ایسا تو کوئی بد دیانت، بدکردار، ظالم اور جابر تھانیدار بھی نہیں کرتا کہ اس کے سامنے ایک تصویر، فلم یا موبائل میں موجود کوئی مبہم سی ویڈیو رکھی جائے اور کہا جائے کہ ا س میں کیا جانے والا جرم فلاں قصبے، گاؤں، علاقے یا فلاں فرد نے کیا ہے اور وہ قلم کاغذ اٹھائے، رپورٹ بنائے، ایف آئی آر کاٹے اور پھر نفری لے کر اس طرف چڑھ دوڑے۔ ساری تفصیلات کسی کرائم رپورٹر کو بتائے اور پھر پورے علاقے میں اس کا چرچا کر دے۔ پاکستان کے گئے گزرے پولیس کے نظام میں بھی یہ جرأت کسی پولیس والے میں موجود نہیں۔ وہ جھوٹے کیس بنائے گا، جھوٹی ایف آئی آر کاٹے گا، بے گناہوں کو ملوث کرے گا، لیکن جہاں کسی قسم کا لالچ نہ ہو، دشمنی نہ ہو، حکومت کی جانب سے غلط ہدایات نہ ہوں وہاں وہ معاملے کی تہہ تک ضرور پہنچے گا۔ میں نے گزشتہ 25 سال کی نوکری میں 10 سال ایسے گزارے ہیں جب میں جرم و سزا کی دنیا سے نبرد آزما تھا۔ زندگی کے 19 سال ٹیلی ویژن کا ڈرامہ لکھتے، اسے ریکارڈ کرواتے، ایڈیٹنگ ٹیبل پر بیٹھتے گزرے ہیں اور کسی بھی ویڈیو یا فلم کے ایک ایک فریم کو تجزیہ کرنے کا ہنر جانتا ہوں۔ 9 سال کالم لکھتے اور صحافی برادری کی ہم رکابی میں گزرے لیکن میں اس سارے عرصے میں گزشتہ تین دن میں جس اخلاقی کرب اور اذیت سے گزرا ہوں ایسا میری پوری زندگی میں نہیں ہوا۔ میں نے اس بچی کو کوڑے مارنے والی فلم بار بار دیکھی اور ایک ایک فریم کر کے دیکھی جیسے ایڈیٹنگ ٹیبل پر دیکھی جاتی ہے۔ یہ فلم جس شخص نے بنائی ہے اس نے اپنی خباثت کو کمال مہارت سے استعمال کیا ہے۔ پوری فلم میں کیمرہ ایسی جگہ رکھا گیا ہے کہ کہیں سے کوئی عمارت، کوئی درخت، کوئی اشتہار، پس منظر میں کوئی پہاڑ یا عمارت نظر نہ آسکے۔ یہاں تک کہ کیمرے والے نے کمال ہوشیاری سے تماشا دیکھنے والوں کے صرف پاؤں دکھائے ہیں یا تھوڑی بہت شلواریں۔ کیمرہ خواہ موبائل کا ہو اس کو زوم (Zoom) کر کے یا پھر اس کا زاویہ بدل کر ہجوم کو لایا جا سکتا تھا لیکن مقصد یہ تھا کہ کل کو کوئی اگر ان لوگوں کو گواہی کے طور پر بلائے یا تفتیش کرے تو اصل حقیقت سامنے نہ آئے۔
اب آئیں اس سارے ڈرامے کے مرکزی کرداروں کی جانب ان کا لباس، وضع قطع چہرے پر لگائی گئی یا پھر اصلی بڑی بڑی داڑھی اور پھر چادریں یہ سب ان کے چہرے چھپانے کے لیے کافی تھے لیکن پھر بھی کیمرے کو کلو ازپ میں لے جا کر ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا، بلکہ کیمرہ تھوڑا آؤٹ آف فوکس (OUt of Focus) رکھا گیا تاکہ شناخت نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود بھی وہ تینوں اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ کیمرے کے سامنے منہ نہیں کرتے تھے جیسے انہیں معلوم ہو کہ یہ فلم بن رہی ہے اور وہ کہیں پہچانے جائیں گے۔ اب آتے ہیں آواز کی طرف جو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں ڈب (Dub) کی گئی ہے۔ ہجوم کا کوئی شور نہیں۔ کئی دفعہ کوڑا ہوا میں ہوتا ہے اور چیخ پہلے بلند ہو جاتی ہے لیکن سب سے بڑا مضحکہ خیز کمال یہ ہے کہ غلطی سے فلم مکمل طور پر ایڈٹ (Edit) ہونے سے رہ گئی ہے۔ کوڑے پڑنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ ڈائریکٹر نے کہا ‘‘کٹ’’ اور زمین پر لیٹی ایکٹریس فوراً اٹھ کھڑی ہو گئی۔ اس کے نزدیک تو یہ سین فلم میں سے ایڈٹ ہو جانا تھا ورنہ وہ اتنے سارے کوڑے کھا کر وہی پڑی کراہتی رہتی، لیکن جیسے فلموں کے سین میں روتی ہوئی ہیروئن کٹ کی آواز آنے پر فوراً ہنسنے لگتی ہے ویسے ہی اس لڑکی نے کیا۔
سید محمد جاوید سول سروسز اکیڈمی میں میرا ساتھی رہا ہے۔ ہم نے ایک ساتھ سروس کا امتحان پاس کیا۔ وہ کمشنر مالاکنڈ ہے۔ وہ ان افسران میں سے ہے جن کی دیانت کی قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ یہ واقعہ سوات میں نہیں ہوا اور دلیل بھی کمال ہے کہ جو زبان یہ تینوں ایکٹر بول رہے تھے وہ سوات کے لوگ نہیں بولتے۔ لیکن اسے کیا خبر کہ جب ڈبنگ کرنے والے علاقے سے واقف ہی نہ ہوں تو ایسے ہی ہوتاہے۔ لیکن میرے کرب اور میری پریشانی کا اس تجزئیے سے ازالہ نہیں ہوتا۔ مجھے اس میڈیا پر شرمندگی ہو رہی ہے جس کا میں حصہ ہوں۔ ان سارے چینلوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو رپورٹر کی تنخواہ لیتے ہوں گے۔ جن کا کام حقائق تک پہنچنا اور چھان پھٹک کر کے لوگوں کو دکھانا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس ویڈیو کو چلانے سے پہلے تحقیق کر لیتا۔ نام پتہ اورمقام معلوم کر لیتا۔ ویڈیو چلتی رہی لیکن اس کے ساتھ میرے ملک کے اس میڈیا پر اس ڈرامے کی بنیاد پر اللہ کے نازل کردہ قرآن کا تمسخر اڑایا جاتا رہا۔ گز گز کی زبانیں اسے فرسودہ، جاہلانہ، ظالمانہ اور دقیانوسی نظام قرار دیتی رہیں۔ اس سارے ڈرامے میں اگر کوئی مظلوم تھا تو وہ قرآن تھا جس نے حدود نافذ کیں، وہ رسولؐ تھا جس کے زمانے میں لوگ اخلاق اور آخرت کی جوابدہی کے خوف سے اتنا ڈرتے تھے کہ اللہ کے رسولؐ کے سامنے آ کر اقرار کرتے کہ ہم سے یہ جرم سرزد ہو گیا ہے ہم پر حد نافذ کیجیے، ہم آخرت کا عذاب سہنے اور برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی ، ایک عورت تو حاملہ تھی۔ اللہ کے رسول نے کہا جاؤ پہلے بچہ پیدا کرو، اسے دودھ پلاؤ اور پھر دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔ اسے آخرت کے عذاب کا اتنا خوف تھا کہ پھر آئی اور اس پر حد نافذ ہوئی۔ کوڑے نہیں بلکہ سنگساری۔ اس پورے معاشرے میں کسی نے اسے فرسودہ، ظالمانہ، جاہلانہ اور دقیانوسی نہیں کہا۔ لیکن قربان جاؤں ہمارے میڈیا پر کہ ایک ڈرامائی تشکیل کردہ ویڈیو چلائی گئی اور پھر چوبیس گھنٹے تک میرے اللہ، اس کے اتارے قرآن اور اس کے رسول کی سنت کا مضحکہ اڑایا گیا۔ یہاں تک کہ پھر ان کا موضوع اس وقت بدلا جب لوگ اسلام آباد اور چکوال میں اپنے ہی بھائیوں کا گلہ کاٹنے لگے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ میری امت پر اور کوئی عذاب نازل نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ تم فتنوں میں پڑ کے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھرو گے۔ یہ عذاب ہم پر برسوں سے مسلط ہے۔ ہمارے علما، ہمارے فقہا، ہمارے جوان اور بوڑھے سب اس کا شکار ہیں۔ اور میرے رسول ؐ نے کیا بشارت کی ان لوگوں کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر بھڑیں تو مارنے والا اور جو مارا جائے دونوں جہنمی ہیں۔ احنف بن قیس نے پوچھا مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا۔ شہید کہو یا جاں بحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت اور عذاب کی گواہی اپنی جگہ موجود ہے۔ یہ عذاب ایسے ہی نہیں اترتے، اللہ ہم سے ایسے ہی ناراض نہیں ہوتا، ہم پر ادبار کی گھٹائیں یوں نہیں چھائی ہوئیں۔ جس قوم کے اخلاق کے دیوالیہ پن کا یہ عالم ہو کہ موبائل پر موجود ایک ویڈیو نشر کر کے اللہ کے قوانین کا تمسخر اڑانے لگے وہ اللہ سے کسی رحمت کی طلبگار کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ، رسول، دین و مذہب تو ایک طرف میرا دکھ عجیب اور کرب ناک ہے ۔ میں سوچتا ہوں جس ملک میں اخلاقی ذمہ داریوں کا جنازہ اس طرح نکل جائے تو وہاں ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ لوگوں کے موبائلوں میں موجود معصوم بے گناہ بچیوں کی تصویریں اور غلط قسم کی فلمیں انسانی حقوق کے نام پر چلائی جانے لگیں۔ کراچی کے رینبو سنٹر اور لاہور کے ہال روڈ پر چلنے والی سکینڈل والی فلموں کو تحقیقی مواد سمجھ کر چلایا جائے اور پھر اس پر پروگرام ہو رہے ہوں۔ تبصرے اور جائزے نشر کیے جا رہے ہوں، کوئی ان کے خلاف یوم سیاہ منا رہا ہو اور کوئی اسے انسانیت کی تذلیل کہہ رہا ہو، لیکن اس سب میں مظلوم وہ لڑکی یا لڑکا ہو گا جس کی ویڈیو نشر ہو گی۔ جو منہ چھپاتے پھریں گے، دعا کریں گے کہ انہیں زمین نگل لے یا آسمان اٹھا لے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
٭٭٭