سفر آرزو

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جون 2009

سوئے حرم قسط -۱

پیشکش تو تھی 'بلاوا' نہ تھا

            قریباً نومبر ۲۰۰۷ء کی بات ہے کہ دیارِ مغرب میں مقیم ایک عزیز نوجوان نے اس عاجزکوپیشکش کی کہ آپ عمرہ پر جائیں،اخراجات میں برداشت کروں گا۔اللہ اُس نوجوان کو خوش رکھے،اُس نے بڑی اچھی پیشکش کی تھی جسے ٹھکرانا کفران ِ نعمت کے مترادف ہوتالہٰذا بندہ نے بخوشی ہاں کر دی،اس کے باوجود کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی آفرز کو قبول کرنے میں بعض موانع حائل ہوتے ہیں۔اُن میں سے بعض موانع کو پیش نظر رکھتے ہوئے ،بندہ نے اس نوجوان سے یہ عرض کیا کہ‘‘ میں یہ سفر ِ آرزو تبھی اختیار کروں گا اگرمیرا دوست یعنی تمھارا باپ بھی اس سفر میں میرے ساتھ شامل ہو۔’’اُس سعادت مند بچے کے لیے یہ تو اور بھی خوشی کی بات تھی لہذا ہمارے درمیان بات طے پاگئی اور اس نے اپنے والد محترم کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کر دی۔ہم اس فرحت انگیز پیشکش پر ،شاداں و فرحاں تھے اور تیاریوں میں لگ گئے۔ یہ تیاریاں کئی طرح کی تھیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔سب سے بڑی چیز ذہنی اور قلبی تیاری تھی۔جب منزل سامنے ہو اور تکمیل آرزو کا وقت قریب آتا جا رہا ہو اور شہر محبوب تک پہنچنا ممکن ہو رہا ہو اُس وقت انسان کاذہن جن آسودہ راہوں میں گھوم رہا ہوتا ہے اور جن لذتوں میں وہ کھو رہا ہوتا ہے ، اُن کیفیات کا بیان ناممکن ہے۔ہم شب و روز شہر ِ تمنا میں جی رہے تھے اور لوازمات سفر، جیسے پاسپورٹ وغیرہ مہیا کرنے میں لگے تھے۔یہ سب کچھ میسر آ گیالیکن چند دِنوں کے اندراندر حالات نے کچھ ایسا رُ خ اختیار کیا کہ ہمارا بنا بنایا پروگرام ختم ہو گیا ۔یہ پیشکش دھری کی دھری رہ گئی اور ہم تمام تر تیاریوں کے باوجود،دیارِ حبیب میں حاضر نہ ہو سکے۔

            ہمار ے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ہمارا پروگرام کیوں ختم ہوا؟گھنٹوں سوچتا رہتا،ایک ہی جواب ملتا،‘‘بھائی !یہ پیشکش تھی بلاوا نہ تھا!’’

            اگرچہ ہمارے جانے میں،رکاوٹ آ چکی تھی ایک ایسی رکاوٹ جس کا ہمیں،پہلے سے اندازہ نہ تھا،لیکن،بہر حال ہم جانے کے لیے مکمل تیار تھے اس لیے ہم نے اپنی تیاری قائم رکھی ،سامان بندھا رکھا اور بلاوے کے منتظر رہے ۔اگرچہ ظاہری اسباب ختم ہو چکے تھے لیکن ہم مایوس نہ ہوئے اورآخر اُس باب الرحمت سے بلاوا آ ہی گیا ،کہ جہاں سے ہر قسم کی مایو سیاں ٹلتی ہیں۔اللہ کریم نے ہماری آرزؤوں کی لاج رکھ لی اور ہمیں اپنے گھر اور اپنے محبوب کے در پر حاضری کے لیے بلا ہی لیا اوریہ بلاوا مارچ ۲۰۰۹ء کو آیا۔

الحمد للہ رب العالمین۔ الرحمان الر حیم۔ سبحان اللہ و بحمدہ و سبحان اللہ العظیم۔

            یہ دنیا اسباب و علل کی دنیا ہے۔یہاں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کریم کے بنائے ہوئے لگے بندھے ضابطے اور قانون کے تحت ہو رہا ہے۔اُس کی بعض حکمتیں ہمیں سمجھ آ جاتی ہیں اور بعض سمجھ نہیں بھی آ تیں۔راقم ،اپنے آپ کو ،اللہ کے اُن بندوں سے متعلق سمجھتا ہے کہ جو عقل و خرد اور اسباب و علل کی دُنیا میں رہتے ہیں۔ہم چونکہ اپنی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے سائنس کے آدمی ہیں اس لیے ہر کام میں غور و فکر کرنا،ہر معاملے میں عقل و تدبر کا استعمال کرنا،اور ہر بات کے پیچھے استدلال کو دیکھنا ،اپنی مجبوری سمجھتے ہیں۔بحث و تجزیہ ہماری عادت اور پس پردہ عوامل کی تلاش و تعیین کرناہماری مجبوری ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ہاں کے دینی حلقوں میں ،جہاں تقلید و جمود نے بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں،ہماری مذکورہ روش کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن اللہ کریم کی یہ رحمت ہے کہ دینی معاملات میں بھی ،اس عاجز کو اُن اساتذہ کرام سے فیض یاب ہونے کا شرف حا صل ہوا ہے جو اول روز سے ہی دلیل کو دلیل راہ بنانے کی تعلیم دیتے ہیں۔گویا ہماری دینی تعلیم کی اُٹھان بھی عقل و خرد کی بنیاد پر ہے۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔اِس لیے،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری کے لیے ،عرف عام میں ،جس چیز کو‘ بلاوا’ کہا جاتا ہے ،ہم اس کے اُس مفہوم کے ہر گز قائل نہیں ہیں جو عوام الناس میں پایا جاتا ہے،بلکہ ہمارے نزدیک‘‘ بلاوے’’ کا یہ تصور لوگوں کو عدم آمادگی کی طرف لے جارہا ہے۔لوگ اس‘‘ بلاوے ’’ کے انتظار میں،حج و عمرہ کے وسائل اور اختیار رکھنے کے باوجود ،اس سفر مبارک کے لیے کسی قسم کی پیش قدمی نہیں کر پاتے۔‘بلاوے’ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آدمی کسی قسم کے اشارے اور آرڈر کا منتظر رہے،بلکہ ،دنیا کے ہر دوسرے کام اور پروگرام کی طرح اس سفر ِ سعید کے لیے بھی سعی و کاوش ضروری ہے۔ہم اپنی ارد گرد کی دنیا میں بے شمار با وسائل کردار دیکھتے ہیں کہ جن کے لیے حج و عمرہ ترجیح اوّل ہو نا چاہیے تھا لیکن وہ اس بلاوے کوآ ڑ بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی حضرات کے لیے ہم عرض کرتے ہیں کہ وہ اللہ عزو جل کی طرف چلنے کے لیے اپنے دِلوں کے اندر آمادگی پیدا کریں اور اس کی طرف بڑھنے کے لیے ایک قدم تو اُٹھائیں ،پھر دیکھیں کہ وہ کریم آ قا کس طرح آگے بڑھ کر آپ کے لیے آ سانیاں پیدا کرتا ہے اور وہ کس طرح دوڑ کر آپ کا استقبال کرتا ہے۔

            کعبہ کی زیارت کا سفر اختیار کرنا ،بلاشبہ ایک سعادت ہے کہ جو اللہ کریم کی توفیق سے ملتی ہے ،لیکن بہرحال یہ ایک ذمہ داری اور اللہ کریم کا عائد کردہ ایک فریضہ بھی ہے جس کو ادا کرنے کے لیے ،وسائل مہیا ہوں تو ،بندے کو اوّلیں فرصت میں اس کی ادائیگی کی طرف بڑھنا چاہیے ۔ اس کے لیے سعی وجہد کرنا لازم ہے۔حج و عمرہ اللہ کریم کی عبادت کے مظاہر ہیں ،یہ کوئی پکنک یا سیرو تفریح یا سیاحت کا پروگرام نہیں ہے۔اس کی روح اللہ تعالیٰ عزو جل کی عبادت اوراس کے احکامات کی تابعداری ہے۔ان کو بجا لانے کی کچھ شرائط اور آ داب ہیں اور کچھ اس کی قانونی پابندیاں اور لوازمات ہیں۔مسلمانوں میں سے جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو،جب بھی وہ ان شرائط پر پورا اترتا ہو اس کی اوّلیں ترجیح حج و عمرہ کا سفر اختیار کرنا ہونا چاہیے۔لیکن افسوس ہمارا عمومی رویہ اس کا غماز نہیں ہے۔ہم سب کے لیے یہ فریضہ سب سے آ خری ترجیح ہوتا ہے۔جس طرح اذان کے بعد ،ایک مومن کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ نماز کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرے ،اسی طرح شرائط حج و عمرہ پورا ہونے پر بھی انسان کو اللہ کے گھر کی طرف دوڑ لگا دینی چاہیے۔حرمین شریفین ،ہمارے مقدس مقامات ہیں۔ان کی زیارت کی تڑپ ہر انسان کے دِل میں ہوتی ہے ۔ہماری اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ وہاں پہنچتا وہ ہے جو اس کے لیے سعی و جہد کرتا ہے۔یقین جانیے اس راستے پر قدم بڑھانے والا ہی اللہ عزو جل کی مدد و استعانت کا مستحق ٹھیرتا ہے۔

            ہمارے نزدیک اسباب سے مراد محض روپیہ پیسہ یا ویزہ ٹکٹ نہیں ہے بلکہ وہاں تک جانے کی سچی تڑپ ،دِل کی مکمل آمادگی ،اپنی ترجیحات کو بدلنا ،اور ضروریات سفر کی فراہمی کے لیے تگ و دو کرنا بھی شامل ہے۔جس طرح دُنیا کے دیگر پرو گرام بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ،اسی طرح ممکن ہے کہ سفرآرزو کا یہ پروگرام بھی درمیانی راہوں میں دَم توڑ دے ،جیسا کہ ہمارا بنا بنایا پروگرام اچانک ہی بوجوہ ختم ہو کر رہ گیا تھا،ایسے مرحلے پر ،اس چیز کے بیان و اظہار کے لیے ‘‘بلاوے’’کی تعبیر اختیار کرنا سب سے زیادہ تسلی آمیز بات ہو تی ہے۔اس لیے ہم نے یہ تعبیر اختیار کی کہ ‘‘یہ پیشکش تھی بلاوا نہ تھا۔’’اوریہ تجربہ بارہا ہوا ہے۔یہ تقدیر کا معاملہ ہے ۔جہاں تدبیرختم ہو جاتی ہے وہاں تقدیر شروع ہوتی ہے۔ بندے کا کام تدبیر کرتے رہنا ہے اور یہی ہم نے کیا۔پروگرام بنتے بگڑتے رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان دوبارہ سے اُس پروگرام کو نہ بنائے اور دوبارہ سے،قلب و جگر تھام کر اُ ٹھ نہ کھڑا نہ ہو۔سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ،عرفت ربی بفسخ العزائم ، یعنی میں نے بنے بنائے پروگراموں کے ختم ہو جانے پر اپنے اللہ کو پہچانا۔مطلب یہ کہ ہمارے ہر معاملے پر اللہ عزو جل کا غلبہ و اقتدار ہے۔سب کچھ طے ہو جانے کے بعدبھی اور بظاہر تمام اسباب و وسائل اپنے حق میں ہونے کے باوجودبھی ،جب بنا بنایا پروگرام کینسل ہو کر رہ جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام اسباب کے اوپر بھی کسی مسبب الاسباب کی حاکمیت کا غلبہ ہے۔

            آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس مذکورہ پیشکش کے آنے اور ایجنٹ کے پاس پاسپورٹ جمع کروانے تک کا ،نو ما ہ کا طویل دورانیہ،اس عاجز نے کس سرشاری ،کیف و مستی اور لذت وشادمانی میں گزارااور جب یہ پروگرام ختم ہوا اور ایجنٹ سے پاسپورٹ واپس لیے اور دی ہوئی رقم واپس لی تو بندہ کتنا رنجیدہ ہوا اور کتنا تڑپا ،کتنا دِل گرفتہ اور کتنا آزردہ خاطر ہوا،آپ تصور نہیں کر سکتے۔آج بھی جب وہ وقت یاد آ تا ہے تو اپنی بے بسی پر نمناک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔بے بسی کے اُس عالم میں اِس تصور نے ہی حو صلہ دیا کہ‘‘ یہ پیشکش تھی بلاوا نہ تھا۔’’اور ہم پھر سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔خیال آیا کہ تمام ترموافق حالات کے باوجود اگر ادھر سے ‘‘بلاوا ’’ نہیں آ یا تو مایوسی کیسی اور ترک جہد کیسی۔ہم تو اللہ عزو جل کے حضور حاضر ہونے کے لیے لائن میں لگ گئے تھے تو اگر اس قادر مطلق نے لائن سے نکال دیا ہے تو پریشانی کیسی!جو مالک کی مرضی!ہمارا کام تو لگے رہنا ہے سو...........،پھر سے لائن میں لگ جاتے ہیں،کبھی تو اذن ِ حا ضری ملے گا!بس اس خیال نے حوصلہ دیا،ہم جی اُ ٹھے ،لائن تو لگی ہوئی تھی ہم پیچھے جا کر پھرسے لائن میں لگ گئے۔ نئے سرے سے ،نئے وسائل کے ساتھ ،نئے جذبے اور نئے جذبات کے ساتھ ۔

            اب کی بار بھی سفینہ حجاز نے حالات کے کئی تھپیڑے کھائے،کئی بار اُمید کی کشتی ڈگمگائی ،کئی بار شیطان اپنے بہلاوے لایا،لیکن، الحمد للہ ،ہم ڈٹے رہے،اُمید کا دامن نہ چھوڑا،ہم نے اپنا رُخ کعبے ہی کی طرف رکھا اور آ خر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

            اسباب و علل اور وسائل وآلات کی اہمیت سے، ہمیں انکار ہے اور نہ ہی ان کے بغیر کبھی کچھ ہوا ہے ،لیکن ہمارا ایمان ہے کہ اسباب و علل اور وسائل و آلات سے اوپر بھی کوئی زندہ و جاوید قوت ہے کہ جو سب سے بالا ،سب سے طاقت ور اور سب پر غالب ہے۔اُس کی مرضی نہ ہو سب وسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اگر اُس کا فضل شامل حال ہو تو اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں ،وسائل بھی مہیا ہو جاتے ہیں اور مسائل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔اور بعض اوقات وسائل و اسباب کے بغیر بھی ہو جاتا ہے۔

سبحان اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم، لا حول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم۔

            بیرون ملک سفر کے لیے ،پاسپورٹ اور ویزہ ضروری ہیں۔پاسپورٹ ،تو ہم نے پچھلے سال ہی بنوا لیا تھا ،اب صرف ویزہ لگوانا تھا۔ میرے ساتھ،چودھری محمد زمان صاحب بھی تیار تھے،بلکہ اس مبارک سفر کے اصل محرک وہی تھے۔موصوف قریبی گاؤں کے زمیندار ہیں،سادہ طبیعت،دِل بہار شخصیت اور ان پڑھ آدمی ہیں ۔وہ ایک عرصے سے مجھے کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب جب بھی،آپ کا عمرے پر جانا ہو مجھ غریب کو بھی ساتھ لے جانا۔بلکہ انھوں نے تو ایک قسم کی ضد ہی باندھ لی تھی کہ عمرے پر جانا ہے اور آپ کے ساتھ ہی جانا ہے۔ہمارے پچھلے پروگرام میں جو ختم ہو گیا تھا ،اُس میں وہ شامل تھے اور جب وہ ختم ہوا تھا تو اُس پر وہ بھی تڑپے تھے ،تلملائے تھے لیکن پھر وہی صبر آ میز بات،کہ جب بلاواآئے گا تو جائیں گے،سامان بندھا ہے ہم تیار ہی تیار ہیں۔اُس وقت سے وہ مسلسل مجھے تحریک دیتے رہے۔میں کبھی ڈھیلا پڑا بھی تو وہ عشق و مستی کا injectionلگا جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ میں بھی مسلسل اسی تگ و دو میں رہا کہ جیسے ہی حج کے بعد عمرے کی فلائٹوں کا آ غاز ہو تا ہے ہم،اس سفرسعید کو اختیار کر لیں۔اِس دوران میں دو اور ہمراہی بھی مل گئے۔ایک میرے برادر نسبتی ڈاکٹرحافظ عطا الرحمان صاحب اور دوسرے اُن کی والدہ محترمہ، جو ظاہر ہے میرے لیے بھی ماں کا محترم درجہ رکھتی ہیں۔یوں ہم نے چار پاسپورٹ ،اپنے ٹریول ایجنٹ کو جمع کرا دیے اور مارچ کے دوسرے ہفتے میں ویزے لگ کر آ گئے اور ۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء کو ،پی آئی اے کی پرواز ۷۴۱pk کے ذریعے،اسلام آ باد سے جدہ کے لیے ہمارا جانا طے پا گیا۔

الحمد للہ علیٰ ذالک!!!۔

 ۲

 زادِراہ

پہاڑ ایسی رکاوٹ:

            تیاریاں تو ہم پہلے ہی کر رہے تھے ،اب جب روانگی کی تاریخ بھی طے ہو گئی تو ان تیاریوں میں مزید شدت آ گئی۔لیکن جلد ہی ایک اور بڑی رُکاوٹ آ کھڑی ہوئی۔اس پر ہمارے چہروں پر ایک بار پھر مردنی چھا گئی۔وطن عزیز میں ،مارچ ۲۰۰۹ء کے دِ ن بڑے ہنگامہ خیز تھے۔یہ زمانہ ،دو سال سے جاری ،آزاد عدلیہ کی بحالی کی وکلا تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔حزب اختلاف،وکلا برادری،اور سول سوسائٹی نے ۱۶ مارچ کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ حالات بہت شدت اختیار کرتے جارہے تھے۔حکومت وقت نے اپوزیشن کے اس مطالبے کو مان کر نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا اوراس نے اُن کے حق ِ اجتماع کو پوری قوت سے کچل دینے کا اعلان کر دیا تھااور اس کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کر دیے تھے۔سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھ رہا تھا۔یہ عاجز نہایت پریشان تھا،وطن عزیز کی روز بروز بگڑتی صورت حالات پر بھی اور اپنے اس مقدس سفر کے ایک بار پھر منقطع ہو جانے کے خوف پر بھی ،کیو نکہ حالات اسی جانب بڑھ رہے تھے۔۱۱۔مارچ کے بعدپورا ملک خصوصاًلاہور اسلام آباد روٹ پر آباد پنجاب،عملاً قیدخانے میں تبدیل ہو چکا تھا۔بڑی بڑی شاہراہوں کو حکومت خود بلاک کر رہی تھی۔ٹرکوں ،دیو ہیکل ٹرالوں اور ٹرالیوں کے ذریعے،سڑکوں ،راستوں اور پُلوں کو بند کیا جا رہا تھا۔۱۲۔مارچ کو،جس دِن وکلا کے لانگ مارچ کا آ غاز ہونا تھا ،حکومت ِ وقت نے خود ہی ٹریفک کا پہیہ جام کرنا شروع کر دیا ۔کاروبار ٹھپ ہو گئے۔لوگ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے۔ہماری دو رخی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔پوری قوم سخت دباؤاور کربناک حالات سے گزر رہی تھی۔رستے مفقود ہو رہے تھے۔ٹرینیں روکی جارہی تھی۔پروازوں سے لوگو ں کو اُتارا جا رہا تھا،فلائٹیں کینسل ہو رہی تھیں۔یہ سب کچھ ،اُن لوگوں کا راستہ روکنے کے لیے ،حکومت وقت خود کر رہی تھی ،جنھوں نے ۱۶۔مارچ کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر،آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی،۱۵۔مارچ کا دِن آ گیا جب لاہور سے لانگ مارچ کا قافلہ نکلنا تھا۔سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر تھا۔پورا ملک جیل میں تبدیل ہو چکا تھا،خاص کر لاہور میں چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔شہر بھر میں ،ہر طرف پو لیس کی حکمرانی تھی۔معمول کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ ٹی وی چینل ،پل پل کی خبریں نشر کر رہے تھے۔حکومت وقت نے راستے سیل کرنے کا اپنا پورا زور لگا لیا تھا..... اب اپوزیشن کے سیاسی کارکنوں کی باری تھی.....اور پھر.....دوپہر کو ،جب سورج اپنی پوری آب تاب میں تھا ،لاہور شہر کا سیاسی کارکن ،اپنے قائد نوازشریف کی قیادت میں باہر نکل آ یا اور دیکھتے ہی دیکھتے ،سارا لاہور،گھروں سے باہر نکل آیا ۔حکومتی انتطامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور عوامی سیلاب ،اسلام آ باد کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور رات گئے ،یہ سیلاب، ابھی گوجرانوالہ تک ہی پہنچ پا یا تھا کہ حکومت وقت نے ،گھٹنے ٹیک دیے اور ۱۶ مارچ کا سورج،وطن عزیز میں ،آزاد عدلیہ کی بحالی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔وزیر اعظم صاحب کے اعلان کے ساتھ ہی ،عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔زندگی معمول پر آ نا شروع ہوئی۔راستے کھلنے لگے،گاڑیاں دوڑنے لگیں اور پروازیں معمول پر آنا شروع ہو گئیں ۔ہمارے بھی حوصلے بڑھ گئے۔ہمارے سفر عقیدت کی راہ میں جو پہاڑ ایسی رکاوٹ آ کھڑی ہوئی تھی،وہ اس اعلان کے ساتھ ہی ہٹ گئی اور ہماری جان میں جان آئی۔ہم ایک دفعہ پھرسوئے حرم چل پڑے۔

سارعو الیٰ مغفرۃ ربکم:

             جب ویزے کے حصول کے لیے کوششیں ہو رہی تھیں ،میرے ساتھی نے پو چھا ،‘‘ڈاکٹر صاحب ! عمرے کے سفر کے لیے کیا کیا تیاریاں کرنی ہیں اور کیا کیا سامان ساتھ لے جانا ہو تا ہے۔میری تیاری بھی آپ نے کرنی ہے ۔’’ بڑا اہم سوال تھا۔کسی بھی سفر کی طرح ،حج و عمرے کے سفر کے لیے بھی ،کافی تیاریاں کرنی پڑتی ہیں۔زاد ِ راہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔سامان کی فہرست بنائی جاتی ہے۔وہاں کی ضروریات اور موسمی حالات اور انسان کے اپنے طرزِ زندگی کے مطابق سامان تیا ر کرنا پڑتا ہے۔کیا لے جانا ہے اور کیا چھوڑ جانا ہے،ایک بڑا درد سر ہو تا ہے۔عام طور پر ،لوگوں کی اکثریت اتنا بڑا سفر اور بھی بیرون ملک کا ،پہلی بار کر رہے ہوتی ہے اس لیے تیاریاں بھی غیر معمولی ہو تی ہیں۔احرام کی چادریں ،روز مرہ استعمال کی چیزیں ،صابن ،تولیہ وغیرہ ،استری شدہ جوڑے ، جوتے اور استعمال کی دیگر چیزیں،غرض ایک لمبی فہرست بنتی ہے جس کا اہتمام لازم ہے لیکن بندہ ان چیزوں کی فکر کے علاوہ ‘‘ایک اور قسم کے زاد راہ ’’کی فراہمی کی فکر میں مبتلا تھا۔ میرا ذہن کچھ اور سوچ رہا تھا۔مجھے جسمانی ضرورتوں سے زیادہ روحانی ضرورتوں کی فکر تھی۔ وہاں جا کرپیٹ بھرنے اور انسانی حاجتوں کو پوار کرنے کی سبیل کی بجائے،قلب و ذہن کو بھرنے کی فکر لاحق تھی۔

            سیرت پاک کے علم سے اور سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری زبان سے جو، پچھلے کچھ عرصے سے ،عشق پیدا ہو گیا تھا ،اس کی satisfactionکی راہیں ڈھونڈ رہا تھا۔میں روحانی تسکین کی راہیں تلاش کر رہا تھا۔اپنے اللہ کریم کے حضور ،اُس کے اپنے گھر میں ،حاضر ہو نے جا رہا تھا ،تو خواہش تھی کہ اپنے تمام گناہوں کی اور اپنی تمام خطاؤں کی ایک فہرست تیا ر کر لوں تاکہ وہاں جا کر ایک ایک گناہ بخشوا سکوں اور ایک ایک خطا معاف کروا سکوں۔ یہ بڑی مشکل تیاری تھی۔یہ زاد ِ راہ اکٹھا کرنا سب سے مشکل امرتھا۔انسانی ضرورتوں کی تو ،لاہور اورگجرات سے شاپنگ کر لایا تھا ،لیکن ،راحت قلب و جگر کا سامان کہاں سے ملتا ہے اور گناہوں کی فہرست مرتب کرنے کے لیے کاغذ قلم کہاں سے حاصل کروں،اس کا کوئی پتا نہ تھا۔وہ دکاں کہاں ہے،جہاں سے مجھے ،اللہ کو راضی کرنے کا سودا مل سکے اور وہ شاپنگ پلازہ کدھر ہے جہاں سے مجھے سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے نقوش پا حاصل ہوں۔اس کی مجھے تلاش تھی لیکن کوئی پتا نہ تھا۔

            اس سفر عقیدت کے اختیار کرنے پر کوئی مالی منفعت تو پیش ِ نظر تھی ہی نہیں بلکہ قلب و نظر کے تزکیے کے لیے اس سفرکو اختیار کیا جا رہا تھا تو میری فکر یہ تھی کہ کون سا ایسا سامان ہو گا جو میں ساتھ لے جاؤں اور وہاں اس مقصد کو پورا کرنے میں میرے کام آئے۔سوچ سوچ کر یہی جواب آ یا کہ اپنے گناہوں کی پوٹلی سمیٹو ،اپنی خطاؤں کا ایک اٹیچی کیس تیا ر کرو اور اسے اُٹھا کر لے جاؤ ،اس مصمم ارادے کے ساتھ ،کہ ایک ایک گناہ اور ایک ایک خطا کے لیے ،اُس کریم آقا سے معافی طلب کرنی ہے۔یہی اس سفر کا مقصد ہو تا ہے۔کم از کم مجھے تو یہی سمجھ آیا۔اور یہی مقصد لے کر میں جا رہا تھا۔

            اور جب میں نے اپنے گناہوں کی فہرست بنانا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ اپنے ہاں نیکی نام کی چیز ہی نہیں ہے۔انسان اکثر اوقات تو اپنے آپ کو رعایت دیے رکھتا ہے،ہمیشہ اپنے آپ کو‘ حق’پر ہی سمجھتاہے۔دُنیا داری کی ہما ہمی میں ہمیں اپنی غلطیاں کم ہی نظر آ تی ہیں ہم بھی اب تک غرورِ تقویٰ میں مبتلا تھے اور اپنے آپ کو نیکو کاروں میں سمجھتے تھے لیکن جو ں ہی اپنے عیبوں پر نظر ڈالی تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اب تو لازم ہو گیا اور کچھ سامان لے جا سکوں یا نہ لے جا سکوں ،گناہوں کی یہ سیاہ گٹھڑی ضرور لے جانی ہوگی تاکہ اللہ کریم سے ان کی معافی حا صل کی جا سکے ۔بندہ خطا کار ہے۔اس سے ہر وقت گناہوں کا صدور ہوتا رہتا ہے۔بے جانے بھی نا فرمانی ہو جاتی ہے اور جانتے بوجھتے بھی انسان اللہ کی راہوں سے ہٹ جاتا ہے۔اس کے بندہ ہونے کی یہی نشانی ہے کہ وہ ہر ایسے موقع پر اپنے اللہ کریم کی طرف پلٹ آئے۔وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔وہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اُسے معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ اس کی طرف پلٹتا ہے کہ نہیں۔

            حج و عمرہ کا سفر ،دراصل ،یہی چاہتا ہے کہ انسان دُنیا اور دُنیا داری سے ،ایک بار کٹ کر،خالص اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے اور اس کے دربار میں حاضر ہوکر ،ساری غرضیں بھول جائے اور بس ایک ہی غرض رکھے کہ اللہ کو راضی کر کے آئے۔ اس لیے،اللہ کا یہ عاجز بندہ،مسلسل اس فکر میں تھا،کہ اس سفر سعید میں کس طرح کا زاد راہ ساتھ لیا جائے اور کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے کہ مذکورہ فائدہ حاصل ہو جائے۔پیارے آقا سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حج و عمرہ سے واپس آ نے والا ،گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ۔بندہ اس فکر میں تھا کہ وہ ایسے کون سے کام ہیں کہ جن کے کرنے پر،آدمی، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کا مصداق بن سکتا ہے۔ یہ فکر ہی میری زاد ِ راہ تھی اور یہ سوچ ہی میری ہمسفر اور میرے ہمراہ تھی۔

اللہ کے مہمان:

            حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ،غازی فی سبیل اللہ ،حاجی اور عمرہ ادا کرنے والے ،اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کو بلایا اور انھوں نے حکم کی تعمیل کی۔پھر انھوں نے اللہ سے مانگا اور اللہ نے اُن کو عطا فرمایا ۔’’اسے ابن ماجہ نے روایت کیاہے۔اللہ کے مہمان!! کتنا بڑا اعزاز تھا ہمارے لیے ،اللہ! اللہ!آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔یوں تو ساری زندگی،ہم اللہ کریم کے ہی دستر خوان سے کھاتے رہتے ہیں لیکن ،اب جب کہ ہم عمرہ کے مبارک سفر پر تھے تو اللہ کریم نے خاص طور پر ،اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ،ہمیں اپنا مہمان قرار دلوایا ۔واہ،سبحان اللہ!

            یہ ۱۸۔مارچ کی سہانی شام ہے ،رات کے نو بج چکے ہیں اور ہم پی آئی اے کی جدہ جانے والی پروازpk742میں ہیں۔قبل ازیں ہم نے نماز مغرب ،اسلام آباد ایر پورٹ کے لاؤنج میں ہی ادا کی تھی ہے اور اس کے بعد،وہیں سے ہی احرام بھی باندھ لیاتھا۔احرام کیا ہے۔یہ اللہ کے مہمانوں کا مخصوص لباس ہے۔ہر بادشاہ کی حاضری کے کچھ آداب اور کچھ مخصوص لباس ہوتے ہیں۔یہ دو ان سلی چادریں ،جو ہم نے اپنے اوپر لپیٹ لی ہیں ،جنھیں عرف عام میں احرام کہا جاتا ہے ،دراصل ،اللہ کے مہمانوں کا مخصوص یونیفارم ہے۔یہ درویشانہ اور عاجزانہ لباس ہے۔اللہ کے حضور،حاضری کے لیے ،لباس ِ فاخرانہ نہیں بلکہ لباسِ بندگانی میں آنا ہے ۔اللہ کریم کو عاجزی پسند ہے ،فخرو غرور نہیں !واہ رے ہماری قسمت ،آج ہم اللہ کے مہمان تھے۔اُس نے خود ہمیں بلایا تھا!اس حاضری کے لیے ،پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نعرہ بھی تجویز فرمایاہے ،اسے تلبیہ کہتے ہیں۔تلبیہ کیا ہے ،یہ نعرہ شوق ہے ۔یہ بندے کی پکار ہے۔توحید کا درس ہے اور زیارت کعبہ کا گیت ہے ۔حکم یہ ہے کہ حج و عمرے کے سفر میں آ دمی پر لازم ہے کہ زبان پر اس کلمے کا ورد جاری رکھے۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حج و عمرہ کے مبارک سفروں میں یہی کلمہ پکارا کرتے تھے،اور ،الحمد للہ ،آج ،ہم بھی اسی مبارک کلمے کو ورد بنائے ہوئے تھے۔جہاز کے اندر ایک روح پرور سماں ہے۔ہر زائر کی زبان پر یہ حمدیہ گیت ہے ۔

آئیے آپ بھی اس پکار میں شریک ہو جائیں،

لبیک اللھم لبیک،

لبیک لا شریک لک لبیک ،

            ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک،‘‘حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں ،میں حاضر ہوں۔بے شک حمدتیرے ہی لائق ہے۔ساری نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔’’

            یہ کلمہ توحید ہے۔حج و عمرہ کا سارا پروگرام ہے ہی اس لیے ہے کہ بندے کے ذہن میں ،اللہ اور صرف ایک اللہ بسا دیا جائے۔اللہ کی وحدانیت کو راسخ کر دیا جائے اور بندہ جب واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹے تو وہ صرف ایک اللہ کا بندہ بن کر لوٹے اور باقی کی زندگی اُس کا بندہ بن کر جیئے۔ اس لذت بھرے نغمے کو لبوں پر سجائے ،ہم محو پرواز تھے۔ویسے تو یہ پر سکون سفر تھا لیکن دِل و دماغ کے اندر جذبات کا تلاطم برپا تھا۔رہ رہ کے یہ خیال آتا تھا کہ ،کیا واقعی ہم اللہ مہربان کے مہمان بننے جا رہے ہیں اور کیا واقعی ہم اس قابل ہیں کہ اُس کے حضور حا ضر ہو سکیں!!۔ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ہمارا یہ بلاوا ‘ایک مجرم ’ کا بلاوا نہ ہو!!

            غرض،اُمید و بیم کی اِس کیفیت میں ،کچھ سوتے ،کچھ جاگتے،گاہے روتے گاہے مسکراتے،یہ سفر،اس وقت ختم ہوا جب جہاز سے اعلان ہوا کہ ابھی تھوڑی دیربعد ہم سعودی عرب کے شہرجدہ کے انٹر نیشنل ایر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔اُس وقت پاکستانی وقت کے مطابق،رات کے دو بج رہے تھے۔جہاز میں ایک بار پھر صداءِ لبیک گونجی اور ہمیں اپنی قسمت پر پیار آ نے لگا جو ہمیں سر زمین ِ حجاز پر لے آ ئی تھی۔اور‘‘ہمارابلال’’ سو رہا تھا:

            جہاز سے اُتر کر،ایر پورٹ سے باہرآنے تک، کم و بیش دو گھنٹے ، صرف ہو گئے۔یہ دو گھنٹے مختلف قانونی کارروائیوں میں صرف ہوئے جو کہ ہر ملک کے ایئر پورٹ کا معمول ہے۔ہم جب باہر آئے تو بھی گھڑی پر دو بج رہے تھے۔بڑی حیرانی ہوئی کہ جب جہاز رک رہا تھا تب بھی رات کے دو بجے تھے اور اب بھی ،جب کہ ہم خاصا وقت امیگریشن کی کارروائیوں میں بھی لگا چکے تھے،پھر بھی وقت وہیں کا وہیں!!یہ کیا ماجرہ ہے!!فوراً یاد آ یا کہ سعودی وقت ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے یہ سب اس کی کرشمہ سازی ہے کہ امیگریشن کروانے میں جو وقت ضائع ہوا ،وہ گویا ہوا ہی نہیں۔ جس سعودی ویزہ کمپنی نے ہمیں ــ‘‘خریدا’’ تھا،اُن کے ایجنٹوں نے،ہمارے پاسپورٹ اپنے قبضے میں کر لیے اور ہمیں ایک غلامی کا کڑا،اس ہدایت سے پہنا دیا کہ قیامِ حجاز کا سارا عرصہ اس کڑے کو پہنے رہنا ہے۔اس کے بعد انھوں نے ایک بس پر ہمیں بٹھا دیا ۔جدے سے مکہ مکرمہ جانا تھا۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ ۸۰ کلو میٹر دور ہے۔ہم نے لبیک اللھم لبیک کا ورد شروع کر دیا اور گاڑی سوئے حرم چل پڑی۔ گاڑی کا ڈرائیور حبشی تھا،غالباً سعودی ہو گا۔اس کو دیکھ کر ہمیں سیدنا بلال یاد آگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ،میرے آقا،پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص۔وہ بھی ‘‘کالے’’ تھے ،وہ پیارے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے ‘‘ڈرائیور’’ تھے۔واہ بلال تیرے مقدر !کاتب تقدیر نے ازل سے کیسی خدمت تیرے سپرد کر رکھی تھی!تو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب غلام اور محبوب نوکر تھا۔کبھی میں سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک زندگی میں جھانکتا اور کبھی میں اپنے ‘کالے ’بس ڈرائیور کو دیکھتا۔میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اونگھ رہا ہے۔میں پریشان ہو گیا۔اب اسے کیا کہوں ،کیسے کہوں،پریشان تھا،ایک لمحے بعد دیکھا تووہ آنکھیں مل رہا تھااورسر کو جھٹک رہا تھا..... .....گاڑی موٹر وے پر فراٹے بھرتی جا رہی تھی......میں نے دیکھا کہ وہ پھر آ نکھیں بند کر رہا ہے.........کہتے ہیں کہ رات کے اس پہر،جس میں ہم تھے،اکثر ڈرائیوروں کو نیند آ جاتی ہے۔........میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر جاگ گیا اور اپنے سرکودبانے لگا........کافی دیر تک میں یہ تماشا دیکھتا رہا۔میں نے اپنے ساتھی زمان کو اشارہ کیا،اس نے بھی یہ نوٹ کیا کہ وہ اونگھ رہا ہے،اس نے اس کے کندھے کو ہلایا اور اپنی ٹھیٹھ پنجابی میں کہا کہ‘‘ جاگو بھائی جاگو’’۔.‘‘یا اخی انت نائم’’ میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا .......(میرے بھائی آپ سو رہے ہیں )آگے یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ کچھ دیر کہیں رک کر ،بے شک اپنی نیندپوری کر لے ........اس کے لیے عربی الفاظ سوچ رہا تھا کہ وہ جاگا اور میری طرف دیکھ کر اثبات میں مسکرایا اور کہنے لگا سر میں گرانی ہے۔‘‘ اپنے بلال’’ کو سوتا دیکھ کر،ہمیں سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیند کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ،وہ کسی سفر سے واپس آ رہے تھے ،رات کا پچھلا پہر تھا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس جگہ پڑاؤ کریں اور قافلہ رک گیا۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم خاص کی ڈیو ٹی لگائی کہ ہم سب سو نے لگے ہیں اور تم نے جاگتے رہنا ہے۔جیسے ہی صبح کی اذان کا وقت ہو ،اذان دے کر سب کو جگا دینا ہے۔سارے قافلے والے سیدنا بلال پر اعتماد کر کے سو گئے ،تھکے ہوئے تھے ،جلد ہی گہری نیند میں چلے گئے۔کچھ دیر تک توحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ جاگتے رہے اور پہرہ دیتے رہے لیکن وہ بھی تو ،آخراُسی سفر سے آ رہے تھے جس سے سب واپس آ رہے تھے ، تھکے ہوئے تھے، اس لیے اُن کی آنکھیں بھی بوجھل ہو نا شروع ہو گئیں۔ پہلے تو وہ نیند سے مقابلہ کرتے رہے لیکن آ خر وہ بھی کجاوے کی ٹیک لگا کر سو گئے۔وہی ہوا ،جس کا ڈر تھا ،سب لوگ سوتے رہ گئے اور سورج نکل آ یا۔دھوپ کی تمازت سے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگ گئے ،نماز کا وقت نکل گیا تھا۔ بلال کو آ واز دی ،جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا ،بلال کیا ہوا،ہماری نماز فوت ہو گئی ۔عرض کی یا رسول اللہ،نیند نے آ دبوچا تھا،کیا کرتا ،سو گیا تھا۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا ،چلو پھر،اب نماز کی تیاری کرو۔میرے آ قا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلام پر ذرا بھی غصے نہ ہوئے۔ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم تھا کہ نیند ،بشری تقاضا ہے یہ سولی پر بھی آ جاتی ہے۔‘‘لا تا خذہ سنۃ ولا نوم’’ (نہ اُس پراونگھ غالب آتی ہے اور نہ نیند) کی شان ِ بلند ،توصرف اور صرف ،اللہ غالب و بالا کی صفت ِاعلیٰ ہے۔بہر حال تھوڑا سا سفر باقی تھا،ہم نے لبیک اللھم لبیک.....کا ورد شروع کر دیا،اور جلد ہی مکہ معظمہ میں داخل ہو گئے۔

۳

 اشک ِ ندامت ساتھ لایا ہوں

درِیزداں میرے آگے:

            تقریباً،ڈیڑھ گھنٹے بعد،وہ کالا ڈرائیور ،ہمیں اپنے ہوٹل پر لے آیا۔وہاں پاکستانی عملے نے ہمارا استقبال کیا اور انھوں نے جلد ہی ہمیں کمرے الاٹ کردیئے۔ ہم نے اپنے کمرے میں سامان رکھا اور حرم میں حاضر ہونے کے لیے ،تیاری کی،وضو کیااورنکل کھڑے ہوئے۔ہم جب ہوٹل سے باہر آئے،تورات کے چار بج رہے تھے۔ہم حرم کا راستہ پو چھنے کا سوچ رہے تھے ،دیکھا کہ ا ہل ایمان کا سیلاب ایک طرف کو بڑھ رہا ہے ہم بھی اُس طرف کو چل پڑے اور جلد ہی مسجد الحرام کے وہ بلند و بالا مینار نظر آ گئے،جن کو ہم مدتوں ٹی وی میں اور دیگر تصاویر میں دیکھتے آ رہے تھے ۔ جی باغ باغ ہو گیا۔بندہ ہر خوش قسمت لمحے کو اپنے دماغ میں محفوظ کرنا چاہتا تھا،اس لیے اپنے ساتھی سے کہا ،کہ‘‘ ذرا دیر یہاں بازار کے کنارے رُکتے ہیں،چائے پیتے ہیں ،ان میناروں کا نظارہ کرتے ہیں اور پھر اندر داخل ہوں گے۔’’چائے پینا تو ایک بہانہ تھا ،میں دراصل ،اپنے اندر ،بیت اللہ کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔میں اپنے گناہوں کی پوٹلی کو از سر ِ نو ترتیب دینا چاہتا تھا۔تھوڑی دیر بعد ہم چل پڑے۔باب عبدالعزیز سے اندر داخل ہوئے۔ہر طرف روشنیوں کاایک سیلاب تھا۔ہم آگے بڑھتے گئے..........۔

 ......اور پھر...درِ یزداں میرے سامنے تھا.....کالا غلاف اوڑھے کعبہ میرے سامنے تھا........ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ چکے تھے........اور میں حاضر تھا وہاں ....جہاں........اللہ کے فرشتے ......حاضر رہتے ہیں.......میں وہاں حاضر تھا.جہاں ...سارے انبیا حاضر ہوتے رہے....میرے سامنے وہ کعبہ تھا ....جس کے گرد میرے پیارے رہبر و ہادی ...صلی اللہ علیہ وسلم......نے چکر کاٹے......آج ....اس مقدس و مطہر جگہ پر یہ گناہ گار بندہ کھڑا تھا.........جہاں کبھی محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم زندگانی بسر کرتے تھے۔........میں اس بات کا کیسے یقین کر لوں،میرے ایسا خطا کار یہاں ہوگا ......کیسے یقین کر لوں.......لیکن میری برستی آ نکھوں نے یقین کرنے پر مجبور کر دیا۔

            کیا سہانی گھڑی تھی جب بندہ طواف کے چکر میں تھا۔رات کا پچھلا پہر تھا ،وہ سہانا وقت ،جب اللہ کریم آسمان دُنیا پر تشریف لاتے ہیں اور پکارتے ہیں ،‘‘ہے کوئی بندہ جو اپنی بخشش کروا لے۔’’ آج تو ہم ،رات کے اس مبارک لمحے میں ،اس کے گھر میں تھے ،اُس کے مہمان بنے تھے۔ہر طرف اس کی رحمت ہی رحمت تھی۔کعبہ بقعہ نور بنا تھا ۔اس کے سیاہ لباس سے نور کی لاٹیں نکل رہی تھی اور اہل ایمان ،دیوانہ وار اُس کا طواف کر رہے تھے۔ہزاروں دیوانے،عالم مدہوشی میں ،کعبے کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ایمان و یقین کے اس مرکز کے گرد گھومنے والے ہزاروں ذروں میں سے ایک ذرہ ،یہ بندہ ناچیز بھی تھا۔یہ وہ قیمتی لمحہ تھا جس کا ہم نے مدتوں انتظار کیا تھا۔

یہی وہ سعید گھڑی تھی جس کی مدتوں ہم نے خواہش کی تھی،جس کے لیے ہم نے دعائیں کیں تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جو ہماری آرزوں کا حاصل تھا،یہ لمحہ نوید تھا،..یہ لمحہ بخت آ ور تھا،.خوشخبریوں کا لمحہ،.سرشاری اور لذتوں کا لمحہ.

            کعبے کا طواف جاری تھا....ہماری آنکھوں سے سیل ندامت بھی جاری تھا۔ہر طرف آہیں .سسکیاں.،موتیوں ایسے آنسو،چار سو.چیخیں،.آہ و فغاں.....قافلہ طواف رواں دواں،یااللہ یا اللہ کی صدائیں،یا مالک....یا رحمان و یارحیم.دعائیں ہی دعائیں،ہر بندہ دعا میں ،ہر لب التجا میں اور ہر دِل اپنے رب کے تقویٰ میں۔میں جو اپنے آپ کو مضبوط دِل والا خیال کرتا تھااور یہ سمجھتا تھا کہ آنسووں نے میری آنکھوں کا راستہ دیکھا ہی نہیں،حادثے پہ حادثے گزر جاتے لیکن میری آنکھیں نم نہ ہوتیں....لیکن ....آج جب میں طواف میں تھا ،نہ جانے کہاں سے چشمہ پھوٹا اور نہ جانے کہاں سے اشک ندامت رواں ہوئے۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ میں کہاں تھا اور کیوں رو رہا تھا۔اپنے گناہوں کی وہ پوٹلی ،جو میں گھر سے باندھ لایا تھا،اس کو کھولنے کا وقت آ گیا تھا اور جب وہ پوٹلی کھلی تو میری چیخیں نکل گئیں ۔ایک ایک گناہ میرے سامنے تھا ...ایک ایک خطا میرے آ گے تھی۔ایک ایک پرچہ باہر آ رہاتھا اور ان پر لکھے فرشتوں کے ریمارکس سامنے آ رہے تھے۔سب سے بڑا ناز اپنی نمازوں پر تھا،اُس کے تو کئی سوال attemptہی نہیں ہوئے ،حیران تھا،یہ کیسے ہوا اور جو نمازیں ادا کیں تھیں اُن کے گرد بھی فرشتوں نے جگہ جگہ سرخ دائرے لگا رکھے تھے،..ہیں یہ کیا...یہ غلطیاں کہاں سے نکلیں.،کہیں قرآت کی غلطیاں تھیں اور کہیں نیت کا فتور سامنے تھا۔کہیں سجدے اللہ کے ذکر سے خالی تھے اور کہیں قیام میں دُنیاوی سوچیں غالب تھیں۔...... یا اللہ ...یہ کیا ماجرا ہے؟جواب آیا ‘‘ تو نے جو کیا تھا وہ تمھارے سامنے ہے۔میرے فرشتے مارکنگ میں غلطی نہیں کرتے۔’’ یا اللہ تلافی کی کوئی صورت ؟ابھی اپنی کارکردگی دیکھو۔یہ روزوں کا پرچہ دیکھو.، .وہ تمھارا حقوق العباد کا پر چہ ہے.....ادھر نظر کرو،یہ پرچہ دیکھو ....میں جب مریض بن کر تیرے پاس آ یا تھا تو تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیاتھا،....میرے مالک! آپ مالک الملک ،آپ کیسے مریض ہو سکتے ہیں،فرمایا‘‘ہم نے اپنے بیمار بندوں کو تمھارے پاس بھیجا تھا،وہ میرے بندے تھے،وہ دُکھی تھے،تو نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔’’اس پر میں کیا کہتا یا کیا کرتا۔میں تو بس یہی کہہ سکایا اللہ ! میں شرمندہ ہوں ،اپنے کیئے پر شرمندہ ہوں.....اور میری چیخیں نکل گئیں...مالک !میں آپ کا مہمان ہوں...مجھے معاف کر دیں.....معاف کر دیں.....معاف کر دیں۔ .اور طواف کے پھیرے ختم ہو گئے۔صرف سات ہی تو چکر تھے جلد ختم ہو گئے۔ابھی تومیں اپنے رب کے ساتھ سر گوشیاں کر رہا تھا کہ یہ پھیرے ختم ہو گئے۔روتا چلاتا ، آنسو بہاتا باہر آ گیا ،پتا نہیں معافی ملی بھی ہے کہ نہیں !! ( جاری ہے )