عورت کو غیر اسلامی رسومات کی قربان گاہ پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ ہماری انھی غیر اسلامی عادتوں کی وجہ سے نام نہاد حقوق نسواں کی تنظیموں کو ہمارے مذہب اور اس کے ماننے والوں پر اعتراضات کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں اپنا منفی رویہ ترک کرنا چاہیے، کیونکہ اگر عورت اتنی حقیر ہوتی تو جنت ماں کے قدموں تلے نہ ہوتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہندوانہ سوچ کو چھوڑ دیں جو عورتوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا رویہ بھی ایسا ہونا چاہیے جیسا ہمارا مذہب ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ میثاق، لاہور، اپریل 2009ء)